ہندو عورتوں کے مندر میں جانے پر پابندی

پاکستان میں البتہ آزاد خیال لوگوں نے احتجاج کیا جس کے نتیجے میں متن پر نظرثانی کی گئی ہے


کلدیپ نئیر February 04, 2016

جوپٹھانکوٹ میں ہوا وہ ایک علامت ہے بیماری نہیں۔ بیماری وہ نفرت ہے جو بھارت اور پاکستان کے عوام کے ذہنوں میں ڈال دی گئی ہے۔ دس سال قبل یہ نفرت ممبئی پر حملوں کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ اس مرتبہ یہ پٹھانکوٹ کے فضائی مستقر پر حملہ ہے۔ تقسیم کا ملبہ تین نسلوں نے اٹھایا ہوا ہے جب کہ نفرت میں مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان کوئی رابطہ نہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان میں کتابوں میں تاریخ کو مسخ کر دیا گیا ہے جس میں ہندوؤں اور بھارت کی کریہہ شکل پیش کی گئی ہے۔

پاکستان میں البتہ آزاد خیال لوگوں نے احتجاج کیا جس کے نتیجے میں متن پر نظرثانی کی گئی ہے لیکن تاریخ میں ان ہی کی شان بیان کی گئی ہے جنھوں نے صدیوں پرانی تہذیب کو تباہ کیا۔ ہندوؤں نے بھی بھارت میں نئے سرے سے تاریخ لکھنے کی کوشش کی ہے لیکن انھیں کامیابی نہیں ہوئی کیونکہ وہاں سیکولر ازم کی سیاست کارفرما ہے جس کی وجہ سے ان کی دال نہیں گلی۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسے عناصر اب بھی اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم نواز شریف نے پٹھانکوٹ ایئربیس پر حملے کے منصوبہ سازوں کو تلاش کر کے انھیں سزا دینے کا اعلان کیا جو کہ ایک اندھیری سرنگ میں روشنی کی کرن جیسا ہے۔ نواز شریف یقیناً امن چاہتے ہیں اور ان کا یہ اعلان بہت خوش آیند ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا نواز شریف کامیاب ہو جائیں گے؟ نواز شریف کی سابقہ حکومت کا آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے تختہ الٹ دیا تھا۔

گو کہ اب مشرف پر مقدمہ چل رہا ہے تاہم وہ ضمانت پر رہا ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف پر کتنا دباؤ ہو گا۔ اس سے قانون کی اس کمزوری کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں ہر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ فوجی عدالتیں سول کیسز میں بھی سزا سنا سکتی ہیں جس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی۔ وزیر اعظم نواز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ ان پر دوہرا دباؤ ہے۔ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ اور دوسری طرف مذہبی عناصر۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے لاہور کا دورہ کر کے ایک انداز سے وزیر اعظم نواز شریف کی مدد کی ہے۔ مودی نے محسوس کر لیا کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز بھارت کے ساتھ مذاکرات کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خارجہ سیکریٹریوں کے طے شدہ مذاکرات کو ری شیڈول کر دیا گیا توڑا نہیں گیا۔ اس بات کی تفہیم ضروری ہے کہ بھارت میں بھی پاکستان دشمنی کے جذبات خاصے شدید ہیں۔ انتہا پسند لوگ نہیں چاہتے کہ دونوں ملک آپس میں قریب آئیں کیونکہ ان عناصر کی بقا صرف دشمنی کے ماحول میں ہی ممکن ہے۔ ان لوگوں نے بعض مندروں میں خواتین کا پوجا پاٹ کے لیے جانا بھی بند کروا دیا ہے۔

مہاراشٹر کے ضلع احمد نگر میں واقع شانی سنگھناپر کے مندر میں عورتوں کی عبادت پر پابندی لگائی' دوسری طرف ممبئی کی حاجی علی درگاہ میں بھی عورتوں کا داخلہ بند کرا دیا۔ عام آدمی بے بس ہو کر صورت حال کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ میں انتظار کر رہا تھا کہ حکومت مہاراشٹر کے مندر میں عورتوں کے داخلے کی بندش کے خلاف کوئی اقدام کرے گی لیکن میرا انتظار بے سود ثابت ہوا۔ عصبیت زدہ لوگ ہندو عورتوں کو ناجائز طور پر دبا کر مردوں کی برتری ثابت کرنا چاہتے ہیں لہٰذا یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان جنونی لوگوں کو روکے۔

میں نے ان میں سے چند ایک کے ساتھ بات چیت کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان کا اصل مقصد کیا ہے۔ ان میں سے بعض کا کہنا یہ تھا کہ عورتوں کے مندر میں داخل ہونے سے مندر کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔ یہ سن کر میں ہکا بکا رہ گیا کیونکہ مجھے سمجھ نہ آ سکا کہ ان لوگوں کو عورتوں کو روکنے کا اختیار آخر کس نے دیا۔

مہاراشٹر کی حکومت بظاہر جانبدار ہے اور اس نے اس معاملے کو امن و امان کا مسئلہ بنا کر پولیس کو اس سے نمٹنے کا حکم دیدیا۔ مرکز میں مودی حکومت نے بھی اس موقف کو تسلیم کر لیا کہ امن و امان قائم رکھنا ریاست کی ذمے داری ہے لیکن یہ امن و امان کا مسئلہ نہیں بلکہ عورتوں کو ان کے آئینی حق سے محروم رکھنے کا مسئلہ ہے۔ اگرچہ انتہا پسندوں نے یہ لڑائی جیت لی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر وہ مذہب کا سہارا لے کر کوئی قدم اٹھائیں گے تو جیت ان ہی کی ہو گی۔

خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ بعض شہروں میں ان انتہا پسندوں کی حرکت کے خلاف جلوس بھی نکالے گئے لیکن یہ بہت محدود پیمانے پر تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی معاشرے میں جمہوریت پیدا کرنے کے لیے ابھی بڑا لمبا سفر طے کرنا پڑے گا تا کہ خواتین کو ان کے بنیادی حقوق دلوائے جا سکیں اور یہ کہ وہ کسی بھی مندر میں جا کر پوجا پاٹھ کر سکتی ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ بعض مساجد میں بھی مسلمان عورتوں کے داخلے پر پابندی ہے بالخصوص ممبئی کی مقبول عام حاجی علی کی درگاہ اور مسجد جہاں عورتوں کو داخلے کی اجازت نہیں۔

چند سال پہلے کیرالہ زبان کی ایک فلمی اداکارہ نے دعویٰ کیا کہ اس نے کیرالہ میں سبری مالا مندر میں ایک بت کو چھو لیا تھا جس پر ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور مندر کے پجاریوں نے اس کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے الزام لگایا کہ اس نے ان سب کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ اس کے خلاف کیرالہ ہائی کورٹ میں مقدمہ درج کرایا گیا جو چھ سال تک چلتا رہا جس کے بعد عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ اس اداکارہ کے خلاف لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں اور بھی بے شمار ایسے مندر ہیں جن میں عورتوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں۔

ان میں سے ایک ہماچل پردیش میں ہے جس کا نام بابا بلاکی ناتھ مندر ہے جب کہ راجھستان میں کرتیکیا مندر اور آسام میں پتبا سوسترا مندر شامل ہیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ چند سال پہلے سابقہ وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی کو جگن ناتھ مندر میں داخل ہونیکی اجازت نہیں دی گئی تھی کیونکہ انھوں نے ایک پارسی کے ساتھ شادی کی ہوئی تھی۔ اسی طرح سے کرناٹک کے مشہور گلوکار یسوداس جو کہ سری کرشنا کے پجاری تھے ان کو گرو وایور مندر میں داخل نہیں ہونے دیا گیا تھا۔

ایک اور مثال مرکزی وزیر ویالر روی کے پوتے کی ہے جسے ایک مندر میں داخل ہونے کے بعد مندر کو دھو کر پاک کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس بچے کی دادی کرسچین تھی حالانکہ اس کے ماں باپ دونوں ہندو تھے۔ یہ مثالیں ملک میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی ہیں جو کہ ہمارے معاشرے اور سیاست میں داخل ہو گئی ہے لہٰذا قوم کو اس بارے میں ہوشیار رہنا ہو گا۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں