شیخ حارث نے منجمد جائیداد دھوکا دہی سے فروخت کردی
حارث اسٹیل ملز کیس کے ملزم نے نام ای سی ایل میں ہونے کے باوجود دبئی کا دورہ بھی کیا، ذرائع
GILGIT:
حارث اسٹیل ملز کے مالکان کے الزمات کے برعکس قومی احتساب بیورو نے حارث اسٹیل ملز کیس کی تحقیقات کے دوران منجمد شدہ اثاثوں میں سے ایک جائیداد کی مالکان کی طرف سے دوبارہ فروخت کا سراغ لگایا ہے۔
ایکسپریس ٹربیون کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ 22اکتوبر کو سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران شریک ملزم شیخ افضل کے وکیل نے دعویٰ کیا تھا کہ نیب اور پنجاب بنک نے ان کے مئوکل کی دبئی میں ایک جائیداد ڈیڑھ ارب روپے میں فروخت کی ہے لیکن یہ رقم اس کی مالیت کے نصف سے بھی کم ہے، انھوں نے عدالت سے معاملے کی تحقیقات کی درخواست کی ۔ دبئی میں واقع پراپرٹی سمیت دیگر اثاثہ جات 9ارب روپے کے قرضے واپس کرنے میں ناکامی پر منجمد کیے گئے تھے۔ شیخ افضل کے وکیل کے الزامات کے بعد نیب کی ایک ٹیم نے دبئی کا دورہ کیا اور اس گاہک کا سراغ لگایا جس نے جائیداد خریدی۔
تفتیش سے انکشاف ہوا کہ شیخ حارث افضل نے اپنا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ہونے کے باوجود دبئی کا دورہ کیا اور دھوکہ دہی سے منجمد شدہ جائیداد ایک بھارتی باشندے کو450 ملین روپے میں فروخت کردی۔ ذرائع نے بتایا کہ نیب نے بھارتی باشندے کا بیان قلمبند کرلیا ہے جس میں اس نے کہا کہ اسے جائیداد کے منجمد ہونے یا اس کی فروخت کا کچھ علم نہیں اور شیخ حارث کے پاس جائیداد کی ملکیت کی دستاویزات بھی موجود تھیں۔ نیب اور پنجاب بنک نے عرب امارات کے حکام سے درخواست کی ہے کہ دبئی والی جائیدادکا انتقال پنجاب بنک کوکردیا جائے۔ پاکستانی سفارتخانے کو بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ اس جائیداد کی فروخت اور انتقال روکا جائے۔
ان قانونی کارروائیوں کے بعد جائیداد کو سربمہرکردیا گیا ہے۔ نیب اس بات کا بھی پتہ چلارہا ہے کہ 450 ملین روپے کی رقم پاکستان قانونی یا غیرقانونی طریقے سے ارسال کی گئی ۔ بیورو نے کراچی میں فان آفس کے دفتر اور دبئی کے سفارتخانے کے ان اہلکاروں کی تلاش بھی شروع کردی ہے جو شیخ حارث کو جائیداد کی فروخت کیلیے پاور آف اٹارنی جاری کرنے میں ملوث ہیں۔ معلوم ہوا کہ اس دھوکہ دہی پر شیخ افضل اور اس کے بیٹے حارث کے خلاف جلد ایک نیا کیس بھی درج کیا جائے گا۔
حارث اسٹیل ملز کے مالکان کے الزمات کے برعکس قومی احتساب بیورو نے حارث اسٹیل ملز کیس کی تحقیقات کے دوران منجمد شدہ اثاثوں میں سے ایک جائیداد کی مالکان کی طرف سے دوبارہ فروخت کا سراغ لگایا ہے۔
ایکسپریس ٹربیون کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ 22اکتوبر کو سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران شریک ملزم شیخ افضل کے وکیل نے دعویٰ کیا تھا کہ نیب اور پنجاب بنک نے ان کے مئوکل کی دبئی میں ایک جائیداد ڈیڑھ ارب روپے میں فروخت کی ہے لیکن یہ رقم اس کی مالیت کے نصف سے بھی کم ہے، انھوں نے عدالت سے معاملے کی تحقیقات کی درخواست کی ۔ دبئی میں واقع پراپرٹی سمیت دیگر اثاثہ جات 9ارب روپے کے قرضے واپس کرنے میں ناکامی پر منجمد کیے گئے تھے۔ شیخ افضل کے وکیل کے الزامات کے بعد نیب کی ایک ٹیم نے دبئی کا دورہ کیا اور اس گاہک کا سراغ لگایا جس نے جائیداد خریدی۔
تفتیش سے انکشاف ہوا کہ شیخ حارث افضل نے اپنا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ہونے کے باوجود دبئی کا دورہ کیا اور دھوکہ دہی سے منجمد شدہ جائیداد ایک بھارتی باشندے کو450 ملین روپے میں فروخت کردی۔ ذرائع نے بتایا کہ نیب نے بھارتی باشندے کا بیان قلمبند کرلیا ہے جس میں اس نے کہا کہ اسے جائیداد کے منجمد ہونے یا اس کی فروخت کا کچھ علم نہیں اور شیخ حارث کے پاس جائیداد کی ملکیت کی دستاویزات بھی موجود تھیں۔ نیب اور پنجاب بنک نے عرب امارات کے حکام سے درخواست کی ہے کہ دبئی والی جائیدادکا انتقال پنجاب بنک کوکردیا جائے۔ پاکستانی سفارتخانے کو بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ اس جائیداد کی فروخت اور انتقال روکا جائے۔
ان قانونی کارروائیوں کے بعد جائیداد کو سربمہرکردیا گیا ہے۔ نیب اس بات کا بھی پتہ چلارہا ہے کہ 450 ملین روپے کی رقم پاکستان قانونی یا غیرقانونی طریقے سے ارسال کی گئی ۔ بیورو نے کراچی میں فان آفس کے دفتر اور دبئی کے سفارتخانے کے ان اہلکاروں کی تلاش بھی شروع کردی ہے جو شیخ حارث کو جائیداد کی فروخت کیلیے پاور آف اٹارنی جاری کرنے میں ملوث ہیں۔ معلوم ہوا کہ اس دھوکہ دہی پر شیخ افضل اور اس کے بیٹے حارث کے خلاف جلد ایک نیا کیس بھی درج کیا جائے گا۔