نجی واجتماعی ملکیت اور ریاستی تشدد

سرمایہ داری نظام نجی ملکیت کے تصور پراستوار ہے۔ نجی ملکیت کا خاتمہ سرمایہ داری نظام کا خاتمہ ہے۔

ibhinder@yahoo.co.uk

KARACHI:
سرمایہ داری نظام نجی ملکیت کے تصور پراستوار ہے۔ نجی ملکیت کا خاتمہ سرمایہ داری نظام کا خاتمہ ہے۔ نجی ملکیت کا یہ تصورجو سرمایہ داری نظام کی بنیاد ہے، یہ کوئی ایسا فطری تصور نہیں ہے جو انسان کی سرشت میں ازلی وابدی بنیادوں پر رکھ دیا گیا ہے اور جس سے نجات پانے سے قیامت برپا ہوجائے گی۔

نجی ملکیت کا یہ تصورمخصوص حالات میں انسان کے اپنے ہی حقیقی وجود سے 'بیگانگی' کا نتیجہ ہے۔ایسی 'بیگانگی' جس کا کردار دوطرفہ ہے یعنی ایک طرف نجی ملکیت بیگانگی کی پیداوارہے اوردوسری طرف یہ بیگانگی نجی ملکیت کے محرک کے طور پراس تصورکو مستحکم کرتی ہے ۔انسان بنیادی طور پرایک سماجی حیوان ہے۔سماج کی تخلیق انسانوں کے باہمی تعاون سے ہوتی ہے۔ سماج کا تصور وسیع معنوں کا حامل ہے۔اس میں فردکا تصورموجود ہوتا ہے۔ اور اسی طرح فرد کے تصور میں سماج کا تصور شامل رہتا ہے۔ باہمی تعاون سے انسان اور سماج کا استحکام عمل میں آتا ہے لیکن جونہی سماج نجی ملکیت کے تصورکے تحت تقسیم ہوتا ہے تو وہی افراد جنہوں نے باہمی اشتراک سے سماج کی تشکیل وتنظیم کی بنیاد رکھی ہوتی ہے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سرمایہ داری کے برعکس ایک اشتراکی معاشرے میں نجی ملکیت کا تصور موجود نہیں ہوتا اور سرمایہ دارانہ نظام اوراشتراکی معاشرے میں ملکیت کے کیا مفاہیم ہیں؟ اس کا جواب بہت سادہ سا ہے، اشتراکی معاشرے میں اجتماعی ملکیت میں نجی ملکیت کا تصور موجود ہوتا ہے۔ جیسا کہ پی آئی اے کے ملازمین کی حالیہ ہڑتال کے دوران میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پی آئی اے کے محنت کش اس ادارے کی نجی ملکیت کے خلاف ہیں، جب کہ اس کی ریاستی تحویل کو اس کی اجتماعی تحویل کے مماثل سمجھتے ہوئے اس کو قبول کرتے ہیں۔ ملکیت کا یہ ایسا تصور ہے جس میں اجتماعیت کا تصورموجود ہوتا ہے ۔

اجتماعیت افراد کا مجموعہ ہوتی ہے۔ افراد کے بغیر اجتماعیت کا کوئی مفہوم نہیں ہوتا اور یہی تصورافرادکو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ اجتماعیت نجی کے بغیر ممکن نہیں ہے، نجی کوخارج کردیا جائے تو اجتماع بھی ختم ہوجاتا ہے۔ لٰہذا اس تناظر میں اجتماع اورنجی کے درمیان کوئی حتمی تفریق اور تضاد موجود نہیں ہوتا۔ یعنی جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں جائیداد،کمپنی، فیکٹری ریاستی ملکیت ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستی ملکیت کا یہ تصورکسی ایک 'فرد' یا چند افرادکی ملکیت کو تسلیم نہیں کرتا کہ جس کی غلامی میں سب انسانوں کو ہانکنا مقصود ہے، بلکہ یہ سب افرادکی اجتماعی ملکیت ہے۔

لٰہذا ملکیت کے اس تصورمیں نجی اوراجتماعیت کا تضاد ختم ہوجاتا ہے۔نجی اوراجتماعیت کے درمیان تضادکے ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس بنیاد کا ہی خاتمہ ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے سماج میں بے چینی، اضطراب، کشمکش، تضاد اور تخالف جیسی فضا جنم لیتی ہے، جو بالآخر دہشت وبربریت، ظلم واستحصال کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔

سرمایہ داری نظام میں ملکیت کا تصور جس بنیاد پر استوار ہے، اس میں اجتماعی ملکیت کا کوئی تصور موجود نہیں ہوتا۔ نجی اوراجتماعی ملکیت کے درمیان حقیقی تضادکو پاکستان میں پی آئی اے کی نجی ملکیت کے خلاف ہونے والی ہڑتالوں اور احتجاجوں کی شکل میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے پی آئی اے کے ملازمین نے جوہڑتال اوراحتجاج کیا ہے وہ کوئی ایسا غیر فطری عمل نہیں ہے جو 'ترقی' کے راستے میں رکاوٹ ہے۔یہ ایک ایسا عمل ہے جس کی کامیابی ان محنت کشوں کو مزید ذلت و رسوائی کی زندگی گزارنے سے روک سکتی ہے۔ ہڑتال اور احتجاج سرمایہ دارانہ پالیسیوں کا لازمی نتیجہ ہوتے ہیں۔


سرمایہ دارانہ جمہوریت میں ہڑتال اور احتجاج کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ لوگوں میں اپنے حقوق کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں پر یقین متزلزل ہورہا ہے۔ وہ 'جمہوری حکومتیں' جو ذرا کم ظالم واستحصالی ہوتی ہیں، وہ ان کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنی پالیسیوں کی تشکیل کرتی ہیں۔جو حکومتیں زیادہ ظالم ہوتی ہیں وہ ہڑتالیوں پر اتنا ہی زیادہ ظلم وتشدد مسلط کرتے ہوئے ان کی جدوجہد کو ناکام بنانے کے لیے کوشاں ہوتی ہیں۔

سرمایہ داری نظام میں محنت کشوں کے پاس واحد سہارا ریاست ہوتی ہے، جو اگرچہ ہر سطح پر ان سرمایہ داروں کے معاشی، سیاسی اور نظریاتی مفادات کے تحفظ کا ایک آلہ ہی ہوتی ہے، مگر اس کے باوجود محنت کش یہ سمجھتے ہیں کہ ادارے اگر ریاستی تحویل میں رہیں گے تو چند افراد اپنے مخصوص مفادات کے تحت ان کا براہِ راست استحصال نہیں کرسکیں گے۔پی آئی اے کو نجی تحویل میں دینے کی خواہش کسی انسانی جذبے یا جذبہ ترقی کے تحت نہیں تشکیل پائی، اس کا مقصد صرف سرمایہ داری کو تقویت دینا ہے۔

آخری تجزیے میں نجی ملکیت کے خلاف برسرِ پیکار ہونے والوں کا یہ خیال محض التباس ہی ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ ریاستی اداروں کا واحد مقصد نجی اور اجتماعی ملکیت کے درمیان موجود تفاوت و حتمیت کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ احتجاج اورہڑتالیں وہ واحد 'جمہوری' حق ہے جسے محنت کش سرمایہ داری نظام میں اپنی مرضی سے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انھیں 'چور' کہنا اور جیل بھیجنے کی دھمکیاں دینا ریاست پر براجمان حکومت کے 'حقیقی جمہوری' چہرے کو سامنے لانے کے لیے کافی ہے۔ جب محنت کش اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے سڑکوں پر آئیں اور حکومتیں ان پر ہر طرح کا ظلم وجبر روا رکھیں تو، ان کے اس ظلم کی حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے۔ ظلم و بربریت کے اقدامات کے ذریعے ہی سرمایہ دارانہ جمہوریت کی 'حقیقت' عیاں ہوجاتی ہے۔

احتجاج اور ہڑتالوں کے ذریعے محنت کش اپنی پُرامن'جدوجہد' کو اس وقت تک جاری رکھتے ہیں، جب تک ان کو امید ہوتی ہے کہ ریاست ان کے مفادات کا تحفظ کرے گی، لیکن پی آئی اے کے محنت کشوں کے خلاف ریاست نے جو طریقہ اختیار کیا، اس سے ایک بار پھر یہ واضح ہوچکا ہے کہ ریاست کوئی غیرجانبدار ادارہ ہرگز نہیں ہے۔

ایسے میں صرف پی آئی اے کے محنت کشوں کے لیے نہیں بلکہ دنیا کے تمام محنت کشوں کے لیے اس میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ ریاستی ظلم و جبرکوئی حادثہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ریاستی ظلم و جبر کا مقصد ریاست کے باشندوں کی فلاح و بہبود ہی ہوتا ہے۔ ریاستی ظلم و تشددسرمایہ داروں کے مفادات کو تحفظ و دوام عطا کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔نجی مفادات کو تحفظ دینے کے لیے ڈھائے گئے اس ظلم میں سب محنت کشوں کے لیے ایک یہ سبق بھی موجود ہے کہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے اکٹھا ہونے ، یعنی ان کی طبقاتی جڑت کا پہلو ہی انھیں مضبوط کرسکتاہے۔ رنگ، نسل، زبان، مذہب کی بنیاد پر کی گئی تقسیم حقیقی نہیں ہے۔

محنت کشوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان میں مرکزی دھارے کی تمام سیاسی جماعتوں میں تقریبا ہر رنگ، نسل، فرقے اورعلاقے کے لوگ شامل ہیں۔ انھیں جو شے جوڑتی ہے وہ ان کی طبقاتی حیثیت ہے۔ ایک ہی رنگ، نسل، مذہب، علاقے اور فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں حقیقی تقسیم سماجی طبقات کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اور اسی باہمی اتفاق واتحاد میں ان کی طبقاتی شناخت کا تصور پنہاں ہے۔ ایک طبقے کی شکل میںجڑکرجدوجہد کے ذریعے ہی اپنے حقوق کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
Load Next Story