تحقیقی رجحان کا فقدان اور رَٹا کلچر

وقت آ گیا ہے کہ ہم نونہالوں کو رٹا لگانے والی مشین بنانے کے بجائے سوچنے، سمجھنے اورتحقیق کےجذبے سے سرشار شہری بنائیں


علی عمار یاسر February 07, 2016
وقت آ گیا ہے کہ ہم نونہالوں کو رٹا لگانے والی مشین بنانے کے بجائے سوچنے، سمجھنے اورتحقیق کےجذبے سے سرشار شہری بنائیں:فوٹو : فائل

FAISALABAD: پاکستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں رٹے کی کس قدر حوصلہ افزائی اور نصابی کتب سے کچھ ہٹ کر لکھنے، پڑھنے کی کس قدر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، اسے ظاہر کرنے کے لیے صرف ایک مثال ہی کافی ہے۔تھامس فرائیڈ مین ایک صحافی ، کالم نگار اور کئی مشہورِ زمانہ کتابوں کے مصنف ہیں ۔

ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں انہیں تین دفعہ پلٹزر پرائز دیا جا چکا ہے ۔ انیس سو ننانوے میں ان کی ایک کتاب "The Lexus and The Olive Tree" شائع ہوئی ، جس میں انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام اور عالمی امن کے درمیان تعلق کو ثابت کرنے کے لیے گولڈن آرچیز تھیوری پیش کی ۔ وہ ایک بین الا قوامی فاسٹ فوڈ چین کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جن دو ممالک میں اس کی شاخیں ہوں گی ، وہ ملک آپس میں کبھی جنگ نہیں لڑیں گے کیونکہ ان کے معاشی مفادات مشترکہ ہوتے ہیں۔

زمانۂ طالب علمی میں، عالمی کاروبار سے متعلق ایک مضمون کے امتحان میں ، میں نے یہ تھیوری لکھ دی۔ شومئی قسمت کہ یہ تھیوری ہماری درسی کتاب میں درج نہیں تھی ۔ میں نے انٹرنیٹ پر ایک بلاگ میں اس کا تذکرہ پڑھا تھا ۔ یہ مضمو ن جو صاحب پڑھا رہے تھے، ان کا دعویٰ تھا کہ وہ دنیا گھوم چکے ہیں ، لائبریریاں کھنگال چکے ہیں اور کاروباری معاملات کو اپنے کسی بھی ہم عصر استاد سے بہتر سمجھتے ہیں ۔

انہوں نے درسی کتاب سے ہٹ کر کچھ لکھنے پر میرے خوب لتے لیے اور دعویٰ کیا کہ امتحانی پرچے میں اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کے لیے میں نے یہ تھیوری خود سے گھڑی ہے۔اس ضمن میں انہوں نے میری طرف سے پیش کی گئی کوئی بھی دلیل تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔اگر میرے فاضل استاد جوابی پرچے کو درسی کتب کی عینک سے پرکھنے کی بجائے منطق کے زاویے سے جانچتے تو شاید اس تھیوری کو بودا اور میرے نقطۂ نظر کو غلط ثابت کرنے میں ان کوزیادہ محنت صرف نہ کرنی پڑتی ۔قابلِ غور امر یہ ہے کہ اگر یونیورسٹیوں میں نصابی کتب کی اتنی سخت پابندی لازم سمجھی جاتی ہے تو ابتدائی اور ثانوی تعلیمی اداروں میں کیا صورتحال ہو گی؟

کہا جاتا ہے کہ دنیامیں خوابوں کا سب سے زیادہ قتل اس ڈر نے کیا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ پاکستان کے پسماندہ تعلیمی پس منظر میں طلبہ کے ذہنی انحطاط کی سب سے بڑی وجہ شاید یہ ڈر ہو کہ اگر میں نے درسی کتب سے ہٹ کر کچھ پڑھ اور لکھ دیا تو میرے اساتذہ اور میرے ہم جماعت کیا کہیں گے ؟

مجھے یاد ہے کہ اسکول اور کالج کے زمانے میں پنج سالہ سوالیہ پرچوں کی تیاری کا بہت رواج تھا جو کہ کسی حد تک آج بھی قائم ہے کیونکہ طلباء کے پیش نظر کچھ سیکھنے کی بجائے صرف امتحان پاس کرنا ہوتا ہے ، وہ غیر نصابی کتب تو کیا پڑھیں، نصابی کتب بھی دلجمعی سے نہیں پڑھتے بلکہ محض پچھلے پانچ سالوں کے سوالیہ پرچوں کی تیاری کر کے امتحان پاس کر لیتے ہیں ۔ (ایسے مواقع پر مشتاق احمد یوسفی کا وہ نوحہ یاد آتا ہے کہ غصہ اس بات پر نہیں آتا کہ ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگ خونی پیچش کا علاج تعویز گنڈوں سے کرتے ہیں، بلکہ غصہ اس پر آتا ہے کہ وہ ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں) ۔



صرف پنج سالہ سوالیہ پرچوں کی تیاری سے پاس ہوجانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ممتحن، طلباء کی ذہنی قابلیت اور سیکھنے کی صلاحیت کا امتحان لینے کی بجائے ان کے رٹے کا امتحان لیتے ہیں۔ سالہا سال سے سالانہ پرچوں میں ایک جیسے سوال دہرائے جا رہے ہیں اور طلباء ان سوالات کے ایک جیسے جوابات دیتے جا رہے ہیں اور پاس ہوتے جا رہے ہیں۔

دور حاضر کے جامِ جم، یعنی انٹرنیٹ نے معلومات تک رسائی کو ایک نئی جہت عطا کی ہے ۔ تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کے اس دور میں دنیا کے بیشتر بڑے اخبارات اور لائبریریاں،اپنی معلومات کے ذخیرے کو آن لائن فراہم کرنے میں مصروف ہیں ۔ کسی بھی موضوع پر مختلف ماہرین کے مختلف نظریات تک رسائی محض ایک کلک کی دوری پر ہے ۔ ہزاروں صفحات کی ضخیم کتب جیبی سائز کے موبائل یا ٹیبلٹ میں ڈال کر چلتے،پھرتے، اٹھتے، بیٹھتے پڑھی جا سکتی ہیں۔

ایسے ماحول میں اگر کسی طالبعلم سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ صرف چند سو صفحات پر مشتمل کسی کتاب کو اپنے علم میں اضافے کا واحد ذریعہ بنائے اور اس کی ذہنی استعداد کی جانچ کا معیار سالہا سال سے دہرائے جانے والے پنج سالہ سوالیہ پرچے ہی ٹھہریں گے تو یقینا اس طرح سے دی جانے والی ڈگری کی حیثیت محض کاغذ کے ایک پرزے سے زیادہ نہیں اور ایسا تعلیمی نظام ذہنی مفلوج پیدا کرنے کے علاوہ اور کوئی مقصد پورا نہیں کر سکتا۔

پاکستان میں نصابی اصلاحات پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ موجودہ نصاب کو دورِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے بہت محنت، وقت اور تحقیق درکار ہے۔ یقینا اس پر کام ہو بھی رہا ہے اور آہستہ آہستہ نصاب اور تعلیمی نظام میں تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں۔لیکن ا س کا یہ مطلب نہیں کہ جب تک ایک موثر اور قابلِ عمل لائحہ عمل تیار نہیں ہوتا، طلباء کو کنویں کا مینڈک بننے کے لیے ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

اگر اساتذہ کرام ، طلبا ء کو نصابی کتب سے باہر نکل کر علم کشید کرنے کی ترغیب دیں توانٹرنیٹ پر آسان اور سستی رسائی کی بدولت ہمارے طلباء خود کو سوچنے اور تحقیق کرنے کی دولت سے مالامال کر سکتے ہیں۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے نونہالوں کو رٹا لگانے والی مشین بنانے کی بجائے سوچنے، سمجھنے اور تحقیق کے جذبے سے سرشار شہری بنانے کی طرف توجہ دیں۔ امتحانات میں پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء یقینا خراجِ تحسین کے مستحق ہیں لیکن ضرورت اس تحقیق کی ہے کہ کیا یہ پوزیشن ہولڈرز، ایک انگریزی اصطلاح کے مطابق 'ڈبے سے باہر نکل کر 'سوچ سکتے ہیں یا نہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔