یہ کیا سے کیا ہوگیا

تاریخی نوعیت کی تفریح گاہوں کی دیکھ بھال اور مرمت کے بجائے ملبے کے انبار ٹھکانے لگانا کیسی ترقی ہے؟

ٹوٹی پھوٹی راہدری اور سامنے مٹی کی ڈھیریاں ، اُف یہ وہ کوٹھاری پریڈ تو نہیں جو آج سے 3 سال قبل ہوا کرتا تھا۔

شدید گرمی میں بھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں نے مسحور کن اور فرحت بخش اثرات مرتب کر دئیے تھے ہم سب کی طبعیت پر اس کا اظہار ہماری شرارتوں اور قہقہوں سے ہورہا تھا۔ شہر کی مصروف ترین شاہراہ سے ذرا سا پرے اتنا پر سکون اور خوشگوار احساس یقینی طور پر بہت حیران کن تھا۔



اصل میں ہم یونیورسٹی اسائنمنٹ کی تیاری کے لئے کلفٹن میں ساحل سے قریب تر تاریخی نوعیت کی تعمیر شدہ تفریح گاہ جہانگیر کوٹھاری پریڈ پر جمع تھے۔ جس کی تعمیر، مرمت، اور ساخت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم کو ڈاکیومنٹری بنانی تھی، اور واقعی اس مقام نے ہمارے دماغ معطر کردئیے تھے اور سب اپنا کام مکمل کرکے مخلتف زاویوں سے یاد گار کی تصاویر لے کر خوش گپیوں میں مگن تھے۔ بالاخر ہم نے اپنی شوٹنگ مکمل کرنے کے بعد بہت سی انمٹ اور خوشگوار یادوں سمیت اپنے گھروں کی راہ لی۔





( یونیورسٹی ٹرپ پر لی گئی تصاویر )

لیکن آج چند تصاویر نظروں کے سامنے سے گذریں تو چونکے بنا نہیں رہ سکی اور ساتھ ہی اس لاپرواہی اور بے حسی کے ذمہ داران کے خلاف بے اختیار غصہ بھی آیا کہ ایسی شاندار مقامات کی یہ بے وقعتی ۔۔۔۔۔



جی ہاں یہ کلفٹن کے کنارے واقع تفریح گاہ کوٹھاری پریڈ کی ہی تصاویر تھیں، جہاں جاری ترقیاتی منصوبوں کے بعد ٹھکانے لگنے والے ملبے کو ڈال کر راستہ عوام کیلئے بند کردیا تھا۔ ٹوٹی پھوٹی راہدری اور سامنے مٹی کی ڈھیریاں، اُف یہ وہ کوٹھاری پریڈ تو نہیں جو آج سے 3 سال قبل ہوا کرتا تھا۔ جس کے دلکش مناظر اور یادیں آج تک ہمارے ذہنوں اور تصاویر میں محفوظ ہیں۔



( جہانگیر کوٹھاری پریڈ کی حالیہ تصاویر)

اس لئے خیال آیا کہ قارئین کے ساتھ ایک بار متعلقہ اداروں کو بھی یاد دلاتی چلوں کہ اس عمارت کی اہمیت کیا ہے۔ در اصل یہ 1919 میں بومبے کے ایک سیٹھ جہانگیر ہارموس کوٹھاری کی جانب کراچی کے رہائشیوں کیلئے 30 ہزار روپے کی مالیت سے تعمیر کی گئی راہداری تھی۔ جہاں قدرتی ہوا کے جھونکوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساحل سمندر کے دلفریب نظارہ بھی کیا جا سکتا تھا۔






( دن اور رات کے اوقات میں لی گئی دلکش تصاویر: گوگل)

جس کا افتتاح بومبے کے گورنر سر جارج لائلڈ کی بیوی لیڈی جارج لائلڈ نے 21 مارچ 1921 میں کیا۔ بعد ازاں ساحل دور ہوتے ہوتے کافی آگے چلا گیا تو جون 2005 میں کراچی کی ضلعی حکومت نے اس تاریخی تفریح گاہ کی مرمت اور دیکھ بھال کی طرف توجہ کرتے ہوئے تعمیری پراجیکٹ کا آغاز کیا اور عمارت کے رقبے میں توسیع کرتے ہوئے اطراف کی جگہ بھی شامل کرتے ہوئے بن قاسم پارک بنیاد رکھی اور منصوبہ مکمل ہونے پر اس کا افتتاح اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے 27 فروری 2007 کو کیا۔



(لیڈی جارج لائلڈ نے اس کا افتتاح 21 مارچ 1921 میں کیا : گوگل)



( شہر ميں جاری ترقياتی كاموں كے سلسلے ميں ساحلِ سمندر سی ويو کی فٹ پاتھ پرٹائلز لگائی جا رہی ہيں)

لیکن آج تباہ حالی کے آثار نمایاں ہیں، ایک تو پہلے ہی کراچی میں تفریح گاہوں کی قلت ہے، شہری بہت ہوا تو سمندر کے آلودہ پانی میں کچھ دیر نہا کر ہی خوش ہوجاتے ہیں اور اس صورتحال میں ایسی تاریخی نوعیت کی تفریح گاہوں کی دیکھ بھال اور مرمت کے بجائے ملبے کے انبار ٹھکانے لگانا کیسی ترقی ہے؟ تو جناب محترم وزیراعلیٰ سندھ اور وزیر بلدیات سمیت تمام متعلقہ ادارے ذرا اس جانب تھوڑی سی توجہ کیجئے، میں کراچی کی شہری ہونے کے ناطے متعلقہ محکمہ جات اور ذمہ داران سے مطالبہ کرتی ہوں کہ اس معاملے کا فوری نوٹس لیا جائے اور اس تفریح گاہ کو بربادی سے بچایا جائے۔

[poll id="941"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story