لمس کی نفسیات
مظاہر فطرت کا خارجی ارتعاش انسانی ذہن و روح پر اپنے خاص اثرات مرتب کرتا ہے
مظاہر فطرت کا خارجی ارتعاش انسانی ذہن و روح پر اپنے خاص اثرات مرتب کرتا ہے۔ درخت، مٹی، آگ، پانی، نباتات اور دھاتوں کا الگ کیمیائی اثر ہے۔ حواس خمسہ ان کی فطری توانائی سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ بہت سی اشیا کے ساتھ براہ راست، انسانی رابطہ چھونے کی حس کے توسط سے ممکن ہو پاتا ہے۔ یوں اشیا کا متحرک بہاؤ ہمارے وجود میں منتقل ہو جاتا ہے۔
قدیم زمانے سے قیمتی پتھروں اور مختلف دھاتوں سے بنے زیورات استعمال کیے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جن کا لمس، قسمت اور سوچ کے زاویے بدل دیتا ہے۔ فطرت کے پانچ عناصر انسانی جسم میں بھی پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر سورج کو انسانی روح سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ چاند کو ذہن سے۔ مریخ ایک طرف ثابت قدمی کی علامت ہے تو عطارد آواز کا ترجمان، وینس محبت اور زحل سنجیدگی، غور و فکر کا اظہار سمجھے جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ قیمتی پتھر تابکاری اثر کے تحت متعلقہ عناصر کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ جس کے ساتھ ان کا لمس برقی رو پیدا کر کے مطلوبہ نتائج برآمد کرتا ہے۔
بالکل اسی طرح ہماری سوچ کا انداز اردگرد کے ماحول پر اثر انداز ہوتا ہے۔ برے الفاظ منفی کیمیائی اثر جسم میں برپا کر دیتے ہیں، جب کہ مثبت لفظ اچھا اثر۔ غلط سوچ جسم کے ارد گرد منفی دائرہ قائم کر دیتی ہے۔ یہ اچھے احساس اور توانائی کا راستہ روک دیتے ہیں۔ جب کہ مثبت سوچ روشنی کا ہالہ بن جاتی ہے۔ یہ توانائی، رواں دواں اور زندگی سے بھرپور ہے۔ یہ لوگ گفتگو اور لمس کے ذریعے یہ قوت دوسروں میں منتقل کر دیتے ہیں۔
اگر انسان کی زندگی میں زیادہ الجھنیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ منفی لوگوں کے قریب ہے۔
لمس کی نفسیات کے مطابق، یہ محبت کو مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ لمس سے تحفظ کے جذبات جڑے ہوئے ہیں۔ تعلق کی ایک ایسی روشنی، جو بچے کے ساتھ ہر عمر میں سفر کرتی ہے۔ ماں کا لمس تکلیف سے روتے ہوئے بچے کو خاموش کرا دیتا ہے۔ جو بچے ماں کے لمس کے قریب تر ہوتے ہیں وہ زیادہ پر اعتماد، مثبت سوچ رکھنے والے اور فعال ثابت ہوتے ہیں۔ والدین کے لمس سے بچوں میں ٹھہراؤ پیدا ہوتا ہے۔ ڈبے کے دودھ پر پلنے والے بچے لاتعلق، غیر سماجی اور ذہنی طور پر چوکنا نہیں ہوتے جتنا ماں کے دودھ سے فیضیاب ہونے والے۔
اگر دیکھا جائے تو سائنسی طور پر لمس کی وضاحت اہمیت کی حامل ہے۔ مثال لمس سے Oxytocin ہارمونز پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو متحرک و فعال رکھتے ہیں۔ قربت کے احساس سے ان میں اضافہ ہوتا ہے۔ لہٰذا انھیں Cuddle Hormone بھی کہا جاتا ہے۔ کسی بھی پالتو جانور کو سہلانے سے انسان کے اندر یہ کیمیائی عمل شروع ہو جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں لوگ جانور اور پرندے پالتے ہیں۔ ان پالتو جانوروں کا لمس مالکوں کو زندہ دل، فعال اور پرامید رکھتا ہے۔ یہ کیمیائی عمل انسان کی جذباتی زندگی کو تحرک عطا کرتا ہے۔ سماجی رابطے ہوں، والدین سے خوشگوار تعلق یا زندگی کی گرمجوشی ان ہارمونز کا پھلنا پھولنا بہت ضروری سمجھا جاتا ہے۔
روزمرہ زندگی میں دوستوں و قریبی عزیزوں سے ہاتھ ملانا یا گلے ملنا اس کیمیائی عمل کو تیز تر کر دیتا ہے۔ یہ لمس فریقین میں یقین کا احساس بھی پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا سماجی زندگی میں ملنے کے یہ طریقے سائنسی و نفسیاتی طور پر صحت بخش اور مزید اپنائیت پیدا کرنے والے سمجھے جاتے ہیں۔ جن کی وجہ سے تشویش، سماجی اضطراب، مزاج کے اتار چڑھاؤ یا ذہنی دباؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔
ریکی ایک ایسا طرز علاج ہے، جو لمس کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ جب ریکی کے ماہر اپنے ہاتھ مریض کے جسم پر رکھتے ہیں تو یہ ہارمونز بڑھ جاتے ہیں۔ جو نہ فقط تیزی سے زخموں کو مندمل کرتے ہیں بلکہ درد میں کمی کر دیتے ہیں۔ یہ لمس کی طاقت ہے جو طبیعت میں بہتری لے کر آتی ہے لمس کے طبعی و روحانی دونوں حوالے ہیں، جو یہ ماہرین مریضوں پر اپلائی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مثبت توانائی کا محرک لمس شفا بخش کہلاتا ہے۔
جھوٹ، غصے و نفرت سے دور ہر شخص اپنی ذات میں مضبوط اور متحد کہلاتا ہے۔ ایسے لوگوں کا لمس افادیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ مصافحہ کرتے وقت مثبت توانائی تو کبھی منفی لہریں ہمارے جسم میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ کچھ لوگ انرجی ویمپائرز ہوتے ہیں۔ جو مصافحہ کرتے یا گلے ملتے وقت ہماری توانائی جسموں سے کھینچ کے ہمیں بے جان کر جاتے ہیں۔ طبعی توانائی کی یہ چوری غیر محسوس طریقے سے کی جاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ منفی لہروں میں ایک ایسی قوت پائی جاتی ہے، جو اپنے اندر حاوی ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
کسی حد تک ہاتھ کی گرفت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مدمقابل شخص کی ذہنی و جسمانی صحت کس قدر فعال ہے۔ کمزور گرفت اور لرزتا ہاتھ طبعی و ذہنی پیچیدگیوں کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ آپ اگر لمس کی نفسیات جانتے ہیں تو یہ اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے کہ مصافحہ کرنے والا شخص آپ کا دوست ہے کہ دشمن۔ کس قدر مخلص ہے یا کیا مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ماہرین اس حوالے سے چند احتیاطی تدابیر بتاتے ہیں۔
جیسے سنہری روشنی کا تصور، مجمع میں زیادہ تر بیٹھنے سے گریز، نمک کے پانی کا غسل، منفی صحبت کو ترک کر دینا، مراقبہ، عبادت، فلاحی و تعمیری کاموں میں حصہ لینا وغیرہ شامل ہے مرد اور عورت اس لفظ کو الگ تناظر میں دیکھتے ہیں۔ مرد کے لیے یہ لفظ محض ضرورت، جسمانی کشش و قربت تک محدود ہو سکتا ہے، مگر عورت کے لیے یہ احساس کی ایک مکمل کائنات ہے۔ لمس میں اگر قربت، احساس اور اپنائیت نہ ہو تو وہ بے معنی بن جاتا ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق جہاں بہت سے لوگ جمع ہو کر بیٹھتے ہیں اور ان لوگوں کی اکثریت منفی سوچ کی حامل ہوتی ہے تو وہاں موجود غیر صحت بخش لہریں ذہنوں کو الجھا دیتی ہیں۔ علاوہ ازیں یہ تخریب کاری پر مبنی خیالات انسانی صحت کو بھی بے حد متاثر کرتے ہیں۔ حساس، زود رنج اور کم مدافعتی نظام رکھنے والے افراد ان بری موجوں کی زد میں زیادہ آ جاتے ہیں۔
غلط قسم کی سوچ، محسوس کرنے والے افراد کو اندر سے توڑ کے رکھ دیتی ہے۔ بالکل اسی طرح برے الفاظ، غیبت اور شکایتی رویے سننے والے غیر متعلقہ لوگوں کو بھی شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوچ کے زہر سے متاثرہ لمس بھی وبائی بیماری سے کم تباہ کن ثابت نہیں ہوتا۔
قدیم زمانے سے قیمتی پتھروں اور مختلف دھاتوں سے بنے زیورات استعمال کیے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جن کا لمس، قسمت اور سوچ کے زاویے بدل دیتا ہے۔ فطرت کے پانچ عناصر انسانی جسم میں بھی پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر سورج کو انسانی روح سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ چاند کو ذہن سے۔ مریخ ایک طرف ثابت قدمی کی علامت ہے تو عطارد آواز کا ترجمان، وینس محبت اور زحل سنجیدگی، غور و فکر کا اظہار سمجھے جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ قیمتی پتھر تابکاری اثر کے تحت متعلقہ عناصر کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ جس کے ساتھ ان کا لمس برقی رو پیدا کر کے مطلوبہ نتائج برآمد کرتا ہے۔
بالکل اسی طرح ہماری سوچ کا انداز اردگرد کے ماحول پر اثر انداز ہوتا ہے۔ برے الفاظ منفی کیمیائی اثر جسم میں برپا کر دیتے ہیں، جب کہ مثبت لفظ اچھا اثر۔ غلط سوچ جسم کے ارد گرد منفی دائرہ قائم کر دیتی ہے۔ یہ اچھے احساس اور توانائی کا راستہ روک دیتے ہیں۔ جب کہ مثبت سوچ روشنی کا ہالہ بن جاتی ہے۔ یہ توانائی، رواں دواں اور زندگی سے بھرپور ہے۔ یہ لوگ گفتگو اور لمس کے ذریعے یہ قوت دوسروں میں منتقل کر دیتے ہیں۔
اگر انسان کی زندگی میں زیادہ الجھنیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ منفی لوگوں کے قریب ہے۔
لمس کی نفسیات کے مطابق، یہ محبت کو مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ لمس سے تحفظ کے جذبات جڑے ہوئے ہیں۔ تعلق کی ایک ایسی روشنی، جو بچے کے ساتھ ہر عمر میں سفر کرتی ہے۔ ماں کا لمس تکلیف سے روتے ہوئے بچے کو خاموش کرا دیتا ہے۔ جو بچے ماں کے لمس کے قریب تر ہوتے ہیں وہ زیادہ پر اعتماد، مثبت سوچ رکھنے والے اور فعال ثابت ہوتے ہیں۔ والدین کے لمس سے بچوں میں ٹھہراؤ پیدا ہوتا ہے۔ ڈبے کے دودھ پر پلنے والے بچے لاتعلق، غیر سماجی اور ذہنی طور پر چوکنا نہیں ہوتے جتنا ماں کے دودھ سے فیضیاب ہونے والے۔
اگر دیکھا جائے تو سائنسی طور پر لمس کی وضاحت اہمیت کی حامل ہے۔ مثال لمس سے Oxytocin ہارمونز پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو متحرک و فعال رکھتے ہیں۔ قربت کے احساس سے ان میں اضافہ ہوتا ہے۔ لہٰذا انھیں Cuddle Hormone بھی کہا جاتا ہے۔ کسی بھی پالتو جانور کو سہلانے سے انسان کے اندر یہ کیمیائی عمل شروع ہو جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں لوگ جانور اور پرندے پالتے ہیں۔ ان پالتو جانوروں کا لمس مالکوں کو زندہ دل، فعال اور پرامید رکھتا ہے۔ یہ کیمیائی عمل انسان کی جذباتی زندگی کو تحرک عطا کرتا ہے۔ سماجی رابطے ہوں، والدین سے خوشگوار تعلق یا زندگی کی گرمجوشی ان ہارمونز کا پھلنا پھولنا بہت ضروری سمجھا جاتا ہے۔
روزمرہ زندگی میں دوستوں و قریبی عزیزوں سے ہاتھ ملانا یا گلے ملنا اس کیمیائی عمل کو تیز تر کر دیتا ہے۔ یہ لمس فریقین میں یقین کا احساس بھی پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا سماجی زندگی میں ملنے کے یہ طریقے سائنسی و نفسیاتی طور پر صحت بخش اور مزید اپنائیت پیدا کرنے والے سمجھے جاتے ہیں۔ جن کی وجہ سے تشویش، سماجی اضطراب، مزاج کے اتار چڑھاؤ یا ذہنی دباؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔
ریکی ایک ایسا طرز علاج ہے، جو لمس کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ جب ریکی کے ماہر اپنے ہاتھ مریض کے جسم پر رکھتے ہیں تو یہ ہارمونز بڑھ جاتے ہیں۔ جو نہ فقط تیزی سے زخموں کو مندمل کرتے ہیں بلکہ درد میں کمی کر دیتے ہیں۔ یہ لمس کی طاقت ہے جو طبیعت میں بہتری لے کر آتی ہے لمس کے طبعی و روحانی دونوں حوالے ہیں، جو یہ ماہرین مریضوں پر اپلائی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مثبت توانائی کا محرک لمس شفا بخش کہلاتا ہے۔
جھوٹ، غصے و نفرت سے دور ہر شخص اپنی ذات میں مضبوط اور متحد کہلاتا ہے۔ ایسے لوگوں کا لمس افادیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ مصافحہ کرتے وقت مثبت توانائی تو کبھی منفی لہریں ہمارے جسم میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ کچھ لوگ انرجی ویمپائرز ہوتے ہیں۔ جو مصافحہ کرتے یا گلے ملتے وقت ہماری توانائی جسموں سے کھینچ کے ہمیں بے جان کر جاتے ہیں۔ طبعی توانائی کی یہ چوری غیر محسوس طریقے سے کی جاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ منفی لہروں میں ایک ایسی قوت پائی جاتی ہے، جو اپنے اندر حاوی ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
کسی حد تک ہاتھ کی گرفت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مدمقابل شخص کی ذہنی و جسمانی صحت کس قدر فعال ہے۔ کمزور گرفت اور لرزتا ہاتھ طبعی و ذہنی پیچیدگیوں کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ آپ اگر لمس کی نفسیات جانتے ہیں تو یہ اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے کہ مصافحہ کرنے والا شخص آپ کا دوست ہے کہ دشمن۔ کس قدر مخلص ہے یا کیا مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ماہرین اس حوالے سے چند احتیاطی تدابیر بتاتے ہیں۔
جیسے سنہری روشنی کا تصور، مجمع میں زیادہ تر بیٹھنے سے گریز، نمک کے پانی کا غسل، منفی صحبت کو ترک کر دینا، مراقبہ، عبادت، فلاحی و تعمیری کاموں میں حصہ لینا وغیرہ شامل ہے مرد اور عورت اس لفظ کو الگ تناظر میں دیکھتے ہیں۔ مرد کے لیے یہ لفظ محض ضرورت، جسمانی کشش و قربت تک محدود ہو سکتا ہے، مگر عورت کے لیے یہ احساس کی ایک مکمل کائنات ہے۔ لمس میں اگر قربت، احساس اور اپنائیت نہ ہو تو وہ بے معنی بن جاتا ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق جہاں بہت سے لوگ جمع ہو کر بیٹھتے ہیں اور ان لوگوں کی اکثریت منفی سوچ کی حامل ہوتی ہے تو وہاں موجود غیر صحت بخش لہریں ذہنوں کو الجھا دیتی ہیں۔ علاوہ ازیں یہ تخریب کاری پر مبنی خیالات انسانی صحت کو بھی بے حد متاثر کرتے ہیں۔ حساس، زود رنج اور کم مدافعتی نظام رکھنے والے افراد ان بری موجوں کی زد میں زیادہ آ جاتے ہیں۔
غلط قسم کی سوچ، محسوس کرنے والے افراد کو اندر سے توڑ کے رکھ دیتی ہے۔ بالکل اسی طرح برے الفاظ، غیبت اور شکایتی رویے سننے والے غیر متعلقہ لوگوں کو بھی شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوچ کے زہر سے متاثرہ لمس بھی وبائی بیماری سے کم تباہ کن ثابت نہیں ہوتا۔