انسان بے بس ہے

اس کی انا ایک بچے کی طرح پھولتی ہے پھر غبارہ پھٹ جاتا ہے اور وہ عاجز بے بس ہو کر اس کھیل سے محروم ہو جاتا ہے


شاہین رحمن February 11, 2016

GILGIT: انسان بے بس ہے، بے بسی یہ ہے کہ وہ انسان ہے۔ انسان اپنے آپ میں، اپنی تخلیق میں، اپنی فطرت میں ، اپنی استعداد میں اپنے اعضا و جوارح میں اپنے قویٰ میں اپنے ظاہر میں اور اپنے باطن میں اپنے حاصل اور اپنی محرومی میں اپنی خوشی اور اپنے غم میں اپنے ارادوں اور اپنی تمناؤں میں اپنے مشاغل اور اپنی مصروفیت میں اپنے احباب و اغیار میں غرض یہ کہ اپنی تمام حرکات و سکنات میں عاجز و ناتواں ہے۔

انسان کا ہونا اس کے نہ ہونے تک ہے، اس کا حاصل لاحاصل تک ہے اس کی آرزوئیں، شکست آرزو تک، خون آرزو تک، اس کی توانائی و صحت بیماری تک اور اس کی ساری تگ و دو اس کے اپنے مرقد تک اس کی بلند پروازی اس کی واپسی تک اس کا ہر تخیل عروج و خیال اس کے زوال تک ہی ہے۔

اس کی انا ایک بچے کی طرح پھولتی ہے پھر غبارہ پھٹ جاتا ہے اور وہ عاجز بے بس ہو کر اس کھیل سے محروم ہو جاتا ہے۔ انسان علم حاصل کرتا ہے خود کو دوام بخشنے کے لیے وہ لائبریری میں داخل ہوتا ہے اس کے پاس گنتی کے ایام ہیں اور کتابیں ان گنت۔ اس کا معلوم محدود رہتا ہے اور لامعلوم لامحدود۔ وہ تیزی سے علوم چاٹتا ہے اور فنا اس کی زندگی کو چاٹتی ہے اور انجام کار اس کا انجام، مکمل بے بسی مکمل، مکمل عاجزی۔

انسان عروج چاہتا ہے۔ بلندی چاہتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر ایک اور پہاڑ رکھتا ہے۔ پھر اس کی چوٹی پر ایک اور پہاڑ رکھتا ہے اور بالآخر یہ سلسلہ چلتے چلتے اس نہج تک آ پہنچتا ہے جب اس کے سر کیے ہوئے پہاڑ کی سب چوٹیاں دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ وہ افسوس کرتا ہے اس کے پاس افسوس کا وقت نہیں ہوتا۔ وہ سوچتا ہے اور سوچ کر عاجز ہو جاتا ہے کہ اس سے کیا چاہیے تھا، اس نے کیا پایا، اس کے ہاتھ آنے والی چیز اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور وہ اپنے حاصل سے نکل جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

وہ مکان بناتا ہے۔ خوبصورت دیدہ زیب آسائش و زیبائش و نمائش والا مکان اس کا اپنا مکان اس کے حسن خیال کا شاہکار۔ اس کا مکان خوشیوں سے جگمگاتا اور پھر یہی عشرت کدہ ماتم کدہ بننا شروع ہوتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ اس نے کیا بنایا۔ اس کا افتخار انجام کار بے بسی میں خاموش ہو جاتا ہے۔

انسان صحت کی حفاظت کرتا ہے۔ خوراک کا اہتمام کرتا ہے بڑے جشن کرتا ہے وہ طویل عمر چاہتا ہے اور طویل عمر، نقص عمر سے دوچار ہوتی ہے، زندگی قائم بھی رہے تو بینائی قائم نہیں رہتی سماعت ختم ہو جاتی ہے اور پھر یادداشت کسی صدمے کا شکار ہو جاتی ہے۔ وہ زندہ رہتا ہے۔ زندگی کے لطف سے محروم۔ وہ نہ بھی مرے تو اس کے عزیز اس کے اقربا اس کے محبوب رخصت ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اپنی زندگی میں خود کو اپنی نظروں میں بیگانہ سمجھنے لگتا ہے۔

اس کے پاس یادوں کا کوئی شریک نہیں رہتا اور پھر یہ یادیں بھول جاتی ہیں، اس کی پھیلی ہوئی کائنات سمٹ جاتی ہے۔ وہ ہجوم میں تنہا رہ جاتا ہے۔ اس کا سب غرور عاجز و بے بس ہو جاتا ہے، اس کا اپنا مکان اسے نکال باہر کر دیتا ہے اور کچھ عرصے بعد اس کی تصویریں دیواروں اور البم سے ہٹا لی جاتی ہیں اور کسی کو یاد نہیں رہتا کہ وہ تھا بھی کہ نہیں۔

انسان سفر کرتا ہے فاصلے طے کرتا ہے، محدود زندگی میں لامحدود فاصلے کیسے طے ہوں۔ زمین و آسمان کا عظیم سلسلہ فاصلوں سے بھرا ہوا ہے۔ فاصلے ہی فاصلے راستے ہی راستے ہیں۔ مسافرت ہی مسافرت ہے لاکھوں میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلنے والی روشنی یہ فاصلے کروڑوں سال میں طے نہیں کر سکی۔ انسان کیسے طے کرے گا انسان کے پاس عاجزی اور بے بسی کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔ انسان دولت اکٹھی کرتا ہے، مال جمع کرتا ہے اسے گنتا ہے گن کر خوش ہوتا ہے، فخرکرتا ہے کہ اس کے پاس مال ہے۔

اسے جب معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں قارون اور فرعون گزر گئے۔ مال نے کسی کی مدد نہیں کی، زمین میں اتنا مال ہے کہ بس خدا کی پناہ، کوئی کیا حاصل کرے گا ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھنے سے انسان کو کیا ملے گا؟

اس کے بینک بھرے رہتے ہیں اور دل خالی رہتا ہے، متاع جاں قلیل ہے۔ جوں جوں مال بڑھتا ہے مال کی ہوس بھی بڑھتی ہے اور انسان اپنی دولت کو ضرورت سے کم سمجھتا ہے وہ امیری کو غریبی کے ڈر سے بچا نہیں سکتا، اگر خواہش حاصل سے زیادہ ہو تو انسان خود کو غریب سمجھتا ہے۔ خواہشات کا بے ہنگم پھیلاؤ آخرکار انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے وہ اپنے ہی جال میں پھنس کر رہ جاتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ خواہشات بدلتی رہتی ہیں، مرتی رہتی ہیں۔ پیدا ہوتی رہتی ہیں۔

اس کھیل کا نتیجہ لازمی نتیجہ بے بسی ہے، عاجزی ہے، انسان کو اس کی تمنائیں عاجز کر دیتی ہیں وہ مجبور ہو جاتا ہے ہر نئی شے کی محبت میں گرفتار ہونا اس کا مقدر ہے، نئے مکان، نئے ماڈل کی کار، نئے تقاضے پورے کرتے کرتے انسان پرانا انسان بے بس و عاجز ہو کر رہ جاتا ہے وہ انجام کار دیکھتا ہے کہ اس کا پھیلاؤ سمٹ گیا۔ اس کی دنیا محدود اس کے راستے محدود ہو گئے، اس کے ارادے ٹوٹ گئے اس کی اسکیمیں نامکمل رہیں، اس کے پروگرام ادھورے رہ گئے۔

اس کے خواب پریشان ہو گئے۔ اس کے خیال کے اڑن کھٹولے ہچکولے کھاتے ہوئے زمین پر آ گرے زندگی میں اتنی مہلت نہیں ملتی کہ انسان اس کو دوبارہ شروع کر سکے جو ہو گیا سو ہو گیا، ہونی انہونی نہیں ہو سکتی، غرور سرنگوں ہو جاتا ہے۔ زور آور کمزور ہو جاتے ہیں اور میخیں مٹی میں مل جاتی ہیں۔ 25 جنوری کو میرے والد کا انتقال ہو گیا ان کے لیے فاتحہ خوانی کر دیں۔ اللہ آپ سب کے درجات بلند کرے۔ (آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔