اعصاب شکن ترقی بھیانک صورتحال
دنیا میں غربت دن بدن بڑھتی جائے گی جس کے باعث قومیتوں میں بٹے انسانی گروہوں میں تناؤکی کیفیت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
اپنے تحقیقاتی تبصروں اورتجزیاتی بیانا ت کی وجہ سے تمام شعبہ ہائے سائنس کے ماہرین ومحققین سے کہیں زیادہ عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے برطانوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے دنیائے سائنس میں ایک بار پھر اپنے ''لیڈنگ رول''اور عالم انسانیت میں ''رہبر سائنس''کے اپنے منصبی فرائض کو بہ احسن ومکمل 100%'' مخلصانہ'' انداز میں اداکرتے ہوئے عالم انسانیت وحیات کرہ ارض کولاحق خطرات اور ان کے ممکنہ ،حتمی ولازمی نتائج پرتبصرہ کرتے ہوئے سائنس پر'' ایمان'' رکھنے وا لوں میں وسیع النظری کانیا جذبہ پیدا کرتے ہوئے اپنے حالیہ تجزیاتی بیان میں کہا ہے کہ ''جوہری جنگ ،عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور خود تخلیق کردہ وائرس انسانی بقاء کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں ۔
جب کہ سائنس وٹیکنالوجی میں ترقی کچھ ایسے نئے راستے کھول رہی ہے کہ جو کسی بھی وقت غلط راستوں پر جاسکتے ہیں ،اس لیے انسانوں کوکوشش کرنی چاہیے کہ دنیا کوخلا اور ستاروں تک پھیلا دینا چاہیے ،جواس آنے والی تباہی کا واحد حل ہے، جس سے کہ انسانی مخلوق باقی رہ سکے اور اسے مکمل خاتمے سے بچایا جانا ممکن بن سکے گا اور اس میں ایک صدی یا پھر ہزارسال لگ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ترقی کو روک دیا جائے یا اسے لوٹایا جائے ،تا ہم ہمیں چاہیے کہ خطرات سے آگاہ رہیں اور اس کے تدارک کے لیے کام کریں۔ جدید تحقیق کاروں کو تبد یل ہوتی اس دنیا میں سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی سے بخوبی واقف رہ کر عام لوگو ں کے اندراس سے متعلق آگاہی فراہم کرنی چاہیے۔''
دوسری جانب انسداد غربت کی بین الاقوامی تنظیم اوکسفام (آکسفیم)انٹر نیشنل نے کریڈٹ سوئس کے اکتوبرکے اعداد وشمارکو بنیاد بناتے ہوئے ڈیوس میں ہو نے والی ورلڈ اکنامک کانفرنس کے موقعے پر ''معیشت برائے ایک فیصد''کے عنوان سے جاری کردہ اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ''دنیا میں ایک فیصد امیر ترین افرا دکی دولت باقی دنیا کی مجموعی دولت سے بھی کہیں زیادہ ہے۔اس ایک فیصد میں کل 62افراد ہیں جن میں 53 مرد اور 9خواتین شامل ہیں ۔
اوکسفام نے اپنی رپورٹ میں اس عدم مساوات کی دو بنیادی اہم وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''عدم مساوات کی بڑی وجہ قومی آمدنی کی ورکرز (شاید سرکاری ملازمین)کو منتقل کیے جانے والے حصے میں کمی ہے،جوکم وبیش تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں ریکارڈ کی گئی ہے۔اب ٹیکس چھوٹ کا دورختم ہوجانا چاہیے ، ٹیکس چھوٹ حکومتوں کو غربت اور عدم مساوات کے خاتمے کے لیے درکار ضروری وسائل سے محروم کررہی ہے۔
صرف افریقہ کو ٹیکس چھوٹ کے باعث 14ارب ڈالر سالانہ نقصان ہو رہا ہے۔''اوکسفام انٹر نیشنل کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر دینی بیانیما نے اس عدم مساوات میں اضافے کے رجحان میں آنے والی تیزی پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ ''عالمی رہنماؤں کی عدم مساوات کے بحران پر تشویش کا اب تک عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوا، دنیا زیادہ تر غیر مساوی جگہ بن چکی ہے اور یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔''
موجودہ دنیا میں سائنس وغربت کے موضوعات پر اتھارٹی مانے جانے والے اسٹیفن ہاکنگ اور اوکسفام انٹر نیشنل کے تجزیوں اور رپورٹ کو باہم ملاکر کرہ ارض پر رائج معروضی حالات کاجائزہ لیا جائے تو بلا شبہ موجودہ سائنسی اور معاشرتی ترقی کو ا ن حالات کا ذمے دار قرار دیا جاسکتا ہے اوران نتائج کو بیان کر تے وقت اگر کسی کو ترقی مخالف ،دقیانوس،انتہاء پسند، بنیاد پرست اور دہشتگردوں کی حمایت کرنے والے کے الزامات سے بچنا ہو تو وہ حالات کو محترم کارل مارکس کے نظریے کے تحت اس ایک فیصد کو Thesisباقی ننانوے فیصد اور اس پر تبصرہ کرنیوالوں کو AntiThesisاور ان دونوں کے ٹکراؤکے حتمی نتائج کو Synthesis قرار دیکر اپنی گلو خلاصی بھی کراسکتا ہے۔
چونکہ ان بیانات اور تجزیوں کے سامنے آنے سے قبل ہی ان حالات کی روشنی میں موجودہ مادہ پر ست ترقی کے ترجمانوں اور حفاظت کاروں کی جانب سے عالم انسانیت کو بہت سے نئے احکامات بھی دیے جاچکے ہیں ۔ جس میں مشرق وسطیٰ ،مشرق بعید ، وسطی ایشیا،برصغیراور یورپ کی بدلتی ہوئی صورتحال ان کے مفادات کے حق میں عالمی ترجیحات کے نام پرظاہر ہوتے عوامل اورقومی تشخص میں بٹی ہوئی عالم انسا نیت کی جانب سے پیرس میں بیس بڑی معیشتوں جی 20کے بلائے گئے اجلاس میں، گلوبل وارمنگ کے حوالے سے 195ممالک کے تصویبی وتصدیقی دستخط کرکے اس لحاظ سے موجودہ مادی ترقی کے دیوتاؤں کی جدید انداز میں جلوہ نمائی کے آگے اپنی اطاعت وفرمانبرداری کے طور پر اس پر نئے سرے سے چڑھاوے چڑھانے کے اقرارکرنے جیسے اقدامات قابل ذکر ہیں۔
جس کی روشنی میں آپ برملہ طور پرکہہ سکتے ہیں کہ کرہ ارض کے وسائل پر قابض انسانی گروہ کسی بھی صورت میں اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی دولت کی Incomingکی رفتارکوکم کرنے پر آمادہ نہ ہوگا، نہ ہی گلوبل وارمنگ کی وجہ بننے والے فیکٹر یو ں کے ایندھن میں تبدیلیاں واقع ہونگی اور نہ ہی کرہ ارض پر رائج وہ نظام معاشرت تبدیل ہوگا کہ جس کے دم قدم سے یہ ایک فیصد اتنی دولت اپنے پاس جمع کرسکاہے ۔ اس کے لیے کسی لمبی چوڑی یا بقراطی تفاصیل میں جائے بغیر ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں غربت دن بدن بڑھتی جائے گی جس کے باعث قومیتوں میں بٹے انسانی گروہوں میں تناؤکی کیفیت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
موجودہ تناظر میں دنیا پر جو حالات نافذ کردیے گئے ہیں ان کی روشنی میں ترقی پذیر ممالک کے ریاستی ملازمین کی ایک ماہ کی تنخواہ کے بند ہوجانے سے ان کی زندگی کی جمع پونجی کے ایک مہینے کے اندر اندر ختم ہوجانے اور ان کا دیوالیہ نکالے جانے کے لیے کافی ہے ، جب کہ دوسری جانب ترقی یافتہ وترقی پذیر ملکوں کے تمام شعبہ ہائے درس وتدریس کے لاکھوں فارغ التحصیل اپنی ڈگری کے مطابق بتائی گئی مراعات کے نہ ملنے کے باعث پہلے سے ہی بے روزگار یا کم اجرت پر پرائیویٹ اداروں کی مارکیٹ سے منسلک سخت ترین واعصاب شکن شرائط پر ملازمت کرنے پر مجبور ہیں ۔
جن میں انھیں تاریخ انسانی کے اسبتدادی ارتقائی مرحلے میں ''ایک فیصد ''طبقے کی جانب سے ان ہی کے سے افعال اور قوانین کی سختی سے پاسداری کرکے مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے والے طبقے کی مصنوعات سے اپنے گھر بنانے اور انھیں سجانے کی تھوڑی سی اجاز ت ملی ہوئی ہے۔ جس کی عملی صورتحال فرعون کے استبداد سے کہیں زیادہ بدترین جبر وظلم کی کہانی بیان کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
جس میںان کو صرف اتنے ہی وسائل دیے جارہے ہیں کہ جن کی بناء پر وہ زندہ رہ سکیں اور ان کی مصنوعات خریدکر ترقی کا مزہ چکھ سکیںاور اب ان کی قوت خرید بھی جواب دینے لگی ہے، جب کہ اس لحاظ سے بہت عرصہ پہلے عام لوگوں کی قوت خرید میں استحکام لانے اور اپنے نئے ماڈل کے لیے مارکیٹ میں گنجائش پیدا کرنے کے لیے ڈسپوزایبل سے قریب تر منصوعات کا ایک سیلا ب لایا گیاجواب تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
جب کہ ٹیکسز اور ٹرانسپوٹیشن کے اخراجات کی وجہ سے بھی ان کی مصنوعات کی فروخت نہ ہو اس کے باوجود بھی اگر ان کی ضد ہے کہ وہ فلکی اجسام پر رہائش اختیار کر سکتے ہیں تو کم از کم استدلال کے اس مقام پر محترم کارل مارکس کے SynThesis کا پوسٹ مارٹم کر کے اسے دفنایا جائے اور شعلے فلم کا ''گبر'' بن کر یہ پوچھا جائے کہ یہ ایک فیصد انسانی گروہ سے متعلق افراد تو اپنے سرمائے سے فلکی اجسام پر منتقل ہو جائیں گے تو پھر دیگر انسانوں کا کیا ہو گا ''کالیا؟''
جب کہ سائنس وٹیکنالوجی میں ترقی کچھ ایسے نئے راستے کھول رہی ہے کہ جو کسی بھی وقت غلط راستوں پر جاسکتے ہیں ،اس لیے انسانوں کوکوشش کرنی چاہیے کہ دنیا کوخلا اور ستاروں تک پھیلا دینا چاہیے ،جواس آنے والی تباہی کا واحد حل ہے، جس سے کہ انسانی مخلوق باقی رہ سکے اور اسے مکمل خاتمے سے بچایا جانا ممکن بن سکے گا اور اس میں ایک صدی یا پھر ہزارسال لگ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ترقی کو روک دیا جائے یا اسے لوٹایا جائے ،تا ہم ہمیں چاہیے کہ خطرات سے آگاہ رہیں اور اس کے تدارک کے لیے کام کریں۔ جدید تحقیق کاروں کو تبد یل ہوتی اس دنیا میں سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی سے بخوبی واقف رہ کر عام لوگو ں کے اندراس سے متعلق آگاہی فراہم کرنی چاہیے۔''
دوسری جانب انسداد غربت کی بین الاقوامی تنظیم اوکسفام (آکسفیم)انٹر نیشنل نے کریڈٹ سوئس کے اکتوبرکے اعداد وشمارکو بنیاد بناتے ہوئے ڈیوس میں ہو نے والی ورلڈ اکنامک کانفرنس کے موقعے پر ''معیشت برائے ایک فیصد''کے عنوان سے جاری کردہ اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ''دنیا میں ایک فیصد امیر ترین افرا دکی دولت باقی دنیا کی مجموعی دولت سے بھی کہیں زیادہ ہے۔اس ایک فیصد میں کل 62افراد ہیں جن میں 53 مرد اور 9خواتین شامل ہیں ۔
اوکسفام نے اپنی رپورٹ میں اس عدم مساوات کی دو بنیادی اہم وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''عدم مساوات کی بڑی وجہ قومی آمدنی کی ورکرز (شاید سرکاری ملازمین)کو منتقل کیے جانے والے حصے میں کمی ہے،جوکم وبیش تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں ریکارڈ کی گئی ہے۔اب ٹیکس چھوٹ کا دورختم ہوجانا چاہیے ، ٹیکس چھوٹ حکومتوں کو غربت اور عدم مساوات کے خاتمے کے لیے درکار ضروری وسائل سے محروم کررہی ہے۔
صرف افریقہ کو ٹیکس چھوٹ کے باعث 14ارب ڈالر سالانہ نقصان ہو رہا ہے۔''اوکسفام انٹر نیشنل کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر دینی بیانیما نے اس عدم مساوات میں اضافے کے رجحان میں آنے والی تیزی پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ ''عالمی رہنماؤں کی عدم مساوات کے بحران پر تشویش کا اب تک عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوا، دنیا زیادہ تر غیر مساوی جگہ بن چکی ہے اور یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔''
موجودہ دنیا میں سائنس وغربت کے موضوعات پر اتھارٹی مانے جانے والے اسٹیفن ہاکنگ اور اوکسفام انٹر نیشنل کے تجزیوں اور رپورٹ کو باہم ملاکر کرہ ارض پر رائج معروضی حالات کاجائزہ لیا جائے تو بلا شبہ موجودہ سائنسی اور معاشرتی ترقی کو ا ن حالات کا ذمے دار قرار دیا جاسکتا ہے اوران نتائج کو بیان کر تے وقت اگر کسی کو ترقی مخالف ،دقیانوس،انتہاء پسند، بنیاد پرست اور دہشتگردوں کی حمایت کرنے والے کے الزامات سے بچنا ہو تو وہ حالات کو محترم کارل مارکس کے نظریے کے تحت اس ایک فیصد کو Thesisباقی ننانوے فیصد اور اس پر تبصرہ کرنیوالوں کو AntiThesisاور ان دونوں کے ٹکراؤکے حتمی نتائج کو Synthesis قرار دیکر اپنی گلو خلاصی بھی کراسکتا ہے۔
چونکہ ان بیانات اور تجزیوں کے سامنے آنے سے قبل ہی ان حالات کی روشنی میں موجودہ مادہ پر ست ترقی کے ترجمانوں اور حفاظت کاروں کی جانب سے عالم انسانیت کو بہت سے نئے احکامات بھی دیے جاچکے ہیں ۔ جس میں مشرق وسطیٰ ،مشرق بعید ، وسطی ایشیا،برصغیراور یورپ کی بدلتی ہوئی صورتحال ان کے مفادات کے حق میں عالمی ترجیحات کے نام پرظاہر ہوتے عوامل اورقومی تشخص میں بٹی ہوئی عالم انسا نیت کی جانب سے پیرس میں بیس بڑی معیشتوں جی 20کے بلائے گئے اجلاس میں، گلوبل وارمنگ کے حوالے سے 195ممالک کے تصویبی وتصدیقی دستخط کرکے اس لحاظ سے موجودہ مادی ترقی کے دیوتاؤں کی جدید انداز میں جلوہ نمائی کے آگے اپنی اطاعت وفرمانبرداری کے طور پر اس پر نئے سرے سے چڑھاوے چڑھانے کے اقرارکرنے جیسے اقدامات قابل ذکر ہیں۔
جس کی روشنی میں آپ برملہ طور پرکہہ سکتے ہیں کہ کرہ ارض کے وسائل پر قابض انسانی گروہ کسی بھی صورت میں اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی دولت کی Incomingکی رفتارکوکم کرنے پر آمادہ نہ ہوگا، نہ ہی گلوبل وارمنگ کی وجہ بننے والے فیکٹر یو ں کے ایندھن میں تبدیلیاں واقع ہونگی اور نہ ہی کرہ ارض پر رائج وہ نظام معاشرت تبدیل ہوگا کہ جس کے دم قدم سے یہ ایک فیصد اتنی دولت اپنے پاس جمع کرسکاہے ۔ اس کے لیے کسی لمبی چوڑی یا بقراطی تفاصیل میں جائے بغیر ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں غربت دن بدن بڑھتی جائے گی جس کے باعث قومیتوں میں بٹے انسانی گروہوں میں تناؤکی کیفیت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
موجودہ تناظر میں دنیا پر جو حالات نافذ کردیے گئے ہیں ان کی روشنی میں ترقی پذیر ممالک کے ریاستی ملازمین کی ایک ماہ کی تنخواہ کے بند ہوجانے سے ان کی زندگی کی جمع پونجی کے ایک مہینے کے اندر اندر ختم ہوجانے اور ان کا دیوالیہ نکالے جانے کے لیے کافی ہے ، جب کہ دوسری جانب ترقی یافتہ وترقی پذیر ملکوں کے تمام شعبہ ہائے درس وتدریس کے لاکھوں فارغ التحصیل اپنی ڈگری کے مطابق بتائی گئی مراعات کے نہ ملنے کے باعث پہلے سے ہی بے روزگار یا کم اجرت پر پرائیویٹ اداروں کی مارکیٹ سے منسلک سخت ترین واعصاب شکن شرائط پر ملازمت کرنے پر مجبور ہیں ۔
جن میں انھیں تاریخ انسانی کے اسبتدادی ارتقائی مرحلے میں ''ایک فیصد ''طبقے کی جانب سے ان ہی کے سے افعال اور قوانین کی سختی سے پاسداری کرکے مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے والے طبقے کی مصنوعات سے اپنے گھر بنانے اور انھیں سجانے کی تھوڑی سی اجاز ت ملی ہوئی ہے۔ جس کی عملی صورتحال فرعون کے استبداد سے کہیں زیادہ بدترین جبر وظلم کی کہانی بیان کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
جس میںان کو صرف اتنے ہی وسائل دیے جارہے ہیں کہ جن کی بناء پر وہ زندہ رہ سکیں اور ان کی مصنوعات خریدکر ترقی کا مزہ چکھ سکیںاور اب ان کی قوت خرید بھی جواب دینے لگی ہے، جب کہ اس لحاظ سے بہت عرصہ پہلے عام لوگوں کی قوت خرید میں استحکام لانے اور اپنے نئے ماڈل کے لیے مارکیٹ میں گنجائش پیدا کرنے کے لیے ڈسپوزایبل سے قریب تر منصوعات کا ایک سیلا ب لایا گیاجواب تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
جب کہ ٹیکسز اور ٹرانسپوٹیشن کے اخراجات کی وجہ سے بھی ان کی مصنوعات کی فروخت نہ ہو اس کے باوجود بھی اگر ان کی ضد ہے کہ وہ فلکی اجسام پر رہائش اختیار کر سکتے ہیں تو کم از کم استدلال کے اس مقام پر محترم کارل مارکس کے SynThesis کا پوسٹ مارٹم کر کے اسے دفنایا جائے اور شعلے فلم کا ''گبر'' بن کر یہ پوچھا جائے کہ یہ ایک فیصد انسانی گروہ سے متعلق افراد تو اپنے سرمائے سے فلکی اجسام پر منتقل ہو جائیں گے تو پھر دیگر انسانوں کا کیا ہو گا ''کالیا؟''