نہ جدائی نہ دوسرا درجہ

مزاح وہ قومیں کیا کرتی ہیں جو آزاد ہوں, جمہوری ہوں اور جن میں برداشت ہو .


Muhammad Ibrahim Azmi Advocate November 04, 2012
[email protected]

بقرعید کے موقع پر گائے، بکروں اور دنبوں کی بہار ہوتی ہے۔

ہر طرف جانوروں کا چارہ، منڈیوں میں گاہک و دکاندار تو سڑکوں و گلیوں میں سوزوکیاں اور ٹرک۔ ایسے میں ایک دکان کے مالک کی روانگی جانوروں کی منڈی کی جانب ہوئی۔ وہ اپنے اور دیگر بھائی بہنوں کے لیے کئی گائے و بکرے لائے تھے۔ ان کی دکان کے ملازم بظاہر اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ وہ جانتے تھے کہ لاکھوں روپوں کی خریداری ہوئی ہے۔ دو گائے یہاں جائیں گی تو چار بکرے اس سوزوکی میں وہاں وہاں جائیں گے۔ سیٹھ صاحب نے صادق اور ماجد کو بھی عیدی دی ۔ دونوں کے لیے ہزار ہزار روپے کے دو نوٹ تھے۔ عیدی فی کس دو ہزار روپے۔ صادق تو سیدھا سادھا تھا اس نے بغیر کسی تاثر کے عیدی اپنی جیب میں رکھ لی۔

ماجد کچھ شرارتی تھا اس کے چٹکلے صاحب و ملازمین کے لیے زبردست ہوتے تھے۔ وہ سیاست دانوں پر بھی خوب صورت تبصرے کرتا تھا۔ ماجد نے ہزار ہزار کے وہ نوٹ ہاتھ میں تھام کر صادق کی طرف دیکھا اور بولا ''چل صادقے ہم بھی گائے بکرا لے آئیں'' یہ طنزتھا ایسا طنز کہ بس لوگ سن سکتے تھے شرمندہ ہوسکتے تھے لیکن کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔

طنز کون کرتا ہے؟ وہ جو غلام ہو ، نوکر ہو، دبا ہوا ہو۔ جو کُھل کر کچھ کہے تو پکڑا جائے۔ وہ اشاروں، کنایوں میں بات کر جاتا ہے کہ وہ چپ نہیں رہ سکتا۔ مزاح وہ قومیں کیا کرتی ہیں جو آزاد ہوں جمہوری ہوں اور جن میں برداشت ہو۔ ہم پاکستانیوں میں برداشت ہے؟ ہم تو تاریخ میں اس مقام پر آگئے ہیں کہ طنز بھی نہیں کر سکتے، اشاروں کنایوں میں بھی کسی کو کچھ نہیں کہہ سکتے۔

تاجر بھتے کا رونا روتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے کھلم کھلا رقم مانگی جاتی ہے۔ کراچی کا تاجر و صنعت کار بھتہ نہ دے تو وہ کاروبار نہیں کر سکتا ، قتل ہوجاتا ہے۔ کوئی کُھل کر کچھ نہیں کہتا۔ کوئی کسی کا نام نہیں لیتا۔ سب جانتے ہیں کہ کون کون سی پارٹیاں بھتہ لیتی ہیں۔ پارٹیاں تو سیاسی ہیں۔ وہ منظم ہیں، وہ مسلح ہیں۔ اگر کوئی انھیں کچھ نہیں کہہ سکتا تو اس لیے کہ کوئی اس کو جان کی امان دینے کو بھی تیار نہیں۔ لوگ بادشاہوں کے دور میں آزادی سے بولتے تھے۔

زیادہ سے زیادہ بادشاہ کے منہ پر سخت بات کہنے سے پہلے جان کی امان طلب کرتے تھے۔ یوں بات بھی ہوجاتی تھی اور جان بھی بچ جاتی تھی۔ کوئی تاجروں سے بھی کچھ نہیں کہتا۔ ان تحریروں میں کچھ کہا جائے گا تو وہ ناراض ہوجائیں گے۔ نہ جانے ان میں کتنی برداشت ہے ؟ آج نہ طنز و مزاح، نہ کوئی اشارہ نہ کنایہ، کُھل کر پرامن طبقے سے مکالمہ ہے۔

عید و بقرعید پر کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کی چیزیں مہنگی ہوجاتی ہیں۔ دنیا بھر میں ان اشیاء کو سستا کر دیا جاتا ہے کہ غریب آدمی بھی ان کی خریداری کرسکے۔ یہ کام تاجروں کی جانب سے کیا جاتا ہے، عوام کو نچوڑنے کا کام۔ پاکستانی تاجر بھائی سمجھتے ہیں کہ یہ کمانے کا موقع ہے، اگر سال بھر کا نہیں تو کم از کم سات آٹھ مہینے کا خرچہ ان تہواروں سے بھی پورا کرلیا جائے۔ پھر بھی ہمارے کاروباری حضرات امن و سکون نہ ہونے کی دہائی دیتے ہیں۔ جان بوجھ کر چیزوں کی قلت پیدا کر دی جاتی ہے ۔

یوں جھوٹی تیزی مندی کرکے کروڑوں روپے کمائے جاتے ہیں۔ جس طرح ٹیکس میں اربوں ڈالر عوام کی جیب سے ڈاکا مار کر نکلوائے گئے وہ سب ہمارے سامنے ہے۔ چاول، چینی، گھی، تیل کی قیمتوں میں جس طرح کیا گیا وہ صرف دیکھنے، سننے ، پڑھنے کے لائق ہی نہیں بلکہ ردعمل کے لائق تھا۔ اسٹاک ایکسچینج میں جس طرح چھوٹے سرمایہ کاروں کو گھیر کر لوٹا گیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس طرح اگر کہیں بھوک پیدا کی جائے گی تو دوسری طرف خوف تو پیدا ہوگا۔ پھر دیواریں بھی اونچی کروانی پڑیں گی اور سیکیورٹی گارڈ بھی رکھنے پڑیں گے۔

''اُستانی کی کہانی، فوزیہ کی زبانی'' ایک شاہکار ڈرامہ تھا۔ اشفاق احمد نے ایک اسکول ٹیچر اور اس کی نوجوان بیٹی کے جذبات کو اٹھایا تھا۔ دونوں کو ایک بنگلے کے کوارٹر میں رہنے کی جگہ مل جاتی ہے۔ استانی اپنی بیٹی کے لیے زیور، استری، کپڑے اور چھوٹی چھوٹی چیزیں جمع کرتی ہے ۔ انھیں چھپا چھپا کر پیٹی میں رکھتی ہے کہ جہیز کہیں ڈاکو نہ لے جائیں۔ بیٹی بنگلے میں لاکھوں کے جوڑے اور کہیں قیمتی زیورات و فرنیچر اپنی ہم عمر لڑکی کے لیے دیکھتی ہے، وہ ماں سے کہتی ہے کہ کیا ان چیزوں کو پیٹی میں چھپا چھپا کر رکھتی ہے، نہ تیری بیٹی کی کوئی قدر ہے نہ تیری پیٹی کی کوئی قیمت'' اس ڈرامے میں اشفاق احمد نے طبقہ امراء کی فضول خرچیوں کو دکھایا تھا۔ بیس پچیس سال قبل کے حالات سے اب معاشرہ مزید بدل چکا ہے۔ دولت کی بے جا نمائش اور شادیوں پر فضول اخراجات نے معاشرے میں مزید تفریق پیدا کردی ہے۔ ایسے میں اگر ایک فیصد لوگ بھی کہیں کہ ''ہم مانگیں گے نہیں چھینیں گے'' تو معاشرے کو اس مقام پر پہنچ ہی جانا چاہیے جہاں وہ پہنچ گیا ہے ۔ یہ حوصلہ افزائی نہیں آئینہ ہے۔

یاد رکھیے! تاجروں کے حوالے سے آگے کچھ سخت مراحل آرہے ہیں، یہاں ہم اچھے تاجروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، لیکن بات اکثریت کی کررہے ہیں، یہ کالم تاجروں جیسے امن پسند طبقے کو مخاطب کرکے ان کی برداشت کا امتحان لے رہا ہے، ہم ان ہی کے مسئلے پر گفتگو کررہے ہیں، یہ کالم تاجروں کے لیے امن و امان کا طالب ہے کہ تاجر ایسے ہی موسم میں خوش ہوتا ہے۔ پیسہ بھی وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں امن ہوتا ہے۔ تاجر بھائیو! امن کیسے ملتا ہے ؟ انصاف سے! جس معاشرے میں انصاف نہ ہو وہاں امن کی توقع کیسی؟ کسی دور میں مشہور ہدایت کار ریاض شاہد نے فلم ''یہ امن'' بنائی تھی، کشمیر کے موضوع پر اس فلم میں حبیب جالب کا ایک گانا تھا ''ظلم رہے اور امن بھی ہو، کیا ممکن ہے تم ہی کہو'' زکوٰۃ آپ نہ دیں، ٹیکس دینے سے آپ دور، زمیندار گریز کریں، تہواروں کے موقع پر قیمتیں آپ بڑھائیں، مصنوعی قلت بنیادی اشیاء کی آپ پیدا کریں، تقریبات پر دولت کی گندی نمائش کا اہتمام آپ کریں، پھر اس معاشرے سے امن کی اپیل کی جائے، بھتوں کی شکایت کی جائے ، تو ایمان داری سے کہیے کہ اسے کیا نام دیا جائے۔ آج آگ ایک شہر میں ہے لیکن ناانصافی کی آگ کو بجھایا نہ گیا تو اسے پورے ملک میں پھیلنے سے نہیں روکا جاسکتا۔

دہائی دی جاتی ہے، دہائی! سرمایہ دوسرے ممالک میں منتقل ہونے کی۔ بڑے سیاسی لوگوں کی اولاد برطانیہ و کینیڈا منتقل ہوگئی ہے۔ وہاں یہ بچے قانون پر عمل کریں گے۔ پورا ٹیکس دیں گے، تہواروں پر اپنی مصنوعات کی قیمتیں کم کریں گے۔ شادی بیاہ سادگی سے کریں گے، اسکول و کالج میں عام طالب علموں کے ساتھ پڑھیں گے۔ یہی کام ہمارے ملک میں کر لیتے تو آج نہ جدائی ہوتی اور نہ دوسرے درجے کا شہری بننا پڑتا۔ صنعت کاروں کی تنظیم، فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس (FPCCI) اپنے ممبران کو ایسے تاجر بنائے جیسے 14 سو سال قبل حجاز مقدس میں ہوتے تھے اور جیسے آج مغرب میں ہیں۔ یوں نہ جدائی ہوگی نہ دوسرا درجہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں