دِل والا
میں نے کہا، ان کے دل کی کارگزاریوں کا بھی چرچا ہو رہا ہو گا۔ دل ان کا بڑا ستم گر ہے
کسی نے بتایا، ''خبر گرم ہے، شیر شاہ سیّد کی نئی کتاب بازار میں آ گئی ہے۔ بہت چرچا ہو رہا ہے!''
میں نے کہا، ان کے دل کی کارگزاریوں کا بھی چرچا ہو رہا ہو گا۔ دل ان کا بڑا ستم گر ہے، اسے ایک پل قرار نہیں۔ اِک ذرا سنبھلتا ہے، پھر آزار دینے لگتا ہے۔ کم بخت ذرا چین نہیں لینے دیتا۔ اپنی تنہائیوں اور ویرانیوں کی خبر مسلسل نشر کیے جاتا ہے۔ کیوں نہ ہو، یہ ایک حرماں نصیب ڈاکٹر کا دل ہے، جو دل کا ڈاکٹر نہ ہوتے ہوئے بھی دل کے جغرافیے پر گہری نظر رکھتا ہے۔ اُس کے ایک ایک گوشے کو چُومتا ہے، چمکاتا ہے، اور ایک سنہری تشت میں رکھ کر اپنے قارئین کے سامنے پیش کر دیتا ہے '' تناوُل فرمائیے!''
خواتین و حضرات، اگر وضاحت درکار ہو تو ایک نظر ان کی کتابوں کے ناموں پر ڈال لیجے ــــ دل کی وہی تنہائی، جس کو دل کہتے تھے، دل ہی تو ہے، دل کی بساط، چاک ہوا دل، دل میرا بالا کوٹ، دل ہے داغ داغ، کون دلاں دیا ںجانے، دل نے کہا نہیں، فسانہ دل کا۔ اور اب یہ '' جو دل نکلے تو دم نکلے'' کے ساتھ جلوہ گر ہوئے ہیں۔ سند کے طور پر مرزا داغ دہلوی کی ایک پوری غزل شاملِ کتاب ہے، جس کا یہ شعر خاص طور پر حسبِ حال ہے، یعنی دلِ ریزہ ریزہ کی فریاد سنا رہا ہے ؎
نکال اب تیر سینے سے کہ جانِ پُر الم نکلے
جو یہ نکلے تو دل نکلے، جو دل نکلے تو دم نکلے
میں یہ شعر پڑھتا ہوں، اس کی کیفیت میں ڈوبتا ہوں، اور خیال آتا ہے، کیا اب بھی تیری ہلکی پھلکی گفتگو جاری رہے گی۔ شان دار اور قابلِ فخر زندگی رکھنے والے اس شان دار ادیب کے دلِ پُرخوں کی گلابی سے اس کی آستین تر ہے تو اس کے سامنے احتراماً سر جھکانا لازم ہے۔ اس کا دل اگر بار بار نئے طور اور نئے رنگ سے دھڑکتا ہے، تھپکیاں دینے سے بھی فریب خوردہ خوابوں کا اسیر نہیں ہوتا تو اسے اپنے دل پر ناز کرنے کا حق حاصل ہے۔
تو ہمارے الم نصیب ملک کے اس دردمند مسیحا کا دل غمِ جہاں اور غمِ یار کے تیروں سے چھلنی ہو چکا ہے۔ کوئی ایک تیر نہیں جو نکل جائے تو دم نکل جائے، چین آجائیــــ احساس کی آگ سینے کی بھٹی میں سلگتی رہتی ہے۔ شیر شاہ سید اور ان جیسے تمام انسان دوست ادیبوں کی قسمت میں یہی لکھا ہے کہ یہ آگ ان کے سینے میں بھڑکتی رہے، اور ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کے ہیرے چمکتے رہیں۔ شیر شاہ کے دل میں رُفوگری کا بہت کام ہے، یہ ہمیشہ چاک رہے گا۔
اس کتاب میں سب سے پہلے قاری کی نظر ایک مضمون پر جاتی ہے ــــ''میری ماں ــ ڈاکٹر عطیہ ظفر۔'' شیر شاہ سید نے اپنی تحریر میں محبت کی ساری مٹھاس بھر دی ہے۔ ویسے تو اس پورے خاندان کا سفر ناقابلِ یقین مناظر کے ساتھ گزرتا ہے، لیکن شاید اس میں سب سے پُراثر سرگزشت عطیہ ظفر کی ہے۔ ایک ناخواندہ عورت، جو شوہر کے اصرار پر تعلیم کے اعلیٰ مدارج حاصل کرتی ہے، اور جب اس دنیا سے جاتی ہے تو قابلِ رشک یادوں کا خزانہ چھوڑ جاتی ہے۔
دیکھیے، ہمارے مہربان اور محبوب ساتھی نے یہ نقشہ کس طرح کھینچا ہے ــــ'' 14 فروری 2014 کو دن کے دو بجے میری والدہ کا انتقال ہوا تو تھوڑے سے اختلاف کے بعد ہم سب نے فیصلہ کیا کہ والدہ کی آخری آرام گاہ کوہی گوٹھ میں ہو۔ جنازے کا وقت عشاء کی نماز کے بعد مقرر کیا گیا۔ مغر ب سے تھوڑا پہلے مجھے پتا چلا کہ ایک حاملہ خاتون ایمرجینسی میں آئی ہیں، جن کا آپریشن کرنا ہو گا۔ آپریشن ختم کر کے میں تھیٹر سے باہر آیا۔ ماں بننے والی خاتون کے رشتے داروں کو مبارک باد دی، پوچھا کہ بچی کا کیا نام رکھا ہے۔ نومولود کی دادی نے بلوچی لہجے میں کہاکہ اس کا نام عطیہ ہے اور وہ ڈاکٹر بنے گی۔''
گویا، عطیہ ظفر کا نام مٹی کی خوشبو سے مہک رہا ہے، اور اس خوشبو کا خزانہ ان کی اولاد ڈاکٹر ٹیپو سلطان، ڈاکٹر سراج الدولہ اور دوسرے بھائی بہنوں میں منتقل ہوا ہے، اور شاید ان میں ہمارے دوست شیر شاہ کا حصہ نمایاں ہے، جو نہ صرف عوامی فلاح و بہبود کے مشن میں ڈوبے رہتے ہیں، بلکہ اپنی سحرانگیز اور پُراثر کہانیوں سے معاشرے کے ضمیر پر دستک بھی دیتے ہیں۔ بیشتر کہانیوں میں وہ ہمیں بدصورت انسانی رویّوں کی تصویریں دکھاتے ہیں۔
ساتھ ہی ان رویوں کو شکست سے ہمکنار کرنے کے لیے ایک سچا اور خوب صورت خواب ان کے قلم کا ہم رِکاب ہوتا ہے۔ بدصورت دنیا کو بدلنے کا یہ خواب انھیں باغیانہ صفات رکھنے والے ان کے والد صاحب سے ورثے میں ملا ہے، جنہوں نے اپنے ٹیلی فون کے باکس پر ساحر لدھیانوی کے ایک گیت کے یہ دو مصرعے آئل پینٹ سے لکھوا رکھے تھے ؎
تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے
اپنے پہ بھروسا ہے تو اک داؤ لگا لے
ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں جہاں ناانصافی بے بس انسانوں پر قہقہے برساتی ہے، شیر شاہ سید کا قلم اس کے سینے میں پیوست ہونے کے لیے بے تاب ہوتا ہے۔ جہاں کہیں انھیں انسانوں کے درمیان رنگ، نسل، مذہب، زبان اور جنس کی خون میں ڈوبی دیواریں کھڑی نظر آتی ہیں، وہ تڑپ اٹھتے ہیں، اور ایک کلیدی سوال، جو ازل سے انسان کے ساتھ سفر کر رہا ہے، ان کے ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے، ''کائنات اس قدر بے معنی اور بے ڈھنگی کیوں ہے، اس قدر تاریک مظالم سے بھری ہوئی کیوں ہے؟''
ان کے سارے افسانے پڑھ جائیے، اس سوال کا آسیب ان کے وجود سے چمٹا ہوا ہے۔ انصاف کی آرزو انھیں ہر طرف شکستہ نظر آتی ہے۔ آئرلینڈ کے خوب صورت لوگ محرومیوں کے مزار میں آباد ہیں۔ امریکا کے اصل بیٹے، ریڈ انڈین اب تک تعصب اور عدم مساوات کا شکار ہیں۔ مجبور لوگ اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے مغرب کا سفر کرتے ہیں اور پُر خطر حالات میں لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ انڈونیشیا کی سلاما خادمہ کی حیثیت سے سعودی بھیڑیوں کی بربریت کا نشانہ بنتی ہے، اور زخموں سے چور چور ہونے کے باوجود ان سے انتقام لینے کے لیے ایک منفرد طریقہ وضع کرتی ہے۔
پاکستان میں ایک حسین ہندو لڑکی کو کس طرح زبردستی مشرف بہ اسلام کیا جاتا ہے۔ سمری کا خود غرض باپ کس طرح اپنے علاج کا خرچ ادا کرنے کے لیے اسے فروخت کر دیتا ہے۔ اس قسم کے بہت سے واقعات خبروں کی شکل میں ہم بھی روزانہ پڑھتے، سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں۔ شیر شاہ بھی اس تجربے اور مشاہدے سے گزرتے ہیں، لیکن وہ احساس کے ایک بلند زینے پر بیٹھ کر انھیں دل کش کہانیوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ حساس آدمی کا تخیل اسے نہ جانے کتنے دیدہ و نادیدہ مناظر کی جھلک دکھاتا ہے۔ تخیل کی یہ کرشمہ سازی یقیناً شیر شاہ کی کہانیوں میں بھی جھلکتی ہے۔
لیکن اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہوا کہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طور شیر شاہ کا وجود اصل میں ان مناظر کا حصہ رہا ہے، جیسے یہ سچے واقعات ہیں، جو خود ان کے سامنے رُونما ہوئے یا جنھیں انھوں نے بیرونِ ملک سفر کے دوران دریافت کیا۔ حقیقت جو بھی ہو، شیر شاہ کو رنگ بھرنے کا فن آتا ہے، قسم قسم کے کردار، قسم قسم کی خوشیاں اور محرومیاں، قسم قسم کی نیکیاں اور خود غرضیاں، ہر تصویر جیتی جاگتی نظر آتی ہے۔
ان کہانیوں میں طرب ناک انجام کم کم ہی جھلکتا ہے۔ راحت کے لمحات آتے بھی ہیں تو عارضی طور پر۔ جیسے کڑی دھوپ میں چلتے چلتے مسافر کو کوئی گھنا پیڑ نظر آ جائے، لیکن وہ اس کی چھاؤں میں صرف چند لمحے گزار سکتا ہے۔ آگے کی کڑی دھوپ میں جلنا اس کا مقدر ٹھہرا۔ زندگی ظالم ہے، سکون سے بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتی۔
شیر شاہ یہ کہانیاں سناتے ہیں تو ان کے دل گداز الفاظ کی آنچ سے قاری کا دل پگھل جاتا ہے۔ وہ محبت اور امن اور انصاف کی حکمرانی کا خواب دیکھتے ہیں۔ دل ان کا جلتا کڑھتا رہتا ہے۔ دُکھ کی ہلکی سی پرچھائیں بھی کہیں نظر آ جائے تو ان کے ذہن میں خاردار سوالات اگنے لگتے ہیں۔ یوں ان کی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ احتجاج کی لہر اٹھتی ہے تو اس کی منظر کشی سے وہ اپنے باغی دل کے لیے قرار کی راہیں تراشتے ہیں۔
اپنا حصہ، اپنا قرض ادا کرنے کا یہ جذبہ اس درویش صفت ادیب کو اسیر رکھتا ہے۔ سادہ گفتگو کرنے والا، سادہ لباس پہننے والا، سچی، سادہ کہانیاں لکھنے والا یہ شخص جب ہمیں کسی محفل میں نظر آتا ہے تو خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ اتنا بڑا آدمی، اتنا ناموَر آدمی، اور اس قدر انکسار۔ یہاں تو ایسے ایسے ڈاکٹر ایسے ایسے ادیب موجود ہیں، جن کے دامن خود پسندی، خود غرضی اور غرور کی غلاظت سے آلودہ رہتے ہیں، اگرچہ ان میں سے اکثر محض لفاظی کے ذریعے اپنی اہلیت کی پستی پر پردہ ڈالنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ (جاری ہے)
میں نے کہا، ان کے دل کی کارگزاریوں کا بھی چرچا ہو رہا ہو گا۔ دل ان کا بڑا ستم گر ہے، اسے ایک پل قرار نہیں۔ اِک ذرا سنبھلتا ہے، پھر آزار دینے لگتا ہے۔ کم بخت ذرا چین نہیں لینے دیتا۔ اپنی تنہائیوں اور ویرانیوں کی خبر مسلسل نشر کیے جاتا ہے۔ کیوں نہ ہو، یہ ایک حرماں نصیب ڈاکٹر کا دل ہے، جو دل کا ڈاکٹر نہ ہوتے ہوئے بھی دل کے جغرافیے پر گہری نظر رکھتا ہے۔ اُس کے ایک ایک گوشے کو چُومتا ہے، چمکاتا ہے، اور ایک سنہری تشت میں رکھ کر اپنے قارئین کے سامنے پیش کر دیتا ہے '' تناوُل فرمائیے!''
خواتین و حضرات، اگر وضاحت درکار ہو تو ایک نظر ان کی کتابوں کے ناموں پر ڈال لیجے ــــ دل کی وہی تنہائی، جس کو دل کہتے تھے، دل ہی تو ہے، دل کی بساط، چاک ہوا دل، دل میرا بالا کوٹ، دل ہے داغ داغ، کون دلاں دیا ںجانے، دل نے کہا نہیں، فسانہ دل کا۔ اور اب یہ '' جو دل نکلے تو دم نکلے'' کے ساتھ جلوہ گر ہوئے ہیں۔ سند کے طور پر مرزا داغ دہلوی کی ایک پوری غزل شاملِ کتاب ہے، جس کا یہ شعر خاص طور پر حسبِ حال ہے، یعنی دلِ ریزہ ریزہ کی فریاد سنا رہا ہے ؎
نکال اب تیر سینے سے کہ جانِ پُر الم نکلے
جو یہ نکلے تو دل نکلے، جو دل نکلے تو دم نکلے
میں یہ شعر پڑھتا ہوں، اس کی کیفیت میں ڈوبتا ہوں، اور خیال آتا ہے، کیا اب بھی تیری ہلکی پھلکی گفتگو جاری رہے گی۔ شان دار اور قابلِ فخر زندگی رکھنے والے اس شان دار ادیب کے دلِ پُرخوں کی گلابی سے اس کی آستین تر ہے تو اس کے سامنے احتراماً سر جھکانا لازم ہے۔ اس کا دل اگر بار بار نئے طور اور نئے رنگ سے دھڑکتا ہے، تھپکیاں دینے سے بھی فریب خوردہ خوابوں کا اسیر نہیں ہوتا تو اسے اپنے دل پر ناز کرنے کا حق حاصل ہے۔
تو ہمارے الم نصیب ملک کے اس دردمند مسیحا کا دل غمِ جہاں اور غمِ یار کے تیروں سے چھلنی ہو چکا ہے۔ کوئی ایک تیر نہیں جو نکل جائے تو دم نکل جائے، چین آجائیــــ احساس کی آگ سینے کی بھٹی میں سلگتی رہتی ہے۔ شیر شاہ سید اور ان جیسے تمام انسان دوست ادیبوں کی قسمت میں یہی لکھا ہے کہ یہ آگ ان کے سینے میں بھڑکتی رہے، اور ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کے ہیرے چمکتے رہیں۔ شیر شاہ کے دل میں رُفوگری کا بہت کام ہے، یہ ہمیشہ چاک رہے گا۔
اس کتاب میں سب سے پہلے قاری کی نظر ایک مضمون پر جاتی ہے ــــ''میری ماں ــ ڈاکٹر عطیہ ظفر۔'' شیر شاہ سید نے اپنی تحریر میں محبت کی ساری مٹھاس بھر دی ہے۔ ویسے تو اس پورے خاندان کا سفر ناقابلِ یقین مناظر کے ساتھ گزرتا ہے، لیکن شاید اس میں سب سے پُراثر سرگزشت عطیہ ظفر کی ہے۔ ایک ناخواندہ عورت، جو شوہر کے اصرار پر تعلیم کے اعلیٰ مدارج حاصل کرتی ہے، اور جب اس دنیا سے جاتی ہے تو قابلِ رشک یادوں کا خزانہ چھوڑ جاتی ہے۔
دیکھیے، ہمارے مہربان اور محبوب ساتھی نے یہ نقشہ کس طرح کھینچا ہے ــــ'' 14 فروری 2014 کو دن کے دو بجے میری والدہ کا انتقال ہوا تو تھوڑے سے اختلاف کے بعد ہم سب نے فیصلہ کیا کہ والدہ کی آخری آرام گاہ کوہی گوٹھ میں ہو۔ جنازے کا وقت عشاء کی نماز کے بعد مقرر کیا گیا۔ مغر ب سے تھوڑا پہلے مجھے پتا چلا کہ ایک حاملہ خاتون ایمرجینسی میں آئی ہیں، جن کا آپریشن کرنا ہو گا۔ آپریشن ختم کر کے میں تھیٹر سے باہر آیا۔ ماں بننے والی خاتون کے رشتے داروں کو مبارک باد دی، پوچھا کہ بچی کا کیا نام رکھا ہے۔ نومولود کی دادی نے بلوچی لہجے میں کہاکہ اس کا نام عطیہ ہے اور وہ ڈاکٹر بنے گی۔''
گویا، عطیہ ظفر کا نام مٹی کی خوشبو سے مہک رہا ہے، اور اس خوشبو کا خزانہ ان کی اولاد ڈاکٹر ٹیپو سلطان، ڈاکٹر سراج الدولہ اور دوسرے بھائی بہنوں میں منتقل ہوا ہے، اور شاید ان میں ہمارے دوست شیر شاہ کا حصہ نمایاں ہے، جو نہ صرف عوامی فلاح و بہبود کے مشن میں ڈوبے رہتے ہیں، بلکہ اپنی سحرانگیز اور پُراثر کہانیوں سے معاشرے کے ضمیر پر دستک بھی دیتے ہیں۔ بیشتر کہانیوں میں وہ ہمیں بدصورت انسانی رویّوں کی تصویریں دکھاتے ہیں۔
ساتھ ہی ان رویوں کو شکست سے ہمکنار کرنے کے لیے ایک سچا اور خوب صورت خواب ان کے قلم کا ہم رِکاب ہوتا ہے۔ بدصورت دنیا کو بدلنے کا یہ خواب انھیں باغیانہ صفات رکھنے والے ان کے والد صاحب سے ورثے میں ملا ہے، جنہوں نے اپنے ٹیلی فون کے باکس پر ساحر لدھیانوی کے ایک گیت کے یہ دو مصرعے آئل پینٹ سے لکھوا رکھے تھے ؎
تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے
اپنے پہ بھروسا ہے تو اک داؤ لگا لے
ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں جہاں ناانصافی بے بس انسانوں پر قہقہے برساتی ہے، شیر شاہ سید کا قلم اس کے سینے میں پیوست ہونے کے لیے بے تاب ہوتا ہے۔ جہاں کہیں انھیں انسانوں کے درمیان رنگ، نسل، مذہب، زبان اور جنس کی خون میں ڈوبی دیواریں کھڑی نظر آتی ہیں، وہ تڑپ اٹھتے ہیں، اور ایک کلیدی سوال، جو ازل سے انسان کے ساتھ سفر کر رہا ہے، ان کے ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے، ''کائنات اس قدر بے معنی اور بے ڈھنگی کیوں ہے، اس قدر تاریک مظالم سے بھری ہوئی کیوں ہے؟''
ان کے سارے افسانے پڑھ جائیے، اس سوال کا آسیب ان کے وجود سے چمٹا ہوا ہے۔ انصاف کی آرزو انھیں ہر طرف شکستہ نظر آتی ہے۔ آئرلینڈ کے خوب صورت لوگ محرومیوں کے مزار میں آباد ہیں۔ امریکا کے اصل بیٹے، ریڈ انڈین اب تک تعصب اور عدم مساوات کا شکار ہیں۔ مجبور لوگ اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے مغرب کا سفر کرتے ہیں اور پُر خطر حالات میں لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ انڈونیشیا کی سلاما خادمہ کی حیثیت سے سعودی بھیڑیوں کی بربریت کا نشانہ بنتی ہے، اور زخموں سے چور چور ہونے کے باوجود ان سے انتقام لینے کے لیے ایک منفرد طریقہ وضع کرتی ہے۔
پاکستان میں ایک حسین ہندو لڑکی کو کس طرح زبردستی مشرف بہ اسلام کیا جاتا ہے۔ سمری کا خود غرض باپ کس طرح اپنے علاج کا خرچ ادا کرنے کے لیے اسے فروخت کر دیتا ہے۔ اس قسم کے بہت سے واقعات خبروں کی شکل میں ہم بھی روزانہ پڑھتے، سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں۔ شیر شاہ بھی اس تجربے اور مشاہدے سے گزرتے ہیں، لیکن وہ احساس کے ایک بلند زینے پر بیٹھ کر انھیں دل کش کہانیوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ حساس آدمی کا تخیل اسے نہ جانے کتنے دیدہ و نادیدہ مناظر کی جھلک دکھاتا ہے۔ تخیل کی یہ کرشمہ سازی یقیناً شیر شاہ کی کہانیوں میں بھی جھلکتی ہے۔
لیکن اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہوا کہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طور شیر شاہ کا وجود اصل میں ان مناظر کا حصہ رہا ہے، جیسے یہ سچے واقعات ہیں، جو خود ان کے سامنے رُونما ہوئے یا جنھیں انھوں نے بیرونِ ملک سفر کے دوران دریافت کیا۔ حقیقت جو بھی ہو، شیر شاہ کو رنگ بھرنے کا فن آتا ہے، قسم قسم کے کردار، قسم قسم کی خوشیاں اور محرومیاں، قسم قسم کی نیکیاں اور خود غرضیاں، ہر تصویر جیتی جاگتی نظر آتی ہے۔
ان کہانیوں میں طرب ناک انجام کم کم ہی جھلکتا ہے۔ راحت کے لمحات آتے بھی ہیں تو عارضی طور پر۔ جیسے کڑی دھوپ میں چلتے چلتے مسافر کو کوئی گھنا پیڑ نظر آ جائے، لیکن وہ اس کی چھاؤں میں صرف چند لمحے گزار سکتا ہے۔ آگے کی کڑی دھوپ میں جلنا اس کا مقدر ٹھہرا۔ زندگی ظالم ہے، سکون سے بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتی۔
شیر شاہ یہ کہانیاں سناتے ہیں تو ان کے دل گداز الفاظ کی آنچ سے قاری کا دل پگھل جاتا ہے۔ وہ محبت اور امن اور انصاف کی حکمرانی کا خواب دیکھتے ہیں۔ دل ان کا جلتا کڑھتا رہتا ہے۔ دُکھ کی ہلکی سی پرچھائیں بھی کہیں نظر آ جائے تو ان کے ذہن میں خاردار سوالات اگنے لگتے ہیں۔ یوں ان کی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ احتجاج کی لہر اٹھتی ہے تو اس کی منظر کشی سے وہ اپنے باغی دل کے لیے قرار کی راہیں تراشتے ہیں۔
اپنا حصہ، اپنا قرض ادا کرنے کا یہ جذبہ اس درویش صفت ادیب کو اسیر رکھتا ہے۔ سادہ گفتگو کرنے والا، سادہ لباس پہننے والا، سچی، سادہ کہانیاں لکھنے والا یہ شخص جب ہمیں کسی محفل میں نظر آتا ہے تو خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ اتنا بڑا آدمی، اتنا ناموَر آدمی، اور اس قدر انکسار۔ یہاں تو ایسے ایسے ڈاکٹر ایسے ایسے ادیب موجود ہیں، جن کے دامن خود پسندی، خود غرضی اور غرور کی غلاظت سے آلودہ رہتے ہیں، اگرچہ ان میں سے اکثر محض لفاظی کے ذریعے اپنی اہلیت کی پستی پر پردہ ڈالنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ (جاری ہے)