’’زندگی میری بھی تو ہے۔۔۔۔‘‘
بچوں کو اپنی مرضی کے تسلط سے آزاد کیجیے
زندگی، صرف ایک بار ہی ملتی ہے اور لوگ اسے بھرپور طریقے سے گزارنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی زندگی میں ہر وہ چیز کرنا پسند کرتے ہیں، جو وہ چاہتے ہیں۔ نہ صرف زندگی سے ہر طرح لطف اندوز ہونا ان کا شوق ہوتا ہے، بلکہ ایسے لوگ اپنی زندگی میں کسی کی مداخلت بھی برداشت نہیں کرتے۔
بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے، تو وہ اپنے والدین کی مرضی سے اپنی زندگی شروع کرتا ہے۔ جہاں اس کے والدین اسے اسکول پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں، وہ وہاںچپ چاپ چلا جاتا ہے۔ بچے کو اگر ٹیوشن پڑھنے کسی کے گھر بھیجنا ہے، تو وہ گھر چلا جاتا ہے اور اگر کسی ٹیوٹر کو گھر پر بُلا کے پڑھانا ہے، تو وہ گھر پہ ٹیوشن پڑھنے کو تیار ہو جاتا ہے۔
یوں صبح بیداری سے رات کو سونے تک بعض اوقات اسے کچھ وقت بھی اپنی مرضی سے گزارنے کا موقع نہیں ملتا۔ کبھی وہ لگاتار پڑھتے، پڑھتے اکتا جاتا ہے یا کبھی پڑھنے کا موڈ نہیں ہوتا، تب بھی زبردستی اسے کتابیں کھول کے بٹھا دیا جاتا ہے کہ پڑھو اور بچوں کو والدین کی مرضی کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔
پھر جب بچے گھر سے باہر دوستوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے جائیں تو گھر والے یہ کہہ کے اپنی مرضی تھوپ دیتے ہیں کہ زیادہ دیر تک مت کھیلنا، جلدی سے کھیل کے واپس آنا۔ ایسے میں بچوں کو والدین کے آگے اپنی خواہشوں کا گلا دبانا پڑتا ہے۔
اسی طرح جب بچے تھوڑے بڑے ہوتے ہیں توسمجھ دار ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو جاننے لگتے ہیں اور ان کی شخصیت کا بغور جائزہ بھی لیتے ہیں۔ جس طرح بچے اسکولوں میں اپنے اساتذہ کو دیکھتے ہیں، انہیں پسند کرتے ہیں اور ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ بڑے ہو کے ان جیسے بنیں گے اور بچوں کو پڑھائیں گے۔ اس کے علاوہ بچے ٹی وی ڈراموں میں جو کردار دیکھیں، جیسے پولیس افسر، ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ، وکیل، صحافی وغیرہ۔ تو ان کے دل میں یہ خواہش جنم لیتی ہے کہ وہ بڑے ہو کر انہی کے نقش قدم پر چلیں گے۔
بچے کے دل کو ٹھیس اس وقت پہنچتی ہے جب یہاں بھی والدین اپنی انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں اور انہیں بتا دیتے ہیں کہ تمہیں بڑے ہو کر انجینئر بننا ہے جب کہ اس بچے کو خواہش اپنے کاروبار کی ہوتی ہے۔ جس گھر میں والد اگر ڈاکٹر ہے، تو وہ اپنے بیٹے سے بھی یہی کہتا ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم بھی بڑے ہو کہ یہی پیشہ اختیار کرو۔
یہ تو بات ہوئی پڑھائی کی، جہاں والدین اپنی مرضی کے مطابق بچوں کو ڈھال لیتے ہیں، لیکن جب بات ہو شادی بیاہ کی تو یہاں بھی گھر والوں کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی اور پسند سے بچوں کی شادی کریں۔ انہیں اس معاملے میں بھی کوئی غرض نہیں کہ اُن کے بچے کیا چاہتے ہیں۔ اُن کی کیا مرضی ہے۔ بس یہ کہہ کر بچوں کو چپ کر وا دیا جاتا ہے کہ ہم آپ سے بڑے اور زیادہ سمجھ دار ہیں۔ تم لوگوں سے زیادہ تجربہ رکھتے ہیں، اس لیے ہم تم لوگوں کے لیے کوئی غلط فیصلہ نہیں کریں گے۔ بالخصوص آج بھی کسی گھر میں لڑکی اپنی شادی سے متعلق والدین کے فیصلے پر بات نہیں کرسکتی، بدقسمتی سے اس تمام عمل میں خود اس کی ماں پیش پیش ہوتی ہے۔
بے شک والدین بڑے اور بچوں سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، لیکن والدین یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بچوں کی اپنی بھی کوئی مرضی، کوئی خواہش ہوتی ہے۔ وہ بھی اس قابل ہوتے ہیں کہ کوئی فیصلہ اپنی پسند سے کر سکیں۔ انہیں بھی اچھے بُرے کی تمیز ہوتی ہے۔ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ والدین ان کے لیے کبھی غلط نہیں سوچ سکتے، لیکن والدین کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ بچوں کے ساتھ ہر معاملے میں زبردستی نہیں کرتے۔ ان کی بھی خواہشوں کا احترام کریں اور کوئی بھی مرضی کرنے سے پہلے ان کی رائے بھی پوچھ لینی چاہیے، تاکہ بچوں کو بھی اپنے والدین سے کوئی شکایت نہ رہے اور ان کی زندگی کسی محرومی اور نفسیاتی و عمرانی مسائل کا شکار نہ ہو۔
ضروری نہیں ہے کہ والدین کی مرضیوں کے بھنور میں پھنسے رہنے والے کسی بہت بڑے بحران اور مسائل سے دوچار ہوں، بلکہ والدین کی یہ غیر ضروری حاکمیت ان کی شخصیت میں سختی اور الجھن کا باعث بنتی ہے۔ بعض اوقات وہ تشدد کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ ان میں سامنے والے کے لیے قبولیت اور برداشت کا عنصر گھٹ جاتا ہے اور یہ سب چیزیں اس کی زندگی کو مشکل بنا دیتے ہیں، اس لیے بطور ماں اپنے بچے کی زندگی کو آسان بنانا آپ کی ذمہ داری ہے، آپ بچے سے وابستہ اپنی امیدوں کا اظہار ضرور کیجیے، مگر اسے اپنے مزاج کے خلاف چلنے پر مجبور نہ کیجیے۔
بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے، تو وہ اپنے والدین کی مرضی سے اپنی زندگی شروع کرتا ہے۔ جہاں اس کے والدین اسے اسکول پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں، وہ وہاںچپ چاپ چلا جاتا ہے۔ بچے کو اگر ٹیوشن پڑھنے کسی کے گھر بھیجنا ہے، تو وہ گھر چلا جاتا ہے اور اگر کسی ٹیوٹر کو گھر پر بُلا کے پڑھانا ہے، تو وہ گھر پہ ٹیوشن پڑھنے کو تیار ہو جاتا ہے۔
یوں صبح بیداری سے رات کو سونے تک بعض اوقات اسے کچھ وقت بھی اپنی مرضی سے گزارنے کا موقع نہیں ملتا۔ کبھی وہ لگاتار پڑھتے، پڑھتے اکتا جاتا ہے یا کبھی پڑھنے کا موڈ نہیں ہوتا، تب بھی زبردستی اسے کتابیں کھول کے بٹھا دیا جاتا ہے کہ پڑھو اور بچوں کو والدین کی مرضی کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔
پھر جب بچے گھر سے باہر دوستوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے جائیں تو گھر والے یہ کہہ کے اپنی مرضی تھوپ دیتے ہیں کہ زیادہ دیر تک مت کھیلنا، جلدی سے کھیل کے واپس آنا۔ ایسے میں بچوں کو والدین کے آگے اپنی خواہشوں کا گلا دبانا پڑتا ہے۔
اسی طرح جب بچے تھوڑے بڑے ہوتے ہیں توسمجھ دار ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو جاننے لگتے ہیں اور ان کی شخصیت کا بغور جائزہ بھی لیتے ہیں۔ جس طرح بچے اسکولوں میں اپنے اساتذہ کو دیکھتے ہیں، انہیں پسند کرتے ہیں اور ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ بڑے ہو کے ان جیسے بنیں گے اور بچوں کو پڑھائیں گے۔ اس کے علاوہ بچے ٹی وی ڈراموں میں جو کردار دیکھیں، جیسے پولیس افسر، ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ، وکیل، صحافی وغیرہ۔ تو ان کے دل میں یہ خواہش جنم لیتی ہے کہ وہ بڑے ہو کر انہی کے نقش قدم پر چلیں گے۔
بچے کے دل کو ٹھیس اس وقت پہنچتی ہے جب یہاں بھی والدین اپنی انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں اور انہیں بتا دیتے ہیں کہ تمہیں بڑے ہو کر انجینئر بننا ہے جب کہ اس بچے کو خواہش اپنے کاروبار کی ہوتی ہے۔ جس گھر میں والد اگر ڈاکٹر ہے، تو وہ اپنے بیٹے سے بھی یہی کہتا ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم بھی بڑے ہو کہ یہی پیشہ اختیار کرو۔
یہ تو بات ہوئی پڑھائی کی، جہاں والدین اپنی مرضی کے مطابق بچوں کو ڈھال لیتے ہیں، لیکن جب بات ہو شادی بیاہ کی تو یہاں بھی گھر والوں کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی اور پسند سے بچوں کی شادی کریں۔ انہیں اس معاملے میں بھی کوئی غرض نہیں کہ اُن کے بچے کیا چاہتے ہیں۔ اُن کی کیا مرضی ہے۔ بس یہ کہہ کر بچوں کو چپ کر وا دیا جاتا ہے کہ ہم آپ سے بڑے اور زیادہ سمجھ دار ہیں۔ تم لوگوں سے زیادہ تجربہ رکھتے ہیں، اس لیے ہم تم لوگوں کے لیے کوئی غلط فیصلہ نہیں کریں گے۔ بالخصوص آج بھی کسی گھر میں لڑکی اپنی شادی سے متعلق والدین کے فیصلے پر بات نہیں کرسکتی، بدقسمتی سے اس تمام عمل میں خود اس کی ماں پیش پیش ہوتی ہے۔
بے شک والدین بڑے اور بچوں سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، لیکن والدین یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بچوں کی اپنی بھی کوئی مرضی، کوئی خواہش ہوتی ہے۔ وہ بھی اس قابل ہوتے ہیں کہ کوئی فیصلہ اپنی پسند سے کر سکیں۔ انہیں بھی اچھے بُرے کی تمیز ہوتی ہے۔ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ والدین ان کے لیے کبھی غلط نہیں سوچ سکتے، لیکن والدین کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ بچوں کے ساتھ ہر معاملے میں زبردستی نہیں کرتے۔ ان کی بھی خواہشوں کا احترام کریں اور کوئی بھی مرضی کرنے سے پہلے ان کی رائے بھی پوچھ لینی چاہیے، تاکہ بچوں کو بھی اپنے والدین سے کوئی شکایت نہ رہے اور ان کی زندگی کسی محرومی اور نفسیاتی و عمرانی مسائل کا شکار نہ ہو۔
ضروری نہیں ہے کہ والدین کی مرضیوں کے بھنور میں پھنسے رہنے والے کسی بہت بڑے بحران اور مسائل سے دوچار ہوں، بلکہ والدین کی یہ غیر ضروری حاکمیت ان کی شخصیت میں سختی اور الجھن کا باعث بنتی ہے۔ بعض اوقات وہ تشدد کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ ان میں سامنے والے کے لیے قبولیت اور برداشت کا عنصر گھٹ جاتا ہے اور یہ سب چیزیں اس کی زندگی کو مشکل بنا دیتے ہیں، اس لیے بطور ماں اپنے بچے کی زندگی کو آسان بنانا آپ کی ذمہ داری ہے، آپ بچے سے وابستہ اپنی امیدوں کا اظہار ضرور کیجیے، مگر اسے اپنے مزاج کے خلاف چلنے پر مجبور نہ کیجیے۔