نجکاری یا بے روزگاری

عالمی سامراج نے نیو ورلڈ آڈر کے تحت دنیا بھر میں نجکاری کا سلسلہ شروع کیا ہے

zb0322-2284142@gmail.com

ISLAMABAD:
عالمی سامراج نے نیو ورلڈ آڈر کے تحت دنیا بھر میں نجکاری کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ بقول پروفیسر نوم چومسکی ''عوام کی دولت سرمایہ داروں کے حوالے کرنا ہی 'نجکاری' ہے۔ یہ عمل جنوبی امریکا سے شروع ہوا پھر فار ایسٹ، یورپ، شمالی امریکا اور برصغیر میں جاری ہے، چین میں بھی بڑے پیمانے پر نجکاری ہوئی ہے اور ہو رہی ہے۔

پاکستان میں سب سے پہلے گھی، تیل، سیمنٹ، توا نائی، چینی، انجینئرنگ کی صنعتوں تعلیمی اداروں کی نجکاری کی گئی۔ چند برس قبل پی ٹی سی ایل اور کے ای ایس سی کی نجکا ری کی گئی، جس کے خلاف محنت کشوں نے زبردست جدوجہد کی، اس جدوجہد میں شریک رہنما کرامت حسین مرحوم کو کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا ہے۔ حال ہی میں واپڈا کے مزدوروں نے قابل ذکر جدوجہد کی اور کر رہے ہیں۔ اب پی آئی اے کے مزدور دھرنے اور ہڑتالوں میں مصروف عمل ہیں۔

حکومت یہ کہتی ہے کہ پی آئی اے خسارے میں جا رہا ہے۔ پا کستان ریلوے بھی خسارے میں جا رہا تھا، مگر ریلوے کے وفاقی وزیر سعد رفیق نے اسے قومی ملکیت میں رکھتے ہوئے، اس کی صورتحال بہتر کی ہے تو پھر پی آئی اے کی صورتحال بہتر کیوں نہیں کی جا سکتی ہے۔

اس ادارے کے اعلیٰ افسروں کی تنخواہوں میں کمی کر کے عام مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ کر کے اس کی حالات کو بہتر کیا جا سکتا ہے، اگر ہم اورینج ٹرین، موٹروے اور چین کے ساتھ راہداری کے منصو بے بنا سکتے ہیں تو پھر ان پیسوں میں کمی کر کے پی آئی اے کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ پی آئی اے، ریلوے، کے پی ٹی، اسٹیٹ لائف، پی ٹی سی ایل، کے الیکٹرک، واپڈا، سرکاری اسپتال، تعلیمی ادارے اور خدمات کے ادارے سوشلسٹ ممالک کے علاوہ سر مایہ دار ممالک میں بھی انھیں قومی ملکیت میں رکھا جاتا ہے، اس لیے بھی کہ ان اداروں کا براہ راست عوامی خدمات سے تعلق ہے۔


جنوبی امریکی ممالک نے تو اداروں کو قومیانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ لندن ٹیوب کو از سر نو قومیا لیا گیا ہے۔ جنوبی کوریا اور ریاست ہائے متحدہ امریکا میں عوامی دباؤ کی وجہ سے نجکاری کے عمل کو روکا گیا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کا نجکاری کرنا، اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

اسی طرح سے ایک ملز واقع پنڈی بھٹیاں کے مزدوروں کا حال ہے۔ یہ علا قہ ضلع حافظ آباد میں لگتا ہے جو کہ براعظم ایشیا کا بہت بڑا صنعتی ادارہ ہے جہاں پینٹ بنانے کا کام ہوتا ہے، اس کی تمام پرو ڈکٹ برآمد کیے جاتے ہیں، چھ ہزار خواتین اور مرد اس ادارے میں کام کرتے ہیں۔ یہاں پر مزدوروں کے ساتھ ہو نے والی زیادتیوں کے خلاف مزدور رہنماؤں نے خصوصی طور پر ان مزدوروں کی رہنما ئی کرتے ہوئے اپنی آواز اٹھائی۔

انیس سو ستانوے میں انتظامیہ کی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود مزدور یونین بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ مزدوروں کے یونین بنانے کے جرم میں تیرہ مزدور رہنماؤں کو ملازمتوں سے نکال دیا گیا، وا ضح رہے کہ انھیں بے بنیاد اور جھو ٹے الزامات لگا کر نکالا گیا۔ اس اقدام کے خلاف جب مزدوروں عدالت کا رخ کیا تو انتظا میہ نے عدا لت سے ملی بھگت کر کے یو نین پر ہی پابندی لگا دی۔ پھر دو ہزار چھ میں لاہور ہائی کورٹ نے یونین کو بحال کر دیا۔ دو ہزار چھ سے پندرہ تک پاکستان کے تمام عدالتیں ہائی کورٹ، سنگل بینچ، ڈبل بینچ، پنجاب لیبر اپیلینٹ ٹریبونل لاہور نے ریفرنڈم کروانے کے احکامات جا ری کیے لیکن ہر بار مالکان کسی نہ کسی عدا لت سے اسٹے آرڈر لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

دو ہزار دس میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عظمت سعید شیخ نے پھر ریفرنڈم کرانے کے احکامات جاری کیے لیکن اس بار بھی مالکان نے اسٹے آرڈر لینے میں کامیاب ہو گئے اور اب رجسٹرار آف ٹریڈ یونین لاہور نے یونین ختم کرنے کا حکم جا ری کیا جب کہ ر جسٹرار یونین کو ختم کرنے کا مجاز ہی نہیں۔ اٹھارہ برس میں پا کستان کی تمام عدالتوں کے حکم کے باوجود ریفرنڈم نہ ہونے دیا گیا اور نہ کسی مزدور کو ڈیو ٹی پر بحال ہونے دیا اور اسی دوران یونین رہنماؤں پر بے بنیاد اور جھوٹے، دہشت گردی، ڈکیتی اور چوری کے الزامات میں مقدمات دائر کروائے گئے اور مزدور رہنماؤں کو جیل میں بند کرواتے رہے۔ مسلح افراد کے ذریعے قتل کی دھمکیاں اور عدالتوں سے کیس وا پس لینے کے لیے دباؤ ڈا لتے رہے۔

مالکان پاکستان کے بہت بڑے صنعتکار اور سیاسی طور پر بہت مضبوط ہیں، شاید اسی لیے مزدوروں کو انصاف نہیں مل پا رہا ہے، جب کہ یونین بنانا اور اس سے متعلق سرگرمی کرنا مزدووں کا بنیادی حق ہے۔ سپریم کورٹ کا انقلابی فیصلہ آ گیا ہے کہ احتجاج کرنا ہر ملازم کا بنیادی حق ہے، چنانچہ ٹریڈ یونینز کی ہڑتال پر پابندی کا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ انیس برس سے آج تک تمام قانونی حق استعمال کرنے کے باوجود اس بات کی دلیل ہے کہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے مزدوروں کو کوئی حقوق نہیں مل سکتے، یہی سرمایہ داری ہے۔ ایک جانب دولت کا انبار اور دوسری جانب افلاس زدہ لوگوں کی فوج۔
Load Next Story