مضبوط پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کی کنجی ہے
مسئلہ کشمیر کا منطقی حل نہ ہونے کی بنیادی وجہ جہاں انڈیا کی ہٹ دھرمی اورفوجی طاقت کا استعمال ہے
ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ''یکجہتی ئِ کشمیرسیمینار'' کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن نے کی۔
وفاقی وزیراطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید مہمان خصوصی تھے جبکہ مقررین میں جماعت اسلامی کے امیر سینیٹرسراج الحق، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما لیفٹیننٹ جنرل(ر) سینیٹرعبد القیوم خان،آزاد کشمیرکے سابق وزیراعظم سردارعتیق احمدخان، رکن قومی اسمبلی و پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی محمدخان اور آزاد کشمیر کے وزیر بلدیات و بہبود آبادی عبد الماجد خان شامل تھے۔ اس موقع پر تمام مقرین نے ایکسپریس میڈیا کی اس کاوش کو خراج تحسین پیش کیا اور باقی میڈیا گروپس کو بھی اس طرح کے پروگرام کرنے پر زور دیا۔سیمینار میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
سینیٹر پرویزرشید ( وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات)
یوم یکجہتی کشمیر کو سرکاری طور پر منانے کا کریڈٹ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم اور وزیراعظم میاں نواز شریف کو جاتا ہے جنہوں نے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے نہ صرف 5 فروری کا دن مخصوص کیا بلکہ اس دن کو سرکاری طور پر یوم یکجہتی ئِ کشمیر تسلیم کروایا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے مابین ہزاروں اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن کشمیر کے معاملہ پر تمام سیاسی جماعتیں اورپوری پاکستانی قوم ایک سوچ رکھتی ہے اور اس کے حل کے لیے متحدہے۔ ا قوام متحدہ سمیت تمام اقوام عالم تسلیم کرتی ہیں کہ مسئلہ کشمیرکوکشمیری عوام کی مرضی اورخواہشات کے مطابق حل کیاجائے اور دکھ درد کی اس داستان کو ختم کیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ جب لوگ اس مسئلہ کے حل کے لیے متفق ہیں اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھی اسے تسلیم کرلیا گیا ہے تو پھر یہ اندھیری رات ختم اور آزادی کا سورج طلوع کیوں نہیں ہورہا؟ کشمیرکی حقیقت کو ہندوستان کی سیاسی قیادت نے بھی تسلیم کیاہے اوروہ اس مسئلے کے حل کے لیے سوچنے پر مجبور ہوئی۔ کشمیر کے بارے میں جب ان کی جانب سے آمادگی ظاہر ہونے لگتی ہے جن کو آمادہ کرنا مشکل ہے، وہ جب اپنے پیروںپرچل کرلاہورآجاتے ہیں اور اپنی زبان سے کہتے ہیں کہ ہم سمجھ چکے ہیںکہ اگر کشمیریوں کے چہرے پر سکون نہیں ہوگا، ان کی آنکھوں کی بے چینی اگر ختم نہیں ہوتی اور ان کے آنسو نہیں تھمتے تو یہ ہمارے لیے بھی مشکلات کا سبب رہے گا اور ہمارے ہاں بھی ترقی کا سفر جاری نہیں رہ سکتا۔
جب یہ صورتحال ان کے ہاں پیدا ہوجاتی ہے اور وہ مسئلہ کشمیرکاحل نکالنے پر آمادگی کااظہارکرتے ہیں توہم دوبارہ صفر پر پہنچ جاتے ہیں، پھر نئی بحث شروع ہوجاتی ہے اور جس زبان سے چیز حاصل کی جاسکتی ہے وہ زبان خاموش کردی جاتی ہے۔یہ ہم سب کے لیے سوچنے کا مقام ہے کیونکہ یہ ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار ہوا ہے۔
رواں سال جنوری اور فروری کے مہینے میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے عمل دوبارہ شروع ہونے والا تھا، دونوں آمادہ ہوگئے اور اس حوالے سے بات چیت کے لیے تیاری کررہے تھے،اس پر کشمیر سمیت پوری دنیا کو اطمینان ہوا لیکن افسوس کہ پٹھانکوٹ کا واقعہ ہوگیا اور ہم پھر وہیں جاکر کھڑے ہوگئے جہاں 1947ء میں کھڑے تھے۔ دنیا کے تمام ممالک، بھارت اور پاکستان 2016ء تک سفر طے کرچکے ہیں لیکن افسوس ہے کہ کشمیر جب 1947ء سے آگے بڑھنے کے لیے قدم رکھنے کی جرات کرتا ہے تو کسی نہ کسی طرح ایک بھاری پتھر کشمیریو ں کے قدم کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے اور اس دفعہ وہ بھاری پتھرپٹھانکوٹ میں رکھ دیا گیا۔
دنیا اس وقت دہشت گردی سے خوفزدہ ہے، واشنگٹن میں بیٹھا شخص کشمیریوں کا درد محسوس کرسکتا ہے، اگر اس کا ضمیر جھنجوڑیں تو مسئلہ کشمیر پر ہماری ہاں میں ہاںبھی ملا سکتا ہے لیکن جب اس کے کان دہشت گردی کی گونج سے تھرتھراتے ہیں تو اسے صرف دہشت گردی یاد رہتی ہے اور وہ باقی سب بھول جاتا ہے۔ جو قوتیں کشمیر کے حل کو روکنا چاہتی ہیں وہ یہ سمجھ چکی ہیں کہ عدالت کے باہر آکر دھماکہ کردو، جج اٹھ کر بھاگ جائے، گواہ دوڑ جائیں گے اور مدعی زخمی ہوجائے گا۔ یہ ان کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل روکنے کا آسان طریقہ ہے اور یہ بار بار استعمال کیا جارہا ہے۔
اقوام عالم بھی کشمیر کا حل چاہتے ہیں لیکن دہشت گردی کے واقعات کے باعث ہر بار یہ معاملہ دب جاتا ہے۔ پاکستان کا شروع سے یہی موقف رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کی مرضی اور خواہش کے تحت مسئلہ کشمیر کو حل کیا جائے۔ پاکستانی حکمران ،سیاسی جماعتیں اور پوری قوم کشمیری عوام کے ساتھ ہے اورپاکستان نے ہر بین الاقوامی فورم پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا ہے۔5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا بنیادی مقصد بھی دنیا کو یہ بتانا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور ہم کشمیری بھائیوں کی آزادی کی جدو جہد کی تائید کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن (چیئرمین کشمیرکمیٹی و سربراہ جمعیت علماء اسلام( ف))
مسئلہ کشمیر کا واحد اور صحیح حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی ہے لہٰذاکشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت ملنا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے حوالے سے پوری قوم سنجیدہ ہے اورپاکستانی عوام کشمیری بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے موجودہ پالیسی اور اس کے حل کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کے لئے اس کو پارلیمنٹ کے ایجنڈے میں لایا جائے۔ اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور بنانا چاہیے۔دنیا کا نقشہ تبدیل ہورہا ہے اور دنیا کے طاقتور ممالک کی حکمت بھی تبدیل ہورہی ہے۔ دشمن دوست اور دوست دشمن بن گئے ہیں۔
عراق، افغانستان ، مصر، تیونس، الجزائر، یمن، افریقا اور صومالیہ سمیت تمام ممالک میں جنگ کے نئے نام اور نئی شکلیں متعارف ہورہی ہیں لہٰذاہمیں ان حالات کو مدنظر رکھنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کے اندر ہماری حکمت عملی کیا ہے اورہم اس صورتحال سے کس طرح نمٹ رہے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ ہماری پالیسی بنانے کے لئے مضبوط ادارے اور تھنک ٹینک موجود ہیں جو موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ مغربی ممالک نے پاکستان کو ایسی صورتحال میں مبتلا کردیا ہے کہ ہم کشمیر کو بھول جائیں اور دنیا میں آزادی کے لئے جدوجہد ختم ہوجائے۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں کے حوالے سے سوچنا ہوگا ۔ خارجہ پالیسی ہمیشہ ملکی مفادات کے گرد گھومتی ہے لہٰذا اس کا اصول ملکی مفاد ہی ہونا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا کی پالیسی ہے کہ دنیا کی معیشت ، اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، انسانی حقوق، مالیاتی ادارے، ورلڈ بنک، ایشین بنک، آئی ایم ایف ، قرضے دینے والے بین الاقوامی گروپ یعنی ترقیاتی معیشت کا ''لیور'' اس کے ہاتھ میں ہی رہے۔
چین، پاکستان میں اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے جبکہ اس سلسلے میں امریکا اور بھارت اپنے مفادات کے لئے غور و فکر کر رہے ہیں لہٰذا اس صورتحال میں ہمیں اپنی حکمت عملی واضح کرنا ہوگی ۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ایسے اقدامات کر رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر ان کی خواہشات کے مطابق حل ہو، پاکستان کو اس پر نظر رکھنا ہوگی۔ میرے نزدیک پاکستان کو جمہوری لحاظ سے مضبوط کئے بغیر ہم مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں بھارت کا سامنا نہیں کرسکتے، اس لئے پہلے ہمیں پاکستان کو جمہوری لحاظ سے محفوظ کرنا ہوگا۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدہ صورتحال میں حکومت پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا جسے ہم سراہتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت پہلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے لیتی تو بہتر ہوتا۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اگر ہم نے اپنی پالیسی کو موجودہ حالات کے پیش نظر رکھتے ہوئے بہترانداز میں وضع کرنا ہے تو پھر مسئلہ کشمیر حل کے حوالے سے طریقہ کار ،پاکستانیوں کے نقطہ نظر اور یکساں موقف طے کرنے کے لئے اسے پارلیمنٹ کے ایجنڈے میں شامل کرنا ہوگا۔ اگراس میں حساس مسائل کا اندیشہ ہے تو اس کے لئے ان کیمرہ اجلاس بھی بلایاجاسکتا ہے ۔ 5 فروری کو ہم صرف یوم یکجہتی کشمیر ہی نہیں مناتے بلکہ کشمیری عوام کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم سال کے بارہ مہینے ان کے ساتھ ہیں اور انہیں آزادی سے ہمکنار کروائیں گے ۔
سینیٹر سراج الحق (امیر جماعت اسلامی)
مسئلہ کشمیر صرف کشمیریوں کانہیں ہے بلکہ اہل پاکستان اور اہل اسلام کا مسئلہ ہے۔ کشمیر کی بقاء میں پاکستان کی بقاء ہے لیکن اگر اس مسئلہ کا حل تلاش نہ کیا گیا تو اگلی آزمائش پاکستان کی ہوگی۔کشمیر ی قوم دنیا کہ وہ واحد مظلوم قوم ہے جس کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی وہاں قابض لاکھوں کی ہندوستانی فوج کررہی ہے۔ مسئلہ کشمیر کا منطقی حل نہ ہونے کی بنیادی وجہ جہاں انڈیا کی ہٹ دھرمی اورفوجی طاقت کا استعمال ہے وہیں دوسری طرف کشمیریوں کے وکیل پاکستان کی مجھول پالیسیاں ہیں جو ہندوستان کی جانب کبھی دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو کبھی بس و کرکٹ ڈپلومیسی، تجارت، فنکاروں کے تبادلے اور کبھی کسی اور بہانے سے ان کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔
میں صرف موجودہ حکمرانوں کی بات نہیں کررہا بلکہ یہ ایک سوچ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو صرف اتنا زندہ رکھا جائے کہ ہم پر کشمیریوں سے غداری کا الزام نہ لگے۔ کشمیریوں نے ہر وہ قربانی دی جو ان پر فرض تھی لیکن افسوس ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر کو حل کی طرف لیجانے کے بجائے ہمیشہ اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ افسوس ہے کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں آج تک کبھی بھی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا حالانکہ کشمیری قوم کی نظریں پاکستان اور پاکستانی قوم پر مورکوز ہیں۔ ہر کشمیری شہید کے لہو سے یہ آواز آتی ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان اور ہر شہید باپ اپنے بیٹے کو اسی نعرے کا درس دیتا اور وصیت کرتا ہے کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔
ان کے نزدیک پاکستان پانچ دریاوں اور چند پہاڑوں پرکا نام نہیں بلکہ ایک نظریے اور فکر کا نام ہے ۔ کشمیری شہیدوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ یہ کشمیری قوم یا رنگ و زبان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ کلمہ طیبہ کا مسئلہ ہے کیونکہ پاکستان مدینہ منورہ کے بعد واحد ریاست ہے جو ایک نظریہ اور کلمہ کی بنیاد پر وجود میں آئی۔ بدقسمتی سے ہمارے موجودہ حکمرانوں نے پاکستان کو لبرل اورسیکولر ملک بنانے کا اعلان کیا ہے، اس اعلان سے مغرب تو خوش ہوسکتا ہے لیکن یہ نعرہ لاکھوں کشمیری شہیدوں کے لہو کے ساتھ بے وفائی ہے۔ جب بھی ہندوستان میں کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے۔
پٹھان کوٹ واقعہ میں بھی پاکستان کو مورد الزام ٹہرایا گیا اور ہمارے حکمرانوں نے اس الزام کو تسلیم کرتے ہوئے انکوائری کروائی اورمساجداور مدارس پر چھاپے مارے گئے۔حکمران یہ بتائیں کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں یا ہندوستان کے؟ اگر انکوئری کروانی ہے تو چارسدہ ،کامرہ اور دیگر واقعات کی کروائیں،پٹھان کوٹ واقعہ کی آڑ میں مساجد اور مدارس پر حملہ آور کیوں ہورہے ہیں۔کیا آپ دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم تو اچھے ہیں لیکن ہماری مساجد اور مدارس امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ریاست کے اندر اس قسم کی تقسیم درست نہیں۔
اگر آج ہم مملکت پاکستان میں اکٹھے اور متحد ہیں تو اس کی وجہ نہ تو ہمارا ایٹم بم ہے اور نہ ہی پاک فوج بلکہ اس کی بنیادی وجہ کلمہ طیبہ ہے اور اس ایک کلمہ نے ہمیں متحدرکھا ہوا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے آخری خطاب میں پاکستان سمیت کئی ملکوں میں آئندہ پچاس سالوں تک امن خراب رہنے بارے جو بیان دیا ہے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ اسلامی ملکوں میں جمہوریت نہیں چاہتے۔ اب یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم آزاد قوم کی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں یا مغرب کی غلامی کرنا چاہتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے حوالے سے جو تجربات کیے گئے ہیں، حریت کانفرنس نے اس کی مخالفت کی ہے۔
گلگت بلتستان کو مستقل صوبہ بنانے سے بھارت مقبوضہ کشمیر کو الگ صوبے کا سٹیٹس دینے کی بات کرے گا لہٰذا یہ مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد کو سبویاژ کرنے کے مترادف ہے۔ مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ایک اکائی رہنے دیا جائے اور ایسا کوئی فیصلہ مسلط نہ کیا جائے جو مقبوضہ و آزاد کشمیر کے عوام کے لیے ناپسند یدہ ہو۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ آزاد کشمیر کو ایک ماڈل خطہ بنایا جائے اور ترقی دی جائے۔ آزاد کشمیر میں مقیم مقبوضہ وادی کے مہاجرین کی فلاح و بہبود حکومت کے ذمے ہے لہٰذا ان کے الاونسز بڑھائے جائیں۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) سینیٹر عبد القیوم خان (رہنما پاکستان مسلم لیگ ن)
دنیا کی حالت ابتر اس لیے ہے کہ یہاں قوموں کو انصاف نہیں مل رہا۔ فلسطین، کشمیر، میانمار، برما و دیگر ممالک کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے جس کی وجہ سے آزادی کی تحریکیں شروع ہوئیں جنہیں خراب کرنے کیلئے خونخوار درندے چھوڑے گئے جنہوں نے دہشتگردی کی اور الزام مسلمانوں پر لگا دیا گیا۔ اب کشمیر کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ پہلے دہشت گردی کا مسئلہ حل کیا جائے پھر کشمیر پر بات ہوگی۔
سوچنا یہ ہے کہ اگر ہمیں کشمیری کاز کو مضبوطی کے ساتھ آگے پیش کرنا ہے تو اس کے لیے کیا کرنا چاہیے اور اسے کس طرح آگے بڑھایا جائے؟ میرے نزدیک مسئلہ کشمیر کے بہتر حل کے لئے ہمیں صاحب کردار ہونا ہوگا۔ اس طرح ہم بہتر انداز میں آزادیئِ کشمیر کی تحریک کو آگے بڑھاسکتے ہیں۔ ہمیں اس کے حل کیلئے بھارت کو باہم مذاکرات پر رضامند کرنا ہوگا اور پھر اسے راہ فرار نہ دی جائے۔ اس کے علاوہ سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے مشن کے ذریعے انسانی حقوق کی پالیسیوں کو فروغ دیاجائے۔
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم صحیح معنوں میں کشمیریوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے پاکستان کو مضبوط کرنا ہوگا کیونکہ اگر ملک میں سیاسی جھگڑا اور فرقہ واریت ہو گی تو کشمیر کاز کو نقصان پہنچے گا ۔ کمزور ممالک کی دنیا میں شنوائی نہیں ہوتی، کشمیر کو مضبوط کرنے کی کنجی مضبوط پاکستان میں ہے۔
سردار عتیق احمدخان (سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر)
کشمیری عوام نے بہت پہلے اپنی تقدیر کو اس خطے کے ساتھ وابستہ کیااور کوئی موقع ایسا نہیں گزرا جس میں کشمیریوں نے اپنی عزت، آبرو، جان، مال قربان کرکے پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار نہ کیا ہو۔پاکستان میں کشمیری کاز کو اجاگر کرنے کے لئے ابتداء جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے کی اور اب یہ روایت بن گئی ہے کہ 5 فروری کو پاکستان کی جانب سے اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے ۔اس دن ہم دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یکجہتی کا یہ عمل فطری ، تاریخی، جغرافیائی اورعلاقائی بنیادوں پر قائم ہے۔
بین الاقوامی حالات نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے ساتھ کشمیر کے تانے بانے جڑے ہوئے ہیں اوراس مسئلے کا حل مذاکرات اور افہام و تفہیم میں ہے۔ اس کے برعکس ہندوستان کا رویہ انتہا پسندانہ ہے ، وہ ہٹ دھرمی کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور اس نے کشمیر میں تعینات فوج میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں ۔ آج پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا ذکر ہورہا ہے، مقبوضہ کشمیر کی عوام نے اس کو خوش آئند کہاہے، وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین بہتری آنی چاہیے کیونکہ دنیا میں مسائل کا حل مذاکرات ہیں اور خود پاکستان کو آزادی بھی مذاکرات کے ذریعے ہی ملی۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے حال ہی میں اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کیا جائے۔ ہم بھی یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جو طریقہ کار موجود ہے اسے اپنا کرباہم مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کیا جائے ورنہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کوئی یکطرفہ ایجنڈہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنے گھر کے اندر بھی اپنی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ واضح رہے کہ ہم کشمیر کے سٹیٹس کے ساتھ کوئی چھیڑ خانی نہیں کرنے دیں گے۔ مہاجر یہاں موجود ہیںمیں تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہوںکہ وہ آزادکشمیر میں مہاجر کیمپوں کا دورہ کریں ۔وفاقی حکومت سے مطالبہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنماوں کو پاکستان آنے کی دعوت دی جائے کیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے ان کو پاکستان آنے کی دعوت نہیں دی گئی جبکہ ماضی میں وہ پاکستان آتے رہے ہیں۔ کشمیری عوام 70 سال سے قربانیاں پیش کر رہے ہیں اور ان کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اس خطے کا امن اور ترقی مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
علی محمد خان (رکن قومی اسمبلی و رہنما پاکستان تحریک انصاف)
آج پوری امت مسلمہ تکلیف کی حالت میں ہے۔ ہماری مساجد اور سکولوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور پرامن لوگوں پر حملے کئے جارہے ہیں۔ افسوس ہے کہ معصوم بچوں کو گولیاں ماری گئیں اور ہمارے علماء کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریان نے فرانس میں ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ پاکستان ،اسرائیل کا نظریاتی جواب ہے اور ہم نے فکری اور عسکری لحاظ سے پاکستان کو اٹھنے نہیں دینا۔ پاکستان، ہندوستان سے ٹوٹ کر بنا ہے لہٰذا ہم نے ہندوستان کے ساتھ مل کراسے ختم کرنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اپنے دشمن کی پہچان ہے؟ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے یہ ملک ہمیشہ قائم رہے گا اور دنیا بھر کی مسلمانوں کی جنگ پاکستان لڑے گا۔ ہمیں پاکستان کو مضبوط بنانا ہوگا کیونکہ مضبوط پاکستان کی بنیاد پر ہی ہم کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑسکتے ہیں اور مضبوط پاکستان ہی کشمیر کی آزادی کی بنیاد ہے۔1947ء کو پاکستان آزاد تو ہوا لیکن تکمیل پاکستان کشمیر کی آزادی تک ادھوری ہے۔ پاکستانی قوم کے دل کشمیری عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ہمارا یقین کامل ہے کہ کشمیر ایک دن ضرور آزاد ہوگا۔
عبدالماجد خان (وزیر بلدیات و بہبود آبادی آزاد کشمیر)
ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان ا ور ہندوستان اپنے تعلقات بہتر کریں اور جو سسٹم پاک بھارت کے درمیان چل رہا ہے اسے مزید اچھا کیا جائے۔ ہمیں یہ یقین ہے کہ پاکستان کی حکومت، افواج ا ور قوم کبھی بھی کشمیریوں کی کاز پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہر سال 5 فروری کو پاکستانی وزیراعظم چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، مظفرآباد جاتے ہیں اور کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں جس سے لائن آف کنٹرول کے اس پار اتحاد کا پیغام دیا جاتا ہے۔
گزشتہ 67 سالوں سے کشمیری عوام اپنے حق خود ارادیت کیلئے پر امن جدو جہد کررہی ہے لیکن دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کا دعویدار ہندوستان، کشمیری قوم کی حق خود ارادیت کی جدوجہد کو طاقت کے زور پر دبانا چاہتاہے ۔ حالانکہ ان کی سیاسی قیادت خود مسئلہ کشمیر ، اقوام متحدہ کے پاس لے کر گئی مگر اب وہ اس سے نالاں ہیں اور کشمیریوں کو آزادی سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان نے ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا ہوا ہے اور نہتے ، معصوم لوگوں کو بے دریغ قتل کیا جارہا ہے۔کشمیری قوم کا ایک ہی نعرہ ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔
یہ نعرہ کشمیریوں نے قیام پاکستان سے قبل 1932ء میں لگایا تھا اور اسی وقت ہی اپنی نسبت پاکستان کے ساتھ جوڑ لی تھی اوریہ اس بات کی غماز ہے کہ ہمارے خون میں وفائے پاکستان شامل ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مشکل حالات میں، چاہے وہ زلزلے کی تباہ کاریاں ہوں یا کچھ اور، اہل پاکستان نے جس طرح ہمارا ساتھ دیا ہے تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔جب بھی بھارت نے کشمیر میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا، کالے قوانین کا نفاذ کیا تو اہل پاکستان نے عالمی فورمز پر آواز بلند کی۔
یہ پاکستان کی ہمارے ساتھ محبت اور عقیدت ہے کہ اس نے بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کا مقدمہ موثر انداز میں لڑا ہے لہٰذا ہم پاکستان کی یہ محبت کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستانی قوم اور افواج ہمارے ساتھ کھڑی ہیں اس لیے ہمیں بھارت سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور ہم ہندوستان کی بربریت، کالے قوانین اورظلم سے گھبرانے والے نہیں ہیں۔آج کشمیری پاکستان کی طرف صرف اس لیے دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی تکمیل ہو۔ اہل کشمیر کا خون پاکستان کی سرزمین کو سیراب کرتا ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ا ور کشمیر کا ایک دوسرے پر حق ہے۔
کشمیریوں کے لیے قبلہ اول کے بعد پاکستان دوسرا قبلہ ہے اور اسباب کی دنیا میں ہماری امیدیں پاکستان سے وابستہ ہیں۔ ہم کسی سے کچھ نہیں چاہتے اور نہ ہی کسی اور قوم سے کچھ مانگتے ہیں۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور تکمیل پاکستان اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کشمیری قوم اپنی مرضی کا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان کا حصہ نہیں بن جاتی۔ ہمیں یقین ہے کہ بہت جلد کشمیر کو آزادی نصیب ہوگی اور پاکستان کی تکمیل کا خواب پورا ہوگا۔
وفاقی وزیراطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید مہمان خصوصی تھے جبکہ مقررین میں جماعت اسلامی کے امیر سینیٹرسراج الحق، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما لیفٹیننٹ جنرل(ر) سینیٹرعبد القیوم خان،آزاد کشمیرکے سابق وزیراعظم سردارعتیق احمدخان، رکن قومی اسمبلی و پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی محمدخان اور آزاد کشمیر کے وزیر بلدیات و بہبود آبادی عبد الماجد خان شامل تھے۔ اس موقع پر تمام مقرین نے ایکسپریس میڈیا کی اس کاوش کو خراج تحسین پیش کیا اور باقی میڈیا گروپس کو بھی اس طرح کے پروگرام کرنے پر زور دیا۔سیمینار میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
سینیٹر پرویزرشید ( وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات)
یوم یکجہتی کشمیر کو سرکاری طور پر منانے کا کریڈٹ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم اور وزیراعظم میاں نواز شریف کو جاتا ہے جنہوں نے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے نہ صرف 5 فروری کا دن مخصوص کیا بلکہ اس دن کو سرکاری طور پر یوم یکجہتی ئِ کشمیر تسلیم کروایا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے مابین ہزاروں اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن کشمیر کے معاملہ پر تمام سیاسی جماعتیں اورپوری پاکستانی قوم ایک سوچ رکھتی ہے اور اس کے حل کے لیے متحدہے۔ ا قوام متحدہ سمیت تمام اقوام عالم تسلیم کرتی ہیں کہ مسئلہ کشمیرکوکشمیری عوام کی مرضی اورخواہشات کے مطابق حل کیاجائے اور دکھ درد کی اس داستان کو ختم کیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ جب لوگ اس مسئلہ کے حل کے لیے متفق ہیں اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھی اسے تسلیم کرلیا گیا ہے تو پھر یہ اندھیری رات ختم اور آزادی کا سورج طلوع کیوں نہیں ہورہا؟ کشمیرکی حقیقت کو ہندوستان کی سیاسی قیادت نے بھی تسلیم کیاہے اوروہ اس مسئلے کے حل کے لیے سوچنے پر مجبور ہوئی۔ کشمیر کے بارے میں جب ان کی جانب سے آمادگی ظاہر ہونے لگتی ہے جن کو آمادہ کرنا مشکل ہے، وہ جب اپنے پیروںپرچل کرلاہورآجاتے ہیں اور اپنی زبان سے کہتے ہیں کہ ہم سمجھ چکے ہیںکہ اگر کشمیریوں کے چہرے پر سکون نہیں ہوگا، ان کی آنکھوں کی بے چینی اگر ختم نہیں ہوتی اور ان کے آنسو نہیں تھمتے تو یہ ہمارے لیے بھی مشکلات کا سبب رہے گا اور ہمارے ہاں بھی ترقی کا سفر جاری نہیں رہ سکتا۔
جب یہ صورتحال ان کے ہاں پیدا ہوجاتی ہے اور وہ مسئلہ کشمیرکاحل نکالنے پر آمادگی کااظہارکرتے ہیں توہم دوبارہ صفر پر پہنچ جاتے ہیں، پھر نئی بحث شروع ہوجاتی ہے اور جس زبان سے چیز حاصل کی جاسکتی ہے وہ زبان خاموش کردی جاتی ہے۔یہ ہم سب کے لیے سوچنے کا مقام ہے کیونکہ یہ ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار ہوا ہے۔
رواں سال جنوری اور فروری کے مہینے میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے عمل دوبارہ شروع ہونے والا تھا، دونوں آمادہ ہوگئے اور اس حوالے سے بات چیت کے لیے تیاری کررہے تھے،اس پر کشمیر سمیت پوری دنیا کو اطمینان ہوا لیکن افسوس کہ پٹھانکوٹ کا واقعہ ہوگیا اور ہم پھر وہیں جاکر کھڑے ہوگئے جہاں 1947ء میں کھڑے تھے۔ دنیا کے تمام ممالک، بھارت اور پاکستان 2016ء تک سفر طے کرچکے ہیں لیکن افسوس ہے کہ کشمیر جب 1947ء سے آگے بڑھنے کے لیے قدم رکھنے کی جرات کرتا ہے تو کسی نہ کسی طرح ایک بھاری پتھر کشمیریو ں کے قدم کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے اور اس دفعہ وہ بھاری پتھرپٹھانکوٹ میں رکھ دیا گیا۔
دنیا اس وقت دہشت گردی سے خوفزدہ ہے، واشنگٹن میں بیٹھا شخص کشمیریوں کا درد محسوس کرسکتا ہے، اگر اس کا ضمیر جھنجوڑیں تو مسئلہ کشمیر پر ہماری ہاں میں ہاںبھی ملا سکتا ہے لیکن جب اس کے کان دہشت گردی کی گونج سے تھرتھراتے ہیں تو اسے صرف دہشت گردی یاد رہتی ہے اور وہ باقی سب بھول جاتا ہے۔ جو قوتیں کشمیر کے حل کو روکنا چاہتی ہیں وہ یہ سمجھ چکی ہیں کہ عدالت کے باہر آکر دھماکہ کردو، جج اٹھ کر بھاگ جائے، گواہ دوڑ جائیں گے اور مدعی زخمی ہوجائے گا۔ یہ ان کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل روکنے کا آسان طریقہ ہے اور یہ بار بار استعمال کیا جارہا ہے۔
اقوام عالم بھی کشمیر کا حل چاہتے ہیں لیکن دہشت گردی کے واقعات کے باعث ہر بار یہ معاملہ دب جاتا ہے۔ پاکستان کا شروع سے یہی موقف رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کی مرضی اور خواہش کے تحت مسئلہ کشمیر کو حل کیا جائے۔ پاکستانی حکمران ،سیاسی جماعتیں اور پوری قوم کشمیری عوام کے ساتھ ہے اورپاکستان نے ہر بین الاقوامی فورم پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا ہے۔5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا بنیادی مقصد بھی دنیا کو یہ بتانا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور ہم کشمیری بھائیوں کی آزادی کی جدو جہد کی تائید کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن (چیئرمین کشمیرکمیٹی و سربراہ جمعیت علماء اسلام( ف))
مسئلہ کشمیر کا واحد اور صحیح حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی ہے لہٰذاکشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت ملنا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے حوالے سے پوری قوم سنجیدہ ہے اورپاکستانی عوام کشمیری بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے موجودہ پالیسی اور اس کے حل کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کے لئے اس کو پارلیمنٹ کے ایجنڈے میں لایا جائے۔ اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور بنانا چاہیے۔دنیا کا نقشہ تبدیل ہورہا ہے اور دنیا کے طاقتور ممالک کی حکمت بھی تبدیل ہورہی ہے۔ دشمن دوست اور دوست دشمن بن گئے ہیں۔
عراق، افغانستان ، مصر، تیونس، الجزائر، یمن، افریقا اور صومالیہ سمیت تمام ممالک میں جنگ کے نئے نام اور نئی شکلیں متعارف ہورہی ہیں لہٰذاہمیں ان حالات کو مدنظر رکھنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کے اندر ہماری حکمت عملی کیا ہے اورہم اس صورتحال سے کس طرح نمٹ رہے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ ہماری پالیسی بنانے کے لئے مضبوط ادارے اور تھنک ٹینک موجود ہیں جو موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ مغربی ممالک نے پاکستان کو ایسی صورتحال میں مبتلا کردیا ہے کہ ہم کشمیر کو بھول جائیں اور دنیا میں آزادی کے لئے جدوجہد ختم ہوجائے۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں کے حوالے سے سوچنا ہوگا ۔ خارجہ پالیسی ہمیشہ ملکی مفادات کے گرد گھومتی ہے لہٰذا اس کا اصول ملکی مفاد ہی ہونا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا کی پالیسی ہے کہ دنیا کی معیشت ، اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، انسانی حقوق، مالیاتی ادارے، ورلڈ بنک، ایشین بنک، آئی ایم ایف ، قرضے دینے والے بین الاقوامی گروپ یعنی ترقیاتی معیشت کا ''لیور'' اس کے ہاتھ میں ہی رہے۔
چین، پاکستان میں اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے جبکہ اس سلسلے میں امریکا اور بھارت اپنے مفادات کے لئے غور و فکر کر رہے ہیں لہٰذا اس صورتحال میں ہمیں اپنی حکمت عملی واضح کرنا ہوگی ۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ایسے اقدامات کر رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر ان کی خواہشات کے مطابق حل ہو، پاکستان کو اس پر نظر رکھنا ہوگی۔ میرے نزدیک پاکستان کو جمہوری لحاظ سے مضبوط کئے بغیر ہم مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں بھارت کا سامنا نہیں کرسکتے، اس لئے پہلے ہمیں پاکستان کو جمہوری لحاظ سے محفوظ کرنا ہوگا۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدہ صورتحال میں حکومت پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا جسے ہم سراہتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت پہلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے لیتی تو بہتر ہوتا۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اگر ہم نے اپنی پالیسی کو موجودہ حالات کے پیش نظر رکھتے ہوئے بہترانداز میں وضع کرنا ہے تو پھر مسئلہ کشمیر حل کے حوالے سے طریقہ کار ،پاکستانیوں کے نقطہ نظر اور یکساں موقف طے کرنے کے لئے اسے پارلیمنٹ کے ایجنڈے میں شامل کرنا ہوگا۔ اگراس میں حساس مسائل کا اندیشہ ہے تو اس کے لئے ان کیمرہ اجلاس بھی بلایاجاسکتا ہے ۔ 5 فروری کو ہم صرف یوم یکجہتی کشمیر ہی نہیں مناتے بلکہ کشمیری عوام کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم سال کے بارہ مہینے ان کے ساتھ ہیں اور انہیں آزادی سے ہمکنار کروائیں گے ۔
سینیٹر سراج الحق (امیر جماعت اسلامی)
مسئلہ کشمیر صرف کشمیریوں کانہیں ہے بلکہ اہل پاکستان اور اہل اسلام کا مسئلہ ہے۔ کشمیر کی بقاء میں پاکستان کی بقاء ہے لیکن اگر اس مسئلہ کا حل تلاش نہ کیا گیا تو اگلی آزمائش پاکستان کی ہوگی۔کشمیر ی قوم دنیا کہ وہ واحد مظلوم قوم ہے جس کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی وہاں قابض لاکھوں کی ہندوستانی فوج کررہی ہے۔ مسئلہ کشمیر کا منطقی حل نہ ہونے کی بنیادی وجہ جہاں انڈیا کی ہٹ دھرمی اورفوجی طاقت کا استعمال ہے وہیں دوسری طرف کشمیریوں کے وکیل پاکستان کی مجھول پالیسیاں ہیں جو ہندوستان کی جانب کبھی دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو کبھی بس و کرکٹ ڈپلومیسی، تجارت، فنکاروں کے تبادلے اور کبھی کسی اور بہانے سے ان کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔
میں صرف موجودہ حکمرانوں کی بات نہیں کررہا بلکہ یہ ایک سوچ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو صرف اتنا زندہ رکھا جائے کہ ہم پر کشمیریوں سے غداری کا الزام نہ لگے۔ کشمیریوں نے ہر وہ قربانی دی جو ان پر فرض تھی لیکن افسوس ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر کو حل کی طرف لیجانے کے بجائے ہمیشہ اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ افسوس ہے کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں آج تک کبھی بھی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا حالانکہ کشمیری قوم کی نظریں پاکستان اور پاکستانی قوم پر مورکوز ہیں۔ ہر کشمیری شہید کے لہو سے یہ آواز آتی ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان اور ہر شہید باپ اپنے بیٹے کو اسی نعرے کا درس دیتا اور وصیت کرتا ہے کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔
ان کے نزدیک پاکستان پانچ دریاوں اور چند پہاڑوں پرکا نام نہیں بلکہ ایک نظریے اور فکر کا نام ہے ۔ کشمیری شہیدوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ یہ کشمیری قوم یا رنگ و زبان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ کلمہ طیبہ کا مسئلہ ہے کیونکہ پاکستان مدینہ منورہ کے بعد واحد ریاست ہے جو ایک نظریہ اور کلمہ کی بنیاد پر وجود میں آئی۔ بدقسمتی سے ہمارے موجودہ حکمرانوں نے پاکستان کو لبرل اورسیکولر ملک بنانے کا اعلان کیا ہے، اس اعلان سے مغرب تو خوش ہوسکتا ہے لیکن یہ نعرہ لاکھوں کشمیری شہیدوں کے لہو کے ساتھ بے وفائی ہے۔ جب بھی ہندوستان میں کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے۔
پٹھان کوٹ واقعہ میں بھی پاکستان کو مورد الزام ٹہرایا گیا اور ہمارے حکمرانوں نے اس الزام کو تسلیم کرتے ہوئے انکوائری کروائی اورمساجداور مدارس پر چھاپے مارے گئے۔حکمران یہ بتائیں کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں یا ہندوستان کے؟ اگر انکوئری کروانی ہے تو چارسدہ ،کامرہ اور دیگر واقعات کی کروائیں،پٹھان کوٹ واقعہ کی آڑ میں مساجد اور مدارس پر حملہ آور کیوں ہورہے ہیں۔کیا آپ دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم تو اچھے ہیں لیکن ہماری مساجد اور مدارس امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ریاست کے اندر اس قسم کی تقسیم درست نہیں۔
اگر آج ہم مملکت پاکستان میں اکٹھے اور متحد ہیں تو اس کی وجہ نہ تو ہمارا ایٹم بم ہے اور نہ ہی پاک فوج بلکہ اس کی بنیادی وجہ کلمہ طیبہ ہے اور اس ایک کلمہ نے ہمیں متحدرکھا ہوا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے آخری خطاب میں پاکستان سمیت کئی ملکوں میں آئندہ پچاس سالوں تک امن خراب رہنے بارے جو بیان دیا ہے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ اسلامی ملکوں میں جمہوریت نہیں چاہتے۔ اب یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم آزاد قوم کی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں یا مغرب کی غلامی کرنا چاہتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے حوالے سے جو تجربات کیے گئے ہیں، حریت کانفرنس نے اس کی مخالفت کی ہے۔
گلگت بلتستان کو مستقل صوبہ بنانے سے بھارت مقبوضہ کشمیر کو الگ صوبے کا سٹیٹس دینے کی بات کرے گا لہٰذا یہ مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد کو سبویاژ کرنے کے مترادف ہے۔ مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ایک اکائی رہنے دیا جائے اور ایسا کوئی فیصلہ مسلط نہ کیا جائے جو مقبوضہ و آزاد کشمیر کے عوام کے لیے ناپسند یدہ ہو۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ آزاد کشمیر کو ایک ماڈل خطہ بنایا جائے اور ترقی دی جائے۔ آزاد کشمیر میں مقیم مقبوضہ وادی کے مہاجرین کی فلاح و بہبود حکومت کے ذمے ہے لہٰذا ان کے الاونسز بڑھائے جائیں۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) سینیٹر عبد القیوم خان (رہنما پاکستان مسلم لیگ ن)
دنیا کی حالت ابتر اس لیے ہے کہ یہاں قوموں کو انصاف نہیں مل رہا۔ فلسطین، کشمیر، میانمار، برما و دیگر ممالک کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے جس کی وجہ سے آزادی کی تحریکیں شروع ہوئیں جنہیں خراب کرنے کیلئے خونخوار درندے چھوڑے گئے جنہوں نے دہشتگردی کی اور الزام مسلمانوں پر لگا دیا گیا۔ اب کشمیر کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ پہلے دہشت گردی کا مسئلہ حل کیا جائے پھر کشمیر پر بات ہوگی۔
سوچنا یہ ہے کہ اگر ہمیں کشمیری کاز کو مضبوطی کے ساتھ آگے پیش کرنا ہے تو اس کے لیے کیا کرنا چاہیے اور اسے کس طرح آگے بڑھایا جائے؟ میرے نزدیک مسئلہ کشمیر کے بہتر حل کے لئے ہمیں صاحب کردار ہونا ہوگا۔ اس طرح ہم بہتر انداز میں آزادیئِ کشمیر کی تحریک کو آگے بڑھاسکتے ہیں۔ ہمیں اس کے حل کیلئے بھارت کو باہم مذاکرات پر رضامند کرنا ہوگا اور پھر اسے راہ فرار نہ دی جائے۔ اس کے علاوہ سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے مشن کے ذریعے انسانی حقوق کی پالیسیوں کو فروغ دیاجائے۔
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم صحیح معنوں میں کشمیریوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے پاکستان کو مضبوط کرنا ہوگا کیونکہ اگر ملک میں سیاسی جھگڑا اور فرقہ واریت ہو گی تو کشمیر کاز کو نقصان پہنچے گا ۔ کمزور ممالک کی دنیا میں شنوائی نہیں ہوتی، کشمیر کو مضبوط کرنے کی کنجی مضبوط پاکستان میں ہے۔
سردار عتیق احمدخان (سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر)
کشمیری عوام نے بہت پہلے اپنی تقدیر کو اس خطے کے ساتھ وابستہ کیااور کوئی موقع ایسا نہیں گزرا جس میں کشمیریوں نے اپنی عزت، آبرو، جان، مال قربان کرکے پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار نہ کیا ہو۔پاکستان میں کشمیری کاز کو اجاگر کرنے کے لئے ابتداء جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے کی اور اب یہ روایت بن گئی ہے کہ 5 فروری کو پاکستان کی جانب سے اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے ۔اس دن ہم دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یکجہتی کا یہ عمل فطری ، تاریخی، جغرافیائی اورعلاقائی بنیادوں پر قائم ہے۔
بین الاقوامی حالات نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے ساتھ کشمیر کے تانے بانے جڑے ہوئے ہیں اوراس مسئلے کا حل مذاکرات اور افہام و تفہیم میں ہے۔ اس کے برعکس ہندوستان کا رویہ انتہا پسندانہ ہے ، وہ ہٹ دھرمی کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور اس نے کشمیر میں تعینات فوج میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں ۔ آج پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا ذکر ہورہا ہے، مقبوضہ کشمیر کی عوام نے اس کو خوش آئند کہاہے، وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین بہتری آنی چاہیے کیونکہ دنیا میں مسائل کا حل مذاکرات ہیں اور خود پاکستان کو آزادی بھی مذاکرات کے ذریعے ہی ملی۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے حال ہی میں اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کیا جائے۔ ہم بھی یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جو طریقہ کار موجود ہے اسے اپنا کرباہم مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کیا جائے ورنہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کوئی یکطرفہ ایجنڈہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنے گھر کے اندر بھی اپنی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ واضح رہے کہ ہم کشمیر کے سٹیٹس کے ساتھ کوئی چھیڑ خانی نہیں کرنے دیں گے۔ مہاجر یہاں موجود ہیںمیں تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہوںکہ وہ آزادکشمیر میں مہاجر کیمپوں کا دورہ کریں ۔وفاقی حکومت سے مطالبہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنماوں کو پاکستان آنے کی دعوت دی جائے کیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے ان کو پاکستان آنے کی دعوت نہیں دی گئی جبکہ ماضی میں وہ پاکستان آتے رہے ہیں۔ کشمیری عوام 70 سال سے قربانیاں پیش کر رہے ہیں اور ان کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اس خطے کا امن اور ترقی مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
علی محمد خان (رکن قومی اسمبلی و رہنما پاکستان تحریک انصاف)
آج پوری امت مسلمہ تکلیف کی حالت میں ہے۔ ہماری مساجد اور سکولوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور پرامن لوگوں پر حملے کئے جارہے ہیں۔ افسوس ہے کہ معصوم بچوں کو گولیاں ماری گئیں اور ہمارے علماء کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریان نے فرانس میں ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ پاکستان ،اسرائیل کا نظریاتی جواب ہے اور ہم نے فکری اور عسکری لحاظ سے پاکستان کو اٹھنے نہیں دینا۔ پاکستان، ہندوستان سے ٹوٹ کر بنا ہے لہٰذا ہم نے ہندوستان کے ساتھ مل کراسے ختم کرنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اپنے دشمن کی پہچان ہے؟ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے یہ ملک ہمیشہ قائم رہے گا اور دنیا بھر کی مسلمانوں کی جنگ پاکستان لڑے گا۔ ہمیں پاکستان کو مضبوط بنانا ہوگا کیونکہ مضبوط پاکستان کی بنیاد پر ہی ہم کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑسکتے ہیں اور مضبوط پاکستان ہی کشمیر کی آزادی کی بنیاد ہے۔1947ء کو پاکستان آزاد تو ہوا لیکن تکمیل پاکستان کشمیر کی آزادی تک ادھوری ہے۔ پاکستانی قوم کے دل کشمیری عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ہمارا یقین کامل ہے کہ کشمیر ایک دن ضرور آزاد ہوگا۔
عبدالماجد خان (وزیر بلدیات و بہبود آبادی آزاد کشمیر)
ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان ا ور ہندوستان اپنے تعلقات بہتر کریں اور جو سسٹم پاک بھارت کے درمیان چل رہا ہے اسے مزید اچھا کیا جائے۔ ہمیں یہ یقین ہے کہ پاکستان کی حکومت، افواج ا ور قوم کبھی بھی کشمیریوں کی کاز پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہر سال 5 فروری کو پاکستانی وزیراعظم چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، مظفرآباد جاتے ہیں اور کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں جس سے لائن آف کنٹرول کے اس پار اتحاد کا پیغام دیا جاتا ہے۔
گزشتہ 67 سالوں سے کشمیری عوام اپنے حق خود ارادیت کیلئے پر امن جدو جہد کررہی ہے لیکن دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کا دعویدار ہندوستان، کشمیری قوم کی حق خود ارادیت کی جدوجہد کو طاقت کے زور پر دبانا چاہتاہے ۔ حالانکہ ان کی سیاسی قیادت خود مسئلہ کشمیر ، اقوام متحدہ کے پاس لے کر گئی مگر اب وہ اس سے نالاں ہیں اور کشمیریوں کو آزادی سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان نے ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا ہوا ہے اور نہتے ، معصوم لوگوں کو بے دریغ قتل کیا جارہا ہے۔کشمیری قوم کا ایک ہی نعرہ ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔
یہ نعرہ کشمیریوں نے قیام پاکستان سے قبل 1932ء میں لگایا تھا اور اسی وقت ہی اپنی نسبت پاکستان کے ساتھ جوڑ لی تھی اوریہ اس بات کی غماز ہے کہ ہمارے خون میں وفائے پاکستان شامل ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مشکل حالات میں، چاہے وہ زلزلے کی تباہ کاریاں ہوں یا کچھ اور، اہل پاکستان نے جس طرح ہمارا ساتھ دیا ہے تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔جب بھی بھارت نے کشمیر میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا، کالے قوانین کا نفاذ کیا تو اہل پاکستان نے عالمی فورمز پر آواز بلند کی۔
یہ پاکستان کی ہمارے ساتھ محبت اور عقیدت ہے کہ اس نے بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کا مقدمہ موثر انداز میں لڑا ہے لہٰذا ہم پاکستان کی یہ محبت کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستانی قوم اور افواج ہمارے ساتھ کھڑی ہیں اس لیے ہمیں بھارت سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور ہم ہندوستان کی بربریت، کالے قوانین اورظلم سے گھبرانے والے نہیں ہیں۔آج کشمیری پاکستان کی طرف صرف اس لیے دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی تکمیل ہو۔ اہل کشمیر کا خون پاکستان کی سرزمین کو سیراب کرتا ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ا ور کشمیر کا ایک دوسرے پر حق ہے۔
کشمیریوں کے لیے قبلہ اول کے بعد پاکستان دوسرا قبلہ ہے اور اسباب کی دنیا میں ہماری امیدیں پاکستان سے وابستہ ہیں۔ ہم کسی سے کچھ نہیں چاہتے اور نہ ہی کسی اور قوم سے کچھ مانگتے ہیں۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور تکمیل پاکستان اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کشمیری قوم اپنی مرضی کا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان کا حصہ نہیں بن جاتی۔ ہمیں یقین ہے کہ بہت جلد کشمیر کو آزادی نصیب ہوگی اور پاکستان کی تکمیل کا خواب پورا ہوگا۔