طرز حکمرانی چند وضاحتیں
پاکستانیوں کی اکثریت ریاست، سیاست اور آئین کی اہمیت اور افادیت سے نابلد ہے.
پاکستان کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ حکمرانی کے حوالے سے ایک کنفیوژڈ ملک ہے، تو غلط نہ ہو گا۔
پاکستانیوں کی اکثریت ریاست، سیاست اور آئین کی اہمیت اور افادیت سے نابلد ہے۔ 65 برس گزر جانے کے باوجود حکمرانی کے حوالے سے مختلف نوعیت کے ابہام لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں۔ حالانکہ 1973ء کے متفقہ آئین میں ریاست کے نظم حکمرانی اور طرز حکمرانی کا مسئلہ طے کیا جا چکا ہے کہ ملک میں نظم حکمرانی پارلیمانی اور طرز حکمرانی وفاقی ہو گا۔ لیکن اس کے باوجود بعض حلقے آج بھی ان طے شدہ امور کو غیر ضروری طور پر اٹھا کر مسائل کو الجھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
مثال کے طور پر جن مذہبی جماعتوں نے 1973ء کے آئین پر دستخط کر کے جمہوریت اور وفاقیت کو نظم اور طرز ِحکمرانی کے طور پر قبول کیا تھا، وہ ان عناصر کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں جو آئین کی بالادستی اور جمہوریت کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ مذہبی جماعتیں ہر آمرانہ دور میں آئین کا حلیہ تبدیل کرنے کے غیر آئینی اور غیر جمہوری عمل کا حصہ بنتی رہی ہیں۔
یہی کردار و حال قوم پرست جماعتوں کا ہے، جو وفاقیت کے نام پر صوبائی خود مختاری کے لیے تو آواز اٹھاتی رہی ہیں مگر جب اقتدار و اختیار کی مزید نچلے یونٹوں تک منتقلی کا معاملہ آتا ہے تو اس کی مخالفت میں صف آرا ہو کر صوبائی سطح پر اختیارات کی مرکزیت قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یا تو وفاقیت کا تصور ان کے ذہنوں میں واضح نہیں ہے یا پھر وہ صوبے کی سطح پر اختیارات کے ارتکاز کی خواہشمند ہیں۔ ان رویوں سے دو باتیں سامنے آتی ہیں۔
اول یہ کہ حکمران اشرافیہ سے اسٹیبلشمنٹ تک اور سیاسی جماعتوں سے سماجی دانشوروں تک کوئی بھی حلقہ جمہوریت، وفاقیت اور اقتدار و اختیار کے عدم ارتکاز میں سنجیدہ نہیں ہے۔ دوسرے نظم حکمرانی اور طرزِ حکمرانی کے فرق سے عدم واقفیت کی وجہ سے ایسے معاملات اٹھاتے ہیں جس کی وجہ سے مسائل مزید الجھ جاتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے نظم حکمرانی اور طرزِ حکمرانی کے فرق کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بعد دنیا بھر میں مروج طرزِ حکمرانی کے طریقہ کار کا مطالعہ کیا جائے۔ اس کی روشنی میں پاکستان میں نظم حکمرانی اور طرز حکمرانی کا جائزہ لیا جائے۔ نظم حکمرانی سے مراد نظام حکمرانی ہے، یعنی بادشاہتیں، شخصی آمریتیں اور جمہوریتیں وغیرہ۔ لیکن جب طرزِ حکمرانی کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد ریاست کی نوعیت ہوتی ہے، یعنی وحدانی، وفاقی اور کنفیڈرل۔ نظم حکمرانی کی طرح طرز حکمرانی کے بارے میں بھی خاصے ابہام پائے جاتے ہیں۔
نظم حکمرانی پر ان صفحات میں خاصی بحث ہوتی رہی ہے، اس لیے اس اظہاریے میں کوشش ہو گی کہ بحث کو صرف طرزِ حکمرانی تک محدود رکھا جائے تا کہ اس حوالے سے بعض لوگوں کے ذہنوں میں موجود ابہام کو دور کیا جا سکے۔
سب سے پہلے وحدانی حکومت: وحدانی حکومت وہ ہوتی ہے، جس میں تمام سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات مرکزی حکومت کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ ایسی حکومت انتظامی امور کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے کچھ انتظامی اور مالیاتی اختیارات نچلی سطح پر منتقل یا تفویض (Delegate) کرتی ہے۔ جو مرکزی مقتدراعلیٰ کے ماتحت یا ذیلی انتظامی ڈھانچے کے طور پر خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ عام طور پر بادشاہتیں اور شخصی آمریتیں وحدانی طرز حکمرانی کو ترجیح دیتی ہیں، کیونکہ اس طرح اقتدار و اختیار پر مقتدر اعلیٰ کا کلی اختیار قائم رہتا ہے۔
لیکن بعض جمہوریتوں میں بھی یہ طرز حکمرانی رائج ہے، جس کی سب سے نمایاں مثال فرانس ہے۔ دوسری عالمی جنگ تک برطانیہ بھی وحدانی ریاست تھا، لیکن جنگ کے بعد اس کے آئین میں ترامیم ہونا شروع ہوئیں اور آہستہ آہستہ اس کا وحدانی ریاستی ڈھانچہ مضمحل ہونے لگا۔ گو برطانیہ آج بھی مکمل وفاق نہیں ہے لیکن مکمل طور پر وحدانی ریاست بھی نہیں رہا ہے۔ آزادی کے بعد بھارت بھی ایک وحدانی ریاست کے طور پر ابھرا تھا۔ جس میں ریاستیں (صوبے) ذیلی انتظامی یونٹ تصور کیے جاتے تھے۔ آج بھی بھارت کی مرکزی حکومت ایک کمیشن کے ذریعے ریاستوں کی حدود میں قطع و برید اور نئی ریاستیں قائم کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
اس طرح بھارت اصولی طور پر ایک وحدانی ریاست ہے لیکن مختلف ادوار میں ہونے والی آئینی ترامیم کے ذریعے ریاستوں کے اختیارات میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے مرکزی حکومت کا وحدانی کردار کم ہوا ہے۔ آج بھارت خود کو ریاستوں کی یونین کہلانا بھی پسند کرتا ہے لیکن طرز حکمرانی کی تعریف کی رو سے ابھی تک یہ وفاقیت کی تعریف پر پورا نہیں اترتا، بلکہ اس کا طرز حکمرانی کم و بیش وحدانی ہی ہے۔
کنفیڈریشن: کنفیڈریشن وحدانی طرز حکمرانی کا متضاد ہوتی ہے۔ یہ طرز حکمرانی چند ممالک یا ریاستیں اپنے مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے از خود قائم کرتی ہیں۔ کنفیڈرل طرز حکمرانی میں ہر ریاست کی اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رہتی ہے اور اس کا اپنا انتظامی ڈھانچہ، کرنسی اور فوج ہوتی ہے۔ لیکن باہمی اتفاق سے کنفیڈریشن میں شامل ریاستیں اپنی خارجہ پالیسی، دفاعی امور اور تجارتی مفادات کو مشترک بنا لیتے ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی پہلی حکومت کنفیڈریشن کی سب سے پہلی مثال ہے، جو Articles of Confederation کے تحت وجود میں آئی تھی۔
موجودہ دنیا میں متحدہ عرب امارات اور یورپی یونین اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ بعض سیاسی ماہرین ملائیشیا کو بھی 13 ریاستوں کی کنفیڈریشن قرار دیتے ہیں۔ جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کے ساتھ ہر ریاست کا بادشاہ ایک مخصوص مدت کے لیے ملائیشیا کا آئینی سربراہ مقرر ہوتا ہے۔ چونکہ ملائیشیا کے آئین میں اسے وفاقی ریاست قرار دیا گیا ہے، اس لیے وفاقیت کی تعریف پر پورا نہ اترنے کے باوجود ماہرین سیاسیات اسے فیڈریشن تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔
وفاق یا فیڈریشن: وفاقیت وحدانی اور کنفیڈرل طرز حکمرانی کی درمیانی شکل ہے۔ یہ جدید طرز حکمرانی کی پیداوار اور جمہوریت سے مشروط ہے۔ وفاقی طرز حکمرانی میں نچلے یونٹوں کو آئینی طور پر سیاسی، انتظامی اور مالیاتی با اختیاریت حاصل ہوتی ہے۔ آئین میں وفاقی حکومت اور وفاقی اکائیوں کے درمیان اقتدار و اختیار کی شراکت اور تقسیم کے طریقہ کار کا واضح تعین ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر وفاقی اکائی اپنے جو اختیارات مزید نچلی سطح پر منتقل کرتی ہے، ان کا تعین آئین یا صوبائی قانون سازی کے ذریعے ہوتا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا، جس کی ابتدا ایک کنفیڈریشن کے طور پر ہوئی تھی، 17 ستمبر 1787ء کو منظور ہونے والے آئین کی رو سے ایک فیڈریشن بن گیا۔ USA سوا دو سو برس سے ایک مثالی فیڈریشن ہے، جس میں وفاقی حکومت کا دائرہ اختیار خارجہ امور، قومی سلامتی، بین الاقوامی اور ریاستوں کے مابین تجارت تک محدود ہے۔
ان کے علاوہ دیگر تمام شعبہ جات ریاستوں کے صوابدیدی اختیارات ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی تمام ریاستیں فیڈریشن کے اصول کے مطابق سیاسی، انتظامی اور مالیاتی طور پر با اختیار ہیں۔ واشنگٹن میں موجود وفاقی حکومت کسی ریاست کی تشکیل یا تنظیم نو یا اس کی جغرافیائی حدود کو تبدیل کرنے کی مجاز نہیں، تا آنکہ اس ریاست کی اپنی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے یہ تبدیلی لانے پر رضامند نہ ہو۔ کینیڈا بھی ریاست ہائے متحدہ امریکا کی طرح ایک وفاق ہے۔ مگر دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ امریکی آئین میں وفاقی حکومت کے اختیارات کا تعین کرنے کے بعد بقیہ شعبہ جات ریاستوں کو Devolve کیے گئے ہیں۔ اس کے برعکس کینیڈا کے آئین میں ریاستوں کے اختیارات کا تعین کرنے کے بعد وفاقی شعبہ جات طے کیے گئے ہیں۔
وفاقی طرز حکمرانی اختیارات کی عدم مرکزیت (Decentralisation) کے حوالے سے Devolution of Power کے زمرے میں آتا ہے۔ کیونکہ ہر وفاقی یونٹ مکمل سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات کا حامل ہوتا ہے۔ اس کی اپنی پارلیمنٹ ہوتی ہے، انتظامی ڈھانچہ اور مالیاتی ذرائع ہوتے ہیں۔ وفاقی حکومت ان شعبہ جات میں مداخلت کی مجاز نہیں ہوتی، جو وفاقی اکائیوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ اختیار ات کی مزید نچلی سطح پر منتقلی (Devolution) کا تصور بھی ریاست ہائے متحدہ امریکا نے متعارف کرایا، جو بعد میں دنیا کے دیگر ممالک میں مختلف انداز میں رائج ہوا۔
پاکستان کے متفقہ آئین کی رو سے نظم حکمرانی پارلیمانی اور طرز حکمرانی وفاقی ہے۔ اس لیے پاکستان میں کسی دوسرے نظام یا طرز حکمرانی کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کچھ سیاسی قوتیں اسے موزوں نظام نہیں سمجھتیں، تو آئینی تقاضوں کے مطابق مقبول ووٹ کے ذریعے اتنی اکثریت لائیں کہ اس نظام کو تبدیل کر سکیں۔ لیکن بندوق کی نال پر زبردستی طے شدہ آئینی امور کو تبدیل کرنے کی کسی گروہ، جماعت یا ادارے کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس کے علاوہ ایک وفاقی انتظامی ڈھانچے میں اختیارات کی مزید نچلی سطح تک منتقلی فطری عمل ہے۔
لہٰذا جو سیاسی قوتیں اختیارات کی مزید نچلی سطح تک منتقلی کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہیں، وہ دراصل صوبائی سطح پر انتظامی ڈھانچے کی مرکزیت قائم کرنے یا وحدانی طرز حکمرانی مسلط کرنے کی خواہشمند ہیں۔ یہ رویہ جمہوریت اور وفاقیت دونوں کے منافی ہے۔ چنانچہ وہ تمام سیاسی جماعتیں جو جمہوریت پر یقین رکھتی ہیں، ان سے اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کی مخالفت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ حمایت کر کے اپنے جمہوری ہونے کا ثبوت دیں۔
پاکستانیوں کی اکثریت ریاست، سیاست اور آئین کی اہمیت اور افادیت سے نابلد ہے۔ 65 برس گزر جانے کے باوجود حکمرانی کے حوالے سے مختلف نوعیت کے ابہام لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں۔ حالانکہ 1973ء کے متفقہ آئین میں ریاست کے نظم حکمرانی اور طرز حکمرانی کا مسئلہ طے کیا جا چکا ہے کہ ملک میں نظم حکمرانی پارلیمانی اور طرز حکمرانی وفاقی ہو گا۔ لیکن اس کے باوجود بعض حلقے آج بھی ان طے شدہ امور کو غیر ضروری طور پر اٹھا کر مسائل کو الجھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
مثال کے طور پر جن مذہبی جماعتوں نے 1973ء کے آئین پر دستخط کر کے جمہوریت اور وفاقیت کو نظم اور طرز ِحکمرانی کے طور پر قبول کیا تھا، وہ ان عناصر کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں جو آئین کی بالادستی اور جمہوریت کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ مذہبی جماعتیں ہر آمرانہ دور میں آئین کا حلیہ تبدیل کرنے کے غیر آئینی اور غیر جمہوری عمل کا حصہ بنتی رہی ہیں۔
یہی کردار و حال قوم پرست جماعتوں کا ہے، جو وفاقیت کے نام پر صوبائی خود مختاری کے لیے تو آواز اٹھاتی رہی ہیں مگر جب اقتدار و اختیار کی مزید نچلے یونٹوں تک منتقلی کا معاملہ آتا ہے تو اس کی مخالفت میں صف آرا ہو کر صوبائی سطح پر اختیارات کی مرکزیت قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یا تو وفاقیت کا تصور ان کے ذہنوں میں واضح نہیں ہے یا پھر وہ صوبے کی سطح پر اختیارات کے ارتکاز کی خواہشمند ہیں۔ ان رویوں سے دو باتیں سامنے آتی ہیں۔
اول یہ کہ حکمران اشرافیہ سے اسٹیبلشمنٹ تک اور سیاسی جماعتوں سے سماجی دانشوروں تک کوئی بھی حلقہ جمہوریت، وفاقیت اور اقتدار و اختیار کے عدم ارتکاز میں سنجیدہ نہیں ہے۔ دوسرے نظم حکمرانی اور طرزِ حکمرانی کے فرق سے عدم واقفیت کی وجہ سے ایسے معاملات اٹھاتے ہیں جس کی وجہ سے مسائل مزید الجھ جاتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے نظم حکمرانی اور طرزِ حکمرانی کے فرق کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بعد دنیا بھر میں مروج طرزِ حکمرانی کے طریقہ کار کا مطالعہ کیا جائے۔ اس کی روشنی میں پاکستان میں نظم حکمرانی اور طرز حکمرانی کا جائزہ لیا جائے۔ نظم حکمرانی سے مراد نظام حکمرانی ہے، یعنی بادشاہتیں، شخصی آمریتیں اور جمہوریتیں وغیرہ۔ لیکن جب طرزِ حکمرانی کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد ریاست کی نوعیت ہوتی ہے، یعنی وحدانی، وفاقی اور کنفیڈرل۔ نظم حکمرانی کی طرح طرز حکمرانی کے بارے میں بھی خاصے ابہام پائے جاتے ہیں۔
نظم حکمرانی پر ان صفحات میں خاصی بحث ہوتی رہی ہے، اس لیے اس اظہاریے میں کوشش ہو گی کہ بحث کو صرف طرزِ حکمرانی تک محدود رکھا جائے تا کہ اس حوالے سے بعض لوگوں کے ذہنوں میں موجود ابہام کو دور کیا جا سکے۔
سب سے پہلے وحدانی حکومت: وحدانی حکومت وہ ہوتی ہے، جس میں تمام سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات مرکزی حکومت کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ ایسی حکومت انتظامی امور کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے کچھ انتظامی اور مالیاتی اختیارات نچلی سطح پر منتقل یا تفویض (Delegate) کرتی ہے۔ جو مرکزی مقتدراعلیٰ کے ماتحت یا ذیلی انتظامی ڈھانچے کے طور پر خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ عام طور پر بادشاہتیں اور شخصی آمریتیں وحدانی طرز حکمرانی کو ترجیح دیتی ہیں، کیونکہ اس طرح اقتدار و اختیار پر مقتدر اعلیٰ کا کلی اختیار قائم رہتا ہے۔
لیکن بعض جمہوریتوں میں بھی یہ طرز حکمرانی رائج ہے، جس کی سب سے نمایاں مثال فرانس ہے۔ دوسری عالمی جنگ تک برطانیہ بھی وحدانی ریاست تھا، لیکن جنگ کے بعد اس کے آئین میں ترامیم ہونا شروع ہوئیں اور آہستہ آہستہ اس کا وحدانی ریاستی ڈھانچہ مضمحل ہونے لگا۔ گو برطانیہ آج بھی مکمل وفاق نہیں ہے لیکن مکمل طور پر وحدانی ریاست بھی نہیں رہا ہے۔ آزادی کے بعد بھارت بھی ایک وحدانی ریاست کے طور پر ابھرا تھا۔ جس میں ریاستیں (صوبے) ذیلی انتظامی یونٹ تصور کیے جاتے تھے۔ آج بھی بھارت کی مرکزی حکومت ایک کمیشن کے ذریعے ریاستوں کی حدود میں قطع و برید اور نئی ریاستیں قائم کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
اس طرح بھارت اصولی طور پر ایک وحدانی ریاست ہے لیکن مختلف ادوار میں ہونے والی آئینی ترامیم کے ذریعے ریاستوں کے اختیارات میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے مرکزی حکومت کا وحدانی کردار کم ہوا ہے۔ آج بھارت خود کو ریاستوں کی یونین کہلانا بھی پسند کرتا ہے لیکن طرز حکمرانی کی تعریف کی رو سے ابھی تک یہ وفاقیت کی تعریف پر پورا نہیں اترتا، بلکہ اس کا طرز حکمرانی کم و بیش وحدانی ہی ہے۔
کنفیڈریشن: کنفیڈریشن وحدانی طرز حکمرانی کا متضاد ہوتی ہے۔ یہ طرز حکمرانی چند ممالک یا ریاستیں اپنے مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے از خود قائم کرتی ہیں۔ کنفیڈرل طرز حکمرانی میں ہر ریاست کی اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رہتی ہے اور اس کا اپنا انتظامی ڈھانچہ، کرنسی اور فوج ہوتی ہے۔ لیکن باہمی اتفاق سے کنفیڈریشن میں شامل ریاستیں اپنی خارجہ پالیسی، دفاعی امور اور تجارتی مفادات کو مشترک بنا لیتے ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی پہلی حکومت کنفیڈریشن کی سب سے پہلی مثال ہے، جو Articles of Confederation کے تحت وجود میں آئی تھی۔
موجودہ دنیا میں متحدہ عرب امارات اور یورپی یونین اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ بعض سیاسی ماہرین ملائیشیا کو بھی 13 ریاستوں کی کنفیڈریشن قرار دیتے ہیں۔ جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کے ساتھ ہر ریاست کا بادشاہ ایک مخصوص مدت کے لیے ملائیشیا کا آئینی سربراہ مقرر ہوتا ہے۔ چونکہ ملائیشیا کے آئین میں اسے وفاقی ریاست قرار دیا گیا ہے، اس لیے وفاقیت کی تعریف پر پورا نہ اترنے کے باوجود ماہرین سیاسیات اسے فیڈریشن تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔
وفاق یا فیڈریشن: وفاقیت وحدانی اور کنفیڈرل طرز حکمرانی کی درمیانی شکل ہے۔ یہ جدید طرز حکمرانی کی پیداوار اور جمہوریت سے مشروط ہے۔ وفاقی طرز حکمرانی میں نچلے یونٹوں کو آئینی طور پر سیاسی، انتظامی اور مالیاتی با اختیاریت حاصل ہوتی ہے۔ آئین میں وفاقی حکومت اور وفاقی اکائیوں کے درمیان اقتدار و اختیار کی شراکت اور تقسیم کے طریقہ کار کا واضح تعین ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر وفاقی اکائی اپنے جو اختیارات مزید نچلی سطح پر منتقل کرتی ہے، ان کا تعین آئین یا صوبائی قانون سازی کے ذریعے ہوتا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا، جس کی ابتدا ایک کنفیڈریشن کے طور پر ہوئی تھی، 17 ستمبر 1787ء کو منظور ہونے والے آئین کی رو سے ایک فیڈریشن بن گیا۔ USA سوا دو سو برس سے ایک مثالی فیڈریشن ہے، جس میں وفاقی حکومت کا دائرہ اختیار خارجہ امور، قومی سلامتی، بین الاقوامی اور ریاستوں کے مابین تجارت تک محدود ہے۔
ان کے علاوہ دیگر تمام شعبہ جات ریاستوں کے صوابدیدی اختیارات ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی تمام ریاستیں فیڈریشن کے اصول کے مطابق سیاسی، انتظامی اور مالیاتی طور پر با اختیار ہیں۔ واشنگٹن میں موجود وفاقی حکومت کسی ریاست کی تشکیل یا تنظیم نو یا اس کی جغرافیائی حدود کو تبدیل کرنے کی مجاز نہیں، تا آنکہ اس ریاست کی اپنی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے یہ تبدیلی لانے پر رضامند نہ ہو۔ کینیڈا بھی ریاست ہائے متحدہ امریکا کی طرح ایک وفاق ہے۔ مگر دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ امریکی آئین میں وفاقی حکومت کے اختیارات کا تعین کرنے کے بعد بقیہ شعبہ جات ریاستوں کو Devolve کیے گئے ہیں۔ اس کے برعکس کینیڈا کے آئین میں ریاستوں کے اختیارات کا تعین کرنے کے بعد وفاقی شعبہ جات طے کیے گئے ہیں۔
وفاقی طرز حکمرانی اختیارات کی عدم مرکزیت (Decentralisation) کے حوالے سے Devolution of Power کے زمرے میں آتا ہے۔ کیونکہ ہر وفاقی یونٹ مکمل سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات کا حامل ہوتا ہے۔ اس کی اپنی پارلیمنٹ ہوتی ہے، انتظامی ڈھانچہ اور مالیاتی ذرائع ہوتے ہیں۔ وفاقی حکومت ان شعبہ جات میں مداخلت کی مجاز نہیں ہوتی، جو وفاقی اکائیوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ اختیار ات کی مزید نچلی سطح پر منتقلی (Devolution) کا تصور بھی ریاست ہائے متحدہ امریکا نے متعارف کرایا، جو بعد میں دنیا کے دیگر ممالک میں مختلف انداز میں رائج ہوا۔
پاکستان کے متفقہ آئین کی رو سے نظم حکمرانی پارلیمانی اور طرز حکمرانی وفاقی ہے۔ اس لیے پاکستان میں کسی دوسرے نظام یا طرز حکمرانی کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کچھ سیاسی قوتیں اسے موزوں نظام نہیں سمجھتیں، تو آئینی تقاضوں کے مطابق مقبول ووٹ کے ذریعے اتنی اکثریت لائیں کہ اس نظام کو تبدیل کر سکیں۔ لیکن بندوق کی نال پر زبردستی طے شدہ آئینی امور کو تبدیل کرنے کی کسی گروہ، جماعت یا ادارے کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس کے علاوہ ایک وفاقی انتظامی ڈھانچے میں اختیارات کی مزید نچلی سطح تک منتقلی فطری عمل ہے۔
لہٰذا جو سیاسی قوتیں اختیارات کی مزید نچلی سطح تک منتقلی کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہیں، وہ دراصل صوبائی سطح پر انتظامی ڈھانچے کی مرکزیت قائم کرنے یا وحدانی طرز حکمرانی مسلط کرنے کی خواہشمند ہیں۔ یہ رویہ جمہوریت اور وفاقیت دونوں کے منافی ہے۔ چنانچہ وہ تمام سیاسی جماعتیں جو جمہوریت پر یقین رکھتی ہیں، ان سے اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کی مخالفت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ حمایت کر کے اپنے جمہوری ہونے کا ثبوت دیں۔