کسی کو حق نہیں کہ ملکی مفاد کا تعین کرےیہ اتفاق رائے سے ہی ممکن ہےآرمی چیف
آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کیانی نے جنرل ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بحیثیت قوم ہم انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں ۔ ہم سب اپنی ماضی کی غلطیوں کا ناقدانہ جائزہ لے رہے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ مستقبل کے لئے ایک صحیح راستے کا انتخاب کرسکیں ۔
آرمی چیف کا کہنا تھا کہ مسلسل بحث و مباحثہ ایک فطری حصہ ہے لیکن کسی بھی فرد یا ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ملکی مفاد کا تعین کرسکے، یہ صرف اتفاق رائے سے ہی ممکن ہے اور سب پاکستانیوں کو رائے دینے کا حق ہے، آئین میں اس کا طریقہ بڑا واضح ہے۔
جنرل کیانی کا کہنا تھا کہ ہمارے کاندھوں پر ایک انتہائی نازک ذمہ داری ہے، ہمیں چاہئے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھیں، حال کی بہتر تعمیر کریں اور ایک بہتر مستقبل پر نظر رکھیں، ہم سب متفق ہیں کہ اداروں کی مضبوطی، قانون کی بالادستی اور سب اداروں کا آئین میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی ایک بہتر مستقبل کی ضمانت ہے۔ اداروں کو کمزور کرنا یا آئین سے تجاوز ہمیں صحیح راستے سے ہٹادے گا۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم صحیح بنیادیں استوار کریں اور دانستہ یا نادانستہ کوئی ایسا کام نہ کریں جو شاید بظاہر صحیح لگتا ہو لیکن مستقبل میں اس کے منفی نتائج نکلنے کے امکانات زیادہ ہوں۔
آرمی چیف نے کہا کہ عوام کی حمایت مسلح افواج کی طاقت کا منبع ہے، اس کے بغیر قومی سلامتی کا تصور بے معنی ہے۔ اس لئے کوئی بھی دانستہ یا نادانستہ کوشش جو مسلح افواج اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالنے کا باعث بنے وسیع تر مفاد کے منافی ہے ۔ تعمیری تنقید مناسب سہی لیکن افواہ سازی کی بنیاد پر تانے بانے بننا بنیادی مقاصد ہی کو مشکوک بنا دینا کسی بھی طرح قابل قبول نہیں۔
افواج پاکستان کی مضبوطی اور یک جہتی درحیقیقت پاکستانی عوام کے اعتماد پر منحصر ہے۔ اس اعتماد کو مضبوط بنانے سے ہی پاکستان کی سلامتی اور دفاع مضبوط ہوگا ۔ ساتھ ہی ساتھ افواج کی قیادت اور سپاہ کے درمیان اعتماد کا رشتہ بھی انتہائی اہم ہے۔ کوئی بھی کوشش جو اس رشتے کو تقسیم کرنے کا باعث بنے برداشت نہیں کی جاسکتی۔ ایسا صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کا دستور ہے۔
جنرل اشفاق پرویزکیانی نے کہا کہ ماضی میں ہم سب نے غلطیاں کی ہیں، بہتر ہوگا کہ ہم فیصلے کو قانون پر چھوڑدیں۔ چونکہ ہم سب قانون کی عملداری پر یقین رکھتے ہیں اس لئے ہمیں یہ بنیادی اصول نہیں بھولنا چاہئے کہ ملزم صرف اسی صورت میں مجرم قرار پاتا ہے جب جرم ثابت ہوجائے۔ ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ہم اپنے طور پر کسی کو بھی چاہیں وہ سویلین یو یا فوجی مجرم ٹھہرادیں اور پھر اس کے ذریعے پورے ادارے کو مجرم ٹھہرانا شروع کردیں۔
آرمی چیف نے مزید کہا کہ آج پاکستان میں سب ادارے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں لیکن اس کوشش میں تیزی کے کچھ اچھے اور منفی نتائج بھی مرتب ہوسکتے ہیں ۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ایک لمحے کے لئے رکیں اور دو بنیادی سوالات کو دوبارہ پرکھیں : کیا ہم قانون کی حاکمیت اور آئین کی بالادستی قائم کررہے ہیں؟ کیا ہم اداروں کو مضبوط کررہے ہیں یا کمزور؟ آخر کار اگر ہم نے پاکستان کی صحیح خدمت کرنی ہے اور تارٰیخ اور آیندہ نسلوں کے سامنے سرخرو ہونا ہے تو بہرحال ان دو سوالوں کے جواب مثبت ہونے چاہییں۔