امریکا ایک غریب ملک
امریکا کے ہر اوسط گھرانے پر پندرہ ہزار آٹھ سو یا اِس سے بھی زیادہ ڈالرز کا سالانہ قرض ہے.
اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں 6 فیصد لوگ امریکن ہیں لیکن دنیا میں جتنا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے، اس میں سے 80% امریکنز خرچ کرتے ہیں اور اِس میں کوئی حیرت کی بات بھی نہیں ہے۔
آپ کبھی امریکا نہیں آئے تو یقیناً آپ نے ٹی وی پر امریکا کے عام لوگوں کو ضرور دیکھا ہوگا اور اندازہ لگایا ہوگا کہ امریکنز کے پاس سہولتوں کے ساتھ ساتھ پیسے کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہر شخص کے ہاتھوں میں سیکڑوں ڈالرز کے اسمارٹ فون، ہر کسی کا اپنا لیپ ٹاپ، گاڑی اور 18 کا ہوتے ہی ماں باپ کے گھر سے نکل کر اپنے خود کے گھر میں شفٹ ہوجانا جس کا کرایہ وہ لڑکا یا لڑکی جاب کرکے خود دیتا ہے۔
زندگی میں کئی چیزیں ضروری ہیں لیکن اگر سب چیزیں ہونے کے باوجود پیسہ نہ ہو تو ہر چیز پر غربت کی وجہ سے پانی پھر جاتا ہے۔ وہ غربت جو دنیا کے حساب سے امریکا میں وجود ہی نہیں رکھتی۔ چلیے آج ہم آپ کو امریکا کی غربت کے وہ سچ بتاتے ہیں جس سے بیشتر لوگ واقف نہیں ہیں۔ امریکن وہ قوم ہے جو آج بری طرح قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے اور اِس حال کا ذمے دار صرف اور صرف ایک انڈین آدمی ہے۔
سائوتھ انڈینز یعنی انڈین، پاکستانی، بنگلہ دیشی تیز دماغ والے ہوتے ہیں، وہ کسی بھی نئی جگہ یا ماحول کو سمجھ کر خود کو نہ صرف اس میں ایڈجسٹ کرلیتے ہیں بلکہ اس جگہ کیسے کامیاب ہوا جاسکتا ہے، یہ بھی سمجھ لیتے ہیں اور یہی کیا انڈیا سے آئے (80) کی دہائی میں سلیش مہتہ نے۔
سلیش نے پہلے یہ اچھی طرح سمجھا کہ امریکا میں کریڈٹ کارڈ انڈسٹری کیسے چلتی ہے اور پھر یہ کہ اس میں کس طرح سے اپنا نام بنایا جاسکتا ہے۔ امریکا میں کریڈٹ ملنے کا طریقہ یعنی کریڈٹ کارڈ، کارلون، ہائوس لون کافی سیدھا ہے، ایک کریڈٹ اسکور ہر شخص سے جڑا ہوتا ہے، آپ کی جاب اچھی ہے، اپنے بل وقت پر ادا کرتے ہیں تو آپ کا کریڈٹ اسکور اچھا ہوگا، کمپنیز آپ کو لون دینے میں زیادہ ٹرسٹ کریں گی لیکن اگر آپ کا کریڈٹ خراب ہے یا کریڈٹ نہیں ہے تو آپ کو کسی بھی طرح کا لون ملنے میں مشکل ہوگی۔
سلیش مہتہ نے ایک ایسا بزنس ماڈل نکالا جس میں ان کی کمپنی امریکا میں ان لوگوں کو کریڈٹ کارڈ دے گی جن کا یا تو برا یا بالکل بھی کریڈٹ نہیں ہے، سلیش کے مطابق 1980's میں امریکا میں چالیس سے پچاس ملین لوگ ایسے تھے جن کو کوئی بھی کمپنی کریڈٹ کارڈ دینے کو تیار نہ تھی۔ ایسے میں سلیش کی کمپنی ''PROVIDIAN'' انھیں کریڈٹ کارڈ دے گی لیکن اگر وہ اپنی کم سے کم پے منٹ کی قسط وقت پر نہ دے پائے تو ان کا انٹریسٹ ریٹ تیس سے چالیس فیصد تک چلا جائے گا۔
سلیش کا کہنا تھا کہ جس طرح لوگ یقین رکھتے ہیں کہ وہ کبھی بوڑھے نہ ہوں گے، اِسی طرح یہ بھی مانتے ہیں کہ کبھی اپنے پے منٹ میں لیٹ نہیں ہوں گے اور یہی وہ یقین ہے جس کی وجہ سے ''پروویڈین'' کامیاب ہوئی، لوگ ایک ہزار کا لون کریڈٹ کارڈ پر نکالتے، پے منٹ لیٹ ہوجانے کی وجہ سے اگلے کئی سال تک پانچ سے سات ہزار تک اس پر لون بھرتے رہتے۔ 1985 سے پہلے جہاں کالج اسٹوڈنٹس کا کریڈٹ لینے کا واحد ذریعہ اپنے ماں باپ کا ''کوسائن'' کرنا تھا، سلیش مہتہ کی کمپنی نے ان کے اٹھارہ سال کے ہوتے ہی اپنا خود کا کریڈٹ کارڈ تھمادیا جسے صحیح طرح استعمال کرنے کی سمجھ انھیں نہیں تھی۔
پہلے زمانے میں آپ کو کریڈٹ کارڈ حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ بینک میں بیٹھ کر اسکریننگ سے گزرنا ہوتا تھا، سوال جواب کے ساتھ ساتھ اپنے پچھلے تین سال کے ٹیکس ریٹرن بھی دِکھانے پڑتے تھے، جس کے بعد بینک پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد ہی آپ کو کریڈٹ کارڈ دیتا لیکن مہتہ کی کمپنی نے امریکا میں کریڈٹ کارڈ ماڈل پوری طرح ختم کردیا۔ آپ فون پر اور اب انٹرنیٹ پر اپنا سوشل سیکیورٹی نمبر، تاریخ پیدایش اور پتے کے ساتھ کچھ منٹوں کے اندر کریڈٹ کارڈ حاصل کرسکتے ہیں۔
2001 تک مہتہ اپنی کمپنی چلاتے رہے جس میں انھیں ایک سے دو بلین ڈالرز کا فائدہ ہر سال ہوا، مہتہ نے اپنی کمپنی سے ریٹائرمنٹ لے لی لیکن امریکا کی پچھلی دو نسلوں اور آنے والی کئی نسلوں کو قرضوں کا عادی بنادیا۔ آج امریکا میں بظاہر لوگوں کے پاس ہر سہولت ہے، عیش و آرام کی ہر چیز نظر آتی ہے، وہیں امریکا کے عام آدمی کی اکنامی کا حال خراب ہے، اِس وقت امریکا کے ہر اوسط گھرانے پر پندرہ ہزار آٹھ سو یا اِس سے بھی زیادہ ڈالرز کا سالانہ قرضہ چڑھا ہوا ہے۔ 610 ملین امریکنز ایسے ہیں جو اپنے کریڈٹ کارڈ پر خریداری کرتے ہیں اور مہینے کے آخر میں صرف Minimum Payment ادا کرتے ہیں۔
اِس وقت اکنامی کے برے ہوجانے کی وجہ سے اوسط کریڈٹ کارڈ انٹریسٹ ریٹ 14.3% ہے۔ اس وقت امریکا کے 14% لوگ ایسے ہیں جو اپنے کریڈٹ کارڈ کی کم سے کم پے منٹ بھی نہیں کرسکتے۔ امریکا میں اِس وقت 78% لوگ اپنی ہر خریداری کے لیے کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرتے ہیں اور ہر شخص کے پاس کئی کئی کریڈٹ کارڈز ہونے کی وجہ سے امریکا میں 1.5 بلین کریڈٹ کارڈز ہیں اور مہتہ اور ان جیسی دوسری کمپنیاں کھل جانے کی وجہ سے 84% طالب علموں کے پاس کریڈٹ کارڈز ہیں۔ اگر آپ امریکا کے سب لوگوں کا قرضہ ملالیں تو وہ چار ٹریلین ڈالرز کا بنتا ہے، 28% امریکنز کا کہنا ہے کہ وہ اپنے قرضے پر پچھتاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ وہ کبھی بھی اپنا قرضہ ادا کرپائیں گے یا نہیں۔
اِس وقت پروویڈن اور دوسری کمپنیاں امریکنز سے ہر سال دس بلین کے لگ بھگ لیٹ فیس وصول کررہی ہیں اور امریکا میں ہر سال 1.5 ملین بینک کرپسیز ہوتی ہیں۔ دور کے ڈھول سہانے والی مثال یہاں بالکل صحیح فٹ ہوتی ہے۔ سی این این جیسے امریکن چینلز دیکھ کر امریکنز کی زندگی جو نظر آتی ہے یا پھر امریکا وزٹ کریں تو باہر سے اِن کی زندگی بہت امیر لگتی ہے لیکن اندر سے سب خالی۔ 75% امریکنز زمانۂ طالب علمی سے ہی اِس کریڈٹ کارڈ لون میں پھنس جاتے ہیں اور زندگی بھر اِس سے جوجھتے رہتے ہیں۔ وہ لون جس سے آگے چل کر انھیں کئی طرح کے ڈپریشن اور کئی طرح کے مرض اور بھی ہوجاتے ہیں اور اِن کی زندگی اور بھی خالی ہوجاتی ہے۔ ''سی این این'' بدل کر ''ایکسپریس نیوز'' دیکھیں جس میں ایک پاکستانی اپنی غربت کا ذکر کررہا ہے تو یاد رکھیں یہ وہ پاکستانی ہے جو امریکا کے لوگوں سے چار ٹریلین ڈالرز زیادہ امیر ہے۔