بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
کوئی کہتا ہے کہ کون عذیر بلوچ، ہم نہیں جانتے۔ کوئی کہتا ہے کہ اگر کسی کی اُس کے ساتھ تصویر ہے
ISLAMABAD:
کراچی میں پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ کی گرفتاری کی اچانک خبر نے سندھ میں سیاست کا سارا منظرنامہ ہی بدل ڈالا۔ کچھ دن قبل وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کی پریس کانفرنس کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان جو اُبال اور گرما گرمی دکھائی دے رہی تھی وہ اچانک ماند پڑ گئی۔
آصف علی زرداری کی جانب سے اپنے لوگوں کو چوہدری نثار کے خلاف بیان بازی سے روکنا اور کراچی میں جاری آپریشن کے لیے رینجرز کو اگلے تین ماہ کے لیے اختیارات کی فوراً منظوری حیران کن ہی نہیں ناقابلِ یقین بھی ہے، جو حکومت دو ماہ قبل اختیارات دینے میں پس و پیش کے کام لے رہی تھی اور آج کیسے اچانک بلا تامل اور لیت و لعل یہ اختیارات اگلے تین ماہ کے لیے دینے پر رضامند ہو گئی۔
چوہدری نثار کا سندھ کے وزیرِ اعلیٰ کو ٹیلی فون اور قائم علی شاہ کی جانب سے محبت اور خیر سگالی کے حسین جذبات کا اظہار کوئی معمول کی سیاست کا حصہ تو نہیں تھے۔ یہ اچانک ایک ہی دن میں کیسا انقلاب آ گیا کہ کل تک جو ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے تھے آج شیر و شکر ہو رہے ہیں۔
چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد اپوزیشن کی جانب سے چوہدری نثار پر دشنام طرازی کا ایک نا تھمنے والا سلسلہ شروع کر دیا گیا جس کے جواب میں چوہدری نثار نے ایک ایسی پریس کانفرنس کر ڈالی جس سے دونوں پارٹیوں کے درمیان تناؤ اور بھی بڑھ گیا اور ایک موقعے پر تو ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور حکمران پارٹی دونوں کو دست و گریباں ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
اپوزیشن لیڈر نے اُس پریس کانفرنس کا جواب اسمبلی میں دینے کا عندیہ دیکر اِس جھگڑے سے لطف اندوز اور مزے لوٹنے والوں کے لیے اور بھی تجسس پیدا کر دیا مگر حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔ دیکھا یہ گیا کہ بلا کسی تیسرے فریق کی مداخلت اور ثالثی کے یہ معاملہ یونہی رفع دفع ہو گیا اور دونوں طرف کی آگ اُگلتی توپوں نے خاموشی اختیار کر لی۔
عذیر بلوچ کی گرفتاری کی خبر نے حالات کا رخ یکسر بدل ڈالا اور اب سب کی نظریں عذیر بلوچ کے اقبالی بیانوں کی جانب مبذول ہو چکی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر عذیر بلوچ نے اپنی تمام غلط کاریوں کا ملبہ پاکستان پیپلز پارٹی پر ڈال دیا تو سندھ کی حکمراں جماعت کو اپنا دفاع کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ ایک زمانہ تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے اکابرین صولت مرزا سے اپنے دیرینہ تعلقات سے انکاری تھے اور اب یہی حال پاکستان پیپلز پارٹی والوں کا ہو رہا ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ کون عذیر بلوچ، ہم نہیں جانتے۔ کوئی کہتا ہے کہ اگر کسی کی اُس کے ساتھ تصویر ہے تو اِس میں کیا حرج ہے آج کل سیلفی کا زمانہ ہے اگر کسی نے کوئی سیلفی بنا ڈالی ہے توکیا ہوا۔ اور کوئی کہتا ہے کہ ہاں وہ ہمارا جیالا ضرور تھا لیکن اگر کوئی راستہ بدل ڈالے تو ہم اُس کے ذمے دار نہیں ہیں اور سندھ حکومت کے سابق وزیرِ داخلہ ذوالفقار مرزا تو اب بھی اُسے اپنا دوست اور بھائی تسلیم کرتے ہوئے اُس کی قانونی اور اخلاقی مدد کرنے کا برملا اعلان بھی کر رہے ہیں۔
یہ وہی صاحبِ کمال شخص ہیں جنہوں نے اپنے دورِ وزارت میں لیاری میں پہلے سے قائم ''پیپلز امن کمیٹی'' کو اسلحے کے لاکھوں لائسنس جاری کر کے اُسے ''غارت ِامن'' جیسے افعال ِ قبیحہ پر لگا دیا۔ جس کا برملا اعتراف وہ اپنی ایک پریس کانفرنس میں بھی کر چکے ہیں۔ یہ وہی دور تھا جب اِس شہر قائد میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کو بسوں سے اُتار کر اُن کے شناختی کارڈز دیکھ کر قتل کیا جاتا تھا۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب وہ اپنے اوپر کیے جانے والے زرداری صاحب کے احسانات گنوا گنوا کر اُن کے ساتھ ہمیشہ وفادار رہنے کا عہد و پیمان کیا کرتے تھے اور اب یہ دور ہے، جب وہ اُسی زرداری کی مخالفت میں سینہ تان کے کھڑے ہو گئے ہیں۔
عذیر بلوچ کے اقبالی بیانوں میں اگر یہ اعتراف ہو گیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے سیکیورٹی انچارج خالد شہنشاہ اور بلال شیخ کو بھی اُس نے کسی اہم شخصیت کے کہنے پر قتل کیا تھا تو پھر شاید ہماری قومی سیاست کی یہ سب سے اہم اور بڑی خبر ہو گی۔ محترمہ کی شہادت کا معمہ آج نو سال بعد بھی ہنوز لاینحل ہے۔
خالد شہنشاہ کا قتل اِس واقعے پر پردہ ڈالنے کی ایک گھناؤنی سازش تھی۔ اگر وہ زندہ رہتا تو پھر اِس معاملے کی تہہ تک پہنچنا شاید اتنا مشکل نہ ہوتا۔ اُسے منظرنامے سے کس نے غائب کروایا اور اُسے قتل کیوں کروا گیا اور پھر اُس کے قتل کی تحقیقات میں بھی رخنے کس نے ڈالے۔ ان سب سوالوں کا جواب اگر مل جائے تو محترمہ کے قاتلوں تک پہنچنا یقینا آسان ہو جائے گا۔
محترمہ کا قتل جب تک معمہ رہے گا اُس پر سیاست ہوتی رہے گی لیکن جب کبھی اُس کے پسِ پردہ عوامل اور محرکات پر سے پردہ اُٹھ گیا اور لوگوں کے سامنے قاتل عیاں ہو کر بے پردہ ہو جائیں گے تو سارا معاملہ ہی ختم ہو جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے عذیر بلوچ عدالت کے سامنے کیا کہتا ہے۔ پولیس اور رینجرز کی تحویل میں دیے گئے بیانات کی اہمیت اِس لیے نہیں ہوتی کہ ہو سکتا ہے وہ کسی دباؤ کے تحت دیے گئے ہوں۔ اِس لیے ہمیں اُس کے عدالت میں دیے گئے بیانوں کا انتظار کرنا ہو گا۔
دوسری جانب ملک میں جاری نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں اب کچھ تیزی دکھائی دینے لگی ہے۔ ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر کا کہنا ہے کہ جب آپریشن ذرا سست ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ سیٹنگ ہو گئی ہے اور جب اِس میں تیزی آنے لگتی ہے تو متاثرہ فریق شور مچانے لگتا ہے کہ اُسے دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ ادھر آرمی چیف کی بھی کوشش ہے کہ نومبر میں اُن کی ریٹائرمنٹ سے قبل نیشنل ایکشن پلان پر ممکنہ حد تک عمل درآمد مکمل کر لیا جائے تا کہ اگلے آنے والے چیف پر اِس کا بوجھ کم سے کم ہو۔ ادھر سندھ کے ایک سنیئر سیاستدان منظور وسان کا بھی خیال ہے کہ سندھ میں پکنے والے پلاو ، بریانی، کباب اور چکن تکے کی خوشبوئیں اب پنجاب کے صوبے تک بھی جائیں گی۔
دوسرے معنوں میں یہ ایکشن پلان اب کراچی کے بعد اندرونِ سندھ اور پھر پنجاب کی جانب بڑھے گا اور ہمارے لوگوں کی خواہش بھی یہی ہے۔ اِسے صرف ایک صوبے تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ اِس کا دائرہ کار سارے صوبوں تک بڑھنا چاہیے۔ جہاں جہاں دہشت گردی کے عناصر موجود ہیں اُنہیں اپنے منطقی انجام تک پہنچانا ہو گا۔
پنجاب میں اگر سیاسی جماعتوں میں جنگجو نوعیت کے عسکری یا ملی ٹینسیmilitancy کے فعال ونگز نہیں ہے تو کیا ہو ا وہاں کالعدم تنظیموں کے کئی گروپس ابھی تک متحرک اور کارفرما ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان اگر ادھورا چھوڑ دیا گیا تو سزا سے بچ جانے والے عناصر خواہ وہ کسی صوبے میں رہتے ہوں ایک بار پھر سرگرم ہو جائیں گے اور سارا ملک پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں آ جائے گا۔
ہمیں اب یہ طے کرنا ہو گا کہ سیاست اور ملی ٹینسی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ سیاست میں دہشت گردی کا عنصر ہرگز شامل نہیں ہونا چاہیے۔ ایسی سیاست نے ہمیں پہلے ہی بہت نقصان پہنچایا ہے۔ کراچی میں امن و امان قائم کرنے کی راہ میں یہی عنصر ابھی تک حائل رہا ہے۔
اِس کا مکمل صفایا نہایت ضروری ہے۔ کراچی کے لوگ تب ہی راحت و سکون سے رہ پائیں گے جب یہ عنصر وہاں کی سیاست سے نکال دیا جائے گا۔ خوف اور دہشت کی فضا میں کوئی شہر ترقی نہیں کر سکتا۔ آئے دن کی ہڑتالوں اور احتجاجی سیاست نے اِس شہر کو کئی برس پیچھے کر دیا ہے۔ اب اگر رینجرز نے یہ مستحسن کام کرنے کا بیڑہ اُٹھا ہی لیا ہے تو ہمیں اُس کی مدد کرنی چاہیے خواہ ہمارا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔ سیاسی وفاداریاں اور ہمدردیاں ایک طرف ہمیں شہر کا امن اور اِس ملک کی سالمیت سب سے زیادہ عزیز ہونی چاہیے۔
کراچی میں پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ کی گرفتاری کی اچانک خبر نے سندھ میں سیاست کا سارا منظرنامہ ہی بدل ڈالا۔ کچھ دن قبل وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کی پریس کانفرنس کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان جو اُبال اور گرما گرمی دکھائی دے رہی تھی وہ اچانک ماند پڑ گئی۔
آصف علی زرداری کی جانب سے اپنے لوگوں کو چوہدری نثار کے خلاف بیان بازی سے روکنا اور کراچی میں جاری آپریشن کے لیے رینجرز کو اگلے تین ماہ کے لیے اختیارات کی فوراً منظوری حیران کن ہی نہیں ناقابلِ یقین بھی ہے، جو حکومت دو ماہ قبل اختیارات دینے میں پس و پیش کے کام لے رہی تھی اور آج کیسے اچانک بلا تامل اور لیت و لعل یہ اختیارات اگلے تین ماہ کے لیے دینے پر رضامند ہو گئی۔
چوہدری نثار کا سندھ کے وزیرِ اعلیٰ کو ٹیلی فون اور قائم علی شاہ کی جانب سے محبت اور خیر سگالی کے حسین جذبات کا اظہار کوئی معمول کی سیاست کا حصہ تو نہیں تھے۔ یہ اچانک ایک ہی دن میں کیسا انقلاب آ گیا کہ کل تک جو ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے تھے آج شیر و شکر ہو رہے ہیں۔
چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد اپوزیشن کی جانب سے چوہدری نثار پر دشنام طرازی کا ایک نا تھمنے والا سلسلہ شروع کر دیا گیا جس کے جواب میں چوہدری نثار نے ایک ایسی پریس کانفرنس کر ڈالی جس سے دونوں پارٹیوں کے درمیان تناؤ اور بھی بڑھ گیا اور ایک موقعے پر تو ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور حکمران پارٹی دونوں کو دست و گریباں ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
اپوزیشن لیڈر نے اُس پریس کانفرنس کا جواب اسمبلی میں دینے کا عندیہ دیکر اِس جھگڑے سے لطف اندوز اور مزے لوٹنے والوں کے لیے اور بھی تجسس پیدا کر دیا مگر حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔ دیکھا یہ گیا کہ بلا کسی تیسرے فریق کی مداخلت اور ثالثی کے یہ معاملہ یونہی رفع دفع ہو گیا اور دونوں طرف کی آگ اُگلتی توپوں نے خاموشی اختیار کر لی۔
عذیر بلوچ کی گرفتاری کی خبر نے حالات کا رخ یکسر بدل ڈالا اور اب سب کی نظریں عذیر بلوچ کے اقبالی بیانوں کی جانب مبذول ہو چکی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر عذیر بلوچ نے اپنی تمام غلط کاریوں کا ملبہ پاکستان پیپلز پارٹی پر ڈال دیا تو سندھ کی حکمراں جماعت کو اپنا دفاع کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ ایک زمانہ تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے اکابرین صولت مرزا سے اپنے دیرینہ تعلقات سے انکاری تھے اور اب یہی حال پاکستان پیپلز پارٹی والوں کا ہو رہا ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ کون عذیر بلوچ، ہم نہیں جانتے۔ کوئی کہتا ہے کہ اگر کسی کی اُس کے ساتھ تصویر ہے تو اِس میں کیا حرج ہے آج کل سیلفی کا زمانہ ہے اگر کسی نے کوئی سیلفی بنا ڈالی ہے توکیا ہوا۔ اور کوئی کہتا ہے کہ ہاں وہ ہمارا جیالا ضرور تھا لیکن اگر کوئی راستہ بدل ڈالے تو ہم اُس کے ذمے دار نہیں ہیں اور سندھ حکومت کے سابق وزیرِ داخلہ ذوالفقار مرزا تو اب بھی اُسے اپنا دوست اور بھائی تسلیم کرتے ہوئے اُس کی قانونی اور اخلاقی مدد کرنے کا برملا اعلان بھی کر رہے ہیں۔
یہ وہی صاحبِ کمال شخص ہیں جنہوں نے اپنے دورِ وزارت میں لیاری میں پہلے سے قائم ''پیپلز امن کمیٹی'' کو اسلحے کے لاکھوں لائسنس جاری کر کے اُسے ''غارت ِامن'' جیسے افعال ِ قبیحہ پر لگا دیا۔ جس کا برملا اعتراف وہ اپنی ایک پریس کانفرنس میں بھی کر چکے ہیں۔ یہ وہی دور تھا جب اِس شہر قائد میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کو بسوں سے اُتار کر اُن کے شناختی کارڈز دیکھ کر قتل کیا جاتا تھا۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب وہ اپنے اوپر کیے جانے والے زرداری صاحب کے احسانات گنوا گنوا کر اُن کے ساتھ ہمیشہ وفادار رہنے کا عہد و پیمان کیا کرتے تھے اور اب یہ دور ہے، جب وہ اُسی زرداری کی مخالفت میں سینہ تان کے کھڑے ہو گئے ہیں۔
عذیر بلوچ کے اقبالی بیانوں میں اگر یہ اعتراف ہو گیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے سیکیورٹی انچارج خالد شہنشاہ اور بلال شیخ کو بھی اُس نے کسی اہم شخصیت کے کہنے پر قتل کیا تھا تو پھر شاید ہماری قومی سیاست کی یہ سب سے اہم اور بڑی خبر ہو گی۔ محترمہ کی شہادت کا معمہ آج نو سال بعد بھی ہنوز لاینحل ہے۔
خالد شہنشاہ کا قتل اِس واقعے پر پردہ ڈالنے کی ایک گھناؤنی سازش تھی۔ اگر وہ زندہ رہتا تو پھر اِس معاملے کی تہہ تک پہنچنا شاید اتنا مشکل نہ ہوتا۔ اُسے منظرنامے سے کس نے غائب کروایا اور اُسے قتل کیوں کروا گیا اور پھر اُس کے قتل کی تحقیقات میں بھی رخنے کس نے ڈالے۔ ان سب سوالوں کا جواب اگر مل جائے تو محترمہ کے قاتلوں تک پہنچنا یقینا آسان ہو جائے گا۔
محترمہ کا قتل جب تک معمہ رہے گا اُس پر سیاست ہوتی رہے گی لیکن جب کبھی اُس کے پسِ پردہ عوامل اور محرکات پر سے پردہ اُٹھ گیا اور لوگوں کے سامنے قاتل عیاں ہو کر بے پردہ ہو جائیں گے تو سارا معاملہ ہی ختم ہو جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے عذیر بلوچ عدالت کے سامنے کیا کہتا ہے۔ پولیس اور رینجرز کی تحویل میں دیے گئے بیانات کی اہمیت اِس لیے نہیں ہوتی کہ ہو سکتا ہے وہ کسی دباؤ کے تحت دیے گئے ہوں۔ اِس لیے ہمیں اُس کے عدالت میں دیے گئے بیانوں کا انتظار کرنا ہو گا۔
دوسری جانب ملک میں جاری نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں اب کچھ تیزی دکھائی دینے لگی ہے۔ ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر کا کہنا ہے کہ جب آپریشن ذرا سست ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ سیٹنگ ہو گئی ہے اور جب اِس میں تیزی آنے لگتی ہے تو متاثرہ فریق شور مچانے لگتا ہے کہ اُسے دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ ادھر آرمی چیف کی بھی کوشش ہے کہ نومبر میں اُن کی ریٹائرمنٹ سے قبل نیشنل ایکشن پلان پر ممکنہ حد تک عمل درآمد مکمل کر لیا جائے تا کہ اگلے آنے والے چیف پر اِس کا بوجھ کم سے کم ہو۔ ادھر سندھ کے ایک سنیئر سیاستدان منظور وسان کا بھی خیال ہے کہ سندھ میں پکنے والے پلاو ، بریانی، کباب اور چکن تکے کی خوشبوئیں اب پنجاب کے صوبے تک بھی جائیں گی۔
دوسرے معنوں میں یہ ایکشن پلان اب کراچی کے بعد اندرونِ سندھ اور پھر پنجاب کی جانب بڑھے گا اور ہمارے لوگوں کی خواہش بھی یہی ہے۔ اِسے صرف ایک صوبے تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ اِس کا دائرہ کار سارے صوبوں تک بڑھنا چاہیے۔ جہاں جہاں دہشت گردی کے عناصر موجود ہیں اُنہیں اپنے منطقی انجام تک پہنچانا ہو گا۔
پنجاب میں اگر سیاسی جماعتوں میں جنگجو نوعیت کے عسکری یا ملی ٹینسیmilitancy کے فعال ونگز نہیں ہے تو کیا ہو ا وہاں کالعدم تنظیموں کے کئی گروپس ابھی تک متحرک اور کارفرما ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان اگر ادھورا چھوڑ دیا گیا تو سزا سے بچ جانے والے عناصر خواہ وہ کسی صوبے میں رہتے ہوں ایک بار پھر سرگرم ہو جائیں گے اور سارا ملک پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں آ جائے گا۔
ہمیں اب یہ طے کرنا ہو گا کہ سیاست اور ملی ٹینسی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ سیاست میں دہشت گردی کا عنصر ہرگز شامل نہیں ہونا چاہیے۔ ایسی سیاست نے ہمیں پہلے ہی بہت نقصان پہنچایا ہے۔ کراچی میں امن و امان قائم کرنے کی راہ میں یہی عنصر ابھی تک حائل رہا ہے۔
اِس کا مکمل صفایا نہایت ضروری ہے۔ کراچی کے لوگ تب ہی راحت و سکون سے رہ پائیں گے جب یہ عنصر وہاں کی سیاست سے نکال دیا جائے گا۔ خوف اور دہشت کی فضا میں کوئی شہر ترقی نہیں کر سکتا۔ آئے دن کی ہڑتالوں اور احتجاجی سیاست نے اِس شہر کو کئی برس پیچھے کر دیا ہے۔ اب اگر رینجرز نے یہ مستحسن کام کرنے کا بیڑہ اُٹھا ہی لیا ہے تو ہمیں اُس کی مدد کرنی چاہیے خواہ ہمارا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔ سیاسی وفاداریاں اور ہمدردیاں ایک طرف ہمیں شہر کا امن اور اِس ملک کی سالمیت سب سے زیادہ عزیز ہونی چاہیے۔