ایسے ہی ہوتے ہیں لاہوریے
پھر فلم کی نمائش پر سینماؤں پر جس انداز سے چھوٹے بڑے پوسٹر لگائے جاتے تھے
وہ بھی کیا دن ہوتے تھے جب کوئی نئی فلم کسی سینما پر لگتی تھی، وہ جمعے کا دن ہوتا تھا اور جمعرات کی رات نئی فلم کے سینما کی فرنٹ سائیڈ پر مذکورہ فلم کے رنگین بڑے بڑے پوسٹر آویزاں کیے جاتے تھے اور بعض پوسٹر تو قد آدم ہوا کرتے تھے اور فلم بین فلم دیکھنے سے پہلے فلم کے پوسٹر دیکھنے کے لیے جوق درجوق اس سینما کا رخ کیا کرتے تھے اور یہ پوسٹر بھی اس دور کی ایک تفریح ہوتے تھے۔
نہ کوئی دنگا نہ فساد اور نہ آج کی طرح کسی قسم کی دہشت گردی کا تصور ہوا کرتا تھا، کراچی کی ثقافتی زندگی کا ایک یہ بھی رنگ ہوا کرتا تھا کہ پچھلے دنوں جب میں نیو جرسی سے کراچی گیا تھا تو میں قائد اعظم کے مزار سے بندر روڈ، ریڈیو پاکستان تک پیدل گیا تھا اور ان جگہوں کو دیکھ رہا تھا، جہاں ناز سینما، نشاط سینما اور سیلون سینما ہوا کرتا تھا اس لمبی سڑک سے پیدل گزرتے ہوئے میں کچھ دیر کے لیے ماضی میں کھوگیا تھا۔
میں وہ دن آج تک نہیں بھولا ہوں جب ناز سینما پر ہندوستان کے لیجنڈ ہیرو دلیپ کمار کی رنگین فلم ''آن'' نمائش کے لیے پیش ہوئی تھی، میں اپنے بچپن کے ایک دوست کے ساتھ ناز سینما پر فلم آن کے شاندار پوسٹر دیکھنے کے لیے گیا تھا، دلیپ کمار اور فلم کی ہیروئن نادرہ کے بڑے بڑے پوسٹر دلچسپ انداز کے ساتھ ناز سینما پر لگے ہوئے تھے اور فلم کے پوسٹر دیکھنے کے لیے فلم بینوں کی ایک بھیڑ لگی ہوئی تھی،اس زمانے میں کراچی میں فلموں کے پوسٹر بنانے والے وزیر آرٹس کی بڑی دھوم تھی اور وہ بھی فلموں کی کامیابی کا حصہ ہوتا تھا۔
اسی طرح نشاط سینما میں فلم ''چھوٹے صاحب'' اور ''سوئے ندیاں جاگے پانی'' کے شاندار اور خوبصورت پوسٹرز کا حسن آج بھی میری آنکھوں کو محسوس ہوتا ہے، جب میں کراچی چھوڑ کر لاہور گیا تو فلموں کے پوسٹرزکا رواج کراچی سے زیادہ وہاں بڑے عروج پر تھا، وہاں کا ایک پورا علاقہ جسے لکشمی چوک کہا جاتا ہے وہ سارا کا سارا فلم پروڈکشن اور فلم تقسیم کار اداروں کے دفتروں کی آماجگاہ تھا اور اس علاقے میں ہر طرف پوسٹرز ہی پوسٹرز نظر آتے تھے۔
پھر فلم کی نمائش پر سینماؤں پر جس انداز سے چھوٹے بڑے پوسٹر لگائے جاتے تھے وہ بھی بڑے کمال کے ہوتے تھے، وہ دور ایکشن ہیرو سدھیر اور سلطان راہی، مصطفی قریشی، آسیہ اور انجمن کا دور تھا وہ دور صبیحہ خانم، سنتوش کمار، نیئر سلطانہ اور درپن کا وہ دور تھا پھر اسی دوران شمیم آرا، شبنم، رانی، محمد علی، ندیم اور وحید مراد کے چرچے بھی شروع ہوگئے تھے اور فلم کے پوسٹرز کا حسن اور دوبالا ہوتا جا رہا تھا۔
پہلے شوکا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے فلم بینوں کا شوق اور لگن دیدنی ہوتی تھی، ونڈوکے سامنے لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی تھیں جب ٹکٹ کے لیے ونڈو کھلتی تھیں تو ٹکٹ حاصل کرنے والوں کا رش ایک طوفان اور ایک تلاطم کی شکل اختیار کرلیتا تھا بعض دیوانے تو لوگوں کے کاندھوں کو سیڑھی سمجھتے اور دھکم پیل کی صورت میں آگے بڑھتے ہوئے ونڈو تک پہنچ جاتے تھے اور ہر شخص نئی فلم کے ٹکٹ پہلے لینے کے لیے تگ و دو میں مصروف نظر آتا تھا اور یہ بھی لاہورکی ثقافتی زندگی کا ایک دلکش رنگ تھا، لاہوریوں کے بارے میں یہ بات بھی بڑی مشہور ہے کہ وہ نئی فلم کے پہلے دن اور پہلا شو دیکھنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں آگے آگے ہوتے ہیں اور فلمیں دیکھنے اور اپنے من پسند کھانے کھانے میں بھی پیش پیش ہوتے ہیں۔
شاندار، مزیدار کھابے شابے بنانے اورکھانے میں ان کا کہیں کوئی مقابلہ نہیں ہے، محبت اور ملنساری بھی لاہوریوں کی ایک پہچان ہے اور یہ پہچان بھی لاہور اور پنجاب کے حصے میں آتی ہے۔لاہوریے ایک بار جس سے اپنا تعلق جوڑ لیتے ہیں پھر وہ تعلق زندگی کے آخری سانسوں تک قائم رکھتے ہیں۔
جبھی تو لاہور کے بارے میں سارے برصغیر میں مشہور ہے کہ جس نے لاہور نہیں ویکھیا او جمیا ای نیئں اور لاہوریوں کی ایک روایتی شناخت یہ بھی ہے کہ مہمان نوازی اور خاطر داری میں یہ اپنی مثال آپ ہیں چاہے پلے کوڑی نہ ہو، پھر بھی کہیں سے جوڑ توڑ کرکے بھی مہمان نوازی کی رسم کو ادا کرنے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں، میں بھی لاہور میں رہنے کے دوران اس انداز کی مہمان نوازی اور خاطر داری کا خود بھی چشم دید گواہ ہوں۔
لاہور کے فلمی ہفت روزہ اخبار فلم کے مالک و ایڈیٹر اصغر چوہدری کے چھوٹے بھائی انور چوہدری کی لاہور کے مشہور فلم پوسٹر میکر اقبال آرٹسٹ سے بڑے اچھی دوستی تھی، میری انور چوہدری کے ساتھ بھی گہری دوستی ہوچکی تھی، اس کے ساتھ میری پہلی ملاقات لاہور کے نامور اقبال آرٹسٹ سے ہوئی تھی، اقبال آرٹس کے فلموں کے پوسٹرز فلم انڈسٹری کی جان ہوتے تھے اور اس کے رنگین اور شاندار پوسٹر کسی بھی فلم کی کامیابی کے لیے اپنا ایک الگ کردار ادا کرتے تھے، ان دنوں لاہور میں اقبال آرٹسٹ کا بڑا نام تھا۔
اس زمانے میں لاہور کی بیشتر فلموں کے پوسٹر اقبال آرٹسٹ کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہوتے تھے، جمعرات کی رات لاہور کا ہر وہ سینما جس پر نئی فلم کی نمائش کی جاتی تھی سیکڑوں فلم بینوں کی توجہ اور دلچسپی کا مرکز بن جاتا تھا، بعض منچلے فلم کے پوسٹرز دیکھ کر ہی نئی فلم کی کامیابی کی پیش گوئیاں شروع کردیتے تھے، فلم کے خوبصورت پوسٹرز سے فلم کا حسن کچھ اور بڑھ جاتا تھا، اقبال آرٹسٹ کے ہنر اور اس کے کام کی سارے لاہور میں بڑی دھوم تھی۔
لکشمی چوک ہی میں اقبال آرٹسٹ کا دفتر تھا، میں اور انور چوہدری ہر دوسرے تیسرے روز اقبال آرٹسٹ سے ملنے جایا کرتے تھے اس کے آفس میں فلمسازوں، ہدایت کاروں کے علاوہ کبھی کبھی مشہور آرٹسٹ بھی نظر آجاتے تھے، کبھی کبھی یوں بھی ہوتا تھا کہ میں اکیلا ہی اقبال آرٹسٹ کے دفتر چلا گیا اور پھر وہاں شعر و ادب کے ساتھ سیف الدین سیف، قتیل شفائی اور منیر نیازی کے مشہور گیتوں کے تذکرے بھی چھڑ جاتے تھے۔
یہ ایک دن کا بڑا دلچسپ واقعہ ہے مجھے شام کو معمول کے مطابق روزانہ ہی 5 بجے کے بعد اسٹوڈیوزکی طرف جانا ہوتا تھا اور میں ایک دن ناشتہ کرنے کی غرض سے لکشمی چوک گیا وہاں چائے اور نان کے ساتھ ناشتہ کیا پھر برابر ہی کی دکان سے زعفرانی کشمیری چائے پی اور کچھ وقت گزارنے کے لیے اقبال آرٹسٹ کے دفتر چلا گیا۔ اقبال آرٹسٹ مجھے صبح ہی صبح دیکھ کر بڑا خوش ہوا بڑی محبت سے پیش آیا، اپنی آنے والی چند نئی فلموں کے پوسٹرز کا پیپر ورک دکھاتا رہا اسی دوران چائے آگئی میں نے کہا چائے تو میں نے ناشتہ کے ساتھ پی لی تھی وہ بولا کوئی بات نہیں ایک چائے اور سہی پھر چائے کے دوران لاہور فلم انڈسٹری کی باتیں ہوتی رہیں۔
ایک سے تین تک کس ہیرو اور کس ہیروئن کا نمبر عوام میں مشہور ہے اس قسم کے تذکرے بھی ہوتے رہے اور اس طرح دو ڈھائی گھنٹے گزرگئے میں نے اقبال آرٹسٹ سے جانے کی اجازت چاہی تو وہ بولا، ابھی کیسے جاؤگے آدھے گھنٹے کے بعد گھر سے کھانا آنے والا ہے، ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیںگے۔ تم روز ہوٹل کا کھانا کھاتے ہو آج ایک آرٹسٹ کے گھر کا کھانا کھاؤگے، سچ کہتاہوں انگلیاں چاٹتے رہ جاؤگے۔ میں اس کی محبت کے آگے کچھ بول نہ سکا۔ پھر اس کا گھر سے کھانا آگیا میں نے اقبال آرٹسٹ اور اس کے دو اسسٹنٹ نے مل کر دوپہر کا کھانا کھایا، واقعی وہ کھانا بہت ہی لذیذ تھا اور پھر ایک میرے لیے نئی ڈش مکئی کی روٹی، سرسوں کا ساگ اور خالص مکھن کا جوڑ کیا بات تھی اس ڈش کا مزہ ہی لاجواب تھا۔
جو میرے لیے بالکل نیا تھا کھانا کھانے کے کچھ دیر بعد میں نے اقبال آرٹسٹ سے پھر جانے کی اجازت چاہی تو وہ بڑے پیار سے کہنے لگا۔'' اوئے یار ہمدم تونے تو شام کے بعد ہی ایورنیو اسٹوڈیو جانا ہوتا ہے اس وقت باہر کڑی دھوپ ہے کڑی دھوپ اور بس کا سفر بول یار یہ ایئرکنڈیشن کمرہ تجھے برا لگ رہا ہے گھنٹہ دو گھنٹے ٹھنڈک میں بیٹھا رہ پھر شام کی دودھ پتی والی چائے کا وقت ہوجائے گا، شام کی چائے پیتے ہی نکل جانا، شام بھی ٹھنڈی ہوجائے گی اور پھر اس کی محبت اور دوستی نے شام کی چائے تک روکے رکھا، ہم سب نے شام کی چائے پی اور پھر میں نے اقبال آرٹسٹ کی محبت اور خلوص کو سلام کیا اور اس کے دفتر سے نکل کر بس پکڑی اور سیدھا ایورنیو اسٹوڈیو پہنچ گیا، آج بھی وہ ملاقاتیں مجھے یاد ہیں، ایسے ہی ہوتے ہیں لاہوریے اور ایسی ہی ہوتی ہے ان کی دوستی۔
نہ کوئی دنگا نہ فساد اور نہ آج کی طرح کسی قسم کی دہشت گردی کا تصور ہوا کرتا تھا، کراچی کی ثقافتی زندگی کا ایک یہ بھی رنگ ہوا کرتا تھا کہ پچھلے دنوں جب میں نیو جرسی سے کراچی گیا تھا تو میں قائد اعظم کے مزار سے بندر روڈ، ریڈیو پاکستان تک پیدل گیا تھا اور ان جگہوں کو دیکھ رہا تھا، جہاں ناز سینما، نشاط سینما اور سیلون سینما ہوا کرتا تھا اس لمبی سڑک سے پیدل گزرتے ہوئے میں کچھ دیر کے لیے ماضی میں کھوگیا تھا۔
میں وہ دن آج تک نہیں بھولا ہوں جب ناز سینما پر ہندوستان کے لیجنڈ ہیرو دلیپ کمار کی رنگین فلم ''آن'' نمائش کے لیے پیش ہوئی تھی، میں اپنے بچپن کے ایک دوست کے ساتھ ناز سینما پر فلم آن کے شاندار پوسٹر دیکھنے کے لیے گیا تھا، دلیپ کمار اور فلم کی ہیروئن نادرہ کے بڑے بڑے پوسٹر دلچسپ انداز کے ساتھ ناز سینما پر لگے ہوئے تھے اور فلم کے پوسٹر دیکھنے کے لیے فلم بینوں کی ایک بھیڑ لگی ہوئی تھی،اس زمانے میں کراچی میں فلموں کے پوسٹر بنانے والے وزیر آرٹس کی بڑی دھوم تھی اور وہ بھی فلموں کی کامیابی کا حصہ ہوتا تھا۔
اسی طرح نشاط سینما میں فلم ''چھوٹے صاحب'' اور ''سوئے ندیاں جاگے پانی'' کے شاندار اور خوبصورت پوسٹرز کا حسن آج بھی میری آنکھوں کو محسوس ہوتا ہے، جب میں کراچی چھوڑ کر لاہور گیا تو فلموں کے پوسٹرزکا رواج کراچی سے زیادہ وہاں بڑے عروج پر تھا، وہاں کا ایک پورا علاقہ جسے لکشمی چوک کہا جاتا ہے وہ سارا کا سارا فلم پروڈکشن اور فلم تقسیم کار اداروں کے دفتروں کی آماجگاہ تھا اور اس علاقے میں ہر طرف پوسٹرز ہی پوسٹرز نظر آتے تھے۔
پھر فلم کی نمائش پر سینماؤں پر جس انداز سے چھوٹے بڑے پوسٹر لگائے جاتے تھے وہ بھی بڑے کمال کے ہوتے تھے، وہ دور ایکشن ہیرو سدھیر اور سلطان راہی، مصطفی قریشی، آسیہ اور انجمن کا دور تھا وہ دور صبیحہ خانم، سنتوش کمار، نیئر سلطانہ اور درپن کا وہ دور تھا پھر اسی دوران شمیم آرا، شبنم، رانی، محمد علی، ندیم اور وحید مراد کے چرچے بھی شروع ہوگئے تھے اور فلم کے پوسٹرز کا حسن اور دوبالا ہوتا جا رہا تھا۔
پہلے شوکا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے فلم بینوں کا شوق اور لگن دیدنی ہوتی تھی، ونڈوکے سامنے لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی تھیں جب ٹکٹ کے لیے ونڈو کھلتی تھیں تو ٹکٹ حاصل کرنے والوں کا رش ایک طوفان اور ایک تلاطم کی شکل اختیار کرلیتا تھا بعض دیوانے تو لوگوں کے کاندھوں کو سیڑھی سمجھتے اور دھکم پیل کی صورت میں آگے بڑھتے ہوئے ونڈو تک پہنچ جاتے تھے اور ہر شخص نئی فلم کے ٹکٹ پہلے لینے کے لیے تگ و دو میں مصروف نظر آتا تھا اور یہ بھی لاہورکی ثقافتی زندگی کا ایک دلکش رنگ تھا، لاہوریوں کے بارے میں یہ بات بھی بڑی مشہور ہے کہ وہ نئی فلم کے پہلے دن اور پہلا شو دیکھنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں آگے آگے ہوتے ہیں اور فلمیں دیکھنے اور اپنے من پسند کھانے کھانے میں بھی پیش پیش ہوتے ہیں۔
شاندار، مزیدار کھابے شابے بنانے اورکھانے میں ان کا کہیں کوئی مقابلہ نہیں ہے، محبت اور ملنساری بھی لاہوریوں کی ایک پہچان ہے اور یہ پہچان بھی لاہور اور پنجاب کے حصے میں آتی ہے۔لاہوریے ایک بار جس سے اپنا تعلق جوڑ لیتے ہیں پھر وہ تعلق زندگی کے آخری سانسوں تک قائم رکھتے ہیں۔
جبھی تو لاہور کے بارے میں سارے برصغیر میں مشہور ہے کہ جس نے لاہور نہیں ویکھیا او جمیا ای نیئں اور لاہوریوں کی ایک روایتی شناخت یہ بھی ہے کہ مہمان نوازی اور خاطر داری میں یہ اپنی مثال آپ ہیں چاہے پلے کوڑی نہ ہو، پھر بھی کہیں سے جوڑ توڑ کرکے بھی مہمان نوازی کی رسم کو ادا کرنے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں، میں بھی لاہور میں رہنے کے دوران اس انداز کی مہمان نوازی اور خاطر داری کا خود بھی چشم دید گواہ ہوں۔
لاہور کے فلمی ہفت روزہ اخبار فلم کے مالک و ایڈیٹر اصغر چوہدری کے چھوٹے بھائی انور چوہدری کی لاہور کے مشہور فلم پوسٹر میکر اقبال آرٹسٹ سے بڑے اچھی دوستی تھی، میری انور چوہدری کے ساتھ بھی گہری دوستی ہوچکی تھی، اس کے ساتھ میری پہلی ملاقات لاہور کے نامور اقبال آرٹسٹ سے ہوئی تھی، اقبال آرٹس کے فلموں کے پوسٹرز فلم انڈسٹری کی جان ہوتے تھے اور اس کے رنگین اور شاندار پوسٹر کسی بھی فلم کی کامیابی کے لیے اپنا ایک الگ کردار ادا کرتے تھے، ان دنوں لاہور میں اقبال آرٹسٹ کا بڑا نام تھا۔
اس زمانے میں لاہور کی بیشتر فلموں کے پوسٹر اقبال آرٹسٹ کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہوتے تھے، جمعرات کی رات لاہور کا ہر وہ سینما جس پر نئی فلم کی نمائش کی جاتی تھی سیکڑوں فلم بینوں کی توجہ اور دلچسپی کا مرکز بن جاتا تھا، بعض منچلے فلم کے پوسٹرز دیکھ کر ہی نئی فلم کی کامیابی کی پیش گوئیاں شروع کردیتے تھے، فلم کے خوبصورت پوسٹرز سے فلم کا حسن کچھ اور بڑھ جاتا تھا، اقبال آرٹسٹ کے ہنر اور اس کے کام کی سارے لاہور میں بڑی دھوم تھی۔
لکشمی چوک ہی میں اقبال آرٹسٹ کا دفتر تھا، میں اور انور چوہدری ہر دوسرے تیسرے روز اقبال آرٹسٹ سے ملنے جایا کرتے تھے اس کے آفس میں فلمسازوں، ہدایت کاروں کے علاوہ کبھی کبھی مشہور آرٹسٹ بھی نظر آجاتے تھے، کبھی کبھی یوں بھی ہوتا تھا کہ میں اکیلا ہی اقبال آرٹسٹ کے دفتر چلا گیا اور پھر وہاں شعر و ادب کے ساتھ سیف الدین سیف، قتیل شفائی اور منیر نیازی کے مشہور گیتوں کے تذکرے بھی چھڑ جاتے تھے۔
یہ ایک دن کا بڑا دلچسپ واقعہ ہے مجھے شام کو معمول کے مطابق روزانہ ہی 5 بجے کے بعد اسٹوڈیوزکی طرف جانا ہوتا تھا اور میں ایک دن ناشتہ کرنے کی غرض سے لکشمی چوک گیا وہاں چائے اور نان کے ساتھ ناشتہ کیا پھر برابر ہی کی دکان سے زعفرانی کشمیری چائے پی اور کچھ وقت گزارنے کے لیے اقبال آرٹسٹ کے دفتر چلا گیا۔ اقبال آرٹسٹ مجھے صبح ہی صبح دیکھ کر بڑا خوش ہوا بڑی محبت سے پیش آیا، اپنی آنے والی چند نئی فلموں کے پوسٹرز کا پیپر ورک دکھاتا رہا اسی دوران چائے آگئی میں نے کہا چائے تو میں نے ناشتہ کے ساتھ پی لی تھی وہ بولا کوئی بات نہیں ایک چائے اور سہی پھر چائے کے دوران لاہور فلم انڈسٹری کی باتیں ہوتی رہیں۔
ایک سے تین تک کس ہیرو اور کس ہیروئن کا نمبر عوام میں مشہور ہے اس قسم کے تذکرے بھی ہوتے رہے اور اس طرح دو ڈھائی گھنٹے گزرگئے میں نے اقبال آرٹسٹ سے جانے کی اجازت چاہی تو وہ بولا، ابھی کیسے جاؤگے آدھے گھنٹے کے بعد گھر سے کھانا آنے والا ہے، ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیںگے۔ تم روز ہوٹل کا کھانا کھاتے ہو آج ایک آرٹسٹ کے گھر کا کھانا کھاؤگے، سچ کہتاہوں انگلیاں چاٹتے رہ جاؤگے۔ میں اس کی محبت کے آگے کچھ بول نہ سکا۔ پھر اس کا گھر سے کھانا آگیا میں نے اقبال آرٹسٹ اور اس کے دو اسسٹنٹ نے مل کر دوپہر کا کھانا کھایا، واقعی وہ کھانا بہت ہی لذیذ تھا اور پھر ایک میرے لیے نئی ڈش مکئی کی روٹی، سرسوں کا ساگ اور خالص مکھن کا جوڑ کیا بات تھی اس ڈش کا مزہ ہی لاجواب تھا۔
جو میرے لیے بالکل نیا تھا کھانا کھانے کے کچھ دیر بعد میں نے اقبال آرٹسٹ سے پھر جانے کی اجازت چاہی تو وہ بڑے پیار سے کہنے لگا۔'' اوئے یار ہمدم تونے تو شام کے بعد ہی ایورنیو اسٹوڈیو جانا ہوتا ہے اس وقت باہر کڑی دھوپ ہے کڑی دھوپ اور بس کا سفر بول یار یہ ایئرکنڈیشن کمرہ تجھے برا لگ رہا ہے گھنٹہ دو گھنٹے ٹھنڈک میں بیٹھا رہ پھر شام کی دودھ پتی والی چائے کا وقت ہوجائے گا، شام کی چائے پیتے ہی نکل جانا، شام بھی ٹھنڈی ہوجائے گی اور پھر اس کی محبت اور دوستی نے شام کی چائے تک روکے رکھا، ہم سب نے شام کی چائے پی اور پھر میں نے اقبال آرٹسٹ کی محبت اور خلوص کو سلام کیا اور اس کے دفتر سے نکل کر بس پکڑی اور سیدھا ایورنیو اسٹوڈیو پہنچ گیا، آج بھی وہ ملاقاتیں مجھے یاد ہیں، ایسے ہی ہوتے ہیں لاہوریے اور ایسی ہی ہوتی ہے ان کی دوستی۔