کون اب آئے گا یہاں آبلہ پائی کے لیے
انتظار حسین کی علالت کی خبر سے نہ جانے کیوں دل گرفتگی کی کیفیت طاری تھی
انتظار حسین کی علالت کی خبر سے نہ جانے کیوں دل گرفتگی کی کیفیت طاری تھی، ہر پیر اور جمعے کو اخبارکی سرخیوں سے بھی پہلے ادارتی صفحہ کھولتی اور سب سے پہلے ''بندگی نامہ'' پڑھتی، کیونکہ اس سادہ مگر ادبی تہہ دار زباں کا ذائقہ ہی ایسا کہ بنا پڑھے صبح ہی بدمزہ ہوجاتی تھی، جمعے کو اگرچہ میرا اپنا کالم بھی شامل اشاعت ہوتا مگر انتظار صاحب (جن کو مرحوم لکھنے پر قلم آمادہ نہیں) کا کالم تمام کرنے کے بعد ہی ادھر نظر ڈالتی ، جب سے بیماری کی اطلاع آئی تھی۔
ہر روز دھڑکتے دل سے اخبار کھولنے سے قبل دعا کرتی کہ اللہ کرے انتظار صاحب کے اسپتال سے گھر آجانے کی خبر صفحہ اول پر ہو۔ منگل کی دوپہر ڈھل رہی تھی کہ میرے شوہر نے یہ المناک اطلاع دی ''انتظار صاحب سدھارگئے'' ایک بجلی سی وجود پر گرتی ہوئی محسوس ہوئی، اس کے ساتھ ہی کئی دن سے پژمردگی اور دل گرفتگی کی کیفیت کا جواز بھی مل گیا۔
اب اپنی یادوں کو مجتمع کرتے ہوئے سوچ رہی ہوں کہ میں اس عظیم و منفرد شخصیت سے کب سے واقف ہوں؟ یاد آیا یہ نام میں نے اسکول کے زمانے میں ہی اپنے بھائی جان کے توسط سے سنا ہوا تھا، مطالعہ اور اخبار بینی کے باعث ان دنوں ان کا کالم لاہور نامہ پڑھا کرتی تھی، ان کے ناول اور افسانے ابھی ہماری دسترس میں نہ تھے۔
قیام لاہور کے دوران ان کے ناول اور افسانے پڑھے (جب ہم کالج میں پڑھتے تھے) لاہور میں ہماری پھوپھی زاد بہن قیام پاکستان کے فوراً بعد سے مقیم تھیں، ان کے گھر اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ ان کے یہاں ایک محفل میلاد میں ان کی بیٹی جو ہماری ہی ہم عمر تھی اور ہماری ادبی دلچسپی سے بھی واقف تھی نے ایک صاحبہ سے ہمارا تعارف کرایا کہ یہ انتظار صاحب کی بیگم ہیں، بعد میں ہم نے اس سے پوچھا کہ یہ صاحبہ تمہاری کوئی رشتے دار ہیں، تو معلوم ہوا کہ پڑوسن ہیں ان کے گھر کی عقبی گلی اور انتظار صاحب کی عقبی گلی ایک ہی ہے اور دونوں گھروں کے پچھلے دروازے اسی گلی میں کھلتے ہیں۔
ہماری رشتے دار بہن اور ان کا ایک دوسرے کے گھر ہر وقت آنا جانا ہے۔ ہمارے دل میں انتظار صاحب سے ملنے کی تمنا تو پہلے ہی تھی اس وقت تمنا بے قراری میں تبدیل ہوگئی۔ مگر محفل میلاد اور پھر کھانے سے فارغ ہوتے ہوتے رات کافی ہوگئی تو ہم نے سوچا پھر کبھی سہی لیکن وہ ''پھر'' ہماری زندگی میں کبھی نہ آئی، ہمیں اچانک ہی کراچی آنا پڑا۔ مگر مطالعہ بھی عجیب ذریعہ ملاقات ہے کہ ادیبوں، شاعروں اور لکھنے والوں سے غائبانہ ہی ملاقات ہوجاتی ہے ہم انتظار صاحب سے ملے بغیر ہی یہ محسوس کرتے رہے کہ ہم ان سے اچھی طرح واقف ہیں۔ آج پہلی بار محرومی کا احساس ہورہا ہے کہ کاش ایک بار تو ملاقات کرلیتے، حالانکہ آرٹس کونسل کی اردوکانفرنس میں ان کو بہت قریب سے دیکھا ضرور ہے۔
اردو زبان وادب کی جو موجودہ صورتحال ہے اس میں یوں توکسی بھی قلمکار، ادیب و شاعر کا بچھڑ جانا ایک بڑا نقصان ہے مگر اتنے عظیم و ہمہ صفت ادیب جس نے ایک صدی سے دوسری صدی کی ڈیڑھ دہائی کو اپنی تخلیقات و تحریروں سے پوری توانائی سے سمو رکھا تھا کا بچھڑ جانا محض نقصان نہیں بلکہ عظیم نقصان اور المیہ ہے، کیونکہ انتظار حسین اپنے انداز تحریر (اسلوب) کے حوالے سے دنیائے ادب میں منفرد مقام کے حامل ہیں۔ وہ علامتی افسانہ نگار کی حیثیت سے پوری اردو دنیا میں پہچانے جاتے ہیں۔ اگرچہ بیانیہ اسلوب میں بھی ان کا مقام اعلیٰ ہے۔ انھوں نے اپنی پوری عمر ادب و صحافت کی مختلف اصناف کی آبیاری کرتے ہوئے بسرکی۔ انتظار حسین بیک وقت ناول نگار، افسانہ نگار، نقاد، صحافی، کالم نویس، سوانح نگار، ڈرامہ نگار کے علاوہ ریڈیائی تحریروں سے بھی منسلک رہے ہیں۔
انتظار حسین نے اردو افسانے کو نیا انداز اور نئے نئے رجحانات سے مالامال کیا، انھوں نے بیانیہ طرز تحریر میں بھی منفرد تجربات کیے اور علامتی اسلوب کو بھی مختلف انداز سے پیش کرنے کا اعزاز حاصل کیا، انتظار حسین نے اپنی تحریروں میں اساطیری طرز تحریرکو بے حد نفاست سے برتا ہے، تقسیم برصغیر کے اثرات بھی ان کے افسانوں میں نمایاں ہیں وہ منطقی طور پر اس تجربے سے خود کو کبھی الگ نہ کرپائے۔ ان کے ناول، بستی، آگے سمندر ہے، چاند گہن، تذکرہ اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔
افسانوی مجموعوں میں گلی کوچے، شہر آشوب، کنکری، آخری آدمی اور چل سو چل اپنی نوعیت کے منفرد افسانے ہیں، سوانح حیات ''چراغوں کا دھواں'' میں انھوں نے اپنی پچاس سالہ یادوں کو پیش کیا ہے، خود نوشت سوانح حیات کو بھی انھوں نے افسانوی و داستانی انداز میں تحریر کیا ہے۔ تنقیدی مضامین کا مجموعہ بھی شایع ہوچکا ہے۔انتظار حسین کی جملہ تحریروں پر تبصرہ یا جائزہ لینا مجھ جیسی کم مایہ و مطالعہ کے بس کی بات نہیں۔ ان کے کالم ہی میرے لیے ادبی شاہکار سے کم حیثیت نہیں رکھتے۔
جن میں ادبی چاشنی کے علاوہ زبان وادب کا اعلیٰ معیار، دل موہ لینے والے جملے، معنوی تہہ داری بیک وقت رواں دواں رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان کا شیریں ذائقہ ''بندگی نامہ'' پڑھ کر ہی محسوس کیا جاسکتا ہے، ان کے کالم سمندر کوکوزے میں بند کرنے کا ہنر ہیں، مختصرکالم میں زبان وادب کے ماضی حال اور مستقبل کی کئی تہیں ایک ساتھ جاری رہتی ہیں اور بیش بہا معلومات بھی، انتظار حسین نے زبان کو تہذیبی تناظر میں تخلیقی ادب میں بڑھنے کے ڈھنگ، ایک تہہ دار اور ذو معنی زبان کے خالق کے طور پر خود کو قاری سے متعارف کرایا ہے۔
انتظار حسین کو ملک و بیرون ملک کئی اعزازات سے نوازا گیا ان کے ناول کے دوسری زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے مگر ان کا سب سے بڑا اعزاز ادب کے شائقین کے لیے ان کا طرز احساس اور اسلوب تحریر کی مقبولیت ہے جس کو شاید کوئی بھی اختیار نہیں کرسکتا۔ کالم ''بندگی نامہ'' 25 جنوری کے بعد اب کبھی نہ شایع ہوگا۔ تو پیر اور جمعے کو اب ہم کون سا کالم سب سے پہلے پڑھیں گے نہ ابھی سوچا ہے نہ طے کیا۔ ہاں ایک بات طے ہے کہ انتظار حسین کے نہ ہونے سے:
مسندِ ادب ہوگئی ویراں
قصرِ افسانہ میں اندھیرا ہے
ہر روز دھڑکتے دل سے اخبار کھولنے سے قبل دعا کرتی کہ اللہ کرے انتظار صاحب کے اسپتال سے گھر آجانے کی خبر صفحہ اول پر ہو۔ منگل کی دوپہر ڈھل رہی تھی کہ میرے شوہر نے یہ المناک اطلاع دی ''انتظار صاحب سدھارگئے'' ایک بجلی سی وجود پر گرتی ہوئی محسوس ہوئی، اس کے ساتھ ہی کئی دن سے پژمردگی اور دل گرفتگی کی کیفیت کا جواز بھی مل گیا۔
اب اپنی یادوں کو مجتمع کرتے ہوئے سوچ رہی ہوں کہ میں اس عظیم و منفرد شخصیت سے کب سے واقف ہوں؟ یاد آیا یہ نام میں نے اسکول کے زمانے میں ہی اپنے بھائی جان کے توسط سے سنا ہوا تھا، مطالعہ اور اخبار بینی کے باعث ان دنوں ان کا کالم لاہور نامہ پڑھا کرتی تھی، ان کے ناول اور افسانے ابھی ہماری دسترس میں نہ تھے۔
قیام لاہور کے دوران ان کے ناول اور افسانے پڑھے (جب ہم کالج میں پڑھتے تھے) لاہور میں ہماری پھوپھی زاد بہن قیام پاکستان کے فوراً بعد سے مقیم تھیں، ان کے گھر اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ ان کے یہاں ایک محفل میلاد میں ان کی بیٹی جو ہماری ہی ہم عمر تھی اور ہماری ادبی دلچسپی سے بھی واقف تھی نے ایک صاحبہ سے ہمارا تعارف کرایا کہ یہ انتظار صاحب کی بیگم ہیں، بعد میں ہم نے اس سے پوچھا کہ یہ صاحبہ تمہاری کوئی رشتے دار ہیں، تو معلوم ہوا کہ پڑوسن ہیں ان کے گھر کی عقبی گلی اور انتظار صاحب کی عقبی گلی ایک ہی ہے اور دونوں گھروں کے پچھلے دروازے اسی گلی میں کھلتے ہیں۔
ہماری رشتے دار بہن اور ان کا ایک دوسرے کے گھر ہر وقت آنا جانا ہے۔ ہمارے دل میں انتظار صاحب سے ملنے کی تمنا تو پہلے ہی تھی اس وقت تمنا بے قراری میں تبدیل ہوگئی۔ مگر محفل میلاد اور پھر کھانے سے فارغ ہوتے ہوتے رات کافی ہوگئی تو ہم نے سوچا پھر کبھی سہی لیکن وہ ''پھر'' ہماری زندگی میں کبھی نہ آئی، ہمیں اچانک ہی کراچی آنا پڑا۔ مگر مطالعہ بھی عجیب ذریعہ ملاقات ہے کہ ادیبوں، شاعروں اور لکھنے والوں سے غائبانہ ہی ملاقات ہوجاتی ہے ہم انتظار صاحب سے ملے بغیر ہی یہ محسوس کرتے رہے کہ ہم ان سے اچھی طرح واقف ہیں۔ آج پہلی بار محرومی کا احساس ہورہا ہے کہ کاش ایک بار تو ملاقات کرلیتے، حالانکہ آرٹس کونسل کی اردوکانفرنس میں ان کو بہت قریب سے دیکھا ضرور ہے۔
اردو زبان وادب کی جو موجودہ صورتحال ہے اس میں یوں توکسی بھی قلمکار، ادیب و شاعر کا بچھڑ جانا ایک بڑا نقصان ہے مگر اتنے عظیم و ہمہ صفت ادیب جس نے ایک صدی سے دوسری صدی کی ڈیڑھ دہائی کو اپنی تخلیقات و تحریروں سے پوری توانائی سے سمو رکھا تھا کا بچھڑ جانا محض نقصان نہیں بلکہ عظیم نقصان اور المیہ ہے، کیونکہ انتظار حسین اپنے انداز تحریر (اسلوب) کے حوالے سے دنیائے ادب میں منفرد مقام کے حامل ہیں۔ وہ علامتی افسانہ نگار کی حیثیت سے پوری اردو دنیا میں پہچانے جاتے ہیں۔ اگرچہ بیانیہ اسلوب میں بھی ان کا مقام اعلیٰ ہے۔ انھوں نے اپنی پوری عمر ادب و صحافت کی مختلف اصناف کی آبیاری کرتے ہوئے بسرکی۔ انتظار حسین بیک وقت ناول نگار، افسانہ نگار، نقاد، صحافی، کالم نویس، سوانح نگار، ڈرامہ نگار کے علاوہ ریڈیائی تحریروں سے بھی منسلک رہے ہیں۔
انتظار حسین نے اردو افسانے کو نیا انداز اور نئے نئے رجحانات سے مالامال کیا، انھوں نے بیانیہ طرز تحریر میں بھی منفرد تجربات کیے اور علامتی اسلوب کو بھی مختلف انداز سے پیش کرنے کا اعزاز حاصل کیا، انتظار حسین نے اپنی تحریروں میں اساطیری طرز تحریرکو بے حد نفاست سے برتا ہے، تقسیم برصغیر کے اثرات بھی ان کے افسانوں میں نمایاں ہیں وہ منطقی طور پر اس تجربے سے خود کو کبھی الگ نہ کرپائے۔ ان کے ناول، بستی، آگے سمندر ہے، چاند گہن، تذکرہ اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔
افسانوی مجموعوں میں گلی کوچے، شہر آشوب، کنکری، آخری آدمی اور چل سو چل اپنی نوعیت کے منفرد افسانے ہیں، سوانح حیات ''چراغوں کا دھواں'' میں انھوں نے اپنی پچاس سالہ یادوں کو پیش کیا ہے، خود نوشت سوانح حیات کو بھی انھوں نے افسانوی و داستانی انداز میں تحریر کیا ہے۔ تنقیدی مضامین کا مجموعہ بھی شایع ہوچکا ہے۔انتظار حسین کی جملہ تحریروں پر تبصرہ یا جائزہ لینا مجھ جیسی کم مایہ و مطالعہ کے بس کی بات نہیں۔ ان کے کالم ہی میرے لیے ادبی شاہکار سے کم حیثیت نہیں رکھتے۔
جن میں ادبی چاشنی کے علاوہ زبان وادب کا اعلیٰ معیار، دل موہ لینے والے جملے، معنوی تہہ داری بیک وقت رواں دواں رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان کا شیریں ذائقہ ''بندگی نامہ'' پڑھ کر ہی محسوس کیا جاسکتا ہے، ان کے کالم سمندر کوکوزے میں بند کرنے کا ہنر ہیں، مختصرکالم میں زبان وادب کے ماضی حال اور مستقبل کی کئی تہیں ایک ساتھ جاری رہتی ہیں اور بیش بہا معلومات بھی، انتظار حسین نے زبان کو تہذیبی تناظر میں تخلیقی ادب میں بڑھنے کے ڈھنگ، ایک تہہ دار اور ذو معنی زبان کے خالق کے طور پر خود کو قاری سے متعارف کرایا ہے۔
انتظار حسین کو ملک و بیرون ملک کئی اعزازات سے نوازا گیا ان کے ناول کے دوسری زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے مگر ان کا سب سے بڑا اعزاز ادب کے شائقین کے لیے ان کا طرز احساس اور اسلوب تحریر کی مقبولیت ہے جس کو شاید کوئی بھی اختیار نہیں کرسکتا۔ کالم ''بندگی نامہ'' 25 جنوری کے بعد اب کبھی نہ شایع ہوگا۔ تو پیر اور جمعے کو اب ہم کون سا کالم سب سے پہلے پڑھیں گے نہ ابھی سوچا ہے نہ طے کیا۔ ہاں ایک بات طے ہے کہ انتظار حسین کے نہ ہونے سے:
مسندِ ادب ہوگئی ویراں
قصرِ افسانہ میں اندھیرا ہے