قانون اور انصاف کو اور آگے آنا ہو گا

عدلیہ کی آزادی کا تاثر غلط نہیں لیکن بدقسمتی سے عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو ابھی تک ختم نہیں کیا جاسکا۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

2007ء میں زبردست جدوجہد کے بعد ہماری اعلیٰ عدلیہ آزاد ہوئی ہے حالانکہ پچھلے ساٹھ برس تک ایسا نہیں تھا۔

عدلیہ کی آزادی کا تاثر غلط نہیں لیکن بدقسمتی سے عوام کے ساتھ ہونے والی اجتماعی نا انصافیوں کو ابھی تک ختم نہیں کیا جاسکا۔ اب تو چند افراد اور اداروں کی بدعنوانیوں کے معاملات ہی زیر سماعت چلے آرہے ہیں، جن سے عوامی مسائل، عوامی مفادات کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ کرپشن بلاشبہ ہمارے معاشرے کو گُھن کی طرح کھا رہی ہے اور اس کو ختم کرنا بے حد ضروری بھی ہے لیکن کرپشن کو ایک یا چند اداروں کے خلاف کارروائی کر کے روکا نہیں جا سکتا بلکہ کرپشن کے خاتمے کے لیے اس پوری کلاس کے خلاف سخت کارروائی کرنا پڑے گی جو 65 سال سے قومی دولت کو اپنے باپ کی جاگیر یا ورثے کی طرح لوٹ رہی ہے۔

اپنی آزادی کے بعد ہماری اعلیٰ عدلیہ نے دو فیصلے ایسے کیے ہیں جن کا تعلق عوام کے اجتماعی مفادات سے ہے۔ ایک فیصلہ بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے کیا گیا ہے کہ KESC اب فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر صارفین سے جو بھاری رقوم وصول کر رہی ہے اب اس مد میں کوئی چارجز وصول نہیں کیے جائیں گے اور اگرچہ KESC کی صحت پر اس فیصلے سے کوئی مُضر اثر نہیں پڑے گا، لیکن اسے ہم ایک اچھی ابتدا کہہ سکتے ہیں۔ دوسرا انتہائی جرأت مندانہ فیصلہ ہماری محترم عدلیہ نے سی این جی کی قیمتوں میں 30 روپے فی کلو کمی کا کیا ہے۔

اس فیصلے کی خوبی یہ ہے کہ یہ محض سنائے نہیں گئے بلکہ اس پر فوری عملدرآمد کروایا گیا۔ ہمارے کالم کے قارئین میں ایک بڑے بزنس مین ذیشان احمد بھی ہیں جو اپنے وقت کا بڑا حصہ مختلف ملکوں کے دوروں میں گزارتے ہیں۔ پچھلے دنوں انھوں نے امریکا کے ایک شہر میامی سے ہمیں ٹیلی فون پر یہ دلچسپ بات بتائی کہ انھیں امریکا میں ہر طرف اسلام تو نظر آیا ''مسلمان'' نظرنہیں آئے، بنگلہ دیش سے فون پر بتایا کہ وہاں سی این جی 17-18 روپے کلو فروخت ہو رہی ہے۔


ہمارے ملک میں اس قسم کی بدعنوانیاں اور لوٹ مار دھڑلے سے جاری ہے۔ توانائی کی ضرورت پوری کرنے کا دوسرا بڑا ذریعہ پٹرول ہے، اس کھاتے میں بھی استحصال ہورہا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ پٹرول کی اصل قیمت بھی 20-25 روپے فی لیٹر کے لگ بھگ ہے، باقی 70-80 روپے فی لیٹر صارفین سے مختلف ٹیکسوں کی شکل میں وصول کیے جا رہے ہیں اور پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اس اضافے سے عوام بلاواسطہ اور بالواسطہ متاثر ہو رہے ہیں۔ سی این جی کی قیمتوں میں اس نمایاں کمی کا فائدہ غریب عوام کو کرایوں میں کم از کم 50 فیصد کمی کی شکل میں ملنا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ، بہرحال جو کچھ ہوا ، اسے بھی سراہا جانا چاہیے۔

ان دو مثبت فیصلوں کے بعد اب ہماری آزاد عدلیہ کو اور آگے آنا چاہیے۔ عوام ایک عرصے سے بے لگام مہنگائی کی آگ میں جل رہے ہیں۔ عوام کی ضرورت کی چیزوں میں آٹا، چاول، چینی، تیل، گھی، سبزی، گوشت، دودھ سر فہرست ہیں۔ ان ساری اشیا کی قیمتوں میں جو اندھا دھند اضافہ کیا جاتا ہے اس کا سرے سے کوئی جواز ہی نہیں ہوتا بلکہ انتہائی شاطرانہ انداز میں زمینی اور صنعتی بدمعاشیہ کو اربوں کا فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ چاول، گندم، گنا، کپاس، دالیں وغیرہ وہ زرعی پیداوار ہے جس پر وڈیروں، جاگیرداروں کی مکمل اجارہ داری ہے، ہماری بیوروکریسی انتہائی عیارانہ طریقوں سے کسانوں کو فائدہ پہنچانے کے نام پر وڈیروں، جاگیرداروں کو ہر سال ان اشیا کی قیمتیں بڑھا کر اربوں روپوں کا فائدہ پہنچا رہی ہے، جب کہ زرعی شعبہ اور اس کی 80 فیصد پیداوار، وڈیرے اور بڑے زمین دار کی زمینوں سے حاصل ہوتی ہے۔

دوسرے ملکوں میں اگر کوئی مینوفیکچر یا پیدا کنندہ اپنے پروڈکٹ اور اشیا کی قیمتوں میں دو پنس کا اضافہ بھی کرنا چاہتا ہے تو اسے پرائس کنٹرول کمیشن کو پوری طرح مطمئن کرنا پڑتا ہے اور یہ پرائس کنٹرول کرنے والے اداروں پر ایسے ایمان دار لوگوں کا کنٹرول ہوتا ہے جو کسی قیمت پر ناجائز اضافوں کی اجازت نہیں دیتے اس کے برخلاف ہمارے یہاں پرائس کنٹرول کے ادارے سمیت ہر وزارت میں ہر فیصلہ بھاری رشوت لے کر عوام کے خلاف کیا جاتا ہے۔ اس رجحان، اس بددیانتی کو انتہائی سخت تادیبی اقدامات کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔ آج بھی کئی ملکوں میں اس قسم کی بدعنوانیوں کو روکنے کے لیے سخت ترین سزاؤں کا نظام موجود ہے جن میں سزائے موت تک شامل ہے۔

ہمارے ملک میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں من مانے اضافوں کا اختیار افراد سے لے کر اداروں کو اس قدر آزادانہ حاصل ہے کہ صبح 8 روپے میں فروخت ہونے والا انڈا شام میں دس روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ صبح 160 روپے کلو فروخت ہونے والا مرغی کا گوشت شام میں 200-220 روپے فروخت ہوتا ہے جس کا سوائے ناجائز منافع خوری کے کوئی جواز نہیں ہوتا۔ قصائیوں میں مقابلہ ہوتا ہے تو بڑا گوشت 220 روپے کلو آواز لگا لگا کر بیچا جاتا ہے پھر بھی قصائی نقصان میں نہیں رہتا جب مقابلہ بازی ختم ہوجاتی ہے تو یہی گوشت 400 روپے کلو تک پہنچ جاتا ہے۔ آٹے کی قیمت میں بلاجواز فی دس کلو بوری 50 روپے تک اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ چاول، دال، تیل، گھی، سبزیوں، دواؤں، پھلوں کی قیمتوں میں اضافے کا سرے سے کوئی جواز ہوتا ہے نہ پرائس کمیشن کے مردہ جسم میں کوئی حرکت ہوتی ہے۔

ہماری نو آزاد عدلیہ ان حوالوں سے جو کچھ کر رہی ہے اسے دیکھ کر بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ جو کچھ کیا جا رہا ہے اس کی راہ میں بھی بے شمار رکاوٹیں آ رہی ہیں۔ کرپشن اور ناجائزمنافع خوری کے خلاف بلا خوف، بلا تحفظات اقدامات جاری رہنے چاہئیں۔
Load Next Story