پی آئی اے کے بعد پاکستان اسٹیل کا بحران بھی بے قابو ہونے کا خدشہ
اربوں روپے خسارے کا شکار پاکستان اسٹیل کی صورتحال بھی تیزی سے بگڑ رہی ہے
KARACHI:
نجکاری منصوبے کی حکومتی کشتی میں ایک اور سوراخ سے پانی بھررہا ہے، اربوں روپے خسارے کا شکار پاکستان اسٹیل کی صورتحال بھی تیزی سے بگڑ رہی ہے، قومی ایئرلائن کی نجکاری کے خلاف ملازمین کی سخت مزاحمت اور سرکاری ایکشن کے باعث امن و امان کے مسائل پیدا ہونے کے بعد اب پاکستان اسٹیل کا بحران بھی بے قابو ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
جون سے کی جانے والی گیس کی بندش کے سبب پیداوار پہلے ہی بند پڑی ہے تاہم اب بلوں کی ادائیگی کے لیے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے پانی اور بجلی بھی بند ہونے کا خطرہ ہے، پانی و بجلی کی بندش سے پلانٹ کے علاوہ گلشن حدید کی 50ہزار سے زائد آبادی بھی متاثر ہوگی جس کے سڑکوں پر آنے کی صورت میں وفاقی حکومت کے لیے نج کاری منصوبہ جاری رکھنا محال ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اسٹیل مالیاتی اور انتظامی بحران کی انتہا پر پہنچ گیا ہے، خسارے اور واجبات کی مجموعی مالیت 370 ارب روپے کی سطح تک پہنچ چکی ہے تاہم اس قومی اثاثے کو بدترین حالت تک پہنچانے والے افراد کا کوئی احتساب نہیں کیا گیا، انتظامیہ اور بورڈ آف ڈائریکٹرز مسائل پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہیں، اس کے باوجود وفاقی وزارت صنعت و پیداوار خاموش تماشائی کاکردار ادا کررہی ہے۔
پاکستان اسٹیل کے ذرائع کے مطابق پانی، بجلی اور گیس کے کم پریشر کے باوجود یوٹیلٹیز، لبریکنٹس، میڈیکل، ریپیئر اینڈ مینٹی نینس، ٹرانسپورٹ اور کینٹین سمیت متفرق اخراجات کی مد میں 30 کروڑ روپے ماہانہ درکار ہیں، اب تک یہ اخراجات پاکستان اسٹیل کے پاس موجود تیار مصنوعات کے اسٹاک کی فروخت سے حاصل کیے جا رہے تھی تاہم تیار مصنوعات کا یہ اسٹاک اب ختم ہوچکا ہے اور تنخواہوں کے ساتھ 30کروڑ روپے کے عمومی اخراجات کا بوجھ بھی حکومت کو برداشت کرنا ہو گا بصورت دیگر پاکستان اسٹیل کو گیس کے ساتھ پانی اور بجلی کی سپلائی بھی بند ہوجائے گی۔
اسٹاف کو لانے لے جانے کے لیے استعمال ہونے والی ٹرانسپورٹ کا پہیہ جام ہوجائے گا، میڈیکل اور کینٹین کی سہولت بند ہونے کے بعد ادارے کے ملازمین کو سنبھالنا انتظامیہ کے بس سے بھی باہر ہوگا۔ نجکاری کمیشن نے پاکستان اسٹیل کو ایک سخت انتباہی خط 14جنوری 2016کو جاری کیا جس میں 9ارب روپے کی تیار مصنوعات میں سے 4ارب روپے کی مصنوعات کی فروخت اور اس سے حاصل آمدنی خرچ کیے جانے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے وفاقی حکومت کی تشویش ظاہر کرتے ہوئے آئندہ کوئی بھی مال نجکاری کمیشن کی اجازت کے بغیر فروخت نہ کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔
''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویزات کے مطابق پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ کی جانب سے نجکاری کمیشن کے اعتراض اور سخت ہدایات کے باوجود فروخت کا سلسلہ جاری رکھا تاوقتیکہ تمام تیار مصنوعات کا اسٹاک ختم ہوگیا، جنوری میں پاکستان اسٹیل کی 7کروڑکی مصنوعات فروخت کی گئیں جن میں سے 2 کروڑکی فروخت نجکاری کمیشن کی ہدایات ملنے کے بعد 15تا 28 تاریخ کوہوئی۔
ذرائع نے کہا کہ انتظامیہ نے نجکاری کمیشن کے 14جنوری کے خط پر27 جنوری کوجوابی مراسلے PS/CEO/022016/10167 میں نجکاری کمیشن کے اعتراض کو تکنیکی انداز میں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیل ملزکے روزمرہ اخراجات، پانی بجلی اور گیس کے بلوں سمیت عمومی ریپیئر اینڈ مینٹی نینس کیلیے ماہانہ 40 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں، انتظامیہ ان اخراجات کو کم کر کے 30کروڑ روپے تک لے آئی جو تیار اسٹاک کی فروخت سے حاصل کیے جاتے ہیں۔
انتظامیہ نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان اسٹیل پر اپنی تیار مصنوعات فروخت کرنے کے حوالے سے حکومت، وزارت صنعت و پیداوار اور خود نجکاری کمیشن کی جانب سے بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی، تمام مصنوعات بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری سے مقررہ اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پراسیجرکے تحت شفاف طریقے سے فروخت کی جاتی ہیں جن کی تفصیلات ویب سائٹ پربھی ہیں۔
ذرائع کے مطابق فروری سے وفاقی حکومت کو پاکستان اسٹیل کے ملازمین کی تنخواہوں کے ساتھ 30کروڑ روپے کے عمومی اخراجات کا بوجھ بھی برداشت کرنا ہوگا کیونکہ ان اخراجات کو پورا کرنے کیلیے اب قابل فروخت مال باقی نہیںبچا،صرف نیم تیار شدہ سلیب اور آئرن اوور کا اسٹاک باقی ہے جس کو فروخت کے قابل بنانے کے لیے گیس کی بحالی ناگزیر ہے۔
نجکاری منصوبے کی حکومتی کشتی میں ایک اور سوراخ سے پانی بھررہا ہے، اربوں روپے خسارے کا شکار پاکستان اسٹیل کی صورتحال بھی تیزی سے بگڑ رہی ہے، قومی ایئرلائن کی نجکاری کے خلاف ملازمین کی سخت مزاحمت اور سرکاری ایکشن کے باعث امن و امان کے مسائل پیدا ہونے کے بعد اب پاکستان اسٹیل کا بحران بھی بے قابو ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
جون سے کی جانے والی گیس کی بندش کے سبب پیداوار پہلے ہی بند پڑی ہے تاہم اب بلوں کی ادائیگی کے لیے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے پانی اور بجلی بھی بند ہونے کا خطرہ ہے، پانی و بجلی کی بندش سے پلانٹ کے علاوہ گلشن حدید کی 50ہزار سے زائد آبادی بھی متاثر ہوگی جس کے سڑکوں پر آنے کی صورت میں وفاقی حکومت کے لیے نج کاری منصوبہ جاری رکھنا محال ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اسٹیل مالیاتی اور انتظامی بحران کی انتہا پر پہنچ گیا ہے، خسارے اور واجبات کی مجموعی مالیت 370 ارب روپے کی سطح تک پہنچ چکی ہے تاہم اس قومی اثاثے کو بدترین حالت تک پہنچانے والے افراد کا کوئی احتساب نہیں کیا گیا، انتظامیہ اور بورڈ آف ڈائریکٹرز مسائل پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہیں، اس کے باوجود وفاقی وزارت صنعت و پیداوار خاموش تماشائی کاکردار ادا کررہی ہے۔
پاکستان اسٹیل کے ذرائع کے مطابق پانی، بجلی اور گیس کے کم پریشر کے باوجود یوٹیلٹیز، لبریکنٹس، میڈیکل، ریپیئر اینڈ مینٹی نینس، ٹرانسپورٹ اور کینٹین سمیت متفرق اخراجات کی مد میں 30 کروڑ روپے ماہانہ درکار ہیں، اب تک یہ اخراجات پاکستان اسٹیل کے پاس موجود تیار مصنوعات کے اسٹاک کی فروخت سے حاصل کیے جا رہے تھی تاہم تیار مصنوعات کا یہ اسٹاک اب ختم ہوچکا ہے اور تنخواہوں کے ساتھ 30کروڑ روپے کے عمومی اخراجات کا بوجھ بھی حکومت کو برداشت کرنا ہو گا بصورت دیگر پاکستان اسٹیل کو گیس کے ساتھ پانی اور بجلی کی سپلائی بھی بند ہوجائے گی۔
اسٹاف کو لانے لے جانے کے لیے استعمال ہونے والی ٹرانسپورٹ کا پہیہ جام ہوجائے گا، میڈیکل اور کینٹین کی سہولت بند ہونے کے بعد ادارے کے ملازمین کو سنبھالنا انتظامیہ کے بس سے بھی باہر ہوگا۔ نجکاری کمیشن نے پاکستان اسٹیل کو ایک سخت انتباہی خط 14جنوری 2016کو جاری کیا جس میں 9ارب روپے کی تیار مصنوعات میں سے 4ارب روپے کی مصنوعات کی فروخت اور اس سے حاصل آمدنی خرچ کیے جانے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے وفاقی حکومت کی تشویش ظاہر کرتے ہوئے آئندہ کوئی بھی مال نجکاری کمیشن کی اجازت کے بغیر فروخت نہ کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔
''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویزات کے مطابق پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ کی جانب سے نجکاری کمیشن کے اعتراض اور سخت ہدایات کے باوجود فروخت کا سلسلہ جاری رکھا تاوقتیکہ تمام تیار مصنوعات کا اسٹاک ختم ہوگیا، جنوری میں پاکستان اسٹیل کی 7کروڑکی مصنوعات فروخت کی گئیں جن میں سے 2 کروڑکی فروخت نجکاری کمیشن کی ہدایات ملنے کے بعد 15تا 28 تاریخ کوہوئی۔
ذرائع نے کہا کہ انتظامیہ نے نجکاری کمیشن کے 14جنوری کے خط پر27 جنوری کوجوابی مراسلے PS/CEO/022016/10167 میں نجکاری کمیشن کے اعتراض کو تکنیکی انداز میں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیل ملزکے روزمرہ اخراجات، پانی بجلی اور گیس کے بلوں سمیت عمومی ریپیئر اینڈ مینٹی نینس کیلیے ماہانہ 40 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں، انتظامیہ ان اخراجات کو کم کر کے 30کروڑ روپے تک لے آئی جو تیار اسٹاک کی فروخت سے حاصل کیے جاتے ہیں۔
انتظامیہ نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان اسٹیل پر اپنی تیار مصنوعات فروخت کرنے کے حوالے سے حکومت، وزارت صنعت و پیداوار اور خود نجکاری کمیشن کی جانب سے بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی، تمام مصنوعات بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری سے مقررہ اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پراسیجرکے تحت شفاف طریقے سے فروخت کی جاتی ہیں جن کی تفصیلات ویب سائٹ پربھی ہیں۔
ذرائع کے مطابق فروری سے وفاقی حکومت کو پاکستان اسٹیل کے ملازمین کی تنخواہوں کے ساتھ 30کروڑ روپے کے عمومی اخراجات کا بوجھ بھی برداشت کرنا ہوگا کیونکہ ان اخراجات کو پورا کرنے کیلیے اب قابل فروخت مال باقی نہیںبچا،صرف نیم تیار شدہ سلیب اور آئرن اوور کا اسٹاک باقی ہے جس کو فروخت کے قابل بنانے کے لیے گیس کی بحالی ناگزیر ہے۔