افغان امن عمل کیلیے چار فریقی اجلاس میں حکومت اور طالبان کے درمیان جلد مذاکرات پر اتفاق
اعتماد کی بحالی سمیت افغانستان میں امن کے قیام کے لیے ہر سطح پر مشترکہ کوششیں کی جائیں، مشیر خارجہ
افغانستان میں قیام امن کے لیے ہونے والے چار فریقی مذاکرات میں افغان طالبان اور حکومت کے درمیان جلد مذاکرات پر اتفاق کیا گیا ہے جب کہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہےکہ پاکستان کی کوشش ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے تیسرے دور میں میں طالبان کے زیادہ تر گروپوں کو شامل کیا جائے تاکہ افغانستان میں امن کے قیام کو یقینی بنایا جا سکے۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے ہونے چار فریقی مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ افغان حکومت اورطالبان کے درمیان جلد مذاکرات شروع کیے جائیں اور ان مذاکرات میں طالبان کے تمام گروپس کی شرکت کو یقینی بنایا جائے، تمام ممالک اس امن عمل میں اپنی کوششیں تیز کردیں جب کہ افغانستان میں مفاہتی عمل کے نتیجے میں اس کا سیاسی حل ہونا چاہیے اور افغانستان میں پرتششد کارروائیوں کو ختم کیا جائے۔ اعلامیے کے مطابق چارفریقی مذاکرات کا اگلا دور 23 فروری کو کابل میں ہوگا۔
دوسری جانب غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان، چین، افغانستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے تیسرے دور کے افتتاحی روز خطاب میں کہا کہ مشترکہ کوششوں سے افغان طالبان کے زیادہ سے زیادہ گروپوں کومذاکرات میں شامل کرکے افغانستان میں امن قائم کیا جا سکتا ہے جب کہ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اعتماد کی بحالی سمیت افغانستان میں امن کے قیام کے لیے ہر سطح پر مشترکہ کوششیں کی جائیں اسی لیے اس کی کوشش ہے کہ طالبان کے زیادہ سے زیادہ گروپوں کو مذاکرات کےتیسرے دور میں شامل کیا جائے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے ذریعے صاف شفاف، واضح اور قابل عمل روڈ میپ چاہتا ہے تاکہ امن کی طرف بڑھا جا سکے جب کہ اجلاس میں امن مذاکرات کی مختلف اسٹیجز پر اس میں ہونے والی بہتری پر بھی غور کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے نہ ختم ہونے والی بدامنی کا شکار ہیں اور انہیں اس وقت پائیدار امن اور استحکام کی ضرورت ہے۔
واضح رہے پاکستان، چین، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا پہلا دور اسلام آباد میں گزشتہ ماہ ہوا تھا جس میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کا روڈ میپ ترتیب دیا گیا جب کہ دوسرا دور کابل میں 18 جنوری کوہوا جس میں طالبان گروپس پر زور دیا گیا کہ وہ افغان حکومت سے غیر مشروط مذاکرات کریں لیکن اس پر عمل نہ ہوسکا۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے ہونے چار فریقی مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ افغان حکومت اورطالبان کے درمیان جلد مذاکرات شروع کیے جائیں اور ان مذاکرات میں طالبان کے تمام گروپس کی شرکت کو یقینی بنایا جائے، تمام ممالک اس امن عمل میں اپنی کوششیں تیز کردیں جب کہ افغانستان میں مفاہتی عمل کے نتیجے میں اس کا سیاسی حل ہونا چاہیے اور افغانستان میں پرتششد کارروائیوں کو ختم کیا جائے۔ اعلامیے کے مطابق چارفریقی مذاکرات کا اگلا دور 23 فروری کو کابل میں ہوگا۔
دوسری جانب غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان، چین، افغانستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے تیسرے دور کے افتتاحی روز خطاب میں کہا کہ مشترکہ کوششوں سے افغان طالبان کے زیادہ سے زیادہ گروپوں کومذاکرات میں شامل کرکے افغانستان میں امن قائم کیا جا سکتا ہے جب کہ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اعتماد کی بحالی سمیت افغانستان میں امن کے قیام کے لیے ہر سطح پر مشترکہ کوششیں کی جائیں اسی لیے اس کی کوشش ہے کہ طالبان کے زیادہ سے زیادہ گروپوں کو مذاکرات کےتیسرے دور میں شامل کیا جائے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے ذریعے صاف شفاف، واضح اور قابل عمل روڈ میپ چاہتا ہے تاکہ امن کی طرف بڑھا جا سکے جب کہ اجلاس میں امن مذاکرات کی مختلف اسٹیجز پر اس میں ہونے والی بہتری پر بھی غور کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے نہ ختم ہونے والی بدامنی کا شکار ہیں اور انہیں اس وقت پائیدار امن اور استحکام کی ضرورت ہے۔
واضح رہے پاکستان، چین، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا پہلا دور اسلام آباد میں گزشتہ ماہ ہوا تھا جس میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کا روڈ میپ ترتیب دیا گیا جب کہ دوسرا دور کابل میں 18 جنوری کوہوا جس میں طالبان گروپس پر زور دیا گیا کہ وہ افغان حکومت سے غیر مشروط مذاکرات کریں لیکن اس پر عمل نہ ہوسکا۔