حلقہ 122 اور انصاف کا سیلاب

ویسے تو جناب عمران خان کی ہر بات ہمارے دل کو لگتی ہے بلکہ یوں کہئے کہ اگر وہ زور کا جھٹکا دھیرے سے بھی دیتے ہیں


Saad Ulllah Jaan Baraq February 08, 2016
[email protected]

ویسے تو جناب عمران خان کی ہر بات ہمارے دل کو لگتی ہے بلکہ یوں کہئے کہ اگر وہ زور کا جھٹکا دھیرے سے بھی دیتے ہیں تو ہمارے دل کو دھیرے سے زور کا جھٹکا لگتا ہے کیونکہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں مرشد نے فرمایا ہے کہ

بلائے جاں ہے غالبؔ اس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا

وجہ اس کی یہ ہے کہ جناب عمران خان باتیں بہت اچھی کرتے ہیں وہ ایک چینل کا اشتہار تو آپ نے دیکھا اور سنا ہی ہو گا کہ ایک ''بر دکھوئے'' کی تقریب میں لڑکا لڑکی جب آمنے سامنے ہوتے ہیں تو لڑکی اس لڑکے کو دیکھے بغیر، حالانکہ لڑکے کو غلط فہمی ہے کہ وہ مجھے دیکھ رہی ہے جب کہ لڑکی اس کے پیچھے اس کے گھر کو دیکھ رہی ہوتی ہے، تھوڑی دیر بعد لڑکی کہتی ہے آپ بہت اچھا ... لڑکے کا دل اپنی تعریف کے لیے معلق ہو جاتا ہے، اپ بہت اچھا رنگ کرتے ہیں، لڑکی کی نگاہ دراصل اس کے گھر کے رنگ و روغن پر ہوتی ہے ظاہر ہے کہ یہ سارا کٹھراگ پینٹ بنانے والی کمپنی نے اپنے رنگوں کی مشہوری کے لیے رچایا ہوا ہوتا ہے، تو ہم بھی (کوئی کچھ بھی کہے یا سمجھے) عمران خان کے بارے میں یہی کہنا چا رہے ہیں کہ وہ باتیں بہت اچھی کرتے ہیں۔

ایک ''حقیقہ'' دُم ہلا رہا ہے' اس سے بھی نبٹ چلیں، ہمارے پشتو کے عالم بے بدل اور نکتہ سنج جناب تقویم الحق کا کا خیل سے ایک مرتبہ ہم نے ایک اکیڈمک + سرکاری + درباری شاعر کے بارے میں پوچھا کہ کیسے شاعر ہیں، بولے دعوتیں کمال کی کرتے ہیں، ہم نے مزید' جناب وہ شاعر کیسے ہیں ۔میاں صاحب پھر بولے ... کھانا بہت اچھا کھلاتے ہیں، ہمارے سوال کا جواب ہمارے خیال میں یہ نہیں تھا اس لیے تیسری بار ذرا زور دے کر پوچھا ... جناب ہم نے شاعری کے بارے میں پوچھا ہے، بولے ... جواب تو میں نے دیدیا ہے کہ کھانا بہت اچھا کھلاتے ہیں اور تمہیں سمجھ جانا چاہیے کہ یہی اس کی ''صفت'' ہے، بہت سے لوگ عمران خان کے بارے میں بھی بہت کچھ کہتے رہتے ہیں لیکن ہمارا سب کو صرف ایک ہی جواب ہے کہ باتیں بہت اچھی کرتے ہیں، باقی اگر کچھ بھی نہ کریں تو یہی کافی ہے ان کی باتوں پر مرشد کا وہ شعر بالکل ہی ٹھیک بیٹھتا ہے جس میں انھوں نے تقریر کی لذت اور یہ بھی میرے دل میں ہے کہا ہوا ہے اور ہم اس پر یہ اضافہ کریں گے کہ

ان کی باتیں تو پھول ہوں جیسے
اپنی باتیں ببول ہوں جیسے

اب کے انھوں نے جو بات کہی ہے تو واہ کیا بات کہی ہے ایسا لگتا ہے جیسے وہ ہمارے دل کے اندر بیٹھے ہوں اور وہی کہا ہو جو ہم عرصے سے کہنا چاہ رہے تھے، لیکن اگر ہم کہہ بھی دیتے تو کونسا کسی نے کان دھرنا تھا، وہ جو کسی نے کہا ہے نا کہ ''قل ہو'' وہی ''قل ہو'' ہے لیکن زبان ملا منان کی چاہیے، فرماتے ہیں کہ اگر این اے 122 میں ناانصافی ہوئی تو فیصلہ سڑکوں پر ہو گا، چھوٹا سا فقرہ ہے جانے پہچانے الفاظ ہیں سادہ سادہ سا انداز بیان ہے، سادھارن سا نشست و برخواست ہے لیکن معنی ہیں کہ پھوٹے پڑ رہے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے ایک ایک موتی ٹھیک ٹھیک مقام پر رکھ کر نو لکھا ہار پرویا ہو، ایسی باتوں کو ''سہل ممتنع'' کہا جاتا ہے کہ بات ایک ہو اور مطالب بے شمار ہوں یعنی

دل نے اک اینٹ پہ تعمیر کیا تاج محل
تو نے ایک بات کہی لاکھ فسانے نکلے

خاص طور پر اس میں جو کھلے کھلے مطالب و معانی جھلک رہے ہیں ان میں ایک تو یہ ہے کہ بات صرف حلقہ 122 کی ہے، صرف اس میں بے انصافی نہ ہو باقی جو حلقہ ہائے اسمبلی ہیں ان میں بے شک ہائے ہائے ہوتا رہے، وائے وائے اور بائے بائے بھی ہو تو چنتا کی کوئی بات نہیں ہے کیوں کہ ان تمام حلقہ ہائے ہائے کے رہنے والے پیدائشی طور پر خاندان ہائے ہائے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے بغیر کوئی بھی ''کام بند'' نہیں ہے، یعنی

غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
رویئے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں؟

اور پھر حلقہ 122 میں اگر کیا ہوئی؟ ''بے انصافی'' اور یہی وہ لفظ ہے جس پر کتابوں کی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں سب سے مزیدار بات تو یہ ہے کہ بے انصافی کی پوری پوری تشریح آج تک نہیں کی جا سکی ہے اور پھر جمہوریت میں تو یہ اور بھی عجیب سی چیز لگتی ہے کیوں کہ جمہوریت...؟ ہمارا مطلب اس جمہوریت سے ہے جو اس وقت بمقام مملکت اللہ داد پاکستان رائج بلکہ نافذ بلکہ نصب ہے اس کی تو بنیادہی ناانصافی پر ہوتی ہے بلکہ اگر اس میں ''ناانصافی'' کا نمک نہ ہو تو ساری ہانڈی ہی بیکار ہو جاتی ہے بلکہ ایک طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ اس جمہوریت کے انتخابات اور منتخب نمایندے صرف اور صرف بے انصافی کا بول بالا کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔

فرض کیجیے کسی حلقے میں تین امیدوار ہیں چار بھی ہو سکتے ہیں اور اس سے کم یا زیادہ بھی لیکن چونکہ فرض کرنے کا کلیہ تین ہی ہوتا ہے اس لیے تین پر تین کرتے ہیں، ان تینوں میں سے ایک کو انتیس ہزار ووٹ ملتے ہیں دوسرے کو تیس ہزار اور تیسرے کو تیس ہزار تین ووٹ پڑتے ہیں اور وہ منتخب نمایندہ کہلاتا ہے اب یہ منتخب نمایندہ ''انصاف'' کرتے ہوئے بلکہ تحریک انصاف چلاتے ہوئے ساری ریوڑیاں اپنے تیس ہزار تین فاتحین میں بانٹے گا یا نہیں آخر وہ منتخب نمایندہ ہے اور منتخب نمایندہ ہر قسم کی غلطی اور سہو سے بالاتر ہوتا ہے باقی رہے انسٹھ ہزار خدا مارے تو... پھرتے رہیں میرؔ خوار ... اس پر اگر آپ فلم بنانا چاہیں تو بنا سکتے ہیں جمہوریت کا انصاف اور اگر ڈرامہ یا مضمون لکھنا ہو تو اس کے لیے مناسب ترین عنوان ہے جمہوریت زندہ باد، لیکن حسن کرشمہ ساز بھی تو ایک چیز ہے جو ہمارے کپتان صاحب کو خدا نے بہت سارا عطا کیا ہوا ہے اور حسن کرشمہ ساز جو چاہے کر سکتا ہے کسی ایک حلقے کو لے کر وہ انصاف تو کیا تحریک انصاف بھی کر سکتے ہیں، ویسے کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ اس حلقے 122 کے عوام کو خوش نصیب کہیں یا بدنصیب، کہ کبھی تو ان پر ہن برستا ہے اور انتخابات میں وارے نیارے ہو جاتے ہیں اور کبھی ان کو ''انصاف'' لاحق ہو جاتا ہے۔

اب اس بیان کا دوسراحصہ تو اور بھی ڈرا دینے والا ہے کہ پھر فیصلہ سڑکوں پر ہو گا، ظاہر ہے سڑکوں پر فیصلہ کرنے کے لیے جو عدالتیں دھرنے کے نام پر سجائی جاتی ہیں وہ اپنی قسم کی بالکل نئی نئی قسم کی عدالتیں ہوتی ہیں اور اگر اس قسم کی عدالتوں کا چلن عام ہوا تو ایسے ایسے فیصلے ہوں گے جن کا فیصلہ نہ جانے کیسے کیسے فیصلے کریں گے جی تو ہمارا چاہتا ہے کہ کپتان صاحب کو ایک مشورہ دیں لیکن ان تک پہنچنا ناممکنات میں سے ہے اس لیے نہ ہی دیں تو اچھا ہے، ورنہ ہم عرض کرتے ہیں کہ حلقہ 122 سے نکل کے پی کے، کے ان تمام حلقوں پربھی اک نگاہ کرم کیجیے جہاں آج کل انصاف کا سیلاب آیا ہوا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں