جاذب قریشی کے چند اشعار
شاعری بنیادی طور پر ثقافتی عمل ہے اور ثقافتی عمل اجتماعی ہوتا ہے اس لیے شاعری بھی سماجی عمل ہے۔
جاذب قریشی جدیدغزل کے اہم ناموں میں سے ایک ہیں اور تنقید میں بھی ان کا کام بہت وسیع ہے۔ شاعر علی شاعر کے زیرِ ادارت شائع ہونے والے ادبی رسالے عالمی رنگ ادب کراچی نے جاذب قریشی کی پچاس سالہ ادبی خدمات کوایک ضخیم نمبرمیں سمویا ہے۔ اس نمبر میں شامل ان کی غزلوں میں سے چند منتخب اشعار پر گفتگو کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔ اردو غزل میں مستعمل روایتی مضامین اور رائج تصورات کے بارے میں میری رائے ہے کہ اِس نے ہمارے سماجی رویوں پر بھی گہرا اثر ڈالا ہے اس لئے شعر فہمی کا عمل اس سلسلے میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جاذب قریشی کے چند اشعار پر اسی تناظر میں گفتگو کی ہے۔
اس خوبصورت شعر میں جاننے کا عمل سائنسی نہیں بلکہ خالص سماجی ہے۔ بکھرے ہوئے شہر کو جس طرح سورج جیسی اکائی بنا کر دیکھا گیا ہے، اگرچہ سماجی سے زیادہ سائنسی معلوم ہوتا ہے تاہم ''بدن'' کے زخموں کی کھوج کے لئے لامحالہ شہر کے نشیب و فراز کو جاننا ضروری ٹھہرے گا اور اس مقصد کے لیے شہر کو اکائی بنا کر نہیں بلکہ ایک بکھرے ہوئے سماج کی حرکیات کو ایک زندہ تناظر بناکر سامنے رکھنا پڑے گا۔ شہر کے بکھرے سماج کے ساتھ دن رات کا ایک ایک لمحہ بتانا پڑے گا، تب ہی اس کے حقیقی دکھوں سے شناسائی ہوسکے گی۔ یعنی سورج کا اگر کوئی ''سماج'' ہے تو اس سے ہم خارج کے طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ جب کہ ''اپنے شہر'' کے سماج سے اس کےایک متحرک داخلی حصے کے طور پر، مگر جب ہم سورج کے ساتھ ربط میں آتے ہیں تو ہم اسے بہت زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ جب کہ شہر کے ساتھ مستقل ربط میں رہتے ہوئے بھی کم ہی اسے محسوس کر پاتے ہیں۔ یہی کم کم محسوس ہونے والا احساس ہے جس کی طرف اس شعر میں پوری شدت کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے۔
اس شعر کی معنویت کے لئے مہیب سمندر کی شوریدہ، پُر قوت لہروں کے درمیان ایک جزیرے کا تصور کیجیے، پھر اس جزیرے پر اپنے وجود کا قیاس کرلیں، عجیب کیفیت سامنے آجاتی ہے۔ زمانے بھر کے تھپیڑوں کے آگے ڈٹے رہنے سے جو تجربہ حاصل ہوتا ہے، اس کا اظہار یہاں بدن کے زخموں کی تشبیہ میں کیا جارہا ہے، لیکن یہ تو انفرادی سطح ہے، کیا شاعری انفرادی عمل ہے یا سماجی؟ شاعری بنیادی طور پر ثقافتی عمل ہے اور ثقافتی عمل اجتماعی ہوتا ہے اس لیے شاعری بھی سماجی عمل ہے۔ چناںچہ اگر اس شعر کو سماج کے تناظر میں دیکھا جائے تو شعر کے اندر کی جو تشکیلی منفیت ہے وہ ہمارے سماج کے ساتھ انسلاک رکھتی دکھائی نہیں دیتی۔
یعنی اگر ہم اس شعر کی قرات بہ طور سماج کریں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاعر کو ہمارے زخم وجود کا ادراک نہیں ہوپایا ہے۔ اس طرزِ قرات پر یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ مذکورہ شعر کو سماجی تناظر میں پڑھا ہی کیوں جائے؟ جواب سادہ ہے کہ لہروں اور گہرے پانیوں کے توسط سے سمندر کا استعارہ اور پھر جزیرے کی تشبیہ سمیت شعر کا متن فرد کے بہ طور فرد سمٹاؤ نہیں، بلکہ بہ طور سماج پھیلاؤ کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ شاعر اگر اس طرزِ اظہار سے اپنی ذات کی طرف ''گہرے پانیوں کے جزیرے'' کا اشارہ پیدا کررہا ہے تو یہ اشارہ ہی شعر کو محدود کردیتا ہے، یعنی اگر ایک کائنات شاعر کی ذات کے اندر سمٹتی ہے تو اگلا عمل جو شعر کی صورت میں ہوتا ہے، ذات سے کائنات کی طرف ہوتا ہے، نہ کہ ذات سے ذات کی طرف۔
اس قسم کے اشعار جو بہ ظاہر موضوعی آواز ہوتے ہیں، دراصل اپنے اندر تبلیغی نوعیت کے حامل ہیں جن میں دوسروں کے لیے نصیحت چھپی ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں تخلیقی یا منفرد آوازوں کو اکثر اوقات شدید ردِعمل کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ لوگوں کا یہ عام رویہ بن چکا ہے کہ اپنے بے معنی شور کے ذریعے دوسروں کی منفرد آوازوں کو دبانا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس صورت حال میں اس شعر سے یہ نصیحت ملتی ہے کہ شور سے متاثر ہونے کے بجائے اپنی تخلیقی اور منفرد آواز کا سلسلہ جاری رکھا جائے، ایک وقت آتا ہے جب شور ختم ہوجاتا ہے اور منفرد آواز باقی رہ جاتی ہے۔ اس شعر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بے معنی شور معنی خیز آوازوں کو کھا جاتا ہے۔ ایک تخلیق کار کو اپنے عزم اور تخلیقی عمل کے تسلسل کے ذریعے اپنی آواز بچانی ہوتی ہے۔
جاذب قریشی کا یہ شعر بہ ظاہر ضرب المثل بنتا محسوس ہوتا ہے، لیکن جو معنیٰ اس ضرب المثل کی تشکیل کرتا ہے وہ خود اس شعر کے اپنے اندر کہیں موجود نہیں ہے۔ ہم یہ کہہ کر کہ شاعر نے محاورے کا غلط استعمال کیا ہے، شعر کو رد نہیں کرسکتے کیوں کہ یہاں لفظ اور معنیٰ میں بُعد کے ہوتے ہوئے بھی شعر کی سادگی اور پر کشش ہونے میں شک نہیں۔ پرندوں کا شور مچانا بالخصوص شام کے وقت کسی بھی طور کسی منفی معنیٰ کو جنم نہیں دیتا۔ شام کے وقت پرندوں کا شور آشیانوں کی طرف لوٹنے کا اشارہ ہوتا ہے۔ اس سے ایک معنیٰ یہ بھی نکلتا ہے کہ جن پنجروں سے پرندے آزاد کیے گئے تھے، پرندے انہی پنجروں کو آشیانہ سمجھ کر لوٹ آئے۔ لیکن لفظ ''وہی'' شور مچانے کے محاورے کو کوئی اور رُخ دے رہا ہے یعنی پرندے آشیانہ سمجھ کر نہیں لوٹے بلکہ جس نے انھیں آزادی کی نعمت سے سرفراز کیا تھا اسی کو پریشان کرنے آگئے، آشیانے کو لوٹنے کا اظہار ''شور مچانے آئے'' کی جگہ ''شور مچاتے آئے'' سے ہوسکتا ہے۔ شام کے وقت پرندوں کا شور مچانا کسی کو پریشان کرنے کے مترادف ہرگز نہیں ہے، لیکن شاعر نے اس لفظی دروبست میں سے اپنی مرضی کا ایک معنیٰ نکالا ہے، جو برا محسوس نہیں ہوتا یعنی جس کے ساتھ اچھائی کی تھی وقت پڑنے پر اسی نے نقصان پہنچایا۔
یہ شعر بہ ظاہر اردو غزل کی روایت کے ایک عام مضمون سے انحراف ہے۔ جس میں عاشق اپنے محبوب سے کٹ کر بھی اسی کے در پر پڑا رہتا ہے، لیکن اس شعر کی حقیقی معنویت اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ربط کو توڑنا دراصل آزادانہ وجود کے اثبات کا ایک عمل ہے جس میں ربط کو توڑنے والا اپنے وجود کو دوسرے کے ظلم یا تسلط سے آزاد کراتا ہے۔ نئے تجربے کی وراثت یہی ہے جس سے شاعر یا ایک باشعور انسان کو استحصال کی ہر شکل کے خلاف مزاحمت کرنے کا راستہ ملتا ہے۔ یہ شعر اردو غزل میں خیال اور مضمون کی سطح پر ہونے والے تجربات کی واضح شکل ہے۔ روایتی غزل میں عاشق محبوب کے ہاتھوں انتہا درجے کا ظلم اور استحصال برداشت کرتا ہے۔ ادب میں رائج یہ شکل سماج کے اندر بھی گہرائی میں سرایت کرچکی ہے۔ ظالم اور مظلوم کے اس ربط کو توڑنا یقیناً ایک مستحسن عمل ہے جس کا آغاز بلاشبہ ادب ہی سے کیا جاسکتا ہے۔
ہوسکتا ہے یہاں ''میری تہذیب'' کا اظہار ٹھیک ہو، لیکن مجھے لفظ تہذیب کے ساتھ ''میری'' جیسا ضمیرِ اضافی کسی طور مناسب معلوم نہیں ہوتا، تہذیب شخصی کہاں ہوتی ہے؟ اس کی بجائے ''اپنی'' درست لفظ ہوسکتا ہے جو ''ہماری'' کا ہم معنیٰ ہے۔ اس نکتے سے قطع نظر یہ شعر جاذب بھائی کا نمائندہ شعر ہے جو بنیادی طور پر ایک پرامن تہذیب کے ساتھ اپنی وابستگی کے اظہار پر مبنی ہے۔ ایک ایسی شائستہ تہذیب جو درختوں پر آرام و رہائش یا خوراک کے حصول کی خاطر بیٹھے پرندوں کو اڑانا بھی سخت معیوب سمجھتی ہے، لیکن واضح رہے کہ تہذیب سے اخراج کا جو عمل اس شعر میں پایا جاتا ہے وہ معروضی نہیں ہے بلکہ ابھی ابتدائی طور پر صرف خیال کی سطح پر امتیاز کیا جارہا ہے۔ معروضی یعنی خارج کی ٹھوس سطح پر اس نکتے کو سمجھنے کے لئے معاشرے میں اس کی موجودہ صورتحال پر نظر کی جائے۔ درختوں سے پرندوں کو اڑانا ظلم کی ایک شکل ہے اور اس سے بڑھ کر انہیں مارنے کا عمل ہے جو کہیں زیادہ زیر مشق ہے۔ اب اگر چھانٹی کا منصفانہ عمل شروع کیا جائے تو یہ ظلم روا رکھنے والوں کا ایک جمِ غفیر تشکیل پاجائے گا۔ معاشرے کے اس حصے کو مدنظر رکھا جائے تو شعر معنوی سطح پر اس سے انسلاک نہیں رکھتا۔ زمینی حقیقت بتاتی ہے کہ شائستہ طرز معاشرت سے دور رہنے والوں کا ایک جم غفیر پہلے ہی سے موجود ہے اور وہ پورے معاشرے پر اثرانداز ہوتا ہے جبکہ شعر میں ان کی ابتدائی طور پر شناخت کی جارہی ہے۔
بظاہر یہ شعر بھی روایتی مضمون سے جڑت رکھتا محسوس ہوتا ہے، لیکن لفظوں کے مختلف استعمال نے اسے جدید حسیت کے ساتھ خوش اسلوبی سے جوڑ دیا ہے۔ یہاں محبوب کے لئے استعمال ہونے والے استعاروں اور تشبیہات کی بجائے ''شخص'' کا سیدھا سادا اظہار ہے جو دراصل اسے ''ایک شخص'' سے اوپر اٹھا کر ''ایک طاقت'' کا ہم معنی بنا رہا ہے۔ اسی نسبت سے آج کی حسیت میں لفظ دوستی بھی نہایت ہی مناسب لفظ ہے۔ اس تناظر میں یہ شعر کمزور اور طاقتور کے مابین دھوکے پر مبنی ''دوستی'' کے تضاد کو خوبی سے واضح کرتا ہے۔ دوستی کرنے والا جسم و جان چھیننے والے کے آگے بے بس ہے۔ وہ ظلم اور استحصال کے رشتے کو دوستی کہنے پر مجبور ہے۔
شب دستک دے رہی ہے اور آنکھیں ہیں کہ خواب سے بھی تہی ہیں اور مسرتوں سے بھی، اور شب کا استقبال خواب اور مسرت کے ذریعے نہ کیا جائے تو شب محض اندھیرا بن کر رہ جاتی ہے۔ مسرتوں اور خوابوں سے خالی وجود کو ''اکیلے وجود'' سے تعبیر کیا گیا ہے یہاں۔ اس معنی میں یہ ایک مجرد خیال پر مبنی شعر ہے۔ خالی وجود اپنی فعلیت کے ذریعے اپنے اندر خوابوں اور مسرتوں کو منکشف کرتا ہے۔ لیکن یہ شعر ایک مجرد خیال کی منزل سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ بالعموم اس مجرد خیال کو شاعری میں کیفیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جو دراصل کسی نہ کسی گزرے واقعے یا گزری صورت حال کی طرف ایک موہوم اشارہ بھی ہواکرتا ہے۔ اس شعر میں بھی ماضی کے کسی واقعے کی طرف اشارہ ملتا ہے جس کے نتیجے میں آنکھوں سے خواب اور مسرتیں چھن چکی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
جسے سورج سے بڑھ کر جانتا ہوں
وہ میرے شہر کا زخمی بدن ہے
اس خوبصورت شعر میں جاننے کا عمل سائنسی نہیں بلکہ خالص سماجی ہے۔ بکھرے ہوئے شہر کو جس طرح سورج جیسی اکائی بنا کر دیکھا گیا ہے، اگرچہ سماجی سے زیادہ سائنسی معلوم ہوتا ہے تاہم ''بدن'' کے زخموں کی کھوج کے لئے لامحالہ شہر کے نشیب و فراز کو جاننا ضروری ٹھہرے گا اور اس مقصد کے لیے شہر کو اکائی بنا کر نہیں بلکہ ایک بکھرے ہوئے سماج کی حرکیات کو ایک زندہ تناظر بناکر سامنے رکھنا پڑے گا۔ شہر کے بکھرے سماج کے ساتھ دن رات کا ایک ایک لمحہ بتانا پڑے گا، تب ہی اس کے حقیقی دکھوں سے شناسائی ہوسکے گی۔ یعنی سورج کا اگر کوئی ''سماج'' ہے تو اس سے ہم خارج کے طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ جب کہ ''اپنے شہر'' کے سماج سے اس کےایک متحرک داخلی حصے کے طور پر، مگر جب ہم سورج کے ساتھ ربط میں آتے ہیں تو ہم اسے بہت زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ جب کہ شہر کے ساتھ مستقل ربط میں رہتے ہوئے بھی کم ہی اسے محسوس کر پاتے ہیں۔ یہی کم کم محسوس ہونے والا احساس ہے جس کی طرف اس شعر میں پوری شدت کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے۔
لہروں کے زخم تیرے بدن پر کہاں لگے
تو گہرے پانیوں کا جزیرہ نہیں رہا
اس شعر کی معنویت کے لئے مہیب سمندر کی شوریدہ، پُر قوت لہروں کے درمیان ایک جزیرے کا تصور کیجیے، پھر اس جزیرے پر اپنے وجود کا قیاس کرلیں، عجیب کیفیت سامنے آجاتی ہے۔ زمانے بھر کے تھپیڑوں کے آگے ڈٹے رہنے سے جو تجربہ حاصل ہوتا ہے، اس کا اظہار یہاں بدن کے زخموں کی تشبیہ میں کیا جارہا ہے، لیکن یہ تو انفرادی سطح ہے، کیا شاعری انفرادی عمل ہے یا سماجی؟ شاعری بنیادی طور پر ثقافتی عمل ہے اور ثقافتی عمل اجتماعی ہوتا ہے اس لیے شاعری بھی سماجی عمل ہے۔ چناںچہ اگر اس شعر کو سماج کے تناظر میں دیکھا جائے تو شعر کے اندر کی جو تشکیلی منفیت ہے وہ ہمارے سماج کے ساتھ انسلاک رکھتی دکھائی نہیں دیتی۔
یعنی اگر ہم اس شعر کی قرات بہ طور سماج کریں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاعر کو ہمارے زخم وجود کا ادراک نہیں ہوپایا ہے۔ اس طرزِ قرات پر یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ مذکورہ شعر کو سماجی تناظر میں پڑھا ہی کیوں جائے؟ جواب سادہ ہے کہ لہروں اور گہرے پانیوں کے توسط سے سمندر کا استعارہ اور پھر جزیرے کی تشبیہ سمیت شعر کا متن فرد کے بہ طور فرد سمٹاؤ نہیں، بلکہ بہ طور سماج پھیلاؤ کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ شاعر اگر اس طرزِ اظہار سے اپنی ذات کی طرف ''گہرے پانیوں کے جزیرے'' کا اشارہ پیدا کررہا ہے تو یہ اشارہ ہی شعر کو محدود کردیتا ہے، یعنی اگر ایک کائنات شاعر کی ذات کے اندر سمٹتی ہے تو اگلا عمل جو شعر کی صورت میں ہوتا ہے، ذات سے کائنات کی طرف ہوتا ہے، نہ کہ ذات سے ذات کی طرف۔
وہ جو تھا شور سگاں ہار گیا
اپنی آواز بچالی میں نے
اس قسم کے اشعار جو بہ ظاہر موضوعی آواز ہوتے ہیں، دراصل اپنے اندر تبلیغی نوعیت کے حامل ہیں جن میں دوسروں کے لیے نصیحت چھپی ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں تخلیقی یا منفرد آوازوں کو اکثر اوقات شدید ردِعمل کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ لوگوں کا یہ عام رویہ بن چکا ہے کہ اپنے بے معنی شور کے ذریعے دوسروں کی منفرد آوازوں کو دبانا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس صورت حال میں اس شعر سے یہ نصیحت ملتی ہے کہ شور سے متاثر ہونے کے بجائے اپنی تخلیقی اور منفرد آواز کا سلسلہ جاری رکھا جائے، ایک وقت آتا ہے جب شور ختم ہوجاتا ہے اور منفرد آواز باقی رہ جاتی ہے۔ اس شعر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بے معنی شور معنی خیز آوازوں کو کھا جاتا ہے۔ ایک تخلیق کار کو اپنے عزم اور تخلیقی عمل کے تسلسل کے ذریعے اپنی آواز بچانی ہوتی ہے۔
میں نے آزاد کیے تھے جو پرندے جاذب
شام آئی تو وہی شور مچانے آئے
جاذب قریشی کا یہ شعر بہ ظاہر ضرب المثل بنتا محسوس ہوتا ہے، لیکن جو معنیٰ اس ضرب المثل کی تشکیل کرتا ہے وہ خود اس شعر کے اپنے اندر کہیں موجود نہیں ہے۔ ہم یہ کہہ کر کہ شاعر نے محاورے کا غلط استعمال کیا ہے، شعر کو رد نہیں کرسکتے کیوں کہ یہاں لفظ اور معنیٰ میں بُعد کے ہوتے ہوئے بھی شعر کی سادگی اور پر کشش ہونے میں شک نہیں۔ پرندوں کا شور مچانا بالخصوص شام کے وقت کسی بھی طور کسی منفی معنیٰ کو جنم نہیں دیتا۔ شام کے وقت پرندوں کا شور آشیانوں کی طرف لوٹنے کا اشارہ ہوتا ہے۔ اس سے ایک معنیٰ یہ بھی نکلتا ہے کہ جن پنجروں سے پرندے آزاد کیے گئے تھے، پرندے انہی پنجروں کو آشیانہ سمجھ کر لوٹ آئے۔ لیکن لفظ ''وہی'' شور مچانے کے محاورے کو کوئی اور رُخ دے رہا ہے یعنی پرندے آشیانہ سمجھ کر نہیں لوٹے بلکہ جس نے انھیں آزادی کی نعمت سے سرفراز کیا تھا اسی کو پریشان کرنے آگئے، آشیانے کو لوٹنے کا اظہار ''شور مچانے آئے'' کی جگہ ''شور مچاتے آئے'' سے ہوسکتا ہے۔ شام کے وقت پرندوں کا شور مچانا کسی کو پریشان کرنے کے مترادف ہرگز نہیں ہے، لیکن شاعر نے اس لفظی دروبست میں سے اپنی مرضی کا ایک معنیٰ نکالا ہے، جو برا محسوس نہیں ہوتا یعنی جس کے ساتھ اچھائی کی تھی وقت پڑنے پر اسی نے نقصان پہنچایا۔
میں نئے تجربوں کا وارث ہوں
رابطہ توڑ کر نہیں ملتا
یہ شعر بہ ظاہر اردو غزل کی روایت کے ایک عام مضمون سے انحراف ہے۔ جس میں عاشق اپنے محبوب سے کٹ کر بھی اسی کے در پر پڑا رہتا ہے، لیکن اس شعر کی حقیقی معنویت اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ربط کو توڑنا دراصل آزادانہ وجود کے اثبات کا ایک عمل ہے جس میں ربط کو توڑنے والا اپنے وجود کو دوسرے کے ظلم یا تسلط سے آزاد کراتا ہے۔ نئے تجربے کی وراثت یہی ہے جس سے شاعر یا ایک باشعور انسان کو استحصال کی ہر شکل کے خلاف مزاحمت کرنے کا راستہ ملتا ہے۔ یہ شعر اردو غزل میں خیال اور مضمون کی سطح پر ہونے والے تجربات کی واضح شکل ہے۔ روایتی غزل میں عاشق محبوب کے ہاتھوں انتہا درجے کا ظلم اور استحصال برداشت کرتا ہے۔ ادب میں رائج یہ شکل سماج کے اندر بھی گہرائی میں سرایت کرچکی ہے۔ ظالم اور مظلوم کے اس ربط کو توڑنا یقیناً ایک مستحسن عمل ہے جس کا آغاز بلاشبہ ادب ہی سے کیا جاسکتا ہے۔
میری تہذیب کا باشندہ نہیں ہے وہ شخص
جو درختوں سے پرندوں کو اڑا دیتا ہے
ہوسکتا ہے یہاں ''میری تہذیب'' کا اظہار ٹھیک ہو، لیکن مجھے لفظ تہذیب کے ساتھ ''میری'' جیسا ضمیرِ اضافی کسی طور مناسب معلوم نہیں ہوتا، تہذیب شخصی کہاں ہوتی ہے؟ اس کی بجائے ''اپنی'' درست لفظ ہوسکتا ہے جو ''ہماری'' کا ہم معنیٰ ہے۔ اس نکتے سے قطع نظر یہ شعر جاذب بھائی کا نمائندہ شعر ہے جو بنیادی طور پر ایک پرامن تہذیب کے ساتھ اپنی وابستگی کے اظہار پر مبنی ہے۔ ایک ایسی شائستہ تہذیب جو درختوں پر آرام و رہائش یا خوراک کے حصول کی خاطر بیٹھے پرندوں کو اڑانا بھی سخت معیوب سمجھتی ہے، لیکن واضح رہے کہ تہذیب سے اخراج کا جو عمل اس شعر میں پایا جاتا ہے وہ معروضی نہیں ہے بلکہ ابھی ابتدائی طور پر صرف خیال کی سطح پر امتیاز کیا جارہا ہے۔ معروضی یعنی خارج کی ٹھوس سطح پر اس نکتے کو سمجھنے کے لئے معاشرے میں اس کی موجودہ صورتحال پر نظر کی جائے۔ درختوں سے پرندوں کو اڑانا ظلم کی ایک شکل ہے اور اس سے بڑھ کر انہیں مارنے کا عمل ہے جو کہیں زیادہ زیر مشق ہے۔ اب اگر چھانٹی کا منصفانہ عمل شروع کیا جائے تو یہ ظلم روا رکھنے والوں کا ایک جمِ غفیر تشکیل پاجائے گا۔ معاشرے کے اس حصے کو مدنظر رکھا جائے تو شعر معنوی سطح پر اس سے انسلاک نہیں رکھتا۔ زمینی حقیقت بتاتی ہے کہ شائستہ طرز معاشرت سے دور رہنے والوں کا ایک جم غفیر پہلے ہی سے موجود ہے اور وہ پورے معاشرے پر اثرانداز ہوتا ہے جبکہ شعر میں ان کی ابتدائی طور پر شناخت کی جارہی ہے۔
جسم و جاں چھین رہا ہے جو شخص
دوستی بھی اسی سفاک سے ہے
بظاہر یہ شعر بھی روایتی مضمون سے جڑت رکھتا محسوس ہوتا ہے، لیکن لفظوں کے مختلف استعمال نے اسے جدید حسیت کے ساتھ خوش اسلوبی سے جوڑ دیا ہے۔ یہاں محبوب کے لئے استعمال ہونے والے استعاروں اور تشبیہات کی بجائے ''شخص'' کا سیدھا سادا اظہار ہے جو دراصل اسے ''ایک شخص'' سے اوپر اٹھا کر ''ایک طاقت'' کا ہم معنی بنا رہا ہے۔ اسی نسبت سے آج کی حسیت میں لفظ دوستی بھی نہایت ہی مناسب لفظ ہے۔ اس تناظر میں یہ شعر کمزور اور طاقتور کے مابین دھوکے پر مبنی ''دوستی'' کے تضاد کو خوبی سے واضح کرتا ہے۔ دوستی کرنے والا جسم و جان چھیننے والے کے آگے بے بس ہے۔ وہ ظلم اور استحصال کے رشتے کو دوستی کہنے پر مجبور ہے۔
میری آنکھوں میں خواب ہیں نہ گلاب
شب کی دستک پہ میں اکیلا ہوں
شب دستک دے رہی ہے اور آنکھیں ہیں کہ خواب سے بھی تہی ہیں اور مسرتوں سے بھی، اور شب کا استقبال خواب اور مسرت کے ذریعے نہ کیا جائے تو شب محض اندھیرا بن کر رہ جاتی ہے۔ مسرتوں اور خوابوں سے خالی وجود کو ''اکیلے وجود'' سے تعبیر کیا گیا ہے یہاں۔ اس معنی میں یہ ایک مجرد خیال پر مبنی شعر ہے۔ خالی وجود اپنی فعلیت کے ذریعے اپنے اندر خوابوں اور مسرتوں کو منکشف کرتا ہے۔ لیکن یہ شعر ایک مجرد خیال کی منزل سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ بالعموم اس مجرد خیال کو شاعری میں کیفیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جو دراصل کسی نہ کسی گزرے واقعے یا گزری صورت حال کی طرف ایک موہوم اشارہ بھی ہواکرتا ہے۔ اس شعر میں بھی ماضی کے کسی واقعے کی طرف اشارہ ملتا ہے جس کے نتیجے میں آنکھوں سے خواب اور مسرتیں چھن چکی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔