خیبر پختونخوا کے سرکاری اسپتالوں میں لازمی سروسز ایکٹ نافذ
اسپتالوں میں تعینات سرکاری عملے کی ہڑتال غیر قانوی تصور کی جائے گی، نوٹی فکیشن
PESHAWAR:
خیبرپختونخوا كے اسپتالوں میں ہڑتالوں اور احتجاج روكنے كے لیے لازمی سروسز ایكٹ 1958 نافذ كردیا گیا جب كہ احتجاج كرنے والوں كے خلاف كارروائی كا بھی حكم نامہ جاری كردیا گیا ہے۔
سینئر صوبائی وزیر صحت شہرام خان تركئی نے پریس كانفرنس كرتے ہوئے بتایا كہ ڈاكٹروں سمیت طبی عملے كے ساتھ حكومت نے 2 سال تك مذاكرات كیے اور اسپتالوں میں اصلاحات كے لیے جو ایكٹ بنایا گیا ہے وہ تمام سیاسی جماعتوں اور ڈاكٹر تنظیموں كے ساتھ مشاورت سے بنایا لیکن اب چند افراد اس كی مخالفت كررہے ہیں لیکن ہم عدالتی احكامات كے تحت اس ایكٹ كو نافذ كررہے ہیں۔
وزیر صحت نے كہا كہ صوبائی حكومت احتجاج كرنے والوں پر كوئی تشدد نہیں كرے گی، كوئی لاٹھی چارج نہیں كیاجائے گا لیكن سروسز ایكٹ 1958 كے نفاذ كے بعد قانونی كارروائی كی جائے گی جس میں ملازمت سے برطرفی بھی شامل ہے۔ انہوں نے كہا كہ چند افراد ذاتی مفادات کے لیے ایكٹ كی مخالفت كررہے ہیں، ایكٹ كی مخالفت كرنے والوں نے كئی بار ہڑتالیں كی ہیں لیكن صوبائی حكومت نے كسی پر لاٹھی چارج یا آنسو گیس نہیں پھینكا كیونكہ احتجاج كرنا ہر شہری كا حق ہے۔
شہرام ترکئی کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا حكومت نے محكمہ صحت كے ملازمین پر واضح كردیا ہے كہ لازمی سروس ایكٹ كے تحت ایسوسی ایشن اور یونین كی كوئی حیثیت نہیں، جو لوگ صوبائی اسمبلی كے پاس كردہ قوانین پر عمل درآمد نہیں كرسكتے اور قوانین سے كوئی مسئلہ ہے تو وہ استعفیٰ دے كر گھر بیٹھ جائیں ان كے لیے نوكریوں كی كمی نہیں اور حكومت کے لیے محنتی ملازمین كی کوئی کمی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے كے تمام تدریسی اسپتالوں كو خود مختار كیا ہے اور تمام اسپتالوں کے لیے بورڈ آف گورنرز بنادئیے ہیں، تمام اسپتالوں كو فنڈز جاری كركے حكومت نے سرمایہ كاری كا آغا ز كردیا ہے۔
وزیر صحت کا کہنا تھا کہ ان كا مقصد كسی پر دباؤ ڈالنا نہیں نہ ہی دھمكی دے رہے ہیں بلكہ صوبے كے عوام كو آگاہ كرنا چاہتے ہیں كہ شعبہ صحت میں كیا ہورہا ہے۔ انہوں نے كہا كہ ایم ٹی آئی ایكٹ 2015 پر خیبرپختونخوااسمبلی میں كئی بار بحث ہوئی ہے، ایوان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں اور عوامی كے نمائندوں نے اس ایكٹ كو متفقہ طورپر پاس كیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض عناصر ایكٹ كے نفاذ كو پی آئی اے ملازمین كی ہڑتال سے مشابہت دے رہے لیكن حقیقت یہ ہے كہ پی آئی اے كو لازمی سروس ایكٹ بنانے كا فیصلہ ایوان میں نہیں ہوا بلكہ یكطرفہ فیصلہ ہے جب كہ دوسری جانب شعبہ صحت سے متعلق موجودہ ایكٹ خیبر پختونخوا اسمبلی میں كافی بحث كے بعد متفقہ طور پر پاس كیاگیا ہے۔
شہرام ترکئی نے کہا کہ ہڑتال میں پیرامیڈیكس نے شركت نہ كرنے كی یقین دہانی كرائی ہے، شعبہ صحت كے ملازمین كی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ كردیا گیا ہے اور مزید بھی بڑھائیں گے لیكن اس كے بدلے ڈاكٹروں سمیت تمام عملے كو مقررہ وقت تك اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے كرنا ہوگی، حكومت صحت میں اصلاحات لاكر اس شعبے میں بہتری لانا چاہتی ہے لیكن چند افراد ذاتی مفادات كیلئے ایكٹ كی مخالفت كررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحت كے شعبے سے وابستہ تمام ملازمین سے مذاكرات كرنے كو ترجیح دی ہے لیكن مفاد پرست لوگ صحت میں بہتری پر خوش نہیں، چند لوگ ایكٹ كے خلاف كورٹ گئے تھے لیكن عدالت نے بھی صوبائی حكومت كے حق میں فیصلہ دیا جس كے بعد احتجاج كا كوئی جواز نہیں بنتا اگر كوئی احتجاج كرے گا تو عدالت كا حكم نہ ماننے والے توہین عدالت كے مرتكب ہوں گے۔
واضح رہے کہ پشاور کے سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں نے اپنے مطالبات کے حق میں منگل سے ہڑتال کا اعلان کررکھا ہے۔
خیبرپختونخوا كے اسپتالوں میں ہڑتالوں اور احتجاج روكنے كے لیے لازمی سروسز ایكٹ 1958 نافذ كردیا گیا جب كہ احتجاج كرنے والوں كے خلاف كارروائی كا بھی حكم نامہ جاری كردیا گیا ہے۔
سینئر صوبائی وزیر صحت شہرام خان تركئی نے پریس كانفرنس كرتے ہوئے بتایا كہ ڈاكٹروں سمیت طبی عملے كے ساتھ حكومت نے 2 سال تك مذاكرات كیے اور اسپتالوں میں اصلاحات كے لیے جو ایكٹ بنایا گیا ہے وہ تمام سیاسی جماعتوں اور ڈاكٹر تنظیموں كے ساتھ مشاورت سے بنایا لیکن اب چند افراد اس كی مخالفت كررہے ہیں لیکن ہم عدالتی احكامات كے تحت اس ایكٹ كو نافذ كررہے ہیں۔
وزیر صحت نے كہا كہ صوبائی حكومت احتجاج كرنے والوں پر كوئی تشدد نہیں كرے گی، كوئی لاٹھی چارج نہیں كیاجائے گا لیكن سروسز ایكٹ 1958 كے نفاذ كے بعد قانونی كارروائی كی جائے گی جس میں ملازمت سے برطرفی بھی شامل ہے۔ انہوں نے كہا كہ چند افراد ذاتی مفادات کے لیے ایكٹ كی مخالفت كررہے ہیں، ایكٹ كی مخالفت كرنے والوں نے كئی بار ہڑتالیں كی ہیں لیكن صوبائی حكومت نے كسی پر لاٹھی چارج یا آنسو گیس نہیں پھینكا كیونكہ احتجاج كرنا ہر شہری كا حق ہے۔
شہرام ترکئی کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا حكومت نے محكمہ صحت كے ملازمین پر واضح كردیا ہے كہ لازمی سروس ایكٹ كے تحت ایسوسی ایشن اور یونین كی كوئی حیثیت نہیں، جو لوگ صوبائی اسمبلی كے پاس كردہ قوانین پر عمل درآمد نہیں كرسكتے اور قوانین سے كوئی مسئلہ ہے تو وہ استعفیٰ دے كر گھر بیٹھ جائیں ان كے لیے نوكریوں كی كمی نہیں اور حكومت کے لیے محنتی ملازمین كی کوئی کمی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے كے تمام تدریسی اسپتالوں كو خود مختار كیا ہے اور تمام اسپتالوں کے لیے بورڈ آف گورنرز بنادئیے ہیں، تمام اسپتالوں كو فنڈز جاری كركے حكومت نے سرمایہ كاری كا آغا ز كردیا ہے۔
وزیر صحت کا کہنا تھا کہ ان كا مقصد كسی پر دباؤ ڈالنا نہیں نہ ہی دھمكی دے رہے ہیں بلكہ صوبے كے عوام كو آگاہ كرنا چاہتے ہیں كہ شعبہ صحت میں كیا ہورہا ہے۔ انہوں نے كہا كہ ایم ٹی آئی ایكٹ 2015 پر خیبرپختونخوااسمبلی میں كئی بار بحث ہوئی ہے، ایوان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں اور عوامی كے نمائندوں نے اس ایكٹ كو متفقہ طورپر پاس كیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض عناصر ایكٹ كے نفاذ كو پی آئی اے ملازمین كی ہڑتال سے مشابہت دے رہے لیكن حقیقت یہ ہے كہ پی آئی اے كو لازمی سروس ایكٹ بنانے كا فیصلہ ایوان میں نہیں ہوا بلكہ یكطرفہ فیصلہ ہے جب كہ دوسری جانب شعبہ صحت سے متعلق موجودہ ایكٹ خیبر پختونخوا اسمبلی میں كافی بحث كے بعد متفقہ طور پر پاس كیاگیا ہے۔
شہرام ترکئی نے کہا کہ ہڑتال میں پیرامیڈیكس نے شركت نہ كرنے كی یقین دہانی كرائی ہے، شعبہ صحت كے ملازمین كی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ كردیا گیا ہے اور مزید بھی بڑھائیں گے لیكن اس كے بدلے ڈاكٹروں سمیت تمام عملے كو مقررہ وقت تك اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے كرنا ہوگی، حكومت صحت میں اصلاحات لاكر اس شعبے میں بہتری لانا چاہتی ہے لیكن چند افراد ذاتی مفادات كیلئے ایكٹ كی مخالفت كررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحت كے شعبے سے وابستہ تمام ملازمین سے مذاكرات كرنے كو ترجیح دی ہے لیكن مفاد پرست لوگ صحت میں بہتری پر خوش نہیں، چند لوگ ایكٹ كے خلاف كورٹ گئے تھے لیكن عدالت نے بھی صوبائی حكومت كے حق میں فیصلہ دیا جس كے بعد احتجاج كا كوئی جواز نہیں بنتا اگر كوئی احتجاج كرے گا تو عدالت كا حكم نہ ماننے والے توہین عدالت كے مرتكب ہوں گے۔
واضح رہے کہ پشاور کے سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں نے اپنے مطالبات کے حق میں منگل سے ہڑتال کا اعلان کررکھا ہے۔