90PLUS

ایک بزرگوار کی پچانوے ویں سالگرہ تھی۔ ان کے گھر والے بڑے خوش تھے اور کیک کاٹنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں


Muhammad Ibrahim Azmi Advocate February 08, 2016
[email protected]

ایک بزرگوار کی پچانوے ویں سالگرہ تھی۔ ان کے گھر والے بڑے خوش تھے اور کیک کاٹنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں، ایک اخبار کا نوجوان فوٹوگرافر بھی آگیا۔ سینچری کے قریب پہنچ جانا اور ان کے اہل خانہ کا تقریب کا اہتمام کرنا اپنے اندر دلچسپی لیے ہوئے تھا۔ اس نوجوان فوٹوگرافر نے تصویر کھینچنے کے بعد ایک خواہش کا اظہار کیا۔

اس نے کہاکہ ''سر! میں چاہتاہوں کہ آپ کی 100ویں سالگرہ کی تصویر میں ہی کھینچوں'' بزرگوار نے کہاکہ نوجوان! کیا تم اس وقت تک زندہ بھی رہوگے؟ سوال کیا ہے بم کا گولا ہے۔ یہ سوال نہیں اعتماد یا شاید طنز سے بھرپور جملہ ہے۔ نوجوان پانچ برس زندہ بھی رہیںگے یا نہیں؟ جب تین چار گنا بڑی عمر کے آدمی نے کہاکہ ہم رہیں نہ رہیں، یہ تو بتاؤ کہ تم رہوگے؟

نیا سال شروع ہوتا ہے تو ڈائری مرتب کرنی ہوتی ہے، کسی کے لیے ڈائری لازمی ہو یا نہ ہو لیکن وکلا کے لیے لازمی ہوتی ہے۔ تاریخیں تو ضرور ملتی ہیں لیکن بتدریج انصاف تک پہنچنے کے لیے یہی راستہ ہے۔ جب دسمبر شروع ہوتا ہے تو جنوری کی تاریخیں ملنا شروع ہوجاتی ہیں، نیا سال آتے ہی پورے سال کا خاکہ سامنے آجاتا ہے۔ کتنے نئے مقدمات درج ہوئے، کتنے پرانے مقدمات کا فیصلہ ہوا۔

ڈائری میں اہم دنوں کے علاوہ پیاروں کی سالگرہ اور شادی و وفات کی تاریخیں لکھنا بھی جنوری کے کاموں میں سے ایک کام ہوتا ہے۔ دو تین برسوں سے 90 PLUS کے نام سے ایک صفحے پر ان بزرگوں کے نام ہوتے ہیں جو عمر کا یہ ہندسہ عبور کرچکے ہوتے ہیں۔ اکثر بھرپور اور تابندہ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، ان کا تذکرہ کیا ہوتا ہے، یوں سمجھیں کہ ڈائری کا یہ صفحہ ہمت کو جوان کردیتا ہے، تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی، مایوسی کو بھگا دیتا ہے۔ بیماری وسائل کے علاوہ مشکلات و پریشانیوں سے نجات دلا دیتا ہے۔

پہلے ہم ان چھ لوگوں کی بات کریںگے جو 1923 میں پیدا ہوئے ہیں۔ جب ہم اکیسویں صدی کے سولہویں سال میں یہ کالم لکھ رہے ہیں تو آپ سمجھ گئے ہوںگے کہ ہمارے کالم کے یہ ابتدائی چھ ہیروز نوے برس سے زیادہ جی چکے ہیں۔ ان سے بڑے تین لوگوں کے ذکر کے بعد ہم طویل العمری کے راز کے علاوہ بزرگی گزارنے کے عمدہ مقامات کی بھی بات کریںگے۔ یقین جانیے اگلے چھ منٹوں میں ان لوگوں کا تذکرہ آپ کی زندگی میں کم از کم نصف درجن باغ و بہار پیدا کردے گا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے سینیارٹی میں ساتویں نمبر کے ضیا الحق کو آرمی چیف بنادیا۔ چھٹے نمبر پر کون تھا؟ جنرل عبدالمجید ملک، ان کی کتاب ''ہم بھی وہاں موجود تھے'' سے علم ہوا کہ انھوں نے اور سپر سیڈ ہوجانے کی بدولت انھوں نے ریٹائرمنٹ لے لی۔ پھر وہ مراکش میں پاکستان کے سفیر رہے، چھ مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، نواز شریف کی کابینہ میں وزیر رہے، احسان شناسی اور حسد سے دوری اہم راز ہے، جنرل مجید ملک کی کامیابی کا۔

وہ صفحہ 310 پر لکھتے ہیں ''میں خانہ کعبہ کے قریب تسبیح پڑھ رہا تھا کہ صدر پاکستان محمد ضیا الحق سعودی سیکیورٹی میں جارہے تھے۔ انھوں نے مجھے پہچان لیا اور پوچھا آپ کہاں؟ پھر ضیا الحق میرا ہاتھ پکڑ کر خانہ کعبہ کے اندر لے گئے جہاں ہم نے نوافل ادا کیے۔ اﷲ نے ضیا الحق کے ذریعے اپنے گھر میں میری باریابی ممکن بنائی۔ ضیا الحق کا یہ احسان ساری زندگی میرے دل پر نقش رہے گا''۔

سید شریف الدین پیرزادہ اپنی نوجوانی میں قائداعظم کے سیکریٹری رہ چکے ہیں، ان کا سن ولادت بھی 1923 ہے۔ یقیناً وہ ایک بڑے قانون دان ہیں لیکن فوجی آمروں کا ساتھ دینے پر وکلا کی ایک بڑی تعداد انھیں ناپسند کرتی ہے۔ وہ سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر رہ چکے ہیں لیکن بار نے جمہوریت کے خلاف کام کرنے والوں کی تصاویر اپنے دفتر سے ہٹا دی ہیں۔ قائداعظم، ایوب خان، ضیا الحق اور مشرف کا ان پر اعتماد کرنا بہت کچھ ظاہر کرتا ہے۔ وزیر خارجہ اور وزیر قانون کے علاوہ اٹارنی جنرل کے عہدوں پر فائز رہ چکنے کے سبب یہ بات طے ہے کہ شریف الدین پیرزادہ اعلیٰ درجے کا قانونی ذہن رکھتے ہوں گے۔ تاریخ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ انھوں نے اپنی دانش کو کس طرح استعمال کیا؟ وسیع تر مطالعے کو ہم شریف الدین پیرزادہ کی کامیابی کا راز سمجھتے ہیں۔

کلدیپ نیئر بھارت کے ایک بہت بڑے صحافی ہیں۔ ''ایکسپریس'' کے قارئین ان کے خیالات سے ہر ہفتے آگاہ رہتے ہیں۔ کلدیپ نیئر آزادی ہند کے چوبیس برس قبل سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ جوانی میں تقسیم کو دیکھنے اور ہجرت کرنے کے باوجود ان کی تحریروں میں تلخی نہیں بلکہ بالغ نظری دکھائی دیتی ہے۔ نوے سال سے زیادہ عمر کی زندگی گزارنے والوں کی بات ہو اور ہم انتظار حسین جیسے لیجنڈ کو بھول جائیں؟ کالم تحریر کرتے وقت انتظار حسین کے انتقال کی خبر موصول ہوئی۔ انھیں کسی بہانے سے یاد کرنے کی خاطر تبدیلی نہیں کی۔

روئیداد خان جیسے بڑے افسر اور متحرک انسان کی تاریخ پیدائش 1923 ہے۔ اس عمر میں ایسی گھن گرج اور صحت کا راز کیا ہے؟ خان صاحب اسے ورزش اور کھانے میں احتیاط کا سبب بتاتے ہیں، ہم اردو مزاح کے ''عہد یوسفی'' میں جی رہے ہیں۔ یہ بات مشتاق احمد یوسف کے بارے میں ڈاکٹر ظہیر فتح پوری نے کہی ہے، زرگزشت، آب گم، خاکم بدھن اور چراغ تلے عہد جوانی میں لکھنے والے مزاح نگاری نے پانچویں کتاب اس وقت شایع ہوئی جب وہ عمر عزیز کی 90 بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ اب دلیپ کمار، اصغر خان اور دینا جناح کے بارے میں بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ایک بات۔

جب اکیسویں صدی شروع ہو رہی تھی تو ماہرین اندازہ لگارہے تھے کہ اگلے سو سال انسان کس طرح گزارے گا؟ ان ہی دنوں ایک ایسا کیلنڈر ملا جس پر نئی صدی کے حوالے سے کچھ تصاویر تھیں۔ گھر کا دروازہ روبوٹ کھولے گا اور گاڑیاں بغیر ڈرائیور کے چلیںگے۔ اس کے علاوہ ایک شخص کی تصویر تھی، جس کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ تھی۔ وہاں لکھا تھا I am Hundred اس کا مطلب ہوا کہ اوسط عمر بڑھنے کی بات آہستہ آہستہ پختہ ہوتی جارہی ہے، نانی کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ سے ہدایت کار نے کہاکہ وہ بالوں کو سفید کرلیں۔ فنکارہ کا اصرار تھا کہ کوئی ضرورت نہیں۔ انھوں نے کہاکہ میں حقیقت میں نانی بن چکی ہوں، ضروری نہیں کہ نانی بوڑھی ہی ہو۔ واقعی آج کل ساٹھ ستر سال کے بعض خواتین و حضرات اتنے فٹ نظر آتے ہیں کہ چالیس بیالیس کے معلوم ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے نوے کے ہندسے کو عبور کرنے والے مشہور لوگوں کے احوال بیان کیے ہیں۔

ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آنے والی صدی میں لاکھوں لوگ ایسے ہوںگے جن کی عمریں دو سو سال ہوںگی تو لوگ تعجب نہیں کریںگے۔ آیئے تین لوگوں کی بات کرنے کے بعد ہم طویل العمری کے راز کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ دلیپ کمار، اصغر خان اور دینا جناح ان چھ لوگوں سے عمر میں بڑے ہیں جن کا تذکرہ ہوچکا ہے، جنرل مجید ملک، شریف الدین پیرزادہ، کلدیپ نیئر، انتظار حسین، روئیداد خان اور مشتاق یوسفی کی تاریخ پیدائش 1923 ہے، دلیپ کمار ان لوگوں سے عمر میں ایک سال بڑے ہیں۔

پشاور میں پیدا ہونے والے یوسف خان نے ممبئی کی فلم انڈسٹری میں وہ نقوش چھوڑے ہیں جنھیں اکیسویں صدی کے آخر تک نہیں بھلایا جاسکے گا۔ دلیپ کمار سے ایک سال بڑی عمر اصغر خان کی ہے، ایئر فورس اور پی آئی اے میں کامیابی سمیٹنے والے ایئر مارشل بدقسمتی سے سیاست میں کامیاب نہ ہوسکے۔ 1919 میں پیدا ہونے والی دینا جناح کی زندگی قائداعظم کی اصول پسندی کا شاہکار ہے، برصغیر کے مسلمانوں کو اپنی اولاد سمجھنے والا محمد علی جناح نے اپنی لخت جگر کو ہماری خاطر چھوڑدیا۔

لطیفے سے ابتدا کرنے اور طویل عمر گزارنے والے ان لوگوں کے تذکرے کا کیا مقصد ہے؟یہ نائنٹی پلس کیا ہے؟ جنرل مجید ملک کی زندگی سے پیغام ملتا ہے کہ ہمیں حسد سے دور رہنا چاہیے، شریف الدین پیرزادہ سے وسیع مطالعے اور کلدیپ نیئر سے اعلیٰ ظرفی کا سبق ملتا ہے۔ مشتاق یوسفی سے ہر دم خوش رہنے جب کہ انتظار حسین سے لکھتے رہنے اور روئیداد خان سے ورزش کی اہمیت اور کھانے میں احتیاط کا درس ملتا ہے۔

اصغر خان سے اصول پسندی اور دلیپ کمار سے وسیع النظری کا سبق ہمارے لیے پوشیدہ ہے۔ عمر طویل ہو تو خواتین توازن قائم کر جاتی ہیں جب کہ مرد کی روایتی اکٹر اس کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے۔ ہیلتھ کلب لائبریری، مسجد، پارک اور سیر گاہیں ڈھونڈنی چاہئیں، اگر زندگی کی بہاریں ساٹھ کے ہندسے کو عبور کر جائیں یہ سب باتیں زیادہ کام آئیںگی۔ یقین جانیے ضرور کام آئیںگے۔ اگر... جی ہاں! اگر عمر عزیز ہوجائے 90 PLUS۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں