تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی
ماں باپ اپنے بچوں کو اسکولوں اورکالجوں میں بھیجنے سے سخت خوف زدہ ہیں اور بچے اسکول اور کالج جانے سے خوفزدہ ہیں
MUMBAI:
چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد پورے پاکستان میں ایک بار پھر تعلیمی اداروں میں سخت تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کا خوف ابھی زائل نہیں ہوا تھا کہ چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی کے دل ہلادینے والے واقعے نے سارے پاکستان میں تشویش کی ایک نئی لہر دوڑا دی ہے۔
ماں باپ اپنے بچوں کو اسکولوں اورکالجوں میں بھیجنے سے سخت خوف زدہ ہیں اور بچے اسکول اور کالج جانے سے خوفزدہ ہیں، تعلیمی اداروں پر حملے اور بارود سے تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ خاص طور پر خیبر پختونخوا میں بچوں اور بچیوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑانے اور طلبا پر حملوں کی روایت تسلسل کے ساتھ جاری ہے، ملالہ یوسف زئی پر حملے کے بعد لڑکیوں پر دہشت طاری ہونا ایک فطری بات ہے لیکن بچوں میں حصول تعلیم کا شوق اس شدت سے موجود ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں ان بزدلانہ حملوں اور جانی نقصان کی پرواہ کیے بغیر تعلیمی اداروں میں جا رہی ہیں۔
طلبا کی اس جرأت کی داد دینی چاہیے کہ وہ سروں پر منڈ لاتی ہوئی اس موت کی پرواہ کیے بغیر اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کی رونقیں بحال کیے ہوئے ہیں اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ قبائلی علاقوں سمیت پورے ملک میں بچے اور ان کے ماں باپ تعلیم کی اہمیت اور ضرورت سے کس قدر واقف ہیں۔
یہ سوال فطری طور پر ذہنوں میں آتا ہے کہ دہشت گردوں کو آخر تعلیمی اداروں سے اس قدر نفرت کیوں ہے؟ دہشت گردوں اور مذہبی انتہا پسندوں کو یہ احساس شدت سے ہے کہ نئی نسلیں اگر علم کے زیور سے آراستہ ہوگئیں تو انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ممکن نہیں رہے گا، جو بچہ تعلیم یافتہ ہوگا وہ باشعور بھی ہوگا وہ کسی قیمت پر پیٹ پر بارودی جیکٹ باندھ کر اپنی دھجیاں اڑانے اور اپنے ساتھ دوسرے بے گناہوں کو موت کے منہ میں بھیجنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوگا۔ اسی خوف نے دہشت گردوں کو مجبورکردیا ہے کہ وہ بچوں اور ان کے سرپرستوں کو اس قدر خوف زدہ کردیں کہ وہ تعلیمی اداروں کا رخ کرنا چھوڑدیں چونکہ مذہبی انتہا پسندوں کے عمومی تعلقات قبائلی علاقوں سے ہیں اور قبائلی علاقے صدیوں سے جہل کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں، لہٰذا مذہبی انتہا پسندوں نے ان علاقوں کو اپنا ہدف بنالیا ہے۔
ہماری فوجی قیادت ان حقائق سے باخبر ہے کہ دہشت گرد قبائلی علاقوں کو اپنا گڑھ بناکر زیادہ محفوظ اور موثر طریقے سے اپنی مہم کوآگے بڑھاسکتے ہیں۔ اس تناظر میں ہماری فوجی قیادت نے شمالی وزیرستان کو اپنا اولین ہدف بنالیا اور اس علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے میں کامیابی حاصل کرلی، لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ دہشت گرد شمالی وزیرستان سے بھاگ کر یا تو افغانستان میں پناہ لے رہے ہیں یا پھر پاکستان کے دوسرے علاقوں کا رخ کررہے ہیں چونکہ کراچی ایک بے حد گنجان شہر ہے اور اس کی سیکڑوں میلوں پر پھیلی ہوئی ہزاروں بستیوں خاص طور پر مضافاتی بستیوں میں جہاں ان کی نسل اور ان کی زباں بولنے والوں کی بستیاں موجود ہیں ان بستیوں میں پناہ لینا آسان بھی ہے محفوظ بھی ہے۔
سو دہشت گرد اور مذہبی انتہا پسند اب ان بستیوں میں نہ صرف بے فکری سے رہ رہے ہیں بلکہ ان ہی بستیوں سے نکل کر اپنی کارروائیاں کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ کراچی میں ہزاروں اسکول بکھرے پڑے ہیں گلی گلی، محلہ محلہ اسکولوں کا جال بچھا ہوا ہے ان اسکولوں میں انگلش میڈیم اسکول آمدنی کے لحاظ سے مستحکم ہیں لہٰذا ان اسکولوں کے مالکان کسی حد تک سیکیورٹی کا انتظام کررہے ہیں لیکن ہزاروں سرکاری اسکولوں کا جہاں غریبوں کے بچے زیر تعلیم ہیں محکمہ تعلیم کی طرف سے بار بار میٹنگیں بلاکر اسکولوں کی سیکیورٹی کا اہتمام کیسے کریں؟ ان اسکولوں میں ایک چپراسی ہوتا ہے جو تنہا ہوتا ہے ایک تنہا چپراسی بھلا اسکول کی سیکیورٹی کا اہتمام کیسے کرسکتا ہے؟
شہر کے کچھ کالجوں میں مسلح چوکیدار رکھے جارہے ہیں لیکن سیکڑوں کالج ابھی تک مسلح چوکیداروں سے محروم ہیں۔ اصل میں ہماری حکومتوں کو نہ تعلیمی اداروں کی فول پروف سیکیورٹی سے کوئی دلچسپی ہے نہ طلبا کی جانوں کے تحفظ کی ذمے داری کا احساس۔ کسی تعلیمی ادارے میں دہشت گردی کا کوئی سنگین واقعہ ہوتا ہے تو حکومت ایک بے معنی ہائی الرٹ جاری کرکے سوجاتی ہے۔
ویسے تو کراچی کے تمام ہی اسکول، کالج سیکیورٹی کے قابل اطمینان بندوبست سے محروم ہیں لیکن جیسے کہ ہم نے نشان دہی کی ہے کہ سرکاری اسکولوں کی اکثریت تو باؤنڈری وال سے بھی محروم ہے حکومت کے زعماء ہر روز اربوں روپوں کے ترقیاتی کاموں کا ڈھنڈورا پیٹتے نظر آتے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ترجیحات میں تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی ہے ہی نہیں۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول اس کے بعد چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی کے المیوں کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تعلیمی اداروں کی فول پروف سیکیورٹی حکومت کی اولین ترجیح بن جاتی لیکن ہو یہ رہا ہے کہ حکام بالا اساتذہ کو جمع کرکے انھیں اپنے اسکولوں کی سیکیورٹی بہتر بنانے کا فرض ادا کرکے اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔
ہماری حکومت اپنی کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے ''بے معنی'' اربوں روپوں کے ترقیاتی منصوبوں کا میڈیا میں ذکر تو تواتر سے کرتے ہیں لیکن اصل اور اولین ترجیح کے متقاضی مسئلہ یعنی تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کی طرف دھیان نہیں دیتے جیسا کہ ہم نے نشان دہی کی ہے سرکاری اسکولوں کی حالت انتہائی تشویشناک ہے، دہشت گردوں کے لیے سرکاری اسکول سب سے زیادہ آسان ہدف ہیں۔
سب سے پہلے ان اسکولوں میں ہنگامی بنیادوں پر کم از کم بارہ فٹ مضبوط باؤنڈری وال اور اس پر خاردار باڑھ لگانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ان اسکولوں کے گیٹ پر دو مسلح گارڈ کا انتظام ہونا چاہیے جو کسی بھی اجنبی کو اسکول میں داخل ہونے سے روکیں، بلاشبہ کراچی میں رینجرز ممکنہ حد تک جرائم پیشہ افراد کے خلاف کامیاب کارروائیاں کررہی ہے اور آئے دن مسلح دہشت گردوں کی گرفتاریوں کی خبریں میڈیا میں گونجتی دکھائی دیتی ہیں لیکن دوکروڑ کے لگ بھگ آبادی اور ہزاروں پھیلی ہوئی بستیوں کا مکمل تحفظ نہ پولیس کی بس کی بات ہے۔
نہ رینجرز کے بس کی بات ہے، کراچی کی سیکڑوں میلوں پر پھیلی ہوئی آبادی کے تحفظ کا موثر ذریعہ سیکیورٹی اقدامات میں عوام کی شرکت ہے اور یہ کام بلدیاتی اداروں کے ذریعے ہی موثر طور پر کیا جاسکتا ہے لیکن افسوس ہی نہیں شرم کی بات ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ دو ماہ گزر جانے کے باوجود بلدیاتی نظام کو محض اپنے انتظامی اور مالی اختیارات کو بچانے کے لیے بلدیاتی اداروں کو تشکیل بنانے سے گریزاں ہے۔
چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد پورے پاکستان میں ایک بار پھر تعلیمی اداروں میں سخت تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کا خوف ابھی زائل نہیں ہوا تھا کہ چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی کے دل ہلادینے والے واقعے نے سارے پاکستان میں تشویش کی ایک نئی لہر دوڑا دی ہے۔
ماں باپ اپنے بچوں کو اسکولوں اورکالجوں میں بھیجنے سے سخت خوف زدہ ہیں اور بچے اسکول اور کالج جانے سے خوفزدہ ہیں، تعلیمی اداروں پر حملے اور بارود سے تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ خاص طور پر خیبر پختونخوا میں بچوں اور بچیوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑانے اور طلبا پر حملوں کی روایت تسلسل کے ساتھ جاری ہے، ملالہ یوسف زئی پر حملے کے بعد لڑکیوں پر دہشت طاری ہونا ایک فطری بات ہے لیکن بچوں میں حصول تعلیم کا شوق اس شدت سے موجود ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں ان بزدلانہ حملوں اور جانی نقصان کی پرواہ کیے بغیر تعلیمی اداروں میں جا رہی ہیں۔
طلبا کی اس جرأت کی داد دینی چاہیے کہ وہ سروں پر منڈ لاتی ہوئی اس موت کی پرواہ کیے بغیر اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کی رونقیں بحال کیے ہوئے ہیں اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ قبائلی علاقوں سمیت پورے ملک میں بچے اور ان کے ماں باپ تعلیم کی اہمیت اور ضرورت سے کس قدر واقف ہیں۔
یہ سوال فطری طور پر ذہنوں میں آتا ہے کہ دہشت گردوں کو آخر تعلیمی اداروں سے اس قدر نفرت کیوں ہے؟ دہشت گردوں اور مذہبی انتہا پسندوں کو یہ احساس شدت سے ہے کہ نئی نسلیں اگر علم کے زیور سے آراستہ ہوگئیں تو انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ممکن نہیں رہے گا، جو بچہ تعلیم یافتہ ہوگا وہ باشعور بھی ہوگا وہ کسی قیمت پر پیٹ پر بارودی جیکٹ باندھ کر اپنی دھجیاں اڑانے اور اپنے ساتھ دوسرے بے گناہوں کو موت کے منہ میں بھیجنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوگا۔ اسی خوف نے دہشت گردوں کو مجبورکردیا ہے کہ وہ بچوں اور ان کے سرپرستوں کو اس قدر خوف زدہ کردیں کہ وہ تعلیمی اداروں کا رخ کرنا چھوڑدیں چونکہ مذہبی انتہا پسندوں کے عمومی تعلقات قبائلی علاقوں سے ہیں اور قبائلی علاقے صدیوں سے جہل کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں، لہٰذا مذہبی انتہا پسندوں نے ان علاقوں کو اپنا ہدف بنالیا ہے۔
ہماری فوجی قیادت ان حقائق سے باخبر ہے کہ دہشت گرد قبائلی علاقوں کو اپنا گڑھ بناکر زیادہ محفوظ اور موثر طریقے سے اپنی مہم کوآگے بڑھاسکتے ہیں۔ اس تناظر میں ہماری فوجی قیادت نے شمالی وزیرستان کو اپنا اولین ہدف بنالیا اور اس علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے میں کامیابی حاصل کرلی، لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ دہشت گرد شمالی وزیرستان سے بھاگ کر یا تو افغانستان میں پناہ لے رہے ہیں یا پھر پاکستان کے دوسرے علاقوں کا رخ کررہے ہیں چونکہ کراچی ایک بے حد گنجان شہر ہے اور اس کی سیکڑوں میلوں پر پھیلی ہوئی ہزاروں بستیوں خاص طور پر مضافاتی بستیوں میں جہاں ان کی نسل اور ان کی زباں بولنے والوں کی بستیاں موجود ہیں ان بستیوں میں پناہ لینا آسان بھی ہے محفوظ بھی ہے۔
سو دہشت گرد اور مذہبی انتہا پسند اب ان بستیوں میں نہ صرف بے فکری سے رہ رہے ہیں بلکہ ان ہی بستیوں سے نکل کر اپنی کارروائیاں کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ کراچی میں ہزاروں اسکول بکھرے پڑے ہیں گلی گلی، محلہ محلہ اسکولوں کا جال بچھا ہوا ہے ان اسکولوں میں انگلش میڈیم اسکول آمدنی کے لحاظ سے مستحکم ہیں لہٰذا ان اسکولوں کے مالکان کسی حد تک سیکیورٹی کا انتظام کررہے ہیں لیکن ہزاروں سرکاری اسکولوں کا جہاں غریبوں کے بچے زیر تعلیم ہیں محکمہ تعلیم کی طرف سے بار بار میٹنگیں بلاکر اسکولوں کی سیکیورٹی کا اہتمام کیسے کریں؟ ان اسکولوں میں ایک چپراسی ہوتا ہے جو تنہا ہوتا ہے ایک تنہا چپراسی بھلا اسکول کی سیکیورٹی کا اہتمام کیسے کرسکتا ہے؟
شہر کے کچھ کالجوں میں مسلح چوکیدار رکھے جارہے ہیں لیکن سیکڑوں کالج ابھی تک مسلح چوکیداروں سے محروم ہیں۔ اصل میں ہماری حکومتوں کو نہ تعلیمی اداروں کی فول پروف سیکیورٹی سے کوئی دلچسپی ہے نہ طلبا کی جانوں کے تحفظ کی ذمے داری کا احساس۔ کسی تعلیمی ادارے میں دہشت گردی کا کوئی سنگین واقعہ ہوتا ہے تو حکومت ایک بے معنی ہائی الرٹ جاری کرکے سوجاتی ہے۔
ویسے تو کراچی کے تمام ہی اسکول، کالج سیکیورٹی کے قابل اطمینان بندوبست سے محروم ہیں لیکن جیسے کہ ہم نے نشان دہی کی ہے کہ سرکاری اسکولوں کی اکثریت تو باؤنڈری وال سے بھی محروم ہے حکومت کے زعماء ہر روز اربوں روپوں کے ترقیاتی کاموں کا ڈھنڈورا پیٹتے نظر آتے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ترجیحات میں تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی ہے ہی نہیں۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول اس کے بعد چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی کے المیوں کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تعلیمی اداروں کی فول پروف سیکیورٹی حکومت کی اولین ترجیح بن جاتی لیکن ہو یہ رہا ہے کہ حکام بالا اساتذہ کو جمع کرکے انھیں اپنے اسکولوں کی سیکیورٹی بہتر بنانے کا فرض ادا کرکے اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔
ہماری حکومت اپنی کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے ''بے معنی'' اربوں روپوں کے ترقیاتی منصوبوں کا میڈیا میں ذکر تو تواتر سے کرتے ہیں لیکن اصل اور اولین ترجیح کے متقاضی مسئلہ یعنی تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کی طرف دھیان نہیں دیتے جیسا کہ ہم نے نشان دہی کی ہے سرکاری اسکولوں کی حالت انتہائی تشویشناک ہے، دہشت گردوں کے لیے سرکاری اسکول سب سے زیادہ آسان ہدف ہیں۔
سب سے پہلے ان اسکولوں میں ہنگامی بنیادوں پر کم از کم بارہ فٹ مضبوط باؤنڈری وال اور اس پر خاردار باڑھ لگانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ان اسکولوں کے گیٹ پر دو مسلح گارڈ کا انتظام ہونا چاہیے جو کسی بھی اجنبی کو اسکول میں داخل ہونے سے روکیں، بلاشبہ کراچی میں رینجرز ممکنہ حد تک جرائم پیشہ افراد کے خلاف کامیاب کارروائیاں کررہی ہے اور آئے دن مسلح دہشت گردوں کی گرفتاریوں کی خبریں میڈیا میں گونجتی دکھائی دیتی ہیں لیکن دوکروڑ کے لگ بھگ آبادی اور ہزاروں پھیلی ہوئی بستیوں کا مکمل تحفظ نہ پولیس کی بس کی بات ہے۔
نہ رینجرز کے بس کی بات ہے، کراچی کی سیکڑوں میلوں پر پھیلی ہوئی آبادی کے تحفظ کا موثر ذریعہ سیکیورٹی اقدامات میں عوام کی شرکت ہے اور یہ کام بلدیاتی اداروں کے ذریعے ہی موثر طور پر کیا جاسکتا ہے لیکن افسوس ہی نہیں شرم کی بات ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ دو ماہ گزر جانے کے باوجود بلدیاتی نظام کو محض اپنے انتظامی اور مالی اختیارات کو بچانے کے لیے بلدیاتی اداروں کو تشکیل بنانے سے گریزاں ہے۔