حیدرآباد دہشت گردوں کی فائرنگ مذہبی تنظیم کے سربراہ سمیت3جاںبحق
حیدر چوک کے قریب غوثیہ فائونڈیشن و بزم مناقب غوث الوریٰ کے دفتر پر فائرنگ، صاحبزادہ مصطفی کمال،شکیل اور کاشف دم توڑگئے
حیدر آباد کے حیدر چوک کے قریب غیر سیاسی مذہبی جماعت کے دفتر میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے 3 افراد جاں بحق جبکہ 3 زخمی ہوگئے جن کو حالت تشویش ناک حالت میں کراچی اسپتال منتقل کیا گیا۔
واقعے کے بعد علاقے میں بھگدڑ مچ گئی، پولیس نے بلڈنگ سے آٹھ سے زائد مشکوک افراد کو تحویل میں لے کر تفتیش کیلیے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ حیدرآباد میں مسلسل دوسرے روز بھی ٹارگٹ کلنگ کے واقعے کے باعث شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق حیدر چوک کے قریب شمشاد چیمبر کی بالائی منزل پر واقعہ غوثیہ فاونڈیشن و بزم مناقب غوث الوریٰ کے دفتر میں 4 افراد نے داخل ہو کر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 38 سالہ شکیل موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا جبکہ مناقب غوث الوریٰ کے سربراہ 55 سالہ صاحبزادہ مصطفی کمال، 33 سالہ کاشف، 40 سالہ رضوان، 26 سالہ عمران قادری اور 70سالہ مقبول شدید زخمی ہوگئے۔
تمام زخمیوں کو طبی امداد کے لیے سول اسپتال کے جایا گیا، جہاں صاحبزادہ مصطفیٰ کمال اور کاشف بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔واقعہ کے بعد علاقے میں بھگدڑ مچ گئی اور رات گئے تک کھلنے والی دکانیں بند کر دی گئیں۔ واقعہ کی اطلاع پر ڈی پی او حیدرآباد پیر فرید جان سرہندی، حق پرست رکن قومی اسمبلی صلاح الدین، اراکین صوبائی اسمبلی سہیل یوسف، وسیم حسین کے علاوہ متحدہ کے جوائنٹ زونل انچارج نوید شمسی، اراکین زونل کمیٹی، بزم غوث الوریٰ، سنی تحریک سمیت دیگر سنی تنظیموں کے رہنما اور کارکنان کی بڑی تعداد موقع پر پہنچ گئی۔
جس کے بعد تینوں مقتولین کی لاشیں ان کے لواحقین کے حوالے کر دی گئیں، جنہیں ''غلام ہیں غلام ہیں غوث پاک کے غلام ہیں'' کے نعروں کی گونج میں بغیر پوسٹ مارٹم کرائے گھروں کو لے جایا گیا۔ واضح رہے کہ بزم مناقب غوث الوری، 1997 سے باقاعدہ طور پر حیدرآباد میں ماہانہ بینادوں پر محفل غوثیہ کا انعقاد کراتی آ رہی ہے ماہانہ محفل ہر اسلامی مہینے کی سترہ کو جامع مسجد پکھا پیر میں ہوتی ہے جبکہ سالانہ مرکزی محفل اسٹیشن روڈ پر کرائی جاتی ہے، گذشتہ روز بھی ماہانہ محفل کا انعقاد کیا گیا تھا۔
جس کے بعد اتوار کو اجلاس طلب کیا گیا تو اور لوگ ابھی پہنچنا ہی شروع ہوئے تھے کہ دو مسلح حملہ آور داخل ہوئے اور انھوں نے اچانک فائرنگ شروع کر دی۔ زخمی عمران قادری کے مطابق دو میں سے ایک حملہ آور نے سر پر کیپ پہنی ہوئی تھی اور اسکی بڑی بڑی مونچھیں تھیں جبکہ دوسرا چھریرے جسم کا مالک تھا جنہوں نے بس دفتر میں داخل ہوتے ہی فائرنگ کی اور فرار ہو گئے۔ شدید زخمی ہونے والے بعض افراد جب بالائی منزل سے بھاگ کر نیچے روڈ پر جا کر گرے تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ بالائی منزل پر فائرنگ ہوئی ہے۔
واقعے کے بعد علاقے میں بھگدڑ مچ گئی، پولیس نے بلڈنگ سے آٹھ سے زائد مشکوک افراد کو تحویل میں لے کر تفتیش کیلیے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ حیدرآباد میں مسلسل دوسرے روز بھی ٹارگٹ کلنگ کے واقعے کے باعث شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق حیدر چوک کے قریب شمشاد چیمبر کی بالائی منزل پر واقعہ غوثیہ فاونڈیشن و بزم مناقب غوث الوریٰ کے دفتر میں 4 افراد نے داخل ہو کر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 38 سالہ شکیل موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا جبکہ مناقب غوث الوریٰ کے سربراہ 55 سالہ صاحبزادہ مصطفی کمال، 33 سالہ کاشف، 40 سالہ رضوان، 26 سالہ عمران قادری اور 70سالہ مقبول شدید زخمی ہوگئے۔
تمام زخمیوں کو طبی امداد کے لیے سول اسپتال کے جایا گیا، جہاں صاحبزادہ مصطفیٰ کمال اور کاشف بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔واقعہ کے بعد علاقے میں بھگدڑ مچ گئی اور رات گئے تک کھلنے والی دکانیں بند کر دی گئیں۔ واقعہ کی اطلاع پر ڈی پی او حیدرآباد پیر فرید جان سرہندی، حق پرست رکن قومی اسمبلی صلاح الدین، اراکین صوبائی اسمبلی سہیل یوسف، وسیم حسین کے علاوہ متحدہ کے جوائنٹ زونل انچارج نوید شمسی، اراکین زونل کمیٹی، بزم غوث الوریٰ، سنی تحریک سمیت دیگر سنی تنظیموں کے رہنما اور کارکنان کی بڑی تعداد موقع پر پہنچ گئی۔
جس کے بعد تینوں مقتولین کی لاشیں ان کے لواحقین کے حوالے کر دی گئیں، جنہیں ''غلام ہیں غلام ہیں غوث پاک کے غلام ہیں'' کے نعروں کی گونج میں بغیر پوسٹ مارٹم کرائے گھروں کو لے جایا گیا۔ واضح رہے کہ بزم مناقب غوث الوری، 1997 سے باقاعدہ طور پر حیدرآباد میں ماہانہ بینادوں پر محفل غوثیہ کا انعقاد کراتی آ رہی ہے ماہانہ محفل ہر اسلامی مہینے کی سترہ کو جامع مسجد پکھا پیر میں ہوتی ہے جبکہ سالانہ مرکزی محفل اسٹیشن روڈ پر کرائی جاتی ہے، گذشتہ روز بھی ماہانہ محفل کا انعقاد کیا گیا تھا۔
جس کے بعد اتوار کو اجلاس طلب کیا گیا تو اور لوگ ابھی پہنچنا ہی شروع ہوئے تھے کہ دو مسلح حملہ آور داخل ہوئے اور انھوں نے اچانک فائرنگ شروع کر دی۔ زخمی عمران قادری کے مطابق دو میں سے ایک حملہ آور نے سر پر کیپ پہنی ہوئی تھی اور اسکی بڑی بڑی مونچھیں تھیں جبکہ دوسرا چھریرے جسم کا مالک تھا جنہوں نے بس دفتر میں داخل ہوتے ہی فائرنگ کی اور فرار ہو گئے۔ شدید زخمی ہونے والے بعض افراد جب بالائی منزل سے بھاگ کر نیچے روڈ پر جا کر گرے تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ بالائی منزل پر فائرنگ ہوئی ہے۔