گھسے پٹے موضوع پر نئی بات لکھنے کی کوشش

روزگار کی ذمے داری سرکارکے سر ڈالنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے

sajid.ali@express.com.pk

روزگار کی ذمے داری سرکارکے سر ڈالنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر ماہرین نے ایک تھنک ٹینک کی یہ تجویزکہ حکومت کو بین الصوبائی شادیوں کی ترغیب دینی چاہیے اوراس مقصد سے ایسی شادیوں کو اسپانسرکرنا چاہیے ایک ایسا خواب قراردیا ہے جو کبھی حقیقت نہیں بن سکے گا۔

پہلے ہم ایک بات کرتے چلیں، سچی بات ہے کہ ہمیں کبھی یہ غلط فہمی یا زعم نہیں رہا کہ ہم کوئی مقبول کالم نگار ہیں اور ہمارے نام نہاد مزاحیہ کالم کو بہت بڑی تعداد میں لوگ پڑھتے ہیں، ہم اس سلسلے میں خاصے حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں اور دیانت داری سے سمجھتے ہیں کہ ہمارا کالم با مقصد ضرور ہوتا ہے مگر زبان وبیان میں کہیں نہ کہیں کوئی خامی یا کسر رہ جاتی ہے جو ہمارے اکثر کالموں کو قارئین کے سرکے اوپر سے گزار دیتی ہے۔

یقین کیجیے ہم اسے اپنی خوش نصیبی تصورکرتے ہیں بلکہ یہ سچویشن کسی بھی کالم نگارکو ایسی آزادی عطا کرتی ہے کہ وہ (تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے) کچھ بھی لکھ سکتا ہے اور کسی بھی حساس سے حساس موضوع پر قلم اٹھاسکتا ہے۔ آج بھی ہمارے ارادے کچھ اتنے ہی خطرناک ہیں اورمزید پہیلیاں بھجوائے بغیر ہم آپ کو بتائے دیتے ہیں کہ آج ہمیں لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیوں کے مسئلے پر کچھ لکھنے کو جی چاہ رہا ہے۔

اس سلسلے میں ان لوگوں سے معذرت جن کو ہمارے لکھنے سے ٹھیس پہنچ سکتی ہے کیوں کہ ہم کوئی نئی بات لکھنے کی کوشش میں پٹری سے اترسکتے ہیں۔یہ معذرت ان لوگوں سے بھی جن کے نزدیک ہماری باتیں غیرضروری، بے محل بلکہ غیر معیاری بھی ہوسکتی ہے، تاہم اتنا ضرور ہوگا کہ ہمارا اظہار خیال بہت سے لوگوں کو غوروفکر کی دعوت دے سکتا ہے۔

شاید یہ مسئلہ کسی نہ کسی شکل میں ہمارے ملک میں ہمیشہ سے رہا ہوگا، مگر ہمارے خیال میں مختلف اسباب سے جن کی تفصیل میں ہم جانے سے گریزکریںگے خاص طور پر لڑکیوں کی شادیوں کا مسئلہ ایک سنگین اور پیچیدہ شکل اختیارکرگیا ہے اور جیسے جیسے وقت گزرے گا ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا جائے گا۔ویسٹ کے مادر پدرآزاد معاشرے میں توکچھ لوگ اتنے دیدہ دلیر ہوگئے ہیں کہ انھوں نے مذہب، سماجی اقدار اور اخلاقیات کی ساری حدوں کو پھلانگتے ہوئے اپنی جیسی جنس تک کو اپنے لیے جائز کرلیا ہے حالانکہ وہاں معاملات ابھی اتنے قابو سے باہر نہیں ہوئے ہیں کہ اس طرح تہذیب کی دھجیاں بکھیری جائیں۔ یقینا آگے چل کر انھیں اس غیر فطری فعل کے خوفناک نتائج بھگتنے پڑیںگے۔

جہاں تک ہمارے ملک میں درپیش شادی نہ ہونے کے سنگین مسئلے کا تعلق ہے، بظاہر اس مسئلے کے کئی اسٹیک ہولڈرز یا فریق ہیں جو اس مسئلے کے پیدا ہونے کے ذمے دار بھی ہیں اور شکار بھی۔

مثلاً والدین جن میں سے کچھ لڑکیوں کا یہی مصرف سمجھتے ہیں کہ وہ ذرا بڑی ہوں اور ان کے ہاتھ پیلے کردیے جائیں ان کے تئیں بجا طور پر بیٹیاں ان کی ذمے داری ہیں جسے انھیں ہر صورت میں پورا کرنا ہے۔ بیٹیوں کے لیے بہتر اور محفوظ مستقبل کا بندوبست کرنا ان کا فرض ہے اکثروبیشتر وہ اس کی بہت زیادہ ٹینشن لیتے ہیں اوراسی فکر میں دبلے ہوتے رہتے ہیں، اپنی کامیابی کو بہت بڑی خوش نصیبی اور ناکامی کو ایک بڑی بدنصیبی تصورکرتے ہیں۔


ان کے لیے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وہ بے شک اپنی سی پوری کوشش کریں مگر اسے اپی زندگی موت کا مسئلہ نہ بنائیں اورنہ بیٹیوں کو بوجھ سمجھیں۔ شاید ہی ہمارے مذہب اسلام سے زیادہ کسی اور مذہب اور نظام میں اس سچویشن کا سامنا کرنے کا کوئی اس سے بہتر طریقہ ہو جو ہمیں میسر ہے۔

ہمیشہ یہی کلیہ ہماری مدد کو آتا ہے کہ ہر کام اسی وقت ہوتا ہے جب خدا کو منظور ہوتا ہے اس لیے اولاد کے لیے ضرورت سے زیادہ فکر مند ہونے کے بجائے جوکچھ ہورہاہے، اس قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیں۔کیسی ہی صورتحال کیوں نہ ہو اس میں سے مثبت پہلو تلاش کریں، ایک نارمل زندگی خود بھی گزاریں اور بیٹوں اور بیٹیوں کو بھی اس بات کا موقع دیں اس کے علاوہ اپنی اولاد خاص طور پر بیٹیوں کو ایک مقررہ حد میں رہتے ہوئے ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ آزادی دیں۔

مثلاً موجودہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ سوشل میڈیا سے منسلک رہا جائے اور لڑکیوں کے لیے فیس بک پر تبادلہ خیالات سے زیادہ وقت کا بہتر مصرف کوئی اور نہیں ہوسکتا ہے اس لیے خاص طور پر سمجھ دار والدین کوکسی قسم کے واہموں میں نہیں پڑنا چاہیے اور اپنی بیٹیوں پر کسی قسم کی پابندیاں نہیں لگانی چاہئیں۔لڑکیاں گھروں کی رونق ہوتی ہیں، اس لیے ان کے وجود کو اپنے لیے بہت بڑی خوش نصیبی سمجھنا چاہیے۔

ان کے گھر میں رہنے کو قدرت کا تحفہ سمجھتے ہوئے ممکنہ حد تک خود اپنے لیے اور ان کے لیے دل خوش کن اور پرلطف بنانا چاہیے ان کے مثبت مشغلوں کو جاری رکھنے میں مدد دینی چاہیے نہ کہ آپ ان پر شک کرتے ہوئے کسی قسم کی رکاوٹیں اور مشکلات پیدا کریں، لڑکیوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ کسی قسم کے کمپلیکس میں مبتلا ہوئے بغیر بڑی خوش دلی سے تقدیر کے لکھے کو قبول کریں اور ان کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ مصروف رہنے کے لیے کوشش کرکے کوئی ملازمت ڈھونڈ لیں۔

اس طرح ان کا خاصا وقت گھر اورگھر والوں سے دورگزرسکتا ہے، وہ شادی کرنے اور بچے پالنے کو ہی زندگی کی معراج نہ سمجھیں خاص طور پر اس صورت حال میں جب قدرت نے ان کے لیے کئی اور راستہ متعین کردیا ہے۔انھیں اپنی ایسی رشتے دار خواتین اور سہیلیوں کی مثالیں سامنے رکھنی چاہئیں جو شادی کرکے بھی اپنے شوہروں کی ریشہ دوانیوں یا مالی مشکلات کے باعث بڑی تلخ زندگیاں گزار رہی ہیں اور غلط فیصلوں پر ماں باپ کو کوستی رہتی ہیں۔

خود انھیں ہمارے خیال میں اپنے ہونے والے شوہر کے لیے اچھی اورآسودہ مالی حیثیت اور خوبصورتی کے بجائے پڑھا لکھا اور مہذب ہونے کی شرط لگانی چاہیے، اسی طرح لڑکیوں کو شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہر دو قسم کی زندگیوں کو پوری طرح انجوائے کرنا چاہیے۔ جس طرح وہ ہر اچھے برے شوہرکو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرتی ہیں اسی طرح انھیں شوہر اور بچوں کے بغیر زندگی کو بھی قبول کرلینا چاہیے اور اس سلسلے میں اپنے والدین کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے اور اپنے آپ کو مصروف کرنے کے لیے ہر قسم کے آپشن کو بھرپور انداز میں استعمال کرنا چاہیے۔

جس میں ملازمت کے ساتھ ساتھ بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے جانے کا آپشن بھی شامل ہے، ملازمتوں کے معاملے میں خواتین کے لیے ایک اچھی چوائس ٹیچنگ کی ہے جس میں انھیں ساتھی اساتذہ کے علاوہ بچوں کی ایک پوری فوج سے واسطہ پڑتا ہے جب ہم ٹیچنگ کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارے اسٹیک ہولڈرز میں بچے بھی آجاتے ہیں، بچوں کو یہ احساس کرنا چاہیے کہ مس نجانے کونسی Compulsions اور مجبوریوں کے تحت انھیں پڑھانے آرہی ہیں ان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی ٹیچرز کو تنگ کرنے کے بجائے پوری طرح کوآپریٹ کریں۔

کلاس روم میں پن ڈراپ سائیلنس برقرار رکھے، اپنی ٹیچرز کا کام آسان کریں اور انھیں یہ پروفیشن مستقل بنیادوں پر اپنانے کا موقع فراہم کریں۔اسی طرح مختلف دفاتر میں کام کرنے والے مردوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والی خواتین کا احترام اور ان سے ہمدردی کریں انھیں Harass کرنے کے بجائے ان کے لیے دفتری زندگی آسان کریں اور ماحول سازگار بنائیں۔ سچی بات ہے جب ہم دفاتر اورگلی کوچوں میں خواتین اور لڑکیوں کو تنگ کرنے کے قصے سنتے ہیں تو ہمیں بے حد دکھ ہوتا ہے، دفاتر میں لڑکیوں پر ترس کھانے کے بجائے ان کو آگے بڑھنے کے مواقعے فراہم کیے جانے چاہئیں، انھیں اہم ذمے داریاں سونپی جانی چاہئیں صرف اسی طرح ہمارے معاشرے میں بہتری آسکتی ہے۔
Load Next Story