پاک افغان انٹیلی جنس تعاون پر بات چیت پھرشروع ہونے کا امکان
دہشت گردی کے خاتمے کیلیے دونوں ممالک کے سیکیورٹی اداروں کے مابین رابطے اور تعاون ناگزیر ہے، ذرائع
پاکستان اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین مجوزہ معاہدے پر بات چیت دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اور ان کے افغان ہم منصب مسعود اندرابی کے مابین حالیہ ملاقات میں اس موضوع پر تبادلہ خیال کیاگیا، افغان نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کے قائم مقام سربراہ کے اچانک دورہ اسلام آبادکے موقع پرانٹیلی جنس اورسیکیورٹی امور میں تعاون پر بات ہوئی۔ دونوں اداروں کی جانب سے سربراہان کی ملاقات کی تردید کی گئی ہے۔
مئی 2015میںآئی ایس آئی اور این ڈی ایس میں عسکریت پسندوں کے آپریشن اور انٹیلی جنس معلومات کے تبادلیکے حوالے سے باہمی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے گئے تھے لیکن افغان سیاستدانوں بشمول سابق افغان صدرکرزئی کی جانب سے شدید مخالفت کے باعث اس یادداشت پر عملدرآمد نہیں ہوسکاتھا، اس دباؤ کی وجہ سے این ڈی ایس پیچھے ہٹ گئی تھی۔ کسی معاہدے پر پیش رفت نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی اس وقت کے این ڈی ایس چیف رحمت اللہ نبیل ایسے کسی معاہدے کے مخالف تھے۔
دسمبر2015میں رحمت اللہ نبیل پاکستان پرصدراشرف غنی کی پالیسیوں پر اختلاف کے باعث مستعفی ہوگئے، غنی حکومت کئی مہینوں کی کشیدگی اوردسمبر میں اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں اشرف غنی کی شرکت سے دوطرفہ تعلقات میں بہتری آئی، اشرف غنی کے دورہ پاکستان سے افغان طالبان سے افغان حکومت کے مذاکرات، عسکری اور انٹیلی جنس حکام کی ملاقاتوں اور کئی امور میں پیش رفت ہوئی۔
اس پیش رفت سے آگاہ ایک ذریعے نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایاکہ دونوں پڑوسی ممالک نے اس بات کا ادراک کرلیاہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلیے دونوں ممالک کے سیکیورٹی اداروں کے مابین رابطے اور تعاون ناگزیر ہے۔ دونوں ممالک کے عسکری اور انٹیلی جنس حکام کے حالیہ دورے دوطرفہ تعاون کیلیے اقدام کا حصہ ہیں۔ دونوںپڑوسی ممالک کے آپریشنل کمانڈرز نے بہتر رابطوں کیلیے ایک ہاٹ لائن بھی قائم کی ہے، دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنزنے ایک دوسرے ممالک کے دورے بھی کیے ہیں۔
ذرائع کا کہناہے کہ یہ اقدام مشترکہ سیکیورٹی چیلنجز اور سرحد ی امور میں بہتری کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ ذرائع نے مزید بتایاکہ دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے مابین اطلاعات کا تبادلہ اور رابطے سرحد کے دونوں جانب مشکلات پیداکرنے والے عسکریت پسندوں سے نمٹنے کیلیے اہم ہے۔ یہی وجوہ ہیں کہ دونوں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین کسی معاہدے میں پیش رفت ہوئی ہے۔ دونوں ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین اعتمادسازی کے فقدان کے باعث مستقل قریب میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا۔
ذرائع کے مطابق آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اور ان کے افغان ہم منصب مسعود اندرابی کے مابین حالیہ ملاقات میں اس موضوع پر تبادلہ خیال کیاگیا، افغان نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کے قائم مقام سربراہ کے اچانک دورہ اسلام آبادکے موقع پرانٹیلی جنس اورسیکیورٹی امور میں تعاون پر بات ہوئی۔ دونوں اداروں کی جانب سے سربراہان کی ملاقات کی تردید کی گئی ہے۔
مئی 2015میںآئی ایس آئی اور این ڈی ایس میں عسکریت پسندوں کے آپریشن اور انٹیلی جنس معلومات کے تبادلیکے حوالے سے باہمی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے گئے تھے لیکن افغان سیاستدانوں بشمول سابق افغان صدرکرزئی کی جانب سے شدید مخالفت کے باعث اس یادداشت پر عملدرآمد نہیں ہوسکاتھا، اس دباؤ کی وجہ سے این ڈی ایس پیچھے ہٹ گئی تھی۔ کسی معاہدے پر پیش رفت نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی اس وقت کے این ڈی ایس چیف رحمت اللہ نبیل ایسے کسی معاہدے کے مخالف تھے۔
دسمبر2015میں رحمت اللہ نبیل پاکستان پرصدراشرف غنی کی پالیسیوں پر اختلاف کے باعث مستعفی ہوگئے، غنی حکومت کئی مہینوں کی کشیدگی اوردسمبر میں اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں اشرف غنی کی شرکت سے دوطرفہ تعلقات میں بہتری آئی، اشرف غنی کے دورہ پاکستان سے افغان طالبان سے افغان حکومت کے مذاکرات، عسکری اور انٹیلی جنس حکام کی ملاقاتوں اور کئی امور میں پیش رفت ہوئی۔
اس پیش رفت سے آگاہ ایک ذریعے نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایاکہ دونوں پڑوسی ممالک نے اس بات کا ادراک کرلیاہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلیے دونوں ممالک کے سیکیورٹی اداروں کے مابین رابطے اور تعاون ناگزیر ہے۔ دونوں ممالک کے عسکری اور انٹیلی جنس حکام کے حالیہ دورے دوطرفہ تعاون کیلیے اقدام کا حصہ ہیں۔ دونوںپڑوسی ممالک کے آپریشنل کمانڈرز نے بہتر رابطوں کیلیے ایک ہاٹ لائن بھی قائم کی ہے، دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنزنے ایک دوسرے ممالک کے دورے بھی کیے ہیں۔
ذرائع کا کہناہے کہ یہ اقدام مشترکہ سیکیورٹی چیلنجز اور سرحد ی امور میں بہتری کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ ذرائع نے مزید بتایاکہ دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے مابین اطلاعات کا تبادلہ اور رابطے سرحد کے دونوں جانب مشکلات پیداکرنے والے عسکریت پسندوں سے نمٹنے کیلیے اہم ہے۔ یہی وجوہ ہیں کہ دونوں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین کسی معاہدے میں پیش رفت ہوئی ہے۔ دونوں ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین اعتمادسازی کے فقدان کے باعث مستقل قریب میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا۔