جلال و جمال

حرم کعبہ میں حاضری اور مسجد نبویؐ میں حضوری کا تجربہ ایسا ہے کہ اس کی روداد ہر بار نئی نئی سی لگتی ہے

Amjadislam@gmail.com

PESHAWAR:
حرم کعبہ میں حاضری اور مسجد نبویؐ میں حضوری کا تجربہ ایسا ہے کہ اس کی روداد ہر بار نئی نئی سی لگتی ہے۔ حج کی سعادت کے علاوہ یہ میرا نواں اور میری بیگم کا پانچواں عمرہ تھا سو اپنی طرف سے ہم اس کے اندر اور اردگرد سے اب اچھی طرح واقف ہو چکے تھے لیکن توسیع حرم کے حالیہ منصوبے نے سب اندازے غلط کر دیے کہ داخلے کے بیرونی دروازوں سے قطع نظر اب حرم کے چاروں طرف تقریباً ہر چیز یا تو بدل چکی ہے یا بدلنے کے عمل کی طرف رواں دواں ہے۔

صحن کی وسعت وقتی طور پر ہی سہی نہ صرف کم ہو چکی ہے بلکہ اس کی حد پر ہر طرف جو چند سیڑھیاں ہوا کرتی تھیں وہ بھی ختم کر دی گئی ہیں۔ صحن اور طواف کے لیے بنائی گئی پرانی چھت کے درمیان ایک نیا اسٹرکچر کھڑا کر دیا گیا ہے جس کا مقصد غالباً طواف کی کم کی گئی جگہ کو عارضی طور پر بڑھانا ہے کہ اطلاعات کے مطابق منصوبے کی تکمیل (2020ء) سے قبل اس کو بھی ختم کر دیا جائے گا جب کہ مجموعی طور پر طواف کا دائرہ دو سے تین گنا تک بڑا ہو جائے گا۔

سابقہ تجربات کی بنا پر ہم نے عمرے کے لیے رات دو سے تین بجے کا درمیانی وقت طے کیا تھا کیونکہ اس وقت ہجوم نسبتاً کم ہوتا ہے اور فجر کی اذان سے پہلے پہلے عمرے کے تمام ارکان آسانی سے پورے ہو جاتے ہیں۔ سو ایسا ہی ہوا مگر بڑھتی ہوئی عمر اور عمرے (بالخصوص سعی کے دوران کی جسمانی تھکن) کا تعلق اس بار زیادہ کھل کر سامنے آیا کہ آیندہ تین دنوں تک پنڈلیوں کی اکڑاہٹ نے جسم کو پریشان کیے رکھا یہ اور بات ہے کہ روح پر ایسی سرشاری طاری رہی جس پر تین دن تو کیا ساری عمر قربان کی جا سکتی ہے۔

کہتے ہیں کہ کعبے کی عمارت پر پہلی نظر پڑنے کے ساتھ جو دعا مانگی جائے وہ ضرور اور جلد قبول ہوتی ہے۔ یقین کامل ہے کہ عنقریب اس کا اثر نظر بھی آنے لگے گا۔حمید الٰہی ہمیں ہمارے ہوٹل میں پہنچا کر اپنے گھر چلا گیا جہاں سے اس نے ہمیں دوپہر کو واپس جدہ لے جانا تھا جس کے لیے اس نے ضد کر کے ہمارے ڈرائیور بوٹا کو واپس بھجوا دیا تھا۔

جدہ میں پاکستانی قونصلیٹ اور معروف ادبی تنظیم عالمی اردو مرکز کے احباب نے مل جل کر تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا قونصلیٹ کی نمایندگی تحسیم الحق کر رہے تھے جو شان الحق حقی مرحوم کے پوتے ہیں جب کہ عالمی اردو مرکز کی طرف سے بزم کے صدر اطہر نفیس عباسی اور عزیزان عامر خورشید اور محمد مختار علی سمیت تقریباً ہر دوسرا چہرہ پہلے سے شناسا تھا۔ سابق وفاقی وزیر چوہدری شہباز، نعیم بازید پوری، محسن علوی کے ساتھ ساتھ جدہ کی تمام ادبی تنظیموں کے نمایندے اور مختلف شعبوں کے نامور پاکستانی بھی شریک محفل تھے اور عزیزی عامر نے مضمون کی شکل میں اظہار محبت کیا۔

مدینہ منورہ میں ہمارا قیام برادر عزیز ڈاکٹر سعید کے ہوٹل ''ضیافت السعید'' میں طے تھا اور ہم رہے بھی وہیں لیکن ہماری میزبانی کے فرائض بھائی راجہ سیف نے ادا کیے کہ سعید کو ایک اچانک اور مشکل صورت حال کی وجہ سے ریاض ہی میں رکنا پڑ گیا۔ ہوا یوں کہ اس نے ریاض میں اپنے نو تعمیر ریستوران کے لیے پاکستان سے کچھ اسٹاف منگوایا تھا ان میں سے ایک باورچی کا انتقال ہو گیا۔ سعودی عرب کے قوانین کچھ ایسے ہیں کہ مرحوم کی میت کو پاکستان اس کے اہل خانہ تک بھجوانے میں پورا ایک ہفتہ لگ گیا۔ پاکستانی سفارت خانے نے اپنے حصے کا کام دس منٹ میں مکمل کر کے کاغذات سعید کے حوالے کر دیے تھے۔

میں نے اسے بہت حوصلہ دیا کہ اس کے لوگ ہمارا بہت خیال رکھ رہے ہیں اس لیے وہ پریشان نہ ہو کہ حادثات کبھی پوچھ کر تو رونما نہیں ہوتے۔ مگر اسے اس بات کا بے حد افسوس تھا کہ وہ خود ہمارے پاس نہیں ہے۔ راجہ سیف، ان کی بیگم اور ہمسائے حاجی اکرم صاحب نے ہمارا بھر پور ساتھ دیا اور ہر نماز کے وقت ان میں سے کوئی نہ کوئی ہمارے ساتھ مسجد نبوی میں جاتا رہا۔ روضۂ رسول پر سلام گزارنے اور ریاض الجنتہ میں نوافل ادا کرنے کی گھڑیاں حسب معمول ایمان افروز اور روحانی مسرت سے لبریز تھیں۔ ریاض الجنۃ میں داخلے اور نوافل ادا کرنے کے لیے پندرہ منٹ دیے جا رہے تھے مگر تمام تر سختی کے باوجود لوگ وہاں سے ہٹنے اور اٹھنے کو تیار نہ ہوتے تھے۔ سو مجھے تقریباً ایک گھنٹہ لائن میں لگنا پڑا اس دوران میں ایک نعت کی ابتدا ہو گئی جس کے تین اشعار کی ابتدائی شکل کچھ یوں ہے۔

پناہ مجھ کو ملے مصطفیٰ کے داماں میں


کمی کوئی نہ رہے کاش میرے ایماں میں!

عطا ہوا ہے مجھے پھر سے حاضری کا شرف

نگاہ اٹھتی نہیں ہے وفور احساں میں

کرم کی ایک نظر ہو کہ لے کے نذر سلام

حضورؐ میں بھی کھڑا ہوں قطار دل زدگاں میں

عزیزی عمار مسعود کا ایک دوست جہاں زیب مجھ سے مسلسل رابطے میں تھا۔ سو شام کو وہ اپنے دوستوں انجینئر یاسر قریشی اور ڈاکٹر سہیل کے ساتھ ''ضیافت السعید'' پہنچ گئے۔ تینوں نوجوان بہت ہی محبت کرنے والے اور اپنے اپنے میدان کے ماہر تھے۔

ان کے بے حد اصرار پر طے پایا کہ گزشتہ روز برادرم سلمان باسط خاص طور پر تین سو کلو میٹر کا سفر کر کے ازراہ ملاقات آ رہے ہیں سو نماز عشاء کے بعد سب اکٹھے ہو جائیں گے۔ سلمان کے ساتھ ان کی بیگم اور دو بیٹے بھی تھے۔ جمیل نامی ایک پاکستانی ریستوران میں کھانا کھانے کے دوران سب لوگ اس طرح سے آپس میں گھل مل گئے جیسے برسوں کے پرانے دوست ہوں۔ سو پردیس میں بھی دیس کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔

میری بیگم فردوس کی خواہش پر یہ نوجوان ہمیں ایک ایسے قدرے بلند پوائنٹ پر لے گئے جہاں سے سارا مدینہ شہر دکھائی دے رہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ رسول پاکؐ کے زمانے میں پورا مدینہ آج کی مسجد نبوی کے اندر تک تھا لیکن اب تو اس کی وسعت ایک معقول درمیانے درجے کے شہر کی سی ہے اور اس کا نیا ایئر پورٹ تو (جہاں سے ہماری واپسی کی فلائٹ تھی) دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ راجہ سیف سے اجازت لے کر ہمیں جہاں زیب اینڈ کمپنی نے اپنی تحویل میں لے لیا اور چیک ان تک ہمارے ساتھ ساتھ رہے۔

اب مڑ کر دیکھتا ہوں تو خود یقین نہیں آتا کہ یہ اتنی بہت سی باتیں صرف سات دن کے اندر اندر ہوگئیں۔ پی آئی اے کی فلائٹ ٹھیک وقت پر روانہ ہوئی اور ہم ایک بار پھر اس دعا کے ساتھ شہر نبی سے رخصت ہوئے کہ رب کریم ہماری حاضری کے اس تسلسل کو آیندہ بھی اسی طرح جاری و ساری رکھے۔
Load Next Story