بگڑا ہوا آوہ اور بیچارہ چوہدری نثار
بیچارہ اکیلا چوہدری نثار کیا کرے یہاں تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہو اہے ، ہیں جی؟
پی آئی اے ہڑتال کے ویسے تو لا تعداد نقصانات ہیں مگر شایدسرِفہرست عذیر بلوچ والا معاملہ ہے کہ ملازمین کے احتجاجی جلسوں کے شور میں عذیر بلوچ والا قصہ دب کر رہ گیا ہے۔ پاکستانی ایجنسیوں میں مطلوب افراد میں عذیر بلوچ بہت بڑا ''بھارو'' تھا جسے مبینہ طور پر چھ سات ماہ قبل دبئی سے قابو کیا گیا مگر باوجوہ منظرِ عام پر کافی دیر سے لایا گیا۔
اس شخص کا سینہ بھی ہمارے بڑے بڑے انگنت سیاسی رازوں کا قبرستان ہے۔ کہتے ہیں کہ اس نے تفتیش کے پہلے پلے میں ہی لگ بھگ 400 افراد کے قتل کا اعتراف کر لیا ہے جن میں خالد شہنشاہ کا قتل بھی شامل ہے۔ خالد شہنشاہ بینظیر بھٹو کی حفاظت پرمامور ایک انتہائی پر اسرار اور خطر ناک پارٹی ورکر تھا۔ سنتے ہیں کہ بی بی کے بہیمانہ قتل کے بعد خالد شہنشاہ کو عجیب و غریب خاموشیوں نے گھیر لیا تھا۔
تاہم بعض اوقات جزیات سے مغلوب ہو کر غالباً ٹن حالت میں وہ کچھ ایسا اول فول بھی بکنے لگتا کہ جس میں چند حساس معاملات اور انتہائی اہم شخصیات کے نام بھی آتے تھے۔ ان دنوں اسلام آباد میں برا جمان اہم شخصیت اور اس کے ایک ہمراز وفاقی وزیر نے خالد شہنشاہ کی طرف سے آنے والی اطلاعات پر سخت برہمی کا اظہار کیا مگر شہنشاہ باز نہ آیا۔ چنانچہ ایک دن اُسے ملک عدم روانہ کر دیا گیا۔ اس دن کے بعد بینظیر بھٹو قتل کیس بارے کبھی کوئی قابلِ ذکر بات سننے کو نہیں ملی۔
آج سے تقریباً ایک سال ادھر جب عذیر بلوچ کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا اور دبئی میں اس کا جینا حرام ہوا تو اُسے ایک مبینہ پیغام ملا کہ تمہارے خرچے پانی اور وکیل کیلیے رقم کا بندوبست کر دیا گیا ہے جو چند ہی روز میں ایک پاکستانی ماڈل تمھیں پہنچا دے گی۔ بس پہلی فرصت میں ہی ایران بھاگ جاؤ ورنہ خفیہ ایجنسیاں کسی بھی وقت تمھیں اٹھا لیں گی۔
اب کرنا خدا کا یہ ہوا کہ وہ پاکستانی ماڈل بھی ایئرپورٹ پر پکڑی گئی اور کسٹمز حکام نے اس کا سوٹ کیس وغیرہ پھاڑ کر اس میں سے لاکھوں ڈالر برآمد بھی کر لیے۔ یہ رقم مبینہ طور پر عذیر بلوچ کیلیے جا رہی تھی۔ خیر ماڈل بھی پکڑی گئی اور چند دن بعد ڈاکٹر عاصم بھی ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ دونوں سے تفتیش شروع ہوئی تو مذکورہ ''اہم سیاسی شخصیت'' کی رسوائی کا سامان ٹنوں کے حساب سے نکلنے لگا۔
ڈاکٹر عاصم کے وعدہ معاف گواہ بننے کی باتیں بھی ہونے لگیں اور اس ماڈل کو مذکورہ اہم سیاسی شخصیت کے ساتھ منسوب کیا جانے لگا۔ چنانچہ شخصیت نے شدید جھلاہٹ میں اپنے ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند خطرناک باتیں کہہ ڈالیں۔ ان باتوں میں اسٹیبلشمنٹ کے لیے دھونس بھی تھی اور دھمکی بھی۔ ہر طرف سکتہ طاری ہو گیا مگر اس کی بد نصیبی دیکھیے کہ چند ہی روز بعد ایجنسیوں کے ہتھے عذیر بلوچ چڑھ گیا۔ اب ایک نئے اور کئی گنا زیادہ خطرناک وعدہ معاف گواہ کی باتیں بھی سننے کو مِل رہی ہیں۔ صاحب نے وطن واپس پلٹنا ایک بار پھر موخر کر دیا ہے اور آج کل صبح دوپہر شام کی بنیادوں پر صلح جوئی اور بھائی چارے کی فضیلت بیان کرتے ہیں۔
ادھر پنجاب میں بھی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ نیب اپنا کام پکا کر بیٹھی ہے اہم اطراف کو پنجاب پولیس پر اعتبار نہ پہلے تھا نہ اب ہے۔ اس لیے یہاں بھی رینجرز کو فعال کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ البتہ تختِ لاہور والوں کو ان کے مشیران اعلیٰ آج بھی یہی سمجھا نے کی حتیٰ الوسع کوشش کر رہے ہیں کہ حضورِ والا، ایسا ہرگز مت ہونے دیجیے گا ورنہ آپ کے گڑھے مردے بھی خواہ مخواہ اکھڑنے لگیں گے، وغیرہ وغیرہ۔
پنجاب میں کرپشن کے خلاف متوقع آپریشن کی چاپ ہم کافی دنوں سے سن رہے ہیں مگر ہمارے خوش گمان مخبر کا کہنا ہے کہ یہ کارِ خیر اسی مہینے یعنی فروری میں ہی شروع ہونے والا ہے۔ مگر سیاسی ہیوی ویٹ قوتوں کا باہمی پیار محبت دیکھیے کہ پنجاب والوں نے عذیر بلوچ کے حوالے سے کوئی چھوٹی سی بات بھی منہ سے نہیں نکالی کہ جو سندھ اور دبئی والے دوستوں کو ناگوار گزرے اور نہ ہی اب سندھ اور دبئی والوں کی طرف سے پنجاب میں کراچی جیسے آپریشن کی بات سننے کو ملتی ہے۔ بیچارہ اکیلا چوہدری نثار کیا کرے یہاں تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہو اہے ، ہیں جی؟