قومی ادارے خسارہ بخش کیوں
جب کہ یہ نظام بہت سے لوگوں کو روزگار کے مواقعے فراہم کرتا ہے۔
پی آئی اے کے ملازمین کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے وہ صرف ان کے ساتھ نہیں بلکہ پوری پاکستانی عوام کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ پی آئی اے پر سفر کرنیوالے بیرون ملک مقیم پاکستانی مہنگی ٹکٹ کے باوجود بھی اس لیے سفر کرتے تھے کہ یہ ہماری قومی ائیر لائن ہے مگر ہماری سرمایہ داروں پر مبنی اشرافیہ پاکستانیوں سے یہ فخر بھی چھین لینا چاہتی ہے۔سرمایہ داری کاکینسر ایک ایک کرکے ہمارے قومی شناختوں کو نگل رہا ہے ۔بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ آخر سرمایہ داری میں کیا برائی ہے۔
جب کہ یہ نظام بہت سے لوگوں کو روزگار کے مواقعے فراہم کرتا ہے۔ جس ملک میں بین الاقوامی سرمایہ دار سرمایہ کاری کرنے لگتے ہیں وہاں کے لوگ خوشحال ہوجاتے ہیں۔ بظاہر یہ سب باتیں کشش کا باعث ہیں اور سرمایہ داری کی چکا چوند ایسے ہی لوگوں کے دل ودماغ کو اپنے حصار میں لیتی ہے اورآنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے، مگر اس کا اصل روپ اس وقت سامنے آتا ہے، جب سرمایہ دارکے منافعے کی شرح پر ذرا سی بھی آنچ آنے لگتی ہے یا سرمایہ دارکو اپنے منافعے میں رتی برابر بھی کمی ہونے کا اندیشہ ہونے لگتا ہے۔
اس وقت سرمایہ دار صرف اپنے ناجائزمنافعے کی شرح کو بچانے کے لیے مزدور اور ملازم طبقات کے جائز حقوق کا بھی بے دردی سے نہ صرف استحصال کرنے لگتا ہے بلکہ پسے ہوئے طبقات کی زندگیوں کو بھی داؤ پر لگا دینے میں کوئی عار نہیں سمجھتا۔ اس نظام کی خرابی کو سمجھنے کے لیے بہت سی مثالیں ہمارے سماج میں اب موجود ہیں اور بہت سی مثالیں دنیا بھر کے سرمایہ دارانہ نظام کی حامل ریاستوں کا جائزہ لینے سے سامنے آتی ہیں۔
عوام کی یا ملازم طبقات کی اہمیت اس نظام میں کیا ہوتی ہے، اس کو سمجھنے کے لیے پرویز رشید کا حالیہ بیان غور طلب ہے ، جو وزیر اعظم میاں نواز شریف کے1952 ء کے لازمی سروس ایکٹ کی منظوری جیسے اقدام کے بعد سامنے آیا ہے، جس کے نتیجے میں بہت سے ملازمین میں ملازمت کے چھن جانے کا خوف پیدا ہوا ہے اور یہی خوف مزدور اور ملازم یونین کی قوت کو توڑنے میں اہم کردار ادا کرے گا جو سرمایہ دار کو مزید طاقت فراہم کرنے کا باعث بنے گا۔ سرمایہ داری سے پہلے ، کل وقتی اور مستقل ملازمتیں ہواکرتی تھیں جس میں اگر مزدور یا ملازم اپنے مطالبات اپنے فیکٹری یا کمپنی کے مالکان سے منوانا چاہتے تھے تو ہڑتال کی دھمکی ان کے مطالبات کسی حد تک منوا لیتی تھی۔
مگر سرمایہ داری نظام کے تحت ایک طرف توکل وقتی مستقل ملازمتوں کی بجائے جز وقتی کنٹریکٹ پر مبنی ملازمتوں کا اجرا ہوا تو دوسری طرف ملازم فراہم کرنیوالی ایجنسیوں نے ملازمت کے خواہش مند افراد کو رجسٹرڈ کرنے کا آغاز اسی لیے کیا تھا کہ جب مزدور یا ملازم اپنے مطالبات منوانے میں ناکام ہونے پر ہڑتال پرجانے کی دھمکی دیں گے تو سرمایہ داروں کو جزوقتی ملازم میسر ہوںگے جو سرمایہ دارکے کاروبار کو بند نہیں ہونے دیں گے اور ہڑتالی ملازم ایک طرف تو ملازمت سے جائیں گے دوسری طرف اپنے خاندان کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے میں ناکام ہونے کے ڈر سے مزدور اتحاد سے الگ ہوجائیں گے۔
کچھ یہی حال پی آئی اے کے ملازمین کا کیا جا رہا ہے۔ حکومتی فیصلہ اسی لیے حیران کن نہیں کہ وہ سرمایہ داری نظام کی ہے ۔سرمایہ دار جب کسی بھی ریاستی ادارے کو نجی ملکیت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو اس میں انتشار اور نقصان کا فروغ ان کا پہلا ہدف ہوتا ہے اور یہی حال پی آئی اے کے ساتھ گزشتہ ایک دہائی سے کیا جارہا ہے۔ اس کو منافع بخش بنانے کی بجائے خسارہ بخش بنایا جارہا ہے۔
اس کے لیے ملک کی اندرونی پروازوں کا تو جو حال ہوگا سو ہوگا مگر بین الاقوامی پروازوں کا حال یہ کیا گیا ہے کہ جب بھی بیرون ملک مقیم پاکستانی باشندوں کو چھٹیاں ملتی ہیں یا کوئی اہم تہوار ہوتا ہے تو پی آئی اے کی ٹکٹ کی قیمت ڈبل کر دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس دوسری بین الاقوامی پروازیں ان دنوں میں خصوصی رعایت پر ٹکٹ فروخت کرنے لگتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ بہت سے لوگ انڈین ائر لائن کی بھی ٹکٹ خریدتے دکھائی دیے ہیں۔
پی آئی اے کی پروازیں اکثر خالی نشستیں لیے برطانیہ سے پاکستان روانہ ہوتی ہے مگر ٹکٹ 1000 اور 1200 پونڈز سے کم کرنے کو تیار نہیں، اسی انتشار کو سرمایہ دار جان بوجھ کر بڑھاتے ہیں ہماری پنجاب اسمبلی سرمایہ داروں سے بھری ہوئی ہے ہماری نیشنل اسمبلی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی اسمبلی ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ پی آئی اے کو ایک مدت سے خسارہ بخش بنانے کی تگ و دوکر رہے ہیں، تاکہ اس کی پرائیوٹائزیشن کسی بھی مزاحمت کے بنا آسانی سے کر سکیں۔
پرائیویٹ کرتے ہی پی آئی اے کے ٹکٹ کی قیمت نصف سے بھی کم کر دی جائے گی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ منافع بخش ہوجائے گی کیونکہ تب یہ کسی وزیر یا اس کے کسی رشتے دار سرمایہ کارکی نجی ملکیت بن چکی ہوگی۔ اس کے بعد اگر بہت سے لوگوں کو بطورِملازم کنٹریکٹ کی بنیاد پر رکھ کر بہت سی سہولتوں سے فیضیاب کر بھی دیا جائے گا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تب کمایا جانے والا منافع قومی خزانے میں نہیں جائے گا بلکہ سیدھا اس کے مالک سرمایہ دارکی ملکیت ہوگا ، قومی خزانے کو تو پہلے سے بھی لوٹا ہی جا رہا ہے مگر اس لوٹ مار کو جائز بنانے کے لیے ضروری ہے کہ قومی اداروں کو خسارہ بخش ثابت کرکے آسانی سے نجی اداروں میں تبدیل کرکے سرمایہ دار وزیر اپنی ملکیت بنا لیں ۔تاکہ ان پر کسی احتساب کا یا غبن کا بوجھ نہ رہے۔
سرمایہ داری میں معاہدوں کی بنیاد پر ملازمتوں کی فراہمی ہو بھی جائے تو عام انسان کو صرف اتنا ہی خوشحالی دیتا ہے جس میں وہ جی سکے یا جینے کے لیے بنیادی ضرورتیں اپنے خاندان کو فراہم کرسکے۔ سرمایہ داری کی ایک اور مکارانہ جہت یہ بھی ہے کہ کسی ادارے ، کمپنی یا کارخانے کے مالکان مزدوروں کی تنخواہ میں اگرکبھی ایک فی صد بھی اضافہ کرتے ہیں تو ساتھ ہی مارکیٹ میں اپنی جنس کی قیمت دوگنا زیادہ کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ مزدور جو اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ ایک فیصد تنخواہ بڑھ گئی ہے وہ بڑی آسانی سے اس کی دگنی قیمت اپنے مالک کو بازار میں کی جانیوالی خریداری کی صورت واپس کرتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی سرمایہ دارکسی آٹے کے کارخانے کے ملازم کی تنخواہ ایک فی صد زیادہ کرے گا تو ساتھ ہی آٹے کی بوری کی قیمت میں دو فیصد اضافہ بھی کردے گا اب وہی ملازم جب آٹا خریدنے جائے گا تو اس ایک فی صدکو دو فیصد زیادہ قیمت پر آٹا خرید کر اپنے ہی مالک کوخریداری کے نام پر سود سمیت واپس کرے گا۔سرمایہ داروں کے پاس مزدور طبقات کے خون چوسنے کے بہت سے ذرایع ہوتے ہیں۔
اس کے لیے وہ سب سے پہلے مزدور اور ملازموں کی طاقت کو کمزورکرتا ہے جو وہ متبادل مزدور ہی کے ذریعے کرتا ہے ایک مزدور ہی کو دوسرے مزدور کے خلاف کھڑا کرتا ہے۔ اس لیے محنت کشوں کو اپنی مستقل ملازمتوں کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ متحد ہوکر اپنی طاقت خود بنیں اور ریاستی سرمایہ داروں کے لیے اپنے ہی خلاف اپنا متبادل نہ بنیں۔