بلدیاتی اختیار تجاہل اور تغافل کا آئینہ دار
مرکزی شاہراہوں سے لے کرگلی محلے کی سڑکیں تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں
حال ہی میں پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تاریخ میں ایک قابل فخر باب کا اضافہ ہوا تھاکہ برسوں بعد پہلی مرتبہ کسی جمہوری حکومت کے دور میں مقامی حکومتوں کے لیے انتخابات کا عمل بخیروخوبی اور دیانت داری کے ساتھ مکمل ہوا اور اس کے ذریعے بلدیاتی حکومت وجود میں آئی یا معرض وجود میں آنے والی ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے یہ بات بھی سبھی کو صاف اور واضح دکھائی پڑ رہی تھی کہ مسائل اور مشکلات میں گھرے ہوئے کراچی شہرکی میئر شپ متحدہ قومی موومنٹ کے لیے ماضی کے مقابلے میں اس بارکڑا امتحان ہوگی، پچھلے آٹھ سال کے جمہوری دور میں حکومت کی جانب سے ملک کے سب سے بڑے معاشی شہرکو نظر اندازکیے جانے کے بعد اس وقت شہرکراچی مسائل کا گڑھ بنا ہوا ہے پانی، بجلی اورگیس کا بحران شہریوں کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔
مرکزی شاہراہوں سے لے کرگلی محلے کی سڑکیں تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جگہ جگہ کوڑے کرکٹ کے لگے ڈھیر اس شہر کی بد صورتی اور غلاظت کا ٹھوس ثبوت فراہم کرتے دکھائی دیتے ہیں، وزیراعلیٰ ہاؤس سے لے کر ایک عام آدمی کے گھر تک سیوریج کی خرابی اور گندے پانی کے پھیلاؤ کو با آسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ شہر میں عرصہ دراز سے پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی خاصا گمبھیر ہے، بسوں کی کمی، رکشہ، ٹیکسی میں میٹر نہ ہونے سے شہری منہ مانگے کرائے دینے پر خود کو مجبور پاتے ہیں، انھیں ٹرانسپورٹ کی شدید قلت کا بھی عرصے سے سامنا ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ 1987 سے لے کر تادم تحریر بلدیاتی انتخابات میں مسلسل اور غیر معمولی کامیابی کا اہم سیکرٹ (راز) الطاف حسین کی رہائش گاہ ''90''کا ہفتے کے سات دن 24 گھنٹے کام کرنا ہے، یہ متحرک مقام رہا ہے۔گزشتہ تین دہائیوں سے دیہی اور شہری سندھ کی بنیاد پر پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ وہ مرکزی اسٹیک ہولڈرز ہیں۔
دونوں جماعتیں دو بار اقتدار میں شریک بھی رہیں لیکن وہ خلا کو پر کرنے میں ناکام رہیں اس کے برخلاف 1988 سے اب تک منقسم مینڈیٹ نے حقیقت میں نہیں تو بظاہر صوبے کو عملی طور پر تقسیم کرکے رکھ دیا ہے اور لگتا ہے کہ یہ نیا سال یعنی 2016 بھی سندھ کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں لائے گا۔ ایم کیو ایم کا یہ اقدام سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2013 واپس لینے کے لیے حکومت سندھ پر دباؤ ڈالنا بھی ہوسکتا ہے جس کے تحت میئر اور بلدیاتی اداروں کے اختیارات کم کردیے گئے ہیں۔
جو صریحاً بد نیتی پر مبنی ہے، بلدیاتی انتخابات کے بعد نئی کشمکش بلدیاتی آرڈیننس کے تحت اب اختیارات میں شراکت داری پر ہے طرفہ تماشا یہ ہے کہ صوبائی حکومت اس کشیدگی، تحفظات کو دور کرنے کی کوشش میں اپنی طرف سے بلدیاتی آرڈیننس پر بات کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے، حکومت اس بات کو سمجھ نہیں پارہی (یا وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتی) کہ اس ایشو پر ایم کیو ایم کو تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ رد عمل میں کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم 2001 میں بلدیاتی اداروں کو حاصل اختیارات کو بھول کر 2013 کے بلدیاتی آرڈیننس کو قبول کرلے، ان کا مضبوط موقف اور لہجہ ظاہر کرتا ہے کہ معاملات واضح طور پر تصادم کی طرف جارہے ہیں۔
ایسے میں بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہ دینے پر سپریم کورٹ کا اس حوالے سے نوٹس لینا اور ناراضگی کا اظہار کرنا باعث طمانیت ہی کہا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی تمام حکومتیں اور ذمے داران بلدیاتی اداروں کو اختیارات کی منتقلی کی یقین دہانی کرائیں، سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ آخر بلدیاتی اداروں کو کیوں اہمیت نہیں دی جارہی؟کیا منتخب بلدیاتی عہدے داروں کو شوپیس بناکر رکھنا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو انھیں اختیارات کیوں نہیں دیے جارہے؟
کراچی کے میئرکے لیے نامزد کردہ امیدوار سید وسیم اختر کا اس معاملے کے بارے میں کہناہے کہ آئین کے آرٹیکل نمبر A-140 اور میئر کے انتظامی اختیارات کی بحالی تک ہم سندھ حکومت کو کام کرنے نہیں دیںگے۔ یہ کتنی بد قسمتی ہے کہ پیپلزپارٹی روزانہ کی بنیادوں پر شہر کو درپیش مسائل کے خاتمے کے لیے سنجیدہ نہیں، انھوں نے کہاکہ ہم عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائیںگے اور اگر ہم کامیاب نہ ہوئے تو عوام کی مدد حاصل کریںگے۔ جنھوں نے ہمیں کراچی شہرکے معاملات چلانے کے لیے منتخب کیا ہے، وسیم اختر نے کہاکہ کراچی میں ترقی اور امن کا تعلق میئر کے اختیارات کی بحالی سے ہے، ہمارے پاس کراچی کا مینڈیٹ ہے اور اس پر شہر کے مسائل کے بلا روک ٹوک حل کے ذمے داری عائد ہوتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے سات سالہ دور میں بلدیاتی ادارے بہت زیادہ خود مختار اور موثر تھے اور انھوں نے وہ کام کیے جن کی وجہ سے نہ صرف عوام کی نظر میں بلدیاتی اداروں کی اہمیت میں اضافہ ہوا بلکہ عوام نے ان سے بہت زیادہ توقعات بھی وابستہ کرلیں۔
یہی وجہ ہے کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں چاروں صوبوں کے عوام نے عام انتخابات کے مقابلے میں زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور زیادہ جوش وخروش کا مظاہرہ کیا اب اگر منتخب بلدیاتی ادارے پہلے کی طرح کام نہ کرسکے یا عوام کی توقعات پر پورے نہ اترے تو عوام میں زبردست مایوسی پیدا ہوگی اور اس کی ذمے داری سیاسی اور جمہوری حکومتوں پر عائد ہوگی اس طرح کی خطرناک صورتحال پیدا ہونے سے پہلے سیاسی اور جمہوری حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ان منتخب مقامی حکومتوں یعنی بلدیاتی اداروں کو کم از کم اتنے مالیاتی اور انتظامی اختیارات منتقل کریں کہ لوگوں کو یہ احساس ہو کہ ان کے منتخب کردہ مقامی ادارے ان کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نچلی سطح پر ان کے منتخب نمایندے با اختیار ہیں۔
ملکی حالات کے حوالے سے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں سول حکومتوں نے کبھی بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے، موجودہ سول حکومتیں بھی نہیں چاہتی تھیں کہ بلدیاتی انتخابات ہوں لیکن سپریم کورٹ کی بار بار مداخلت اور مسلسل کوششوں سے یہ انتخابات کرانا پڑے یہ بھی کڑوی حقیقت ہے کہ یوں تو پورے ملک میں بلدیاتی اداروں کو مزید اختیارات دینے کی ضرورت ہے لیکن سندھ میں یہ ضرورت بہت زیادہ ہے۔
یہاں کے بلدیاتی ادارے اختیارات کے تناظر میں غیر فعال اور غیر موثر چلے آرہے ہیں بعض حلقے تو یہ کہتے ہیں کہ ملک کی سب سے زیادہ خراب گورننس سندھ میں ہے عوام کی منتخب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا یہ آئینی اور اخلاقی فرض ہے کہ وہ بلدیاتی اداروں کو بلا تاخیر اختیار منتقل کرکے جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے دیں اس معاملے میں لیت و لعل عوامی مسائل سے چشم پوشی کے مترادف ہوگی اور اس حساس اور اہم مسئلے پر متعلقہ شعبوں، اداروں یا لوگوں کے تجاہل اور تغافل کا آئینہ دار ہے اور اس سے فوری گریز عصر حاضرکی اولین ضرورت ہے۔