باتیں کروڑوں کی اور دکان پکوڑوں کی
آفریدی صاحب، اگرآپکی یہی پلاننگ تھی توکاش آپ کوئی پلاننگ کرتے ہی نہیں، اس صورت میں زیادہ بہترٹیم کا چناؤ ہوسکتا تھا
اگر آپ کا گلی، محلے میں کبھی اُٹھنا بیٹھنا رہا ہے تو وہاں اکثر ایک محاورے بار بار سننے کا اتفاق ہوا ہوگا، اگرچہ وہ اِس قدر فخریہ تو نہیں کہ یہاں لکھا جائے، لیکن ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لئے گزشتہ روز پاکستان کرکٹ ٹیم کے اسکواڈ کے اعلان کے بعد نا جانے کیوں مجھے بار بار وہ محاورہ یاد آرہا ہے، اِس لئے بات سمجھانے کے لئے بادل نخواستہ مجھے وہ محاورہ یہاں لکھنا پڑے گا، اور وہ محاورہ ہے ''باتیں کروڑوں کی اور دکان پکوڑوں کی''۔
اگر آپ کی یادداشت اچھی ہے تو یقیناً آپ عزت مآب محترم جناب شاہد آفریدی صاحب کے بیانات کو نہیں بھول سکتے، جس میں وہ متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ اُن کے نزدیک اصل ہدف ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہے، جس کے لئے کھلاڑیوں کو اکھٹا کیا جارہا ہے، اور کھلاڑیوں کا ایک ایسا گروپ بنایا جارہا ہے جن کو انٹرنیشنل کرکٹ میں موقع دیکر نہ صرف آزمایا جائے گا، بلکہ اُن کو مسلسل کِھلا کر وہ اعتماد بھی فراہم کیا جائے گا جو میگا ایونٹ کے لئے ضروری ہے۔
یقیناً مستقبل کی بہتری کے حوالے سے سوچ کو سراہنا چاہیئے، لیکن کمال دیکھیے کہ جن لڑکوں کو گذشتہ ایک برس سے ٹیم کے ساتھ رکھا گیا، اُن کو یکدم اہم ترین ایونٹ کے لئے باہر کردیا گیا، اور جن کو کبھی گھاس تک نہ ڈالی گئی اُن کو ناجانے کیا سوچ کر ٹیم کا حصہ بنادیا گیا۔
دیکھیے، نہ احمد شہزاد میری پھوپھی کا بیٹا ہے اور نہ خرم منظور سے میری کوئی لڑائی ہے، بات کہنے کی یہ ہے کہ احمد شہزاد کی کارکردگی آج سے خراب نہیں ہے، بلکہ وہ کبھی اُس معیار پر اُترے ہی نہیں جس کے بارے میں اُن سے اُمید کی جارہی تھی، بس یہ تو آفریدی بھائی کا کمال تھا کہ ہر طرف سے ہونے والی مخالفت کے باوجود اُنہوں نے احمد شہزاد کے لیے ٹیم میں کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی جگہ نکال ہی لی۔ ویسے قارئین دونوں کی دوستی کے بارے میں آگاہ تو ہیں ناں؟ اگر نہیں ہیں تو کچھ تصویریں پیش کی جارہی ہیں، اُن کو دیکھ کر اندازہ ہوجائے گا کہ دونوں کس قدر قریبی دوست ہیں، یا بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ شاید تھے۔
یہ گزشتہ ماہ دورہ نیوزی لینڈ کی ہی بات ہے جب پاکستان کو ایک اور مزید ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد شاہد آفریدی سیخ پا ہوکر پاکستان پہنچے، اور پہنچتے ہی احمد شہزاد اور عمر اکمل کے بارے میں اچانک حیران کن بیان دیکر ایک بار پھر خبروں کی زینت بن گئے۔ بیان کچھ یوں تھا کہ،
حالانکہ جو بات اُنہوں نے میڈیا پر کہی، وہ یہ بات دونوں کھلاڑیوں سے اکیلے میں بھی کرسکتے تھے لیکن بھرے بازار میں برتن توڑے گئے، جس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ آتی ہے کہ بات اِتنی سیدھی بھی نہیں جتنی نظر آرہی ہے۔ ویسے یہ الگ بات ہے کہ آفریدی بھی اُن خوش نصیبوں میں شامل ہیں جن کو ضرورت سے زیادہ موقع ملا، لیکن ہم یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ بھلا وہ اپنا نام کیسے لے سکتے تھے۔
شاہد آفریدی کے حوالے سے ایک بات پر تو اُن کے دشمن بھی اتفاق کریں گے کہ وہ ایک نڈر آدمی ہیں، جو بات ہوتی ہے وہ کہتے ہیں، غلط کو ماننے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتے، اور ٹیم کے انتخاب میں اُن کی رائے بہت ہی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اِس لئے یہ ممکن نہیں کہ جس ٹیم کا انتخاب ہوا ہے اُس میں اُن کا حصہ نہیں ہو۔ اِس لیے ٹیم سلیکشن کے ساتھ ساتھ آفریدی صاحب سے بھی یہ گھٹیا سوال پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ اگر آپ گزشتہ ایک برس سے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لئے تیاری کررہے ہیں تو پھر خرم منظور پر نظر کیوں نہیں گئی، رومان رئیس جو کراچی سے ہی کھیلتے ہیں، اُن پر نظر کیوں نہیں گئی، افتخار احمد بھی ڈومیسٹک کرکٹ کھیل رہے ہیں، اُن پر نظر کیوں نہیں گئی؟ اور جن پر نظر تھی (احمد شہزاد) تو عین وقت پر اُن سے نظر کیوں ہٹ گئی؟ کیا یہ سب پلاننگ کا حصہ تھا؟ اگر آپ کی یہی پلاننگ تھی، تو کاش آپ کوئی پلاننگ کرتے ہی نہیں، اُس صورت میں زیادہ بہتر ٹیم کا چناؤ ہوسکتا تھا۔
اگر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاکستان کی ایک سال کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو لفظ شکست سے بہت اپنائیت ہوگئی ہے۔ اپریل 2015ء میں بنگلہ دیش کے خلاف ایک روزہ سیریز میں کلین سوئپ کے بعد واحد ٹی ٹوئنٹی میں بھی 7 وکٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، پھر زمبابوے کے تاریخی دورہ پاکستان پر پاکستان کو دو صفر سے کامیابی نصیب ہوئی۔ اِس کے بعد جولائی اور اگست میں دورہ سری لنکا پاکستان کے لیے ہر ہر حوالے سے یادگار رہا، جہاں پاکستان نے تینوں طرز کی سیریز میں کامیابی سمیٹی۔ پاکستان نے زمبابوے کا دورہ کیا اور وہاں بھی دو صفر سے کامیابی حاصل کی۔ لیکن اِس سیریز کے بعد پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں فتح کا ذائقہ نصیب نہیں ہوا۔ نومبر میں متحدہ عرب امارات میں انگلستان نے تین صفر سے ہرایا تو جنوری میں نیوزی لینڈ نے دو، ایک سے شکست دی۔ یعنی اگر زمبابوے کو ہٹادیا جائے تو پاکستان کو پچھلے ایک سال میں صرف سری لنکا سے فتح نصیب ہوئی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان رینکنگ میں دوسرے نمبر سے اب ماشاءاللہ سے آٹھویں نمبر پر آگیا ہے۔
میں ایک بار پھر یاد کروادوں کہ اِس پورے عرصے قومی ٹیم کی باگ ڈور آفریدی صاحب کے کاندھوں پر ہی تھی، جی جی وہی آفریدی جو گزشتہ ایک سال سے ورلڈ کپ کی تیاری میں مصروف تھے۔ بحثیت پاکستانی، میری اِس سے بڑھ کر خواہش کیا ہوسکتی ہے کہ پاکستان میگا ایونٹ میں کامیابی حاصل کرے، لیکن جس تیاری اور کھلاڑیوں کے ساتھ قومی ٹیم محاذ پر جارہی ہے کیا فتح کا خواب، دیوانے کے خواب کے مترادف نہیں ہوگا؟
[poll id="948"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
اگر آپ کی یادداشت اچھی ہے تو یقیناً آپ عزت مآب محترم جناب شاہد آفریدی صاحب کے بیانات کو نہیں بھول سکتے، جس میں وہ متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ اُن کے نزدیک اصل ہدف ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہے، جس کے لئے کھلاڑیوں کو اکھٹا کیا جارہا ہے، اور کھلاڑیوں کا ایک ایسا گروپ بنایا جارہا ہے جن کو انٹرنیشنل کرکٹ میں موقع دیکر نہ صرف آزمایا جائے گا، بلکہ اُن کو مسلسل کِھلا کر وہ اعتماد بھی فراہم کیا جائے گا جو میگا ایونٹ کے لئے ضروری ہے۔
یقیناً مستقبل کی بہتری کے حوالے سے سوچ کو سراہنا چاہیئے، لیکن کمال دیکھیے کہ جن لڑکوں کو گذشتہ ایک برس سے ٹیم کے ساتھ رکھا گیا، اُن کو یکدم اہم ترین ایونٹ کے لئے باہر کردیا گیا، اور جن کو کبھی گھاس تک نہ ڈالی گئی اُن کو ناجانے کیا سوچ کر ٹیم کا حصہ بنادیا گیا۔
دیکھیے، نہ احمد شہزاد میری پھوپھی کا بیٹا ہے اور نہ خرم منظور سے میری کوئی لڑائی ہے، بات کہنے کی یہ ہے کہ احمد شہزاد کی کارکردگی آج سے خراب نہیں ہے، بلکہ وہ کبھی اُس معیار پر اُترے ہی نہیں جس کے بارے میں اُن سے اُمید کی جارہی تھی، بس یہ تو آفریدی بھائی کا کمال تھا کہ ہر طرف سے ہونے والی مخالفت کے باوجود اُنہوں نے احمد شہزاد کے لیے ٹیم میں کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی جگہ نکال ہی لی۔ ویسے قارئین دونوں کی دوستی کے بارے میں آگاہ تو ہیں ناں؟ اگر نہیں ہیں تو کچھ تصویریں پیش کی جارہی ہیں، اُن کو دیکھ کر اندازہ ہوجائے گا کہ دونوں کس قدر قریبی دوست ہیں، یا بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ شاید تھے۔
یہ گزشتہ ماہ دورہ نیوزی لینڈ کی ہی بات ہے جب پاکستان کو ایک اور مزید ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد شاہد آفریدی سیخ پا ہوکر پاکستان پہنچے، اور پہنچتے ہی احمد شہزاد اور عمر اکمل کے بارے میں اچانک حیران کن بیان دیکر ایک بار پھر خبروں کی زینت بن گئے۔ بیان کچھ یوں تھا کہ،
''احمد شہزاد اور عمر اکمل کو اپنی کارکردگی پر غور کرنا چاہیئے، اِن دونوں کو جتنا موقع ملا اُتنا کم ہی لوگوں کو ملتا ہے''۔
حالانکہ جو بات اُنہوں نے میڈیا پر کہی، وہ یہ بات دونوں کھلاڑیوں سے اکیلے میں بھی کرسکتے تھے لیکن بھرے بازار میں برتن توڑے گئے، جس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ آتی ہے کہ بات اِتنی سیدھی بھی نہیں جتنی نظر آرہی ہے۔ ویسے یہ الگ بات ہے کہ آفریدی بھی اُن خوش نصیبوں میں شامل ہیں جن کو ضرورت سے زیادہ موقع ملا، لیکن ہم یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ بھلا وہ اپنا نام کیسے لے سکتے تھے۔
شاہد آفریدی کے حوالے سے ایک بات پر تو اُن کے دشمن بھی اتفاق کریں گے کہ وہ ایک نڈر آدمی ہیں، جو بات ہوتی ہے وہ کہتے ہیں، غلط کو ماننے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتے، اور ٹیم کے انتخاب میں اُن کی رائے بہت ہی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اِس لئے یہ ممکن نہیں کہ جس ٹیم کا انتخاب ہوا ہے اُس میں اُن کا حصہ نہیں ہو۔ اِس لیے ٹیم سلیکشن کے ساتھ ساتھ آفریدی صاحب سے بھی یہ گھٹیا سوال پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ اگر آپ گزشتہ ایک برس سے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لئے تیاری کررہے ہیں تو پھر خرم منظور پر نظر کیوں نہیں گئی، رومان رئیس جو کراچی سے ہی کھیلتے ہیں، اُن پر نظر کیوں نہیں گئی، افتخار احمد بھی ڈومیسٹک کرکٹ کھیل رہے ہیں، اُن پر نظر کیوں نہیں گئی؟ اور جن پر نظر تھی (احمد شہزاد) تو عین وقت پر اُن سے نظر کیوں ہٹ گئی؟ کیا یہ سب پلاننگ کا حصہ تھا؟ اگر آپ کی یہی پلاننگ تھی، تو کاش آپ کوئی پلاننگ کرتے ہی نہیں، اُس صورت میں زیادہ بہتر ٹیم کا چناؤ ہوسکتا تھا۔
اگر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاکستان کی ایک سال کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو لفظ شکست سے بہت اپنائیت ہوگئی ہے۔ اپریل 2015ء میں بنگلہ دیش کے خلاف ایک روزہ سیریز میں کلین سوئپ کے بعد واحد ٹی ٹوئنٹی میں بھی 7 وکٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، پھر زمبابوے کے تاریخی دورہ پاکستان پر پاکستان کو دو صفر سے کامیابی نصیب ہوئی۔ اِس کے بعد جولائی اور اگست میں دورہ سری لنکا پاکستان کے لیے ہر ہر حوالے سے یادگار رہا، جہاں پاکستان نے تینوں طرز کی سیریز میں کامیابی سمیٹی۔ پاکستان نے زمبابوے کا دورہ کیا اور وہاں بھی دو صفر سے کامیابی حاصل کی۔ لیکن اِس سیریز کے بعد پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں فتح کا ذائقہ نصیب نہیں ہوا۔ نومبر میں متحدہ عرب امارات میں انگلستان نے تین صفر سے ہرایا تو جنوری میں نیوزی لینڈ نے دو، ایک سے شکست دی۔ یعنی اگر زمبابوے کو ہٹادیا جائے تو پاکستان کو پچھلے ایک سال میں صرف سری لنکا سے فتح نصیب ہوئی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان رینکنگ میں دوسرے نمبر سے اب ماشاءاللہ سے آٹھویں نمبر پر آگیا ہے۔
میں ایک بار پھر یاد کروادوں کہ اِس پورے عرصے قومی ٹیم کی باگ ڈور آفریدی صاحب کے کاندھوں پر ہی تھی، جی جی وہی آفریدی جو گزشتہ ایک سال سے ورلڈ کپ کی تیاری میں مصروف تھے۔ بحثیت پاکستانی، میری اِس سے بڑھ کر خواہش کیا ہوسکتی ہے کہ پاکستان میگا ایونٹ میں کامیابی حاصل کرے، لیکن جس تیاری اور کھلاڑیوں کے ساتھ قومی ٹیم محاذ پر جارہی ہے کیا فتح کا خواب، دیوانے کے خواب کے مترادف نہیں ہوگا؟
[poll id="948"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔