پی آئی اے نجکاری
ایک ایسی ایئرلائن جو پوری دنیا میں سبز ہلالی پرچم کو لے کر اڑتی ہے، اپنی ایک منفرد پہچان کی مالک ہے
ایک ایسی ایئرلائن جو پوری دنیا میں سبز ہلالی پرچم کو لے کر اڑتی ہے، اپنی ایک منفرد پہچان کی مالک ہے اور سب سے بڑھ کر حادثات کے اعتبار سے اس کا پروفائل (Profile) قابل دید ہے۔ نہایت چابکدستی سے ہونہار ہوا بازوں نے بارہا حادثات سے جہاز کو بچایا ہے۔ یہ ایک ایسی ایئرلائن ہے جس نے امارات کی ایئرلائنوں کی تربیت بھی کی۔ آج ایسا وقت آ گیا کہ خود اس کو اپنے برانڈ کو بچانا مشکل ہو گیا ہے۔
20 کروڑ کی آبادی والا ملک اپنے ملک کی ایئرلائن سے ہی دور ہو جائے، کیا افسوس کا مقام ہے کہ یہ اپنا ایک فضائی نام بھی نہ رکھ پائے۔ عجیب بات ہے ایٹمی طاقت کہلانے والا اپنا جہاز بھی نہ رکھ پائے، جب کہ پاکستان کے لیڈروں کے پاس اپنے جہاز موجود ہیں، اسی لیے دنیا بھر میں سرمایہ دار، یا سرمایہ کار لیڈروں کو سپورٹ تو کرتے ہیں مگر خود وہ سرمایہ دار نہیں ہوتے۔ کیونکہ اکثر اس میں حکمرانوں کی نیت اولیت کی حامل ہو جاتی ہے اور ملکی اہمیت دوئم بن جاتی ہے۔
یہ جب ہوتا ہے کہ حکومت اپنی ایئرلائن کے لیے سخت قوانین وضع کر پائے۔ ہوتا کیا ہے حکومتی وفد ہوئے، بڑے عہدیدار ہوئے اور خود ملازمین ہوئے، ان کو ٹکٹ میں مراعات ملتی رہتی ہیں، پھر زبردستی حکومتی اداروں میں سفارشوں کا جال بچھایا جاتا ہے اور خوش کرنے کے لیے ملازمتوں کا دائرہ اس قدر وسیع کر دیا جاتا ہے کہ جو خود اس ادارے کے لیے غیر منفعت بخش ہو جاتا ہے۔
اصولی طور پر جب کوئی چھوٹی سی دکان کھولی جاتی ہے تو اپنے ایک دو ملازمین کی تنخواہوں کا تخمینہ روزانہ کی آمدنی اور اخراجات کے اعتبار سے طے کیا جاتا ہے، اگر روزانہ کی کل آمدنی دس ہزار ہے مگر جو سامان فروخت کیا گیا وہ 7000 کی مالیت کا تھا تو معلوم ہوا کہ ماہانہ آمدنی 90000 ہزار ہے تو پھر اسی آمدنی میں مالک اپنا خرچ، بجلی، پانی اور ملازمین کا خرچ 2 یا 3 ملازموں کا بمشکل خرچ رکھ سکتا ہے، یہ نہیں کر سکتا کہ وہ 4 یا 5 ملازمین رکھ سکے یعنی جب ایک دکان کے اخراجات اور آمدنی کا تخمینہ لگا کر ملازمین رکھے جاتے ہیں تو بڑے ادارے بھی باقاعدگی سے چلائے جاتے ہیں۔
یہ نہیں کہ حکومت کو خوش کرنے کے لیے ملازمین بھرتی کرے اور پھر ملازمین کو ادویات اور دوسری مراعات دی جائیں، مگر اخراجات کا اندازہ نہ لگایا جاتا ہو۔ ظاہر ہے انٹرنیشنل کرائے گویا کراچی تا نیویارک دو طرفہ سوا لاکھ ڈیڑھ لاکھ کم و بیش ہو گا تو اسی انداز کی مراعات بھی صارفین کو دینی ہوں گی، کیونکہ ان کو بین الاقوامی فضائی کمپنیوں کے حساب سے تنخواہیں دینی ہوں گی، مگر حکومتیں خود اگر 100 کی گنجائش ہو تو وہ ڈیڑھ سو ملازمین بھرتی کرتی ہیں اور بعد میں اس کو پرائیویٹائز کرنے پر آمادگی ظاہر کرتی ہیں اور یہ بھی بتانا گوارا نہیں کرتیں کہ کس کو فروخت کی جا رہی ہیں۔
بیرونی ممالک میں ایسے پیچیدہ عمل میں یونین کے عہدے داروں کو اعتماد میں لینا پڑتا ہے مگر ہمارے ملک میں حکمران چونکہ خود کاروباری ہیں اس لیے عملے کو ان پر اعتماد نہیں۔ لطف یہ ہے کہ حزب مخالف اور حزب اقتدار کوئی بھی ان میں قابل اعتماد نہیں، اس لیے یونین کو ہی ملازمین کے حقوق کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ رہ گیا گنجائش کا معاملہ کہ ادارے کو کن ملازمین کی ضرورت ہے یہ ایک باقاعدہ عمل ہے، اس کے الگ الگ شعبے ہیں کہ ادارہ چلتا رہے اور آمدنی اور اخراجات کا توازن برقرار رہے۔
مگر ہمارے ملک میں ایسی ریت پڑی ہے کہ ملکی اداروں کو فروخت کیا جائے اور اونے پونے فروخت کیا جائے، کیونکہ حکمرانوں کی ذاتی منفعت ہے، کبھی کسی کو اعتبار نہ تھا کہ حکومت خود گینگ وار کا حصہ ہو گی اور جب ٹی وی کے روبرو اپنی تصویر کے سامنے ان سے پوچھا جائے کہ آپ عذیر بلوچ کو جانتے ہیں، سامنے تصویر میں وہ نظر بھی آ رہے ہیں تو وہ انکاری ہیں اور آج وہ پی آئی اے کے ملازمین کے ساتھی بنے نظر آ رہے ہیں۔ لیڈروں کے کردار بے ضمیروں کی سطح پر آ چکے ہیں۔
ذرا غور فرمائیں اگر کسی ادارے کے خریدار موجود ہیں یا شراکت دار موجود ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے؟ یعنی مارکیٹ میں جو چیز فروخت ہو سکتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پروڈکٹ میں جان ہے کہ اس کے دام لگ رہے ہیں۔ اس عجلت میں فروخت کرنے کا مطلب کیا ہے، یعنی دال میں خاصا کالا ہے اور پھر وزیر اطلاعات کا اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا کیا معنی کہ ماضی کے این ایس ایف کے کارکن آئی سی بی کے آخری چیئرمین ارشد حسین جعفری اپنے دو ساتھیوں سمیت کسی انجانی گولی کا شکار بن گئے، جب کہ پرویز رشید بھی ماضی میں اسی طالب علم تنظیم کے پرجوش ساتھی تھے ، یہ تین شہدا گھر سے بچوں کو الوداع کہہ کر نکلے تھے، مگر شام کو جنازہ آیا۔ کیا مذاق ہے سیاست دوراں کا کہ یہ آفتوں کا دور ہے۔
جدوجہد موت کو دعوت دیتی ہے، سب مشین گن کے خول ملے، دو مزید گھروں کے چراغ نگل گئی، ظالموں نے نیا رنگ ڈھنگ نکالا ہے، جو لوگ زیادہ پرجوش ہیں پہلے ان کا جنازہ نکال دو۔ لیکن شاید ان کو یہ نہیں معلوم ہے کہ دس کروڑ یومیہ خسارہ کوئی خسارہ نہیں جب کسی کا خون راستے میں چھلک جائے۔ کیونکہ جب تحریک میں خون شامل ہو جائے تو تحریکیں امر ہو جاتی ہیں۔ بقول ساحر:
خون دیوانہ ہے دامن پہ لپک سکتا ہے
پھر تحریکیں مزید مضبوط ہو جاتی ہیں۔ پی آئی اے کی یونین اور پاکستان ریلوے کی یونین مزدوروں کے دو ستون ہیں۔ ان سفید پوش مزدوروں کے خون نے لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے اور اب فیصلہ آسان نہ ہو گا کہ پی آئی اے پر کسی سرمایہ دار کی اجارہ داری ہو۔ البتہ حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنا پڑے گی، تا کہ رفتہ رفتہ خسارہ کو کم کیا جا سکے، آمدنی کو بڑھانے کے لیے فلائٹس کو بڑھانے کے عمل کو تیز تر کرنا ہو گا۔ 20 کروڑ کی آبادی والے ملک میں جو بھی آتا ہے عوام کو لوٹنے ہی آتا ہے اور نت نئے منصوبوں کی آڑ میں ملک کو لوٹتا ہے۔
پہلے این آر او ہوا، اس کی آڑ میں یہ لیڈران ملک پر قابض ہو گئے، ملک میں جو نظام نافذ ہے وہ ہر وقت تبدیل ہوتا رہتا ہے، بقول حاکموں کے 1952ء میں ایک ایکٹ لازمی سروس کا بنایا گیا تھا اس کو اب نافذ کر دیا گیا ہے، آخر یہ اسمبلیاں اس قدر خطیر رقم لے کر کیوں وجود میں لائی گئی ہیں۔ ایسے کشیدہ بحران میں جب کہ پورا ملک متاثر ہے 3 گھروں کے چراغ اکبر، عنایت رضا، ارشد حسین اور سلیم اکبر کی لاشیں گر چکی ہیں تو کیا مزید خونریزی کے احکامات روشن کیے جا رہے ہیں۔ اگر حکومت نے ہوش مندی سے کام نہ لیا تو بعض حکومتی ادارے بھی اس تحریک کا حصہ بن جائیں گے۔
جس میں سب سے پہلے پاکستان ریلوے ورکرز یونین سرفہرست ہو گی کیونکہ پاکستان ریلوے کو بھی نجکاری کے عفریت سے خدشہ ہے اور اگر بروقت پاکستان ریلوے کی مزدور یونین نے اس میں شرکت کی تو یہ روایت پڑ جائے گی کہ وہ ایک دوسرے کی تحریکوں کو تقویت پہنچائیں گی تو مزید نجکاری کے امکانات کو ختم کر دیا جائے گا۔ اب پاکستانی اداروں کی مزدور یونینوں کو پاکستانی مالیاتی اداروں کی معاونت کرنی چاہیے۔ تا کہ ہر حکومتی ادارہ منافع بخش ہو۔ حکومتی اداروں میں بدانتظامی، ضرورت سے زیادہ ملازمین کی بھرتی کی شکایت عام ہے، یہ تمام مسائل اس وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ ارباب اختیار کی ہر محکمے میں مداخلت ہے۔
بجائے اس کے کہ اداروں کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کا کوئی نظام ہو۔ موجودہ پی آئی اے کی ہڑتال پر سندھ حکومت کا ردعمل ہڑتال کی حمایت جیسا لگتا ہے۔ مگر ایسی حمایت سے تحریک کو نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ عذیر بلوچ کے معاملے نے سندھ حکومت کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
بہرحال وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کشمکش ایک خطرناک عمل ہے پی آئی اے کی نجکاری کے لیے جو ہڑتال کی گئی وہ منظم تھی پرامن تھی مگر 3 افراد کی جان ایسی ہوشیاری سے لی گئی کہ پتہ نہیں کہ گولی کس نے چلائی اس گولی اور جان کے نذرانے نے تحریک کو رواں دواں کر دیا۔ اب پورے ملک میں پی آئی اے کے ملازمین غائبانہ نماز ادا کر رہے ہیں اور ان کی جدائی کا غم اتحاد کا ذریعہ بن گیا ہے۔ آنے والا وقت حکومت کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہے اور اسے اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے ورنہ یہ ہڑتال ایک بڑے سیاسی المیے کی شکل اختیار کر لے گی۔