عورتوں پر تشدد کے خاتمے کی عالمی مہم
عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے کامیابیاں کم ہیںاور چیلنجز بہت زیادہ ۔
''دنیا کی ہر تین عورتوں میں سے ایک اپنی زندگی میں زنا بالجبر یا مارپیٹ کا شکار ہوتی ہے۔ عورتوں پر تشدد کا خاتمہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا غربت کا یا ایڈز کا یا گلوبل وارمنگ کا۔''
قارئین مندرجہ بالا الفاظ ایو این سلر کے ہیں جو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے ''ایک ارب لوگوں کو آگے بڑھاؤ'' مہم کی بانی ہیں۔
اس مہم کا آغاز کرتے ہوئے انھوں نے یونانی دیومالائی کہانی کی کردار کیسنڈرا کو بارہا یاد کیا جسے اپالو دیوتا نے پیش گوئی اور مستقبل بینی کا تحفہ عطا کیا تھا مگر یہ تحفہ پانے کے بعد اس دوشیزہ نے دیوتا کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا جس پر دیوتا نے اسے شراپ یا بددعا دی تھی کہ وہ ہمیشہ سچی پیش گوئی کرے گی مگر کوئی اس کی بات پر اعتبار نہیں کرے گا۔ چنانچہ اس کے بعد وہ ہمیشہ اپنی قوم کو آنے والی مصیبتوں سے آگاہ کرتی رہی مگر اس کی بات کا کبھی کسی نے اعتبار نہیں کیا۔
اگر ہم گزشتہ پندرہ سال کے دوران عورتوں پر تشدد کے خلاف چلائی جانے والی مہمات کا جائزہ لیں تو سرگرم کارکن اپنے آپ کو مذکورہ بالا دیومالائی کردار کی جگہ ہی پائیں گے۔ اس حوالے سے ہونے والی پہلی V-DAY افریقی کانفرنس کی 46 شرکاء میں سے کچھ حال ہی میں جیل سے رہا ہوئی ہیں کیوں کہ وہ نسوانی ختنہ Genital Mutilation کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔ کچھ انتقامی کارروائی کے خوف سے عوامی اجتماعات میں شرکت نہیں کر سکتیں۔کچھ اپنی حکومتوں اور مذہبی اداروں کو چیلنج کر رہی ہیں اور کچھ انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
ایو این سلر دنیا کی مختلف پارلیمنٹوں میں جا کے ان عورتوں اور لڑکیوں کے بارے میں بتا رہی ہیں جو کانگو میں 13 سال تک معدنی وسائل پر ہونے والی جنگ کے دوران زنابالجبر کا نشانہ بنیں۔ اپنی شعلہ نوائی کے باوجود وہ سمجھتی ہیں کہ وہ ان مظالم کا پورے طور پر احاطہ نہیں کر پاتیں جو انھوں نے دیکھے یا سنے۔
کانگو کے شہر بوکاوو کے پینزئی اسپتال کے ڈاکٹر ڈینس نے جب جنگ کے دوران عورتوں پر ہونیوالے مظالم کے بارے میں عالمی رہنماؤں سے رابطہ کیا تو انھیں جھوٹا قرار دیا گیا اور ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا گیا، حالانکہ ان کے پاس روزانہ زخمی عورتیں لائی جاتیں اور وہ آپریشن کے ذریعے ان کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ معلوم نہیں ہمارے رہنما حقیقت کا سامنا کرنے سے کیوں انکار کر دیتے ہیں؟ اس کیفیت کو ماہرین نفسیات Denial یا انکار کی کیفیت کہتے ہیں۔
جس وقت یہ سطور آپ کی نظروں سے گزریں گی اس وقت بھی دنیا میں ہر تین عورتوں میں سے ایک یا تو زنا بالجبر کا شکار ہو رہی ہوگی یا مارپیٹ کا نشانہ بن رہی ہوگی۔ یہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار ہیں اور یہ مساوی ہے ایک ارب عورتوں اور لڑکیوں کے۔
اس حوالے سے ہم دو طرح کا مستقبل دیکھتے ہیں:
٭... ایک وہ مستقبل جس میں نرمی، محبت اور رفاقت کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔
٭... دوسرا وہ مستقبل جس کا آغاز 14 فروری 2013 کو ہوگا جب ایو این سلر کی مہم کے نتیجے میں لوگ ایک ارب عورتوں پر ہونیوالے تشدد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ دنیا بھر میں ہزاروں تنظیمیں اس مہم میں شامل ہوچکی ہیں۔ اس مہم میں صرف وہی عورتیں شامل نہیں ہوں گی جن کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے بلکہ وہ مرد بھی شامل ہوں گے جو اپنی بیٹیوں ، بہنوں، بیویوں، ماؤں اور تمام خواتین کے لیے ایک محفوظ اور پرامن دنیا چاہتے ہیں۔ جو جانتے ہیں کہ عورتوں کو ختم کرنا بنی نوع انسانیت کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ اس مہم کے منتظمین نے دنیا بھر میں لوگوں سے اپیل کی ہے کہ 14 فروری 2013 کو وہ اپنے گھروں کو اور ایسی جگہوں کو ڈھونڈیں جہاں وہ اس موضوع کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کر سکیں۔
پاکستان میں عورتوں کے حوالے سے کچھ مثبت تبدیلیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ پاکستانی پارلیمان جس نے 1999 میں صائمہ عمران کے ''غیرت کے نام پر قتل'' کی مذمت کرنے سے انکار کردیا تھا، گزشتہ سات سال میں (2004-2011) عورتوں کی زندگیوں پر اثرانداز ہونیوالے سات ترقی پسند اور مثبت قوانین بنا چکی ہے۔ پاکستان کی قانون سازی کی تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں عورتوں کے حق میں بنائے جانے والے قوانین کی مثال نہیں ملتی۔
ان میں غیرت کے نام پر ہونے والے جرائم کے بارے میں بنایا جانے والا قانون، کریمنل لاء (ترمیم) ایکٹ (2004)، عورتوں کے تحفظ کا قانون 2006 (جس میں زنا اور قذف کے آرڈی نینسیز میں ترمیم کی گئی)، عورتوں کو کام کی جگہ پر ہراساں کیے جانے کا قانون اور پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم جس میں ہراسانی کی تعریف بھی شامل ہے۔ عورتوں کے خلاف رواجوں کی روک تھام کا قانون 2011، تیزاب پر کنٹرول اور تیزاب کے ذریعے ہونے والے جرائم کی روک تھام کا قانون 2011، اور تکلیف میں اور حراست میں خواتین کے فنڈ کا ترمیمی قانون 2011 شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن (NCSW) نے سپریم کورٹ میں جرگوں (متوازی عدالتی نظام) کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے، کمیشن کی رائے میں یہ جرگے غیر قانونی اور غیر انسانی ہیں۔
ان سارے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف قانون ساز اداروں میں بیٹھے ہوئے افراد بلکہ پورا معاشرہ ذہنی اور فکری طور پر آگے بڑھ رہا ہے۔ ظاہر ہے ان قوانین کی منظوری کے پیچھے عورتوں کے حقوق کے لیے کی جانے والی ایک طویل جدوجہد موجود ہے۔ اس ساری مثبت تحریک کے ساتھ ساتھ کچھ منفی تحریکیں اور رکاوٹیں بھی موجود ہیں، مثال کے طور پر گھریلو تشدد کے خلاف قانون 2009 میں قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا تھا لیکن اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں وہ عملی شکل اختیار نہ کر پایا کیوں کہ اب اس موضوع پر قانون سازی کا حق صوبوں کو منتقل کردیا گیا ہے۔
سینیٹ نے اسلام آباد کی حدود میں تو یہ بل پاس کر دیا ہے لیکن مزید پیش رفت نہیں ہوسکی۔ اب سول سوسائٹی کے ارکان اپنی اپنی صوبائی اسمبلیوں میں یہ بل منظور کروانے کے لیے پیروکاری کر رہے ہیں۔ مگر اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ''عوامی نمائندوں'' کی اکثریت آج بھی روایتی، دقیانوسی اور عورت دشمن سوچ کی حامل ہے جو آج بھی غیرت کے نام پر قتل کی غیر انسانی روایت کی حمایت کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے بہت سے ارکان نے اپنے جاگیردار طبقے سے تعلق رکھنے والے اس شخص کی حمایت کی جس نے اپنی بیوی پر تیزاب پھینک دیا تھا۔ بعدازاں اس خاتون نے خودکشی کرلی تھی۔
یہ سارے حقائق اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے ہماری کامیابیاں کم ہیںاور چیلنجز بہت زیادہ۔ بہرحال سول سوسائٹی عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے معاشرے میں ایک طاقت ور مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کرتی رہے گی۔