اب کہیں کوئی انتظار نہیں کرے گا
اردو ادب کا بہت بڑا نام انتظار حسین بھی چلے گئے۔ میری ان سے پہلی ملاقات پاک ٹی ہاؤس لاہور میں ہوئی تھی۔
KARACHI:
اردو ادب کا بہت بڑا نام انتظار حسین بھی چلے گئے۔ میری ان سے پہلی ملاقات پاک ٹی ہاؤس لاہور میں ہوئی تھی۔ میں پہلے سے ٹی ہاؤس میں موجود تھا، انتظار صاحب آئے اور اپنی پسندیدہ جگہ پر بیٹھ گئے۔ وہ اکیلے ہی بیٹھے ہوئے تھے، یقیناً انھیں اپنے ساتھیوں کا انتظار ہوگا، میں اپنی ٹیبل سے اٹھا اور ان کی ٹیبل پر چلا گیا۔ انھیں سلام کیا، ہاتھ ملایا اور اجازت لے کر بیٹھ گیا۔
کراچی کے حالات خراب تھے، مارا دھاڑی، لوٹ مار، بوری بند لاشیں یہ سب ہو رہا تھا۔ میرے سامنے ایک بڑا آدمی بیٹھا تھا، میں نے ان سے کہا۔ کراچی سے آیا ہوں، جہاں راتیں بھی جاگتی تھیں، روشنیوں کا شہر اب اندھیروں میں ڈوب رہا ہے۔ وہ میری بات پر خاموش رہے۔ میں سمجھ گیا کہ ایک اجنبی سے وہ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہ رہے۔ میں نے ان سے کہا معاف کیجیے بات کرنے سے پہلے مجھے اپنا تعارف کروانا چاہیے تھا۔ پھر میں نے انھیں بتایا کہ میں حبیب جالب کا بھائی ہوں، یہ سن کر ان کے چہرے پر قربت کے رنگ بکھر گئے، اور وہ مجھ سے بات کرنے لگے۔ کراچی کے حالات کی جگہ جالب نے لے لی۔
انتظار صاحب بولے جالب دلی سے اپنے خاندان کے ساتھ کراچی آیا تھا۔ جالب کے بڑے بھائی مشتاق مبارک سرکاری افسر تھے۔ میاں! آپ کیا کرتے ہیں؟ میں نے بتایا محکمہ انکم ٹیکس کراچی میں انسپکٹر ہوں۔ کچھ لکھ پڑھ بھی لیتا ہوں۔ افسانوں کا مجموعہ ''نہ وہ سورج نکلتا ہے'' آپ کو بھجوایا بھی تھا۔ مجموعے کے نام سے انھیں یاد آگیا۔ کہنے لگے میں نے اس پر تبصرہ لکھا تھا، جو ڈان اخبار میں چھپا تھا۔
پچھلے سات آٹھ سال سے انتظار حسین صاحب روزنامہ ایکسپریس میں کالم لکھ رہے تھے۔ ان کے کالم کیا کہوں کیا تھے، پرانی تہذیب میں رچے بسے۔ میر، غالب، سودا، مصحفی، مومن، اقبال، جوش، فیض کے اشعار سے سجے بنے، پھر واقعہ بیان کرنے کا اسلوب میرٹھ، دلی کی بات چیت کے دلکش انداز، ان کے کالم محض کالم نہیں ادبی مرقع ہوتے تھے۔ ادیب، شاعر، کالم نویس، ان کی تحریروں سے تربیت پاتے تھے۔ جیسا فقرہ وہ تراشتے تھے وہ کوئی دوسرا چاہے بھی تو نہ تراش پائے۔ اس لیے کہ وہ مجسم تہذیب کے آدمی تھے، چلتا پھرتا ادب۔
انتظار صاحب کے ہم عصروں میں بہت بڑے بڑے نام تھے سعادت حسن منٹو، غلام عباس، عصمت چغتائی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، شوکت صدیقی، بلونت سنگھ، قرۃ العین حیدر، احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ادب کے ان میناروں میں انتظار حسین نے خود کو منوایا۔ یہی ان کے بڑے ادیب ہونے کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ خدا بھلا کرے آرٹس کونسل کراچی والوں کو جن کی وجہ سے ہم ہر سال انتظار صاحب کو دیکھ لیتے تھے، ان کی باتیں سن لیتے تھے۔ اس بار بھی دسمبر میں وہ عالمی اردو کانفرنس میں تشریف لائے، آڈیٹوریم کے باہر ادیبوں شاعروں کا ایک دائرہ بنا ہوا تھا۔ سب کرسیوں پر بیٹھے تھے۔
میں انتظار حسین صاحب کی کرسی کے پیچھے پہنچ گیا اور ان کے کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر ہلکا سا دبایا۔ انتظار صاحب نے پلٹ کر مجھے دیکھا، مسکرائے اور بس۔ یہی مسکراہٹ بھری ملاقات میری ان سے آخری ملاقات تھی۔ خوبصورت چہرے کے مالک کی مسکراہٹ میرا خزانہ بن گئی۔ ہمارے درمیان سے بڑے لوگ، بڑی تیزی سے جاتے گئے، اب تو دو ایک کے سوا، دور دور کوئی نظر نہیں آرہا، یہی ڈاکٹر انور سدید، زہرہ نگاہ، ظفر اقبال، باقی تو ''دور تک پھیلی ہوئی درد کی تنہائی ہے''۔
اب اسٹیج کون سجائیں گے، سامعین کن کو سننے اور دیکھنے جائیں گے، پچھلے پچاس سال کا ہی حساب کرلیں، جو جو بڑے قلم کار، شاعر ادیب چلے گئے۔ ان کی جگہ تو دور کی بات ان کے قریب قریب بھی دوسرا نہ آسکا۔ جو جا رہا ہے، اپنی جگہ خالی چھوڑے جارہا ہے۔ انتظار حسین 21 دسمبر 1925 کو بھارت کے شہر میرٹھ کے ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ کالج سے بی اے کیا، اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا۔ ابتدا میں شاعری کی طرف راغب ہوئے۔ مگر وہاں دل نہ لگا، تو نثر کی طرف آگئے۔ کہانیاں لکھیں، افسانے لگے، ناول لکھے، ساتھ ساتھ صحافت بھی جاری رکھی اور کالم نویسی میں بھی منفرد مقام بنایا۔ اور وہ نثر لکھی کہ پوری دنیا سے داد و تحسین پائی۔
اللہ نے انھیں 93 سال کی عمر عطا فرمائی اور یوں ان کے چاہنے والے طویل مدت تک ان کے لیے سراپا انتظار بنے رہے۔ مگر اب کہیں کوئی ان کا انتظار نہیں کرے گا۔ بس اب ان کی کتابیں ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔ ''جانے والے تجھے روئے گا زمانہ برسوں'' حق مغفرت کرے۔
اردو ادب کا بہت بڑا نام انتظار حسین بھی چلے گئے۔ میری ان سے پہلی ملاقات پاک ٹی ہاؤس لاہور میں ہوئی تھی۔ میں پہلے سے ٹی ہاؤس میں موجود تھا، انتظار صاحب آئے اور اپنی پسندیدہ جگہ پر بیٹھ گئے۔ وہ اکیلے ہی بیٹھے ہوئے تھے، یقیناً انھیں اپنے ساتھیوں کا انتظار ہوگا، میں اپنی ٹیبل سے اٹھا اور ان کی ٹیبل پر چلا گیا۔ انھیں سلام کیا، ہاتھ ملایا اور اجازت لے کر بیٹھ گیا۔
کراچی کے حالات خراب تھے، مارا دھاڑی، لوٹ مار، بوری بند لاشیں یہ سب ہو رہا تھا۔ میرے سامنے ایک بڑا آدمی بیٹھا تھا، میں نے ان سے کہا۔ کراچی سے آیا ہوں، جہاں راتیں بھی جاگتی تھیں، روشنیوں کا شہر اب اندھیروں میں ڈوب رہا ہے۔ وہ میری بات پر خاموش رہے۔ میں سمجھ گیا کہ ایک اجنبی سے وہ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہ رہے۔ میں نے ان سے کہا معاف کیجیے بات کرنے سے پہلے مجھے اپنا تعارف کروانا چاہیے تھا۔ پھر میں نے انھیں بتایا کہ میں حبیب جالب کا بھائی ہوں، یہ سن کر ان کے چہرے پر قربت کے رنگ بکھر گئے، اور وہ مجھ سے بات کرنے لگے۔ کراچی کے حالات کی جگہ جالب نے لے لی۔
انتظار صاحب بولے جالب دلی سے اپنے خاندان کے ساتھ کراچی آیا تھا۔ جالب کے بڑے بھائی مشتاق مبارک سرکاری افسر تھے۔ میاں! آپ کیا کرتے ہیں؟ میں نے بتایا محکمہ انکم ٹیکس کراچی میں انسپکٹر ہوں۔ کچھ لکھ پڑھ بھی لیتا ہوں۔ افسانوں کا مجموعہ ''نہ وہ سورج نکلتا ہے'' آپ کو بھجوایا بھی تھا۔ مجموعے کے نام سے انھیں یاد آگیا۔ کہنے لگے میں نے اس پر تبصرہ لکھا تھا، جو ڈان اخبار میں چھپا تھا۔
پچھلے سات آٹھ سال سے انتظار حسین صاحب روزنامہ ایکسپریس میں کالم لکھ رہے تھے۔ ان کے کالم کیا کہوں کیا تھے، پرانی تہذیب میں رچے بسے۔ میر، غالب، سودا، مصحفی، مومن، اقبال، جوش، فیض کے اشعار سے سجے بنے، پھر واقعہ بیان کرنے کا اسلوب میرٹھ، دلی کی بات چیت کے دلکش انداز، ان کے کالم محض کالم نہیں ادبی مرقع ہوتے تھے۔ ادیب، شاعر، کالم نویس، ان کی تحریروں سے تربیت پاتے تھے۔ جیسا فقرہ وہ تراشتے تھے وہ کوئی دوسرا چاہے بھی تو نہ تراش پائے۔ اس لیے کہ وہ مجسم تہذیب کے آدمی تھے، چلتا پھرتا ادب۔
انتظار صاحب کے ہم عصروں میں بہت بڑے بڑے نام تھے سعادت حسن منٹو، غلام عباس، عصمت چغتائی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، شوکت صدیقی، بلونت سنگھ، قرۃ العین حیدر، احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ادب کے ان میناروں میں انتظار حسین نے خود کو منوایا۔ یہی ان کے بڑے ادیب ہونے کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ خدا بھلا کرے آرٹس کونسل کراچی والوں کو جن کی وجہ سے ہم ہر سال انتظار صاحب کو دیکھ لیتے تھے، ان کی باتیں سن لیتے تھے۔ اس بار بھی دسمبر میں وہ عالمی اردو کانفرنس میں تشریف لائے، آڈیٹوریم کے باہر ادیبوں شاعروں کا ایک دائرہ بنا ہوا تھا۔ سب کرسیوں پر بیٹھے تھے۔
میں انتظار حسین صاحب کی کرسی کے پیچھے پہنچ گیا اور ان کے کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر ہلکا سا دبایا۔ انتظار صاحب نے پلٹ کر مجھے دیکھا، مسکرائے اور بس۔ یہی مسکراہٹ بھری ملاقات میری ان سے آخری ملاقات تھی۔ خوبصورت چہرے کے مالک کی مسکراہٹ میرا خزانہ بن گئی۔ ہمارے درمیان سے بڑے لوگ، بڑی تیزی سے جاتے گئے، اب تو دو ایک کے سوا، دور دور کوئی نظر نہیں آرہا، یہی ڈاکٹر انور سدید، زہرہ نگاہ، ظفر اقبال، باقی تو ''دور تک پھیلی ہوئی درد کی تنہائی ہے''۔
اب اسٹیج کون سجائیں گے، سامعین کن کو سننے اور دیکھنے جائیں گے، پچھلے پچاس سال کا ہی حساب کرلیں، جو جو بڑے قلم کار، شاعر ادیب چلے گئے۔ ان کی جگہ تو دور کی بات ان کے قریب قریب بھی دوسرا نہ آسکا۔ جو جا رہا ہے، اپنی جگہ خالی چھوڑے جارہا ہے۔ انتظار حسین 21 دسمبر 1925 کو بھارت کے شہر میرٹھ کے ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ کالج سے بی اے کیا، اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا۔ ابتدا میں شاعری کی طرف راغب ہوئے۔ مگر وہاں دل نہ لگا، تو نثر کی طرف آگئے۔ کہانیاں لکھیں، افسانے لگے، ناول لکھے، ساتھ ساتھ صحافت بھی جاری رکھی اور کالم نویسی میں بھی منفرد مقام بنایا۔ اور وہ نثر لکھی کہ پوری دنیا سے داد و تحسین پائی۔
اللہ نے انھیں 93 سال کی عمر عطا فرمائی اور یوں ان کے چاہنے والے طویل مدت تک ان کے لیے سراپا انتظار بنے رہے۔ مگر اب کہیں کوئی ان کا انتظار نہیں کرے گا۔ بس اب ان کی کتابیں ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔ ''جانے والے تجھے روئے گا زمانہ برسوں'' حق مغفرت کرے۔