جنرل راحیل شریف اور جمہوریت کی پاسبانی

سیاسی مفکر جون آسٹن کے نظریے کے مطابق اصل مقتدر اعلیٰ وہی ہوتا ہے جس کے پاس طاقت اور قوت ہوتی ہے۔


Shakeel Farooqi February 09, 2016
[email protected]

سیاسی مفکر جون آسٹن کے نظریے کے مطابق اصل مقتدر اعلیٰ وہی ہوتا ہے جس کے پاس طاقت اور قوت ہوتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ وطن عزیز میں اس روایت کی بنیاد رکھنے والوں کی فہرست میں سب سے پہلا نام میجر جنرل اسکندر مرزا کا شامل ہے جس کے فوراً بعد جنرل ایوب خان کا نام آتا ہے۔

جنھوں نے فوجی طالع آزمائی کی علت کو پختہ کرکے اپنے بعد آنے والے فوجی سربراہوں کی حکمرانی کے لیے راہ ہموارکی۔ یہی نہیں بلکہ وہ تو خودساختہ فیلڈ مارشل بھی بن گئے۔ اسی روایت کی پیروی کرتے ہوئے جنرل ضیا الحق اور پھر اس کے بعد جنرل پرویز مشرف بھی مسند اقتدار پر قابض ہوگئے اور ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بن بیٹھے۔ موقع تو جنرل مرزا اسلم بیگ کو بھی میسر آیا تھا مگر ہوس اقتدار سے مغلوب نہ ہونے کے باعث انھوں نے ایسا کرنے سے گریز کیا اور اپنا نام نیک ناموں کی فہرست میں شامل کرالیا اور ہمیشہ کے لیے سرخ رو ہوگئے۔

فوجی سربراہوں کی دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جنھوں نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع لینے سے انکار کرکے ایک صحت مند اور قابل تقلید و لائق تحسین روایت قائم کی۔ اس روایت میں جنرل عبدالواحد کاکڑ سرفہرست ہیں جن کا نام آج بھی بڑے احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے انھیں بہ رضا و رغبت بذات خود توسیع کی پرکشش آفر بھی دی تھی جسے انھوں نے نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرنے سے انکارکردیا تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ انھوں نے اس بارے میں کوئی بیان دینے سے بھی اجتناب کیا اور ریٹائرمنٹ کے بعد کبھی پبلک کے سامنے بھی نہیں آئے۔

جنرل اشفاق پرویز کیانی کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جب انھیں مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع کی Sweet Offer دی تو انھوں نے اسے نہایت خوش دلی کے ساتھ قبول کرلیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کا استدلال یہ تھا کہ قبائلی علاقوں میں ملٹری آپریشن نازک مراحل میں ہونے کی وجہ سے فوجی کمان میں تبدیل کرنا مناسب نہیں تھا۔

پاکستان میں عام تاثر یہی ہے کہ فوجی سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کرتے یا نہ کرنے کے پس پشت اس کی اپنی مرضی کا سب سے زیادہ عمل و دخل ہوتا ہے خواہ کوئی اس کا اعتراف کرے یا نہ کرے۔ دوسرے لفظوں میں اس اہم فیصلے کی اصل اتھارٹی آرمی چیف ہی کے پاس ہوتی ہے، چاہے اس کا جواز کسی بھی صورت میں پیش کیا جائے۔

جس طرح غالب کے بہ قول ''موت کا ایک دن معین ہے''بالکل اسی طرح کسی بھی سرکاری ملازم کی ملازمت سے سبکدوشی کی بھی ایک تاریخ مقرر ہوتی ہے، خواہ یہ سرکاری ملازم سویلین ہو یا فوجی اورچھوٹا ہو یا بڑا۔ تاہم ہر سرکاری ملازم کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ جب بھی ریٹائر ہو تو باعزت اور صحت کے ساتھ اپنے عہدے سے سبکدوش ہو۔ بقول شاعر:

جتنے سخن ہیں سب میں یہی ہے سخن دوست

اللہ آبرو سے رکھے اور تن درست

ہم خود بھی جب اپنی سرکاری ملازمت سے بخیر وعافیت سبکدوش ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر ادا کیا تھا اور ایک موقر انگریزی روزنامے کے لیے ایک خصوصی مضمون بھی تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا "Retired But Not Retarded"۔

جہاں تک مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ ہے تو اس کے حق میں یہی دلیل پیش کی جاتی ہے کہ فلاں شخص کی خدمات ناگزیر ہیں اور اس کے بغیر کام چلانا ناممکن یا بہت مشکل ہوگا۔ ہمارے خیال میں یہ دلیل بڑی کمزور اورغیر حقیقت پسندانہ ہے جس کا اظہار شاعر نے ان خوبصورت الفاظ میں کیا ہے۔

خدا جانے یہ دنیا جلوہ گاہِ ناز ہے کس کی

ہزاروں اٹھ گئے پھر بھی وہی رونق ہے مجلس کی

اس جہان فانی میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں کہ جو ناگزیر ہو یا جس کے بغیر کام ٹھپ ہوکر رہ جائے۔ تلخ مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی افسر کی مدت ملازمت میں توسیع کے پس پشت کوئی نہ کوئی مصلحت کارفرما ہوتی ہے جس کا بنیادی مقصد کسی نہ کسی مفاد پر مبنی ہوتا ہے۔

یہ مقصد سیاسی یا غیر سیاسی اور ذاتی یا گروہی بھی ہوسکتا ہے۔ چنانچہ جب جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی تھی تو اس سے ان کا امیج بھی متاثر ہوا تھا اور ان کی اتھارٹی بھی کمزور ہوئی تھی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ان کی دوسری مدت ملازمت میں نہ تو پہلے جیسی آب و تاب باقی رہی تھی اور نہ اس میں وہ پہلے جیسا زوروشور دکھائی دیتا تھا۔ رہی سہی کسر اسامہ بن لادن والے واقعے نے پوری کردی تھی۔

کسی بھی اعلیٰ افسرکی مدت ملازمت میں توسیع سے ترقی کے منتظر اس کے جونیئرز کے مورال پر منفی اثر پڑنا ایک فطری امر ہے جس کی صداقت سے انکار کرنا سراسر غلط اور خلاف حقیقت ہے کیونکہ ترقی پانا ہرجونیئرکی دیرینہ خواہش بلکہ اس کا حق ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ حق تلفی مایوسی اور بددلی کا باعث ہے۔

اس بات کا اندازہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں کہ اگر فوج جیسے منفرد ادارے میں کسی اقدام سے بددلی پھیلنے کا امکان پیدا ہوجائے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ کوئی عجب نہیں کہ جنرل راحیل شریف کے ذہن میں بھی یہی بات حاوی رہی ہو اور انھوں نے اپنے پیشرو جنرل کیانی کی روش سے سبق حاصل کیا ہو۔ بہرحال انھوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے کوئی دس ماہ کے طویل عرصے قبل ہی اپنے فیصلے کا اعلان کرکے نہ صرف اس حوالے سے پھیلی ہوئی تمام قیاس آرائیوں کا خاتمہ کردیا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ وہ ایک بے لوث اور خالصتاً پیشہ ور سپہ سالار ہیں اور اپنے عہدے سے مزید چمٹے رہنے کی ان کے دل میں ذرا سی بھی خواہش نہیں ہے۔

اس حوالے سے ان کا یہ بیان سنہری حروف میں لکھے جانے کا متقاضی ہے کہ ''پاک فوج ایک عظیم ادارہ ہے اور میں مدت ملازمت میں توسیع پر یقین نہیں رکھتا، مقررہ وقت پر ریٹائر ہوجاؤں گا جب کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوششیں پورے عزم و استقلال کے ساتھ جاری رہیں گی۔ پاکستان کا قومی مفاد مقدم ہے جس کا تحفظ ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔'' جنرل راحیل شریف کے اس دو ٹوک بیان نے نہ صرف اندرون ملک بلکہ پوری دنیا میں ان کا اور افواج پاکستان کا امیج انتہائی بلند کردیا ہے اور انھیں قومی ہیرو اور ملک کی مقبول ترین شخصیت ثابت کردیا ہے۔

ضرب عضب آپریشن جس نازک مرحلے میں داخل ہوچکا ہے، اس کے حوالے سے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا جواز بڑا آسان اور منطقی بھی بنتا ہے جس کی تائید نہ صرف حکومت پاکستان بلکہ پاکستانی عوام کی جانب سے بھی روز روشن کی طرح سے عیاں ہے۔ کرپشن کے خلاف ان کے دو ٹوک موقف اورکراچی میں امن و امان کی بحالی کے حوالے سے بھی انھیں غیر معمولی حمایت اورعوامی مقبولیت حاصل ہے۔

اس کے علاوہ میڈیا میں بھی ان کی ریٹنگ قطعی غیر معمولی اور قابل رشک ہے۔ یہ تمام عوامل ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے کافی سے بھی زیادہ ہیں، لیکن اس کے باوجود مقررہ تاریخ سے بہت پہلے اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کرکے جنرل راحیل شریف نے اپنے گھرانے کی عظمت پر نہ صرف مہر ثبوت ثبت کردی ہے بلکہ واشگاف الفاظ میں یہ اعلان بھی کردیا ہے کہ پاکستانی افواج اقتدار کی بھوکی نہیں بلکہ جمہوریت کی پاسبان اور نگہبان ہے اور ملک و قوم کے بیرونی اور اندرونی تحفظ واستحکام کو اپنی بنیادی ذمے داری اور فرض سمجھتی ہے اوراس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔

جنرل راحیل شریف کے فیصلے میں ملک کی سویلین قیادت کے لیے بھی یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ اسے بھی اپنا ہر عمل اپنے ذاتی اورگروہی مفادات سے ہٹ کر صرف اور صرف ملک و قوم کے حقیقی اور وسیع تر مفاد میں کرنا چاہیے اوراس ملک کو جو بڑی قربانیوں کے صلے میں حاصل ہوا تھا، اپنے باپ کی جاگیر نہیں سمجھنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔