صدر اوباما کا ایک امریکی مسجد کا دورہ اور خطاب

صدر اوباما اس وقت جو کچھ کر رہے ہیں‘ وہ اچھی پیشرفت کہی جا سکتی ہے لیکن انھوں نے یہ کام بہت تاخیر سے کیا ہے۔


Editorial February 04, 2016
صدر اوباما اس وقت جو کچھ کر رہے ہیں‘ وہ اچھی پیشرفت کہی جا سکتی ہے لیکن انھوں نے یہ کام بہت تاخیر سے کیا ہے۔ فوٹو؛ فائل

ISLAMABAD: امریکا میں مسلمانوں کے خلاف بعض غیر ذمے دارانہ بیانات کی کشیدگی کم کرنے کی خاطر صدر اوباما نے گزشتہ روز بالٹی مور کے علاقے میں ایک مسجد کا دورہ کیا اور حاضرین کو یقین دلایا کہ مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد باتیں کرنے والوں کی امریکا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ امریکی صدر نے واضح کیا کہ کسی ایک عقیدے کے خلاف حملے کو تمام عقائد کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا اور حکومت ایسی صورت میں محض خاموش تماشائی نہیں رہے گی۔

مسجد کے نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے اوباما نے کہا کہ مساجد امریکا میں طویل عرصے سے قائم ہیں اور ان کا وجود پورے امریکا میں ہے۔صدر اوباما نے کہا کہ وہ مسجد میں آنے والے پہلے امریکی صدر نہیں ہیں جنھیں مسلمان بھی کہا گیا ہے بلکہ تاریخی امریکی صدر تھامس جیفرسن کو بھی ان کے مخالفین مسلمان کہتے تھے۔ یہ مساجد ہی ہیں جہاں بہت بھاری تعداد میں مسلمان آتے ہیں جو دیگر عقائد کے ساتھ افہام و تفہیم کے پُل تعمیر کرتے ہیں اور عیسائیوں اور یہودیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نیز وہ صحت کے مراکز بھی چلاتے ہیں اور بچوں کو تعلیم بھی دیتے ہیں۔

امریکی صدر نے تسلیم کیا کہ اس وقت امریکی مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس پر انھوں نے تشویش ظاہر کی۔ صدر اوباما نے کہا کہ زیادہ تر امریکیوں کو مسلمانوں یا اسلام کے بارے میں کوئی علم نہیں بلکہ انھیں صرف اس وقت پتہ چلتا ہے جب کوئی دہشت گردی کی کارروائی ہوتی ہے جس پر غیر ذمے دار عناصر مسلمانوں پر الزام لگا دیتے ہیں جس میں میڈیا' ٹی وی اور فلمیں بھی اسی الزام کی تشہیر کرتی ہیں۔ صدر اوباما نے کہا اس وقت جو آیندہ انتخابات کے لیے مہم جاری ہے اس میں مسلمانوں کے خلاف اتہام طرازی کی جا رہی ہے جو ہر گز قابل معافی نہیں ہے۔ صدر اوباما نے کہا انھیں اس بات کا علم ہے کہ وہ جس مسجد میں آئے ہیں اس پر دو مرتبہ حملہ ہو چکا ہے جب کہ مسلمان بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔

امریکا میں دیگر مقامات پر بھی مساجد کی توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ صدر اوباما نے کہا اسلام شروع ہی سے امریکا میں موجود ہے اور پرانے زمانے میں جن کو غلام بنا کر یہاں لایا جاتا تھا ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی، جنھوں نے اپنا مذہب قائم رکھا۔ صدر اوباما کا خطاب فکر انگیز ہے اور امریکا کے معاشرتی اور سیاسی تضادات کو ظاہر کرتا ہے' امریکا کے بااثر سیاستدانوں کا ایک گروہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ہے جن کا نمایندہ ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔

صدر اوباما اس وقت جو کچھ کر رہے ہیں' وہ اچھی پیشرفت کہی جا سکتی ہے لیکن انھوں نے یہ کام بہت تاخیر سے کیا ہے۔ اوباما کے دور میں مسلم ممالک کے خلاف امریکا کی پالیسیاں جانبداری پر مبنی رہی ہیں' اگر اوباما انتظامیہ افغانستان' عراق' لیبیا اور شام میں متوازن پالیسی اختیار کرتی تو صورت حال زیادہ خراب نہ ہوتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔