ان ڈور آؤٹ ڈور

اگر کوئی بائیسکل جانور یا انسان نظر آیا ہے تو اس نے اسے بالکل اصل حالت میں پینٹ کر دیا ہے۔


Hameed Ahmed Sethi February 07, 2016
[email protected]

معلوم نہیں کہ اسے مقام حیرت کہا جائے یا مقام افسوس کہ جیسے جیسے انسانوں کی مصروفیات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ،ان کے کھیل' اسپورٹس اور ایکسر سائز کے میدان کم ہوئے جا رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک البتہ کھلے میدانوں کی ضرورت اور اہمیت سے غافل نہیں ہوئے اور انھوں نے تعلیمی اداروں میں پلے گراؤنڈز کی موجودگی کو لازمی قرار دے رکھا ہے جب کہ ہمارے اسکولوں اور کالجوں کی تعلیمی سرگرمیاں کمروں تک محدود ہوتی چلی جا رہی ہیں۔

ویسے تو یہ ترقی و جدیدیت کے پیمانے ہیں کہ آپ دنیا کے کسی کونے میں بیٹھے اپنے دوست اور عزیز سے یوں گفتگو کر سکتے ہیں جیسے وہ آپ کے سامنے موجود ہو اور ان مقامات و مناظر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جہاں پر جانا نا ممکنات میں ہو لیکن موبائل فون، انٹرنیٹ، ٹیلیویژن اور کمپیوٹر نے ہماری Mobility کو بھی خطرناک حد تک متاثر و محدود کیا ہے۔ زیادتی ہر چیز کی نقصان دہ ہے اور مذکورہ الیکٹرانک آلات کے غیر ضروری استعمال پر بھی سوالیہ نشان اٹھتے ہیں۔ ورزش کے لیے اب ہر شہر میں Gym موجود ہیں لیکن جو لطف سیر گاہ میں واک کا ہے اس کا موازنہ بند کمرے میں دوڑ لگانے سے کرنا بہر حال صرف دل کا بہلا وہ نہ سہی مگر وہی بات کہ

اگرچہ شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی

گزشتہ ہفتے شہر میں تین آرٹ گیلریز میں نمائشوں کا اہتمام تھا اور ایکسپو سینٹر میں چمڑے کی مصنوعات کا ڈسپلے تھا۔ جب دو دہائیاں قبل اس وقت کے وزیر اعلیٰ نے یہ اراضی مستقبل کے Expo Centre کے لیے مختص کی تو ان کی نیت پر کئی سوالیہ نشان اٹھے تھے۔ ویسے تو صوبے کے ہر وزیر اعلیٰ نے اپنی کرسی کی مضبوطی کے لیے ڈویلپمنٹ اتھارٹیز کو استعمال کیا ہے لیکن ہمارے ملک میں تو جو بھی بیوپاری راجہ آیا ہے اس کی پرجا بھکاری ہی ہوتی گئی ہے۔

لیدر کی نمائش میں ملک بھر کے چمڑے کی صنعت سے وابستہ کاروباریوں کے اسٹال تھے چمڑے کے Finished Production میں جیکٹس' دستانے' لیڈیز پرس مردانہ و زنانہ بیگ اور جوتے نمایاں تھے۔ رنگ دار اور مختلف جانوروں اور کوالیٹیز کے لیدر کے ٹکڑے بھی ڈسپلے پر تھے۔ اس نمائش میں ہمارا میزبان فرید اللہ خاں تھا جو 31 سال سے اس صنعت میں FAYVA کے لیبل کے ساتھ وابستہ ہے۔ کچھ غیر ملکی بھی لیدر سے متعلق مشینری کے ساتھ موجود تھے۔

اب اس Expo سینٹر پر مہینے میں دو تین نمائشوں کا انعقاد ہوتا ہے ہر قسم کے ملکی پراڈکٹ متعارف ہوتے ہیں یہ ہماری ملکی صنعت سے ملکی اور غیر ملکی لوگوں کے تعاون کا ایک مفید اور خوشگوار فورم ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ اس ایکسپو سینٹر سے ملکی صنعت کے لیے ترقی اور ایکسپورٹ کی نئی راہیں کھلی ہیں۔ نمائش میں شائقین اور کاروباریوں کا رش تھا اور ہر اسٹال پر بریفنگ کا معقول انتظام تھا۔ یہ لیدر نمائش تین دن تک جاری رہی۔

الحمرا آرٹ کونسل کے ذوالفقار علی زلفی نے شوکت خانم اسپتال کے قریب جوہر ٹاؤن میں زلفی آرٹ گیلری میں فائن آرٹس کی سابق طالبہ اور استاد کی46 پینٹنگز کی نمائش سجا رکھی ہے۔ یہ تمام پینٹنگز آئل اون کینوس پر تھیں۔ آرٹسٹ دُرِ وسیم جو امریکا میں رہائش پذیر ہیں جب بھی پاکستان آتی ہیں ان کا زیادہ سامان پینٹنگز پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان کے زیادہ تر فن پاروں میں مشرق اور مغرب کا امتزاج تھا۔ شائقین نے گیلری پہنچنے پر دُرِ وسیم کو داخلے کی جگہ پر ایک پینٹنگ پر کام کرتے پایا۔ جب ہم لوگ نمائش دیکھ کر فارغ ہوئے تو وہ اپنے برش سمیٹ رہی تھیں کیونکہ ان کی وہ Live کاوش مکمل ہو چکی تھی۔ پروفیسر اعجاز الحسن اور پروفیسر سعید مہمانان خصوصی تھے۔

شہر میں دوسری نمائش حیدر آباد کے حسین چانڈیو کی تھی ان کی پینٹنگز جو حمائل آرٹ گیلری میں سجائی گئی تھیں عام پینٹنگز سے قطعی مختلف تھیں۔ ان کی خوبصورتی و دلکشی ایک بات جب کہ ان کا انوکھا پن آپ اپنی ستائش تھا۔ بہت سے فن کار کسی شخصیت یا شے کو اپنے کینوس پر اتارنے کے لیے اس زویے سے نہیں دیکھتے ہوں گے جس طرح حسین چانڈیو نے انھیں دیکھا۔ اس نے اگر اپنے مکان کی بالائی منڈیر سے سڑک پر جاتے سواریاں بھرے تانگے گھوڑے کو دیکھا تو اس نے اپنے برش سے اسے اسی زاویے سے کینوس پر اتار دیا۔

اگر کوئی بائیسکل جانور یا انسان نظر آیا ہے تو اس نے اسے بالکل اصل حالت میں پینٹ کر دیا ہے۔ اس نے رقص کرتے ہوئے لوگوں میں خوبصورتی بھرنے کے بجائے انھیں حقیقی زاویے میں اتارا ہے۔ ہوا میں اڑتے پرندے کو بھی پھڑپھڑاتے دکھایا ہے۔ المختصر چانڈیو نے اکثر چیزوں اور اشکال کو بلندی سے دیکھ کر پینٹ کیا ہے جو اسے عام مصوروں کی صف میں نکال کر ممتاز کرتا ہے۔

سعید احمد بودلہ نے 1971ء میں پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ سے گرافک ڈیزائننگ میں گریجوایشن کرنے کے بعد خطاطی شروع کی۔ وہ خوشحال زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں انھوں نے اسماء مبارکہ کی تصویر کشی شروع کی تو مقصد اسے ذریعہ آمدنی بنانا نہیں تھا بلکہ کلیۃً تزکیہ نفس تھا۔ جیسے جیسے وہ کیلیگرافی کی منازل طے کرتے گئے ان کا فن نکھرتا گیا۔ اب تک انھوں نے 13 Solo نمائشیں کی ہیں اور 22 مشترکہ نمائشوں میں حصہ لیا ہے۔

ان کے جو خطاطی کے تحائف دوستوں اور معروف شخصیات کے پاس ہیں سب کے سب بغیر کسی اجرت اور فیس کے عطیہ کیے گئے ہیں۔ ان کی خطاطی ملک میں اور بیرون ملک سراہی جاتی ہے۔ آئل کلر' واٹر کلر اور پین اینڈ انک تین تکنیکس ہیں جو بودلہ صاحب اسماء مبارکہ میں استعمال کرتے ہیں۔

اس وقت ان کی126 کیلیگرافک پینٹنگز Lums کی سیڑھیوں میں اور 150 پینٹنگز پنجاب یونیورسٹی میں آویزاں ہیں۔ اس کے علاوہ 57 پینٹنگز شیخ زاید اسلامک سینٹر لاہور کو 150 پینٹنگز شیخ زاید اسلامک سینٹر پشاور کو عطیہ کی گئی ہیں۔ بودلہ صاحب نے اب تک 550 خطاطی کے شہ پارے تیار کیے ہیں۔ انھوں نے کلام وارث شاہ کے 23 اشعار بھی اشکال میں ڈھال کر جنڈیالہ شیر خاں کی ایک لائبریری کو عطیہ کیے ہیں۔ مصورانہ خطاطی کی لگن نے سعید احمد بودلہ کو عشق نبیؐ میں سرشار کر رکھا ہے جو عطیہ خداوندی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں