بوڑھوں کا دیس
انسان عمر سے نہیں بلکہ فکر سے بوڑھا ہوتا ہے اسی لیے آج پاکستان میں سب بوڑھے رہتے ہیں
ISLAMABAD:
انسان عمر سے نہیں بلکہ فکر سے بوڑھا ہوتا ہے اسی لیے آج پاکستان میں سب بوڑھے رہتے ہیں ۔آئیں بوڑھوں کی باتیں کرتے ہیں ، ہم یہاں کیوں ہیں ؟ ہر شخص چاہے وہ تسلیم کرے نہ کرے اسے اس سوال کا سامنا ہے ہم اس لیے یہاں ہیں کیوں کہ ہم نے خود کو اور چیزوں کو ہمیشہ دوسروں کی نگاہوں سے دیکھا ہے نہ کہ اپنی نگاہوں سے ۔ سپنسرکہتا ہے ''میں نے چیزوں کو صرف اورصرف اپنی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے نہ کہ دوسروں کی '' لہذا آج ہم جس حال میں ہیں ۔
اس کے لیے ہم کسی دوسرے کو مورد الزام نہیں ٹہرا سکتے اس لیے کہ دوسروں نے ہمیشہ ہمیں ان کے مفادات کی عینک لگا کر دیکھا ہے اس لیے وہ کبھی وہ دیکھ ہی نہ پائے جو ہم روز دیکھتے ہیں اوون کا عقیدہ تھا کہ ''انسان کے لیے کردار بنایا جاتا ہے وہ خود نہیں بناتا '' بنانے والا وہ ہی کچھ بنائے گا جو وہ چاہے گا، میں پاکستان کے 20 کروڑ انسانوں میں سے ایک ہوں، آج میں اپنے آپ کو اپنی نگاہوں سے دیکھتا ہوں اورآپ کو دکھاتا ہوں کہ میں کس حال میں ہوں سب سے پہلے میں بحیثیت انسان ان بنیادی ضروریا ت کا جائزہ لیتا ہوں جن کے بغیر میں زندہ نہیں رہ سکتا اور جن کو پورا کرنا ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے۔
(1)گھر۔ انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے مجھ سمیت ملک کے 80 فیصد لوگوں کے پاس اپنا ذاتی گھر نہیں ہے ، ہم سب کرایوں کے گھروں میں رہتے ہیں اور جن کاکرایہ مشکل سے ہی ادا کرپاتے ہیں، جس کے لیے ہم اپنے آپ سے شرمندہ ہیں۔
(2) روزگار۔ ہم 20 کروڑ لوگوںکی اکثریت چھوٹے چھوٹے ٹھیلے لگاتی ہے، رکشہ چلاتی ہے مزدوری کرتی ہے دکانوں پرکام کرتی ہے کوئی دھوبی ہے توکوئی موچی ہے توکسی کی سگریٹ اور پان کی کیبن ہے توکوئی کھیتوں میں کام کرتا ہے کوئی درزی ہے توکوئی چپڑاسی ہے یہ سب بمشکل اپنا اوراپنوں کا پیٹ بھر پاتے ہیں اور ساتھ ساتھ ایک چھوٹی سی تعداد سرکاری ملازمین کی بھی ہے جو ایک گریڈ سے لے کر سات گریڈ تک کے ہیں اور باقی کروڑوں بے روزگاروں کی ایک فوج ہے جو روزگار کے لیے ماری ماری پھررہی ہے ۔
(3) صحت ۔ ہماری اکثریت اطائی ڈاکٹروں ، ہومیو پیتھک اورحکیموں سے علاج کروانے پر مجبور و بے بس ہیں یا پھر سرکاری اسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور ہیں۔
(4) ٹرانسپورٹ۔ لوگوں کی اکثریت پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتی ہے اور جس حال میں سفر کرتی ہے مت پوچھو ، باقی لوگوں کے پاس یا تو ذاتی سائیکل ہے یا پھرموٹر سائیکل جن کی قسطیں ابھی تک جا رہی ہیں۔
(5)بجلی ۔ دن رات ہم سے روٹھی رہتی ہے، جب بھی آتی ہے تو اتنی جلدی میں ہوتی ہے کہ ہم ٹھیک سے اسے دیکھ بھی نہیں پاتے ہیں ۔
(6) پانی ۔ ملک کی 80 فیصد آبادی پانی پی کر ہیپاٹائٹس B.C کی مریض ہوچکی ہے ۔
(7) تعلیم ۔ ہمارے بچے پیلے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں اور چپڑاسی بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ اور انھیں یہ اچھی طرح سے معلوم ہے کہ یہ خواب خواب ہی رہیں گے ۔
(8) گوشت ۔ جس کی شکل دیکھے نجانے کتنے سال بیت چکے ہیں ۔
(9) سبزیاں ۔ جو آہستہ آہستہ ہمارے ہاتھ کی پہنچ سے سرکتی جا رہی ہیں ۔
اب آئیے ان گرو پس کا ذکر کرتے ہیں جو تعداد کے لحاظ سے چند ہزار ہیں لیکن جنہوں نے ملک کے 20 کروڑ انسانوں کو یرغمال بنا رکھاہے اور جن کی طاقت ، اختیار ، قوت ، روپوں پیسوں کے آگے 20کروڑ انسان بے بس ولاچار بنے ہوئے ہیں ۔
پہلا گروپ ۔یہ گروپ سرمایہ داروں ، جاگیرداروں ، بزنس مینوں، وڈیروں، سرداروں اور سیاست دانوں پر مشتمل ہے خیال رہے ان سب کا آپس میں گہرا تعلق،گہرا رشتہ اور اتحاد ہے ان سب کی ایک دوسرے کے ساتھ رشتے داریاں قائم ہیں اوریہ سب ایک دوسرے کے مفادات کا مکمل خیال رکھتے ہیں یہ گروپ ریاستی اداروں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔
تمام ریاستی ادارے ہمیشہ ان کے زیر اثر رہتے ہیں کیونکہ ہر حکومت ان کے گھروں میں ہی پروان چڑھتی ہے اوریہ ہر حکومت میں کلیدی عہدوں پرفائز رہتے ہیں ، ان کی مرضی ومنشا کے خلاف ایوانوں میں پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا ۔ان کی اولاد ملک کی تمام اعلیٰ پوسٹوںپر قابض ہیں۔ جب سے پاکستان بنا ہے ان کے اقتدار کا سورج آج تک غروب نہیں ہوپایا ہے اورآج تک اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہا ہے، ان کے خلاف کھڑاہونا توبہت دورکی بات ہے سوچنا بھی جرم کے زمرے میں آتا ہے ۔
دوسرا گروپ ۔ اس گروپ میں پیر، ملا ، مولوی اور مذہبی رہنما شامل ہیں، اس گروپ نے بھی پاکستانی سماج کو اتنی خوبصورتی سے اپنے شکنجے میں ایسا جکڑا ہے جس کی مثال صدیوں پہلے یورپ میں نظر آتی تھیں ان سب کا سب سے بڑا ہتھیار مذہب ہے اور جب پاکستانی سماج میں مذہب کا نام لے لیا جاتا ہے تو سوال، اختلاف کے تمام دروازے خودبخود بند ہو جاتے ہیں ۔ ان کے خلاف خواب میں سوچنے والوں کو بھی فتوؤں کا تحفہ مل جاتاہے اس لیے ان پر جتنی کم بات کی جائے بہترہے ۔
تیسرا گروپ۔ یہ گروپ ملک کی بیوروکریسی پر مشتمل ہے یہ گروپ آزادی کے پہلے ہی روز سے ملک کا اصل حکمران بنا ہوا ہے اورآج تک اس کی حکمرانی چیلنج تک نہیں ہوسکی ۔ اس لیے لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان بیوروکریسی کے لیے جنت ثابت ہوا ہے ۔ا ب ہم ان تینوں گروپس کے لوگوں کی زندگیوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کس طرح اورکس انداز میں گذار رہے ہیں ۔
(1) گھر ۔ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ان کے گھر جو اصل میں محلات ہیں موجود ہیں اور ان گھروں میں نوکروں کی پوری فوج بھی موجود ہے جو ان حضرات کی خدمت میں جتی رہتی ہے ۔
(2) روزگار ۔ان حضرات کے ایک نہیں بلکہ لاتعداد ذریعہ آمدنی ہیں ان کے پاس کتنے پیسے ، ہیرے ،جواہرت موجود ہیں انھیں خود نہیں معلوم ۔ ان کا طرز زندگی کسی بھی صورت میں بادشاہوں سے کم نہیں ہے (3 ) صحت ۔ ملک کا بڑے سے بڑا ڈاکٹر چوبیس گھنٹے ان کی خدمت کے لیے بے تاب رہتا ہے یہ حضرات کھانسی، زکام تک کاعلاج باہرکے ملکوں میں کرواتے ہیں ۔ اسی بہانے یہ وہ ملک بھی گھوم لیتے ہیں (4) ٹرانسپورٹ ۔ کاروں اوربڑی بڑی گاڑیوں کی قطاریں ان کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔
یہ حضرات اگرکسی کام سے کسی آفس میں جائیں تو تمام گاڑیاں اسٹارٹ کھڑی ہوئی ہوتی ہیں اور ان کے ایئرکنڈیشنر بھی آن رہتے ہیں ان کے نوکروں تک کے پاس گاڑیاں ہیں (5) بجلی ۔ ان کے تمام گھروں میں اسٹینڈ بائی جنریٹرز لگے ہوئے ہیں۔ اس لیے انھیں نہیں معلوم کہ لوڈشیڈنگ کا عذاب کیساہوتا ہے ۔ (6) پانی ۔یہ اور ان کے گھر والے سب منرل واٹر پیتے ہیں (7) تعلیم ۔ان کی اولادیں نہ صرف ملک میں بلکہ غیر ملکوں کے اعلیٰ ترین اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہی ہیں گوشت ۔ ان کے دسترخوان کی ڈشیں گننی نہیں جاسکتی ہیں (8) سبزیاں یہ کیا ہوتی ہیں انھیں نہیں معلوم ۔ اکثر میں یہ سوچتاہوں کہ اب یہ سب باتیں کرنے کا کیا فائدہ اب جب کہ ہم 20 کروڑ لوگ بوڑھے ہوچکے ہیں۔