جشن بہار 2016

بہار کا موسم انسانی تہذیب کے آغاز سے ہی ایک خوش گوار تاثر کا حامل رہا ہے


Amjad Islam Amjad February 11, 2016
[email protected]

تقریباً 250 برس قبل میر صاحب نے کہا تھا

کچھ کرو فکر مجھ دوانے کی
دھوم ہے پھر بہار آنے کی

لیکن مختلف شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ بہار کا موسم انسانی تہذیب کے آغاز سے ہی ایک خوش گوار تاثر کا حامل رہا ہے کہ انسانی جذبات و محسوسات کے لیے موسم کی یہ مثبت تبدیلی ایک مہمیز کا کام کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ بہار کا استقبال کھلے بازوؤں سے کیا جاتا ہے اور اس سے متعلق تقریبات کا ایک تانتا سا بندھ جاتا ہے۔

جشن بہار مشاعرے بھی اسی تسلسل کی ایک کڑی ہیں، 1980 کی دہائی میں انبالہ (بھارت) میں آنجہانی راجندر ملہوترہ کے جشن بہار مشاعرے تسلسل سے منعقد ہوئے پھر نوے کی دہائی میں مرحوم جاوید احمد قریشی کی سرپرستی میں الحمرا لاہور میں تین فقید المثال مشاعروں کا اہتمام کیا گیا جو آج بھی یوٹیوب پر سب سے زیادہ دیکھے جاتے ہیں اور اسی دہائی کے آخر میں دہلی میں کامنا پرشاد صاحبہ نے اسی عنوان سے ایک نیا سلسلہ جاری کیا جو بغیر کسی تعطل کے گزشتہ 18 برس سے جاری ہے اور اسی کے 5 فروری 2016 کو ہونے والے تازہ ترین مشاعرے میں شرکت کے لیے عباس تابش' ریحانہ روحی' ڈاکٹر پیر زادہ قاسم اور میں بذریعہ واہگہ 4 فروری کی شام وہاں پہنچے کہ پی آئی اے کی ہڑتال کے باعث ہماری3 فروری کی طے شدہ فلائٹ کینسل ہو گئی تھی۔

ہمارے قیام کا انتظام انڈیا انٹرنیشنل سینٹر دہلی میں کیا گیا تھا جو لاہور جم خانہ کی طرز کا ایک کلب ہے۔ اردو دنیا میں فی الوقت اگر بہترین منتظم کا انتخاب کیا جائے تو میرے خیال میں کامنا پرشاد کو سب سے زیادہ ووٹ ملیں گے کہ اس خاتون کی کمٹ منٹ' Passion اور انتظامی صلاحیتیں اپنی مثال آپ ہیں۔

مراری باپو کو وہاں ایک بڑے روحانی پیشوا کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے پیروکاروں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ چند برس قبل اودھے پور کے قریب ناگ دوارہ میں بھی مجھے ان کی موجودگی میں ایک مشاعرہ پڑھنے کا موقع ملا تھا جس میں مرحومین احمد فراز اور شہریار بھی شامل تھے۔

مراری باپو کی گفتگو اور ان کے کچھ ٹی وی پروگراموں کو دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ وہ اردو شاعری کا بہت اچھا ذوق رکھتے ہیں اس بار بھی انھوں نے پانچ گھنٹے تک نہ صرف پورا مشاعرہ سنا بلکہ ہر اچھے شعر پر اپنے مخصوص انداز میں ہاتھ اٹھا کر داد بھی دی۔ ہر شاعر ان کو مخاطب کر کے کچھ نہ کچھ پڑھ رہا تھا یک دم مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں آغاز کلام پاک بھارت دوستی کے اس گیت سے کروں جو گزشتہ کئی برسوں سے موسیقی میں ڈھلنے کے مراحل میں ہے اور جنید جمشید' گلزار اور اے آر رحمان سمیت کئی احباب اس مہم میں شامل ہیں۔

پہلی لائن پڑھنے کے ساتھ ہی سارا مجمع نہ صرف ہمہ تن متوجہ ہو گیا بلکہ نوجوانوں سمیت ہر طرف سے بے ساختہ داد بھی ملنا شروع ہو گئی جس سے ایک بار پھر اس احساس کو تقویت ملی کہ دونوں ملکوں کے عوام کی غالب اکثریت امن پیار اور محبت کی خواہاں ہے ۔ گزشتہ روز کے تمام اخبارات میں بھی اس گیت اور اس کے تاثر سے متعلق اسی نوع کے مثبت اور تعمیری خیالات کا اظہار کیا گیا۔

تقریب کے اختام پر مراری باپو نے بھی شعرا سے ملاقات کے دوران خاص طور پر مجھ سے اس کے بارے میں پسندیدگی کا اظہار کیا سو آخر میں، میں اسی گیت کو اس امید اور دعا کے ساتھ درج کررہا ہوں کہ بہت جلد سرحد کے دونوں طرف کے دوست اس کو ایک مشترکہ پروڈکشن کی شکل میں سن اور اس کی ویڈیو کو دیکھ بھی سکیں گے۔

پاک بھارت دوستی کا گیت
ہم پھول تمہیں بھیجیں
تم پھول ہمیں بھیجو
خوشبو سے مہکتا ہو' رنگوں سے لہکتا ہو
یہ باغ تمہارا بھی
یہ باغ ہمارا بھی
یہ رات جو چھائی ہے اس رات کے دامن میں
اک صبح نے ہونا تھا
وہ رات نہیں گزری' وہ صبح نہیں آئی
اے دوست چلو' آؤ
اس صبح کے رستوں کے آثار ذرا دیکھیں
موجود کے دریا کے اس پار ذرا دیکھیں
کیوں بات نہیں چلتی' اک بار ذرا دیکھیں!
اب امن کا رستہ لیں اب پیار کا موسم ہو
آنکھوں میں شفق جھومے گفتار میں ریشم ہو
آباد رہو تم بھی
آباد رہیں ہم بھی
دلشاد رہو تم بھی
دلشاد رہیں ہم بھی
ہم پھول تمہیں بھیجیں تم پھول ہمیں بھیجو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔