دِل والا آخری حصہ
زیرِ نظرمجموعے میں چند رومانی کہانیاں بھی شامل ہیں، اگرچہ ان کا تانا بانا غمِ جہاں کےتذکرے کی آمیزش سے محفوظ نہیں رہا
زیرِ نظر مجموعے میں چند رومانی کہانیاں بھی شامل ہیں، اگرچہ ان کا تانا بانا غمِ جہاں کے تذکرے کی آمیزش سے محفوظ نہیں رہا۔ یہ دراصل ادھوری محبتوں کی کہانیاں ہیں، جو بچھڑنے والے پرندوں کی وقتی قربتوں اور ان قربتوں کے درمیان سر اٹھاتی مجبوریوں اور قربانیوں کا قصہ سناتی ہیں۔ شیر شاہ ان محبتوں میں ڈوب ڈوب کر اُبھرتے ہیں۔
لکھتے ہیں '' محبت اچھے خاصے آدمی کو زیر کر لیتی ہے۔'' تو ان رومانی کہانیوں میں محبت بہت توانا جذبہ بن کر مہکتی ہے، لیکن سب کا انجام، سب کا نصیب آنسوؤں میں بھیگا ہوا ہے۔ ساری محبوبائیں، گرونیا، گیبریلا، گائتری، کُرتی اور آیو کے دل کش چہرے شفاف آرزوؤں کے ساتھ ابھرتے ہیں، اور پھر ایک سلگتی ہوئی کسک چھوڑ کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ شاید شیر شاہ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس پراسرار کائنات میں قسم قسم کے حوادث اور عجائبات کے درمیان آدمی کا خالی ہاتھ ہی اس کا مقدر ہے۔ اسے محرومیوں کے درمیان بھٹکتے ہوئے جینا ہے۔ دل کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہوئے جینا ہے۔
شیر شاہ سید کی تصنیفات کو گننے بیٹھیں تو سانس پھولنے لگتی ہے۔ سماجی بھلائی کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، جلسوں، جلوسوں، سیمیناروں اور کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہیں، لیکن لکھنے کے لیے وقت نکال ہی لیتے ہیں۔ ان کی سطروں کے اندر لہر در لہر دھڑکتے اور چمکتے ہوئے جذبوں کو دیکھتے ہوئے مجھے خیال آتا ہے کہ لکھنا، کہانیاں لکھنا ہی ان کا سب سے بڑا Passion ہے۔ اظہار کے اس فارم کا جادو ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔
ان کا بیانیہ سادہ لیکن پرکشش ہے۔ وہ حقیقت نگار ہیں۔ اپنے کرداروں کو ابہام کی کیفیت سے دوچار نہیں کرتے۔ اُن کی تحریر معمّا نہیں بنتی۔ معمّے لکھنے کا فیشن وقتاً فوقتاً نئے نئے رنگوں میں ابھرتا ہے، پھر دم توڑ دیتا ہے۔ تجریدیت، جدیدیت، مابعد جدیدیت، ساختیت، پس ساختیت بعد اب Magic Realism (طلسمی حقیقت نگاری) کا چرچا ہے۔ نام بدل بدل کر یہ جو سارے رجحانات ہمارے سامنے سے گزر رہے ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ تحریر میں مفہوم اس قدر گنجلک اور پیچیدہ ہو، الفاظ کی پرتوں کے درمیان اس قدر ''ملفوف اور پوشیدہ'' ہو کہ ہر کوئی اپنے قیاس کے مطابق کہانی کی تشریح کرسکتا ہو۔
اس کے حامی کہتے ہیں، زمانہ بہت آگے نکل گیا ہے۔ اسلوب کے نئے زاویے تراشنے ہوں گے۔ چنانچہ وہ ایسے ایسے جنّاتی زاویے تراش رہے ہیں کہ ادب پڑھنے والوں کی تعداد معشوق کی کمر کے مانند معدوم ہوتی جارہی ہے۔ تیز ترین زندگی میں اعصاب شکن ادبی معمّوں کو پڑھنے کے لیے کس کے پاس فرصت ہوگی۔ نجانے یہ عالم فاضل لوگ کس ادب کا پرچار کر رہے ہیں۔ اسی شہر کراچی میں پرانی نسل سے زاہد حنا اور اسد محمد خان اور بعد کی نسل سے اخلاق احمد اور شیر شاہ سید جیسے توانا ادیب موجود ہیں، جن کی تحریریں تجرید اور ابہام نگاری سے محفوظ ہیں، اور پُرکشش بھی ہیں۔ جب تک ایسی تحریریں آتی رہیں گی، کچھ نہ کچھ ادب کا ذوق موجود رہے گا، ورنہ آنے والے دنوں میں بہت سے مناظر معدوم ہو جائیں گے۔
اس بیان میں شک و شبہے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ ادب عالیہ کے یہ نام نہاد نام لیوا اصرار کرتے ہیں کہ تخلیق وقت مانگتی ہے۔ یہ فوری ردعمل ظاہر کرنے کا نام نہیں ہے۔ حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ دوسروں کی چوٹ ان کے سخت دل پر اثر نہیں کرتی۔ اپنے پر آتی ہے تو فوری طور پر نوحے بھی لکھتے ہیں اور مسند نشیں صاحبان کے قصیدے بھی۔ سیلاب آتے ہیں، زلزلے آتے ہیں، شیر شاہ مصیبت زدہ لوگوں کے آنسو پونچھتے ہیں، اور اپنے دامن میں نئی کہانیوں کے تھیم سمیٹ لاتے ہیں۔
ظالمانہ اقتصادی نظام اور سرمایہ دارانہ اجارہ داری کے خلاف مغرب میں دھرنے کی تحریک شروع ہوتی ہے تو شیر شاہ کی رگوں میں دوڑتا باغی خون اس تحریک کی فتح کے خواب دیکھتا اور دکھاتا ہے۔ شیر شاہ کا قلم سوال اٹھاتا ہے کہ ''ایٹم بم تو ہے، تعلیم، روزگار اور صحت کے وسائل کہاں ہیں'' کیا یہ بے جا سوال ہے؟ تو پھر ادبِ عالیہ کے نام لیواؤں کو یہ سوال اٹھانے سے کس نے روکا ہے۔ شیر شاہ نے تو اپنا قلم سچائی کی قربان گاہ پر رکھ دیا ہے۔ وہ ہمیں یہ تک بتانے سے نہیں جھجکتے کہ انھوں نے مستقبل کے ڈاکٹروں کو میز پر نیٹ کی جگہ لاش بچھا کر ٹیبل ٹینس کھیلتے دیکھا ہے، ورنہ اچھے اچھے ''باضمیر'' ادیب بھی مجموعی طور پر ادیبوں کی بے حسی اور موقع پرستی کا اعتراف کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔
ہم نے اپنا چراغ سامنے رکھ دیا ہے، کوئی آئے اور اس کا جواب پیش کرے۔ سچائی کے اس چراغ کی لَو پر شیر شاہ سیّد کا دل رقص کر رہا ہے اسی لیے ان کی تحریکیں آئینے کی طرح دمکتی ہیں۔
تو قبلہ سیّد صاحب ''دل سیریز'' کی کتابیں لکھتے رہیے۔ ہمارا دل آپ کے دل کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ آپ نے حکم دیا، ہم حاضر ہو گئے۔ پہلی بار آپ کی تقریب میں اینڈواسکوپی سے گزر کر آئے تھے۔ اس بار گلے کا وائس باکس گنوا کر چلے آئے۔ آپ نے بلایا تو تیسری بار بھی آئینگے، اور شاید اپنی آواز میں تاثرات بیان کرینگے، بہ شرطے کہ سخت دل اور زرپرست ڈاکٹروں کی دست بُرد سے محفوظ رہے۔
خواتین و حضرات! کم ظرف لوگوں کے درمیان زندگی گزارنے والا یہ شان دار ادیب، یہ دردمند ڈاکٹر، یہ بے لوث مثالی سماجی کارکن ہم سے کچھ طلب نہیں کرتا تو کیا ہمیں اپنی بخیلی کے خول سے باہر نہیں نکلنا چاہیے؟ جس معاشرے میں ہر طرف اور ہر شعبے میں جعلی، بے ایمان، ریاکار اور خود غرض لوگ حکومت کرتے ہوں، وہاں شیر شاہ جیسے آدمی ہمارے دلوں کو روشنی سے بھر دیتے ہیں۔ زندگی، اے زندگی، تاریک دیواروں کی یلغار کے باوجود اب بھی امید کا دیا بجھا نہیں ہے، کیوں کہ شیر شاہ کے الفاظ ہمارا ہاتھ تھام لیتے ہیں، ان کی کہانیاں ہماری آنکھوں میں آنسوؤؓں کا جادو جگاتی ہیں۔
مظلوموں اور ناداروں سے ان کی چاہت ہمارے اندر اس خیال کو سیراب کرتی ہے کہ ہم مرے نہیں۔ انسان زندہ رہے گا، ہم زندگی کے درودیوار پر کالک لگانے والے، ظلم اور ناانصافی کے ہرکاروں کو کام یاب نہیں ہونے دیں گے۔ شیر شاہ ہمیں یقین کی دولت سے مالا مال کرتے ہیں۔ ہم ان کے مقروٖض ہیں۔ کراچی سے بالا کوٹ تک مظلوموں اور ناداروں سے بھری ہماری ساری گلیاں شیر شاہ سید کو سلام کرتی ہیں۔ آئیے، موقع پرست دانشوَر طبقے سے تعلق رکھنے والے، آسودہ حالی کی بھول بھلیّوں میں گزر کرنے والے، خود غرضیوں کا زہر پینے والے ہم لوگ بھی شیر شاہ سیّد کو سلام کریں، اور یہ آرزو کریں کہ ان کی غم گسار آنکھیں ہمیشہ جگمگاتی رہیں۔
(ڈاکٹر شیر شاہ سید کی کہانیوں کے مجموعے ''جو دل نکلے تو دم نکلے'' کی تعارفی تقریب میں پڑھا گیا)
لکھتے ہیں '' محبت اچھے خاصے آدمی کو زیر کر لیتی ہے۔'' تو ان رومانی کہانیوں میں محبت بہت توانا جذبہ بن کر مہکتی ہے، لیکن سب کا انجام، سب کا نصیب آنسوؤں میں بھیگا ہوا ہے۔ ساری محبوبائیں، گرونیا، گیبریلا، گائتری، کُرتی اور آیو کے دل کش چہرے شفاف آرزوؤں کے ساتھ ابھرتے ہیں، اور پھر ایک سلگتی ہوئی کسک چھوڑ کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ شاید شیر شاہ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس پراسرار کائنات میں قسم قسم کے حوادث اور عجائبات کے درمیان آدمی کا خالی ہاتھ ہی اس کا مقدر ہے۔ اسے محرومیوں کے درمیان بھٹکتے ہوئے جینا ہے۔ دل کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہوئے جینا ہے۔
شیر شاہ سید کی تصنیفات کو گننے بیٹھیں تو سانس پھولنے لگتی ہے۔ سماجی بھلائی کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، جلسوں، جلوسوں، سیمیناروں اور کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہیں، لیکن لکھنے کے لیے وقت نکال ہی لیتے ہیں۔ ان کی سطروں کے اندر لہر در لہر دھڑکتے اور چمکتے ہوئے جذبوں کو دیکھتے ہوئے مجھے خیال آتا ہے کہ لکھنا، کہانیاں لکھنا ہی ان کا سب سے بڑا Passion ہے۔ اظہار کے اس فارم کا جادو ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔
ان کا بیانیہ سادہ لیکن پرکشش ہے۔ وہ حقیقت نگار ہیں۔ اپنے کرداروں کو ابہام کی کیفیت سے دوچار نہیں کرتے۔ اُن کی تحریر معمّا نہیں بنتی۔ معمّے لکھنے کا فیشن وقتاً فوقتاً نئے نئے رنگوں میں ابھرتا ہے، پھر دم توڑ دیتا ہے۔ تجریدیت، جدیدیت، مابعد جدیدیت، ساختیت، پس ساختیت بعد اب Magic Realism (طلسمی حقیقت نگاری) کا چرچا ہے۔ نام بدل بدل کر یہ جو سارے رجحانات ہمارے سامنے سے گزر رہے ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ تحریر میں مفہوم اس قدر گنجلک اور پیچیدہ ہو، الفاظ کی پرتوں کے درمیان اس قدر ''ملفوف اور پوشیدہ'' ہو کہ ہر کوئی اپنے قیاس کے مطابق کہانی کی تشریح کرسکتا ہو۔
اس کے حامی کہتے ہیں، زمانہ بہت آگے نکل گیا ہے۔ اسلوب کے نئے زاویے تراشنے ہوں گے۔ چنانچہ وہ ایسے ایسے جنّاتی زاویے تراش رہے ہیں کہ ادب پڑھنے والوں کی تعداد معشوق کی کمر کے مانند معدوم ہوتی جارہی ہے۔ تیز ترین زندگی میں اعصاب شکن ادبی معمّوں کو پڑھنے کے لیے کس کے پاس فرصت ہوگی۔ نجانے یہ عالم فاضل لوگ کس ادب کا پرچار کر رہے ہیں۔ اسی شہر کراچی میں پرانی نسل سے زاہد حنا اور اسد محمد خان اور بعد کی نسل سے اخلاق احمد اور شیر شاہ سید جیسے توانا ادیب موجود ہیں، جن کی تحریریں تجرید اور ابہام نگاری سے محفوظ ہیں، اور پُرکشش بھی ہیں۔ جب تک ایسی تحریریں آتی رہیں گی، کچھ نہ کچھ ادب کا ذوق موجود رہے گا، ورنہ آنے والے دنوں میں بہت سے مناظر معدوم ہو جائیں گے۔
اس بیان میں شک و شبہے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ ادب عالیہ کے یہ نام نہاد نام لیوا اصرار کرتے ہیں کہ تخلیق وقت مانگتی ہے۔ یہ فوری ردعمل ظاہر کرنے کا نام نہیں ہے۔ حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ دوسروں کی چوٹ ان کے سخت دل پر اثر نہیں کرتی۔ اپنے پر آتی ہے تو فوری طور پر نوحے بھی لکھتے ہیں اور مسند نشیں صاحبان کے قصیدے بھی۔ سیلاب آتے ہیں، زلزلے آتے ہیں، شیر شاہ مصیبت زدہ لوگوں کے آنسو پونچھتے ہیں، اور اپنے دامن میں نئی کہانیوں کے تھیم سمیٹ لاتے ہیں۔
ظالمانہ اقتصادی نظام اور سرمایہ دارانہ اجارہ داری کے خلاف مغرب میں دھرنے کی تحریک شروع ہوتی ہے تو شیر شاہ کی رگوں میں دوڑتا باغی خون اس تحریک کی فتح کے خواب دیکھتا اور دکھاتا ہے۔ شیر شاہ کا قلم سوال اٹھاتا ہے کہ ''ایٹم بم تو ہے، تعلیم، روزگار اور صحت کے وسائل کہاں ہیں'' کیا یہ بے جا سوال ہے؟ تو پھر ادبِ عالیہ کے نام لیواؤں کو یہ سوال اٹھانے سے کس نے روکا ہے۔ شیر شاہ نے تو اپنا قلم سچائی کی قربان گاہ پر رکھ دیا ہے۔ وہ ہمیں یہ تک بتانے سے نہیں جھجکتے کہ انھوں نے مستقبل کے ڈاکٹروں کو میز پر نیٹ کی جگہ لاش بچھا کر ٹیبل ٹینس کھیلتے دیکھا ہے، ورنہ اچھے اچھے ''باضمیر'' ادیب بھی مجموعی طور پر ادیبوں کی بے حسی اور موقع پرستی کا اعتراف کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔
ہم نے اپنا چراغ سامنے رکھ دیا ہے، کوئی آئے اور اس کا جواب پیش کرے۔ سچائی کے اس چراغ کی لَو پر شیر شاہ سیّد کا دل رقص کر رہا ہے اسی لیے ان کی تحریکیں آئینے کی طرح دمکتی ہیں۔
تو قبلہ سیّد صاحب ''دل سیریز'' کی کتابیں لکھتے رہیے۔ ہمارا دل آپ کے دل کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ آپ نے حکم دیا، ہم حاضر ہو گئے۔ پہلی بار آپ کی تقریب میں اینڈواسکوپی سے گزر کر آئے تھے۔ اس بار گلے کا وائس باکس گنوا کر چلے آئے۔ آپ نے بلایا تو تیسری بار بھی آئینگے، اور شاید اپنی آواز میں تاثرات بیان کرینگے، بہ شرطے کہ سخت دل اور زرپرست ڈاکٹروں کی دست بُرد سے محفوظ رہے۔
خواتین و حضرات! کم ظرف لوگوں کے درمیان زندگی گزارنے والا یہ شان دار ادیب، یہ دردمند ڈاکٹر، یہ بے لوث مثالی سماجی کارکن ہم سے کچھ طلب نہیں کرتا تو کیا ہمیں اپنی بخیلی کے خول سے باہر نہیں نکلنا چاہیے؟ جس معاشرے میں ہر طرف اور ہر شعبے میں جعلی، بے ایمان، ریاکار اور خود غرض لوگ حکومت کرتے ہوں، وہاں شیر شاہ جیسے آدمی ہمارے دلوں کو روشنی سے بھر دیتے ہیں۔ زندگی، اے زندگی، تاریک دیواروں کی یلغار کے باوجود اب بھی امید کا دیا بجھا نہیں ہے، کیوں کہ شیر شاہ کے الفاظ ہمارا ہاتھ تھام لیتے ہیں، ان کی کہانیاں ہماری آنکھوں میں آنسوؤؓں کا جادو جگاتی ہیں۔
مظلوموں اور ناداروں سے ان کی چاہت ہمارے اندر اس خیال کو سیراب کرتی ہے کہ ہم مرے نہیں۔ انسان زندہ رہے گا، ہم زندگی کے درودیوار پر کالک لگانے والے، ظلم اور ناانصافی کے ہرکاروں کو کام یاب نہیں ہونے دیں گے۔ شیر شاہ ہمیں یقین کی دولت سے مالا مال کرتے ہیں۔ ہم ان کے مقروٖض ہیں۔ کراچی سے بالا کوٹ تک مظلوموں اور ناداروں سے بھری ہماری ساری گلیاں شیر شاہ سید کو سلام کرتی ہیں۔ آئیے، موقع پرست دانشوَر طبقے سے تعلق رکھنے والے، آسودہ حالی کی بھول بھلیّوں میں گزر کرنے والے، خود غرضیوں کا زہر پینے والے ہم لوگ بھی شیر شاہ سیّد کو سلام کریں، اور یہ آرزو کریں کہ ان کی غم گسار آنکھیں ہمیشہ جگمگاتی رہیں۔
(ڈاکٹر شیر شاہ سید کی کہانیوں کے مجموعے ''جو دل نکلے تو دم نکلے'' کی تعارفی تقریب میں پڑھا گیا)