سپر لیگ کا کامیاب سفر اور ایک خواہش

پی ایس ایل کے یہ میچ پاکستانی گراؤنڈز پر ہو رہے ہوتے توٹورنامنٹ کو چارچاند لگ جاتے


Ayaz Khan February 09, 2016
[email protected]

KARACHI: خوشی ہے کہ پاکستان سپر لیگ کا سفر کامیابی سے جاری ہے ۔ خوشی کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا دکھ بھی ہے کہ پاکستان کا یہ رنگا رنگ ٹورنامنٹ متحدہ عرب امارات میں ہو رہا ہے ۔

پی ایس ایل کے یہ میچ پاکستانی گراؤنڈز پر ہو رہے ہوتے توٹورنامنٹ کو چارچاند لگ جاتے۔ قذافی اسٹیڈیم کے قریب سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد سے ہمارے میدان ویران ہیں۔ صرف ایک بار زمبابوے کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا اور قذافی اسٹیڈیم میں ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کے چند میچ کھیلے۔

ان میچوں کے دوران سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کی وجہ سے شائقین کرکٹ کو طویل مسافت کے بعد اسٹیڈیم میں داخل ہونے کا موقع ملتا تھا، اس کے باوجود تمام میچوں کے دوران قذافی اسٹیڈیم شائقین سے بھرا رہا۔ پاکستانی کرکٹ کے لیے کریزی ہیں، پی ایس ایل کے دبئی میں ہونے والے میچوں میں دیکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد نہیں آئی لیکن ہوم گراؤنڈزپر یہ میچ ہوتے تو پاکستان کے کسی اسٹیڈیم میں تل دھرنے کو جگہ نہ ملتی۔ کسی بھی پاکستانی کی طرح میر ی بھی یہ خواہش ہے کہ ہمارے سونے میدان پھر سے آباد ہو جائیں۔

یہاں انٹر نیشنل کرکٹ بحال ہو جائے تو پھر ہم دنیا کی کسی بھی ٹیم کو ٹکر دے سکتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس کچھ عرصے سے خراب جا رہی ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو ہوم گراؤنڈ پر کھیلنے کا موقع نہیں ملتا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں ہماری عالمی رینکنگ چوتھی، ون ڈے میں 8ویں اور ٹی ٹوئنٹی میں 7ویں ہے۔ ٹیسٹ میں نسبتاً بہتر رینکنگ کی وجہ کپتان مصبا ح الحق ہیں۔

ان کی قیادت میں ٹیم بہتر پرفارم کر رہی ہے۔ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے میں تنزلی کی ایک وجہ ہوم گراؤنڈز پر انٹر نیشنل کرکت سے محرومی ہے اور دوسری اہم وجہ سلیکٹرز کی غیر متوازن پالیسیاں۔ ٹور سلیکشن کمیٹی نے بھی طے کیا ہو اہے کہ کسی کھلاڑی کو سیٹ نہیں ہونے دینا۔ ون ڈے میں کپتان کمزور اور کوچ انتہائی مضبوط ہے۔ ٹی ٹوئنٹی میں بھی مسلسل تجربات کی وجہ سے ہماری حالت خراب سے خراب ہوتی جا رہی ہے۔ بے کار تجربات کا یہ سلسلہ نہ رکا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب زمبابوے اور کینیا جیسی ٹیمیں بھی ہمیں آسانی سے ہرا دیا کریں گی۔

سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ کی پالیسیاں کرکٹ کو تباہی کے راستے پر گامزن کر چکی ہیں، ایسے میں پی ایس ایل کا کامیاب انعقاد تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔ پی ایس ایل میں تین طرح کے پلیئرز کا کمبی نیشن ہے۔ نامور غیر ملکی کھلاڑی جن میں کرس گیل، شین واٹسن، شان ٹیٹ، لینڈل سمنز، شکیب الحسن، تمیم اقبال اور دیگر شامل ہیں ، ان کے علاوہ نامور پاکستانی کھلاڑی اور پھر نوجوان پاکستانی کرکٹر۔ یہ ایسا امتزاج ہے جو مستقبل میں بہت شاندار نتائج لا سکتا ہے۔ اگر کسی کو اس بات پر شبہ ہو تو وہ آئی پی ایل کے بعد سے انڈین کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس دیکھ لے۔ ابھی انڈیا نے آسٹریلیا کو مسلسل تین ٹی ٹوئنٹی میچوں میں شکست دی ہے۔

انڈین پریمیئر لیگ میں چونکہ دنیا کے بہترین کھلاڑی حصہ لیتے ہیں اس لیے نوجوان انڈین کرکٹر ان کے ساتھ کھیل کر اتنا تجربہ حاصل کر لیتے ہیں کہ وہ دنیا کی کسی بھی ٹیم کے خلاف عمدہ کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ آئی پی ایل نے کئی نئے کرکٹر انٹر نیشنل لیول تک پہنچا دیے ہیں۔ سخت مقابلے کی فضا میں ہونے ولا کھیل ایک عام کرکٹر میں بھی اتنی صلاحیت پیدا کر دیتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنے جوہر دکھانے کے قابل ہو جاتا ہے۔

پی ایس ایل کے پہلے ایڈیشن میں 5ٹیمیں شامل ہیں۔ پی سی بی کے چیئرمین نے کہا ہے کہ آیندہ ایڈیشن میں ٹیموں کی تعداد 6 کر دی جائے گی۔ آئی پی ایل میں بھی 6ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ انڈیا میں ٹیمیں جب مقابلے پر اترتی ہیں تو ہوم گراؤنڈ پر اور ہوم کراؤڈ کے سامنے۔ پی ایس ایل کے میچز دبئی اور شارجہ میں ہوتے ہیں، اب تک 8 میچ ہو چکے ہیں۔ ٹورنامنٹ سے پہلے قدرے کمزور سمجھی جانے والی ٹیمیں پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈیئیٹر اس وقت ٹاپ پر جا رہی ہیں۔ لاہور قلندر اور سب سے مہنگی ٹیم کراچی کنگز کی حالت پتلی ہے۔

اسلام آباد یونائٹڈ فیورٹ تھی ہی نہیں اس لیے اس کی پرفارمنس حیران کن نہیں ہے۔ ایمرجنگ کرکٹرز میں کوئٹہ کے محمد نواز اور پشاور زلمی کے محمد اصغر اپنی پرفارمنس سے ٹاپ کلاس پلیئر نظر آرہے ہیں۔ نواز ٹاپ وکٹ ٹیکر ہیں، نواز مستقبل میں کے بہترین آل راؤنڈر بن سکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ اس نوجوان کو سلیکشن کمیٹی کے تجربات کی نظر نہ ہونے دیاجائے۔

محمد اصغر بھی خود کو قومی ٹیم میں شمولیت کے اہل ثابت کر رہے ہیں۔ ابھی 16میچز باقی ہیں، کرکٹ میں ہیرو کو زیرو بننے میں اور زیرو کو ہیرو بننے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عموماً جو ٹیمیں کسی ٹورنامنٹ کا آغاز شاندار طریقے سے کرتی ہیں وہ آخر تک اپنی یہ فارم برقرار رکھتی ہیں۔ ورلڈ کپ 92 ء جیسے صورتحال کم ہی سامنے آتی ہے جب ٹورنانمنٹ سے تقریباً آؤٹ ہونے والی پاکستانی ٹیم جیت جاتی ہے۔

اچھی بری پرفارمنس چلتی رہتی ہے لیکن اب تک جس طرح لاہور قلندر کی ٹیم کھیلی ہے اس نے اپنے مداحین کو بہت مایوس کیا ہے۔ کسی ٹیم کی اچھی پرفارمنس کا دارو مدار اس کے کمبی نیشن پر ہوتا ہے۔ جس ٹیم کا کمبی نیشن اچھا بن جائے توہ پرفارم کرتی ہے ورنہ دنیا کے بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل کوئی ٹیم بھی بدترین پرفارمنس دے سکتی ہے۔

پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب بھی بڑی شاندار تھی، اس رنگین اور دلکش تقریب نے دنیا بھر میں یہ پیغام دیا کہ پاکستانی پر امن اور کھیلوں سے پیار کرنے والے لوگ ہیں، ان کا پیغامِ محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ افتتاحی تقریب میں قابل ِذکر تو بہت کچھ تھا لیکن مجھے نجم سیٹھی کے چند الفاظ یاد آرہے ہیں۔انھوںنے چیئرمین پی سی بی کا نام کچھ یوں لیا''میاں محمد شہریار خان''۔ چلتے چلتے پھر کہا ''ان تھُک'' محنت کی وجہ سے آج ہم اس قابل ہوتے ہیں کہ پی ایس ایل کا انعقاد ہونا جاری ہے۔

8میچوںکے بعد پی ایس ایل کا ایک حصہ مکمل ہو گیا۔ 15میچ اور ہوں گے ، پھر فائنل۔ یہ فائنل کوئی ایک ٹیم نہیں پوری پاکستانی قوم جیتے گی۔ پی اایل کے کامیاب انعقاد پر پی سی بی کو خراج تحسین پیش نہ کرنا زیادتی ہے۔ ویل ڈن پی سی بی۔پاکستان سپر لیگ کا پہلا ایڈیشن 23 فروری کو مکمل ہو جائے گا۔

دوسرا ایڈیشن اگلے سال یعنی2017ء میں ہونا ہے۔ پہلے ایڈیشن میں جو خامیاں رہ جائیں گی وہ اگے ایڈیشن میں دور ہو جائیں گی۔ ٹیمیں بھی 5 کی جگہ 6 ہو جائیں گی۔ اس کے بعد صرف ایک ہی خواہش باقی رہ جاتی ہے۔ یہ چھوٹی سی معصوم خواہش یہ ہے کہ دوسرا پی ایس ایل ٹورنامنٹ پاکستان میں کھیلا جائے ، کیا یہ ممکن ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں