کھیلن کو مانگے چاند
گیت کے بول تھے ’’انوکھا لاڈلا، کھیلن کو مانگے چاند، کیسی انوکھی بات رے۔
HYDERABAD:
جلال الدین محمد اکبر کے ہاں جب ہزار منتوں اور مرادوں کے بعد شہزادہ سلیم کی پیدائش ہوئی تو مشہور موسیقار تان سین نے بادشاہ کی اس خوشی کے موقع پر راگ درباری میں جو گیت پیش کیا اس کے بول اور خود راگ درباری آج تک مقبول ہے۔ گیت کے بول تھے ''انوکھا لاڈلا، کھیلن کو مانگے چاند، کیسی انوکھی بات رے۔'' شاہی خاندان میں جنم لینے والے تو ایسی انوکھی فرمائشیں کرتے ہی رہے ہیں اور ان کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے رعایا کا بھرکس نکالا جاتا رہا ہے۔
کسی کو کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرنے کا شوق ہوتا تو کسی کو باغات اور محلات بنانے کا۔ اقتدار ایک ایسی مسند ہے جس پر آپ فوج کے ذریعے علاقے فتح کر کے برسراقتدار آئیں یا جمہوری طور پر لوگوں کے ووٹوں سے براجمان ہوں، اس کا نشہ حکمرانوں کو ضرور چڑھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ علاقے فتح کر کے حکمرانی کا تاج سر پر سجانے والے بھی عوام دوست، منصف مزاج اور خلق خدا کی خدمت کے جذبے سے معمور ہوتے ہیں اور جمہوریت میں تو ایسا دکھاوا بہت ضروری ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں یا کبھی نہ کبھی آپ کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جب عوام بے قابو ہو کر آپ کی بساط الٹ دیں۔ اسی لیے جمہوری حکمران جب انوکھی فرمائشیں کرتے ہیں تو انھیں عوامی فلاح و بہبود اور قوم کی ترقی کے خوبصورت دعوؤں میں لپٹا کر کیا کرتے ہیں۔
پاکستان بھی ان بدقسمت ممالک میں سے ایک ہے جہاں خواہ جمہوریت کے ذریعے حکمران برسراقتدار آئیں یا فوج کے راستے سے، ان کے شوق نرالے اور فرمائشیں انوکھی ہوتی ہیں۔ ان کو کچھ کھلونے چاہئیں جنھیں وہ توڑ مروڑ کر برباد کر دیں اور کچھ کھلونے ایسے ہونے چاہئیں جن سے ان کا دل بہلتا رہے۔ جسے دیکھ دیکھ کر وہ خوش ہوتے رہیں۔ پی آئی اے اور میٹروبس ان دو انتہاؤں کی مثالیں۔ ایک کھلونے یعنی پی آئی اے کو اس لیے تباہ و برباد کیا جا رہا ہے کہ یہ خسارے کا سودا ہے۔ اس پر روزانہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ خرچ ہوتا ہے اور دوسرے یعنی میٹروبس اور اورنج ٹرین کو بادشاہ کی انوکھی خواہش کی وجہ سے خسارے کے سودے پر ہی تعمیر کیا جا رہا ہے اور اس پر بھی روز عوام کے ٹیکس کا پیسہ خرچ ہو گا۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کا مقدر یہ ہے کہ جن ارباب سیاست نے اسے لوٹا، کھسوٹا، اس کے جسم سے بوٹیاں نوچ نوچ کر کھائیں۔ اسے ایک زندہ لاش کی صورت بنا دیا، وہی اس کا سودا کرنے جا رہے ہیں۔ وہی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اس ادارے کی خیر خواہی میں اسے بیچ رہے ہیں۔ جو لوگ اپنی اسٹیل مل، شوگر مل، دودھ کی فیکٹری یا مرغی کے گوشت کے کاروبار میں ایک سفارشی شخص بھرتی نہیں کرتے، جب اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں تو ہر ادارے میں اپنے منظور نظر نالائق، نکمے اور نااہل لوگوں کو دھڑا دھڑ بھرتی کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ ادارے ان کی ذاتی دولت سے نہیں عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بنائے گئے ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے پی آئی اے میں لاتعداد بھرتیاں کی گئیں اور ہر دور میں ہوئیں جس کی وجہ سے پی آئی اے خسارے میں ہے۔ حبیب ولی محمد کی گائی ہوئی وہ غزل کا شعر یاد آ رہا ہے۔
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر، تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
پی آئی اے کی کشتی تو تم ڈبو تو رہے ہو اب جس جس حکمران کے جس جس سفارشی کو بھرتی کیا اسے اسی حکمران کی ملوں میں بھیج دیا جائے۔ ''اللہ کے فضل و کرم'' سے نواز شریف ہوں یا آصف زرداری دونوں کے وسیع کاروبار ہیں۔ پی آئی اے کے سب سفارشی ملازمین کو ان کی اسٹیل ملوں، شوگر ملوں، دودھ اور مرغی کے کاروبار میں کھپایا جائے تا کہ یہ بھی مزا چکھیں کہ ادارے، فیکٹریاں اور ملیں کیسے برباد ہوتی ہیں۔ انھیں اس ملک کے کھلونے توڑ کر تماشا دیکھنے میں لطف آتا ہے، اپنے ذاتی کھلونوں کو بھی توڑ کر اس تماشے کا مزا لیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ سفارشی اگر ان کی ملوں میں بھیج دیے جائیں تو پی آئی اے کا خسارہ ختم ہو جاتا ہے۔
لیکن شاید پی آئی اے کی لاش کو گرانے کا مکمل بندوبست کر لیا گیا ہے۔ اسٹاک ایکسچینج میں گدھ منڈلا رہے ہیں۔ عقل کے اندھے کو بھی نظر آ رہا ہے کہ کوئی کچھ کر لے یہ سب ہونا ہی ہونا ہے۔ جس فیکٹری، مل یا ادارے میں ہڑتال چل رہی ہو، جس کا مستقبل مخدوش ہو، اس کے حصص اسٹاک ایکسچینج میں گر جاتے ہیں، لوگ اس کے شیئرز فروخت کرتے پھرتے ہیں۔ لیکن یہ کیسی الٹی گنگا ہے کہ جس دن پی آئی اے میں فلائٹ آپریشن بند ہوا اس روز اس کے سترہ لاکھ شیئرز کی خرید و فروخت ہوئی۔
صرف دو دنوں میں شیئرز کی قیمت میں دو روپے کے قریب اضافہ ہوا۔ وہ جو سرمایہ پرست ہیں، جو اسٹاک ایکسچینج کے کھلاڑی ہیں، انھیں علم ہے کہ پی آئی اے کی لاش گرائی جانے والی ہے اور وہ ابھی سے گدھوں کی طرح منڈلا رہے ہیں۔ اس کے تن مردہ کا چھبیس فیصد گوشت تو وہ پارٹنر لے جائے گا جس کے ہاتھ یہ فروخت ہوئی لیکن باقی گوشت کی خرید و فروخت کے لیے گدھ اسٹاک ایکسچینج کے اردگرد خونخوار پنجے نکالے تاک میں بیٹھے ہیں۔
ایسے میں انوکھا لاڈلا کس قدر خوش ہو گا کہ اس کی خواہش کے مطابق وہ ادارہ جسے اس قوم کے محنت کش عوام نے اپنے خون پسینے سے سینچا تھا۔ جس نے ایک عالمی سطح کا مقام حاصل کیا تھا۔ جو جائیدادوں کے حساب سے آج بھی اس قدر امیر ہے کہ اس پر ہر کسی کی للچائی ہوئی نظریں پڑتی ہیں۔ اس ادارے میں پہلے خود اپنے سفارشی بھیج کر تباہ کیا گیا۔ جس ادارے پر جونکوں کی طرح لوگوں کو پالا گیا۔ اپنے شوق پرواز کو بھی اسی ادارے پر مفت خوری سے پورا کیا گیا۔
جب اس کا گوشت جگہ جگہ سے نوچ لیا گیا اب کہا جاتا ہے کہ لاغر و بیمار ہے، نکما ہے، اسے بیچ دو، یہ لاغر و بیمار آج بھی پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں رعائتی کرایوں پر جہاز چلاتا ہے۔ لیکن ہمارے انوکھے لاڈے، کبھی گوادر، پنجگور، تربت، ژوب، چترال، گلگت جیسے مقام پر رہے نہیں۔ اگر رہیں بھی تو ان کا کوئی مہربان ان کے لیے چارٹر طیارے یا ہیلی کاپٹر کا بندوبست کر دیتا ہے۔
اس کا انجینئرنگ کا شعبہ صرف پی آئی اے نہیں بلکہ پاکستان کی ایئرفورس کو سروس مہیا کرتا ہے۔ وہ جو 26 فیصد کا مالک بن کر پورے پی آئی اے کا انتظام سنبھالے گا، کیا وہ یہ سب کرے گا۔ دنیا بھر کا سرمایہ دار صرف ایک مقصد کے لیے غریب ملکوں کے اثاثے خریدتا ہے تا کہ اس کی دولت میں اضافہ ہو۔ اس کے ہاں کاروباری اخلاقیات یا انسانی ہمدردی نام یک چڑیا کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ وہ اس محاورے کے مصداق ہوتا ہے کہ ''گھوڑا گھاس پر ترس کھائے گا تو پھر کھائے گا کیا۔'' پی آئی اے کی صورت میں ہری ہری گھاس سب کو نظر آ رہی ہے۔
انوکھا لاڈلا ہر دور میں چالاک ہوتا ہے۔ تیمور جب کھوپڑیوں کے مینار بنا رہا تھا تو کہتا تھا میں یہ اس لیے کر رہا ہوں، کہ جب ان پر چربی ڈال کر آگ لگائی جائے گی تو دور دور تک میری ہیبت چھا جائے گی۔ ہم بھی پی آئی اے کو بیچ دیں گے تو آئی ایم ایف سے لے کر دنیا بھر کے کاروباری اداروں میں ہماری دھاک بیٹھ جائے گی کہ ہم کسی قدر ''بزنس فرینڈلی'' ہیں، کیسے اپنا ہی گھر پھونک کر عالمی برادری کے لیے آتشبازی کا سامان کرتے ہیں۔
کھلونا توڑ کر خوش ہونا تو دوسری جانب انوکھے لاڈلے کو نیا کھلونا بھی تو چاہیے ہوتا ہے جس سے کھیلا جا سکے۔ جمہوری حکمران کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ نیا کھلونا بنائے تو بتانا پڑتا ہے کہ یہ میرے نہیں آپ کے فائدے میں ہے۔ تقریباً بیس سال پہلے جب موٹروے اسلام آباد سے لاہور تک بنی تھی تو یہی منطق دی جاتی تھی۔ چار سو کلو میٹر کی اس موٹروے کے دونوں طرف موجود آبادی آج بھی ہزار سالہ پرانی زندگی گزار رہی ہے۔ گندے جوہڑ، اوپلے، نہ صحت کی سہولت اور نہ تعلیم کی، بیمار، غریب، مفلوک الحال، بے روزگار دونوں جانب یہی منظر آج بھی ہے۔ ان پسماندہ لوگوں کے درمیان ایک چمکتی سڑک گزرتی ہے جس پر چند ہزار لوگوں کا سفر آسانی سے کٹتا ہے اور ساتھ ساتھ ایک سفاری پارک کی ''رائیڈ'' بھی ہو جاتی ہے۔
البتہ اس سفاری پارک میں شیر اور زرافے وغیرہ نہیں ہوتی بلکہ انسان ہوتے ہیں جنھیں ہم گاڑیوں میں بیٹھے اپنے بچوں کو معاشرتی علوم کے سبق کی طرح دکھاتے ہیں۔ بچو! دیکھو یہ ہے ہمارے کسان، دیکھو کیسے ایک جوہڑ میں جانوروں کے ساتھ کھڑے نہارے ہیں، ہے نا مزے کا سین، ایسا ہی کچھ سین میٹرو اور اورنج ٹرین میں ہوتا ہے۔ جب ایک بیمار، بیروزگار، مفلوک الحال ایک تنگ و تاریک گھر سے نکلتا ہے جہاں نہ بجلی ہے، نہ پانی، بیماری نے جہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور پھر میٹرو کے ایئرکنڈیشنڈ ماحول میں سفر کرنے کے بعد واپس اسی تاریکی میں لوٹ جاتا ہے لیکن کیا کریں انوکھے لاڈلوں کے کھیلنے کی یہ قیمت تو عوام کو بھرنا پڑتی ہے۔