کابل سے الیپو تک

28 اپریل 1978ء کو افغانستان میں صدر داؤد کا تختہ الٹ کر افغان ثور انقلاب برپا ہوا۔


Anis Baqar February 11, 2016
[email protected]

28 اپریل 1978ء کو افغانستان میں صدر داؤد کا تختہ الٹ کر افغان ثور انقلاب برپا ہوا۔ یہ افغانستان کا پہلا عوامی انقلاب تھا جس میں متوسط اور ادنیٰ متوسط طبقات، اور پڑھے لکھے دانشور طبقات کا ملا جلا اتحاد تھا، جس میں نور محمد ترہ کئی اور حفیظ اللہ امین کی پارٹی کا اشتراک تھا۔ جوں ہی یہ تبدیلی رونما ہوئی پوری سامراجی اور سرمایہ دار دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا۔

سب سے زیادہ تکلیف امریکا کو ہوئی، کیونکہ وہی ان کا سرغنہ ہے، مگر یہ ٹوپی اس نے نہایت ہوشیاری سے مشرقی دنیا کو اوڑھا دی اور اس کی قیادت اس نے سعودی عرب کو سونپ دی۔ پھر نتیجہ کیا ہونا تھا 35 اتحادی اور مغربی دنیا کے سرمایہ دار ممالک گرجا گھر کے پوپ خصوصاً پولینڈ کے مذہبی کرسچن رہنما اور اکثر مسلم رہنما ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے جب کہ خلق اور پرچم پارٹی، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی میں سبقت کی دوڑ نے جو تبدیلیاں اور سماجی سیاسی اصلاحات کیں، اس نے افغانستان کے مذہبی حلقوں کو وہ مواقع فراہم کیے ۔

جس سے رد انقلاب کی قوتوں کو زبردست مسالہ ملا۔ مثلاً عورتوں اور مردوں کو مساوی قانونی حقوق، پولیس اور فوج میں یکساں مواقع، تعلیم عام اور مفت، مزدوروں کے حقوق میں اضافہ اور مفاد عامہ کے کام، مگر عورتوں کے حقوق کے معاملے نے اصلاحات کو منفی رنگ دیا، تمام مولوی حضرات نے اپنی قدامت پرستی کو اسلام کا جامہ پہنا کر ان اصلاحات کے خلاف زبردست مزاحمت پیدا کی اور اس سے زیادہ تر پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقے میں نئے نئے مدرسوں کا جال بچھایا گیا اور طالبان کا احیا ہوا۔ دنیا بھر کے مذہبی شمشیر زن جمع ہونے لگے اور مزاحمت کا آغاز ہو گیا۔

سوویت یونین جو انقلاب ثور کا حامی تھا وہاں سوشلزم پر خود پر اسٹرائیکا مباحثہ اور گلاس نوٹ یعنی شفافیت پر گلی کوچوں میں بحث شروع ہو گئی۔ دوسری جانب افغان علاقوں میں زبردست فوجی مزاحمتوں کا دور شروع ہو گیا۔ یکے بعد دیگرے حکومتیں بدلتی رہیں، ببرک کارمل اور دیگر حکومتیں گرتی رہیں، افغان حکومت کی آخری باگ ڈور سوشلسٹ رہنما ڈاکٹر نجیب اللہ، جو پیشے کے اعتبار سے کینسر کے مرض کے ماہر ڈاکٹر تھے، اپنی قوت کھوتے جا رہے تھے۔

اپنی معزولی سے قبل انھوں نے معراج محمد خان کو کراچی سے مشورے کے لیے کابل بلایا تھا اور 1991ء میں انھوں نے مشورہ مانگا تھا کہ وہ روس سے کہہ دیں گے روس اپنی فوجیں واپس بلا لے، کیونکہ دونوں طرف سے افغانی مارے جا رہے ہیں۔ گویا افغانستان میں ایک قسم کی خانہ جنگی کی کیفیت ہے۔

بقول ڈاکٹر نجیب اللہ کے یہ جنگ ان پر پاکستان نے نازل کی ہے، جو سعودی عریبیہ کے کہنے پر ہو رہی ہے۔ جس پر معراج محمد نے کہا کہ تم پہلے پیشگی کسی ملک میں پناہ کے لیے جگہ تلاش کر لو، جس پر ڈاکٹر نجیب اللہ نے کہا کہ میں افغانستان سے جانا نہیں چاہتا افغانستان میں ہی رہنا چاہتا ہوں، اقوام متحدہ کا جو سفارت خانہ افغانستان میں ہے اسمیں پناہ لے لوں گا اور جب حالات یکطرفہ ہو جائیں گے تب تک وہیں رہوں گا۔ مگر جب طالبان کی فوجوں نے دیکھا کہ روس واپس جا چکا ہے تو 1996ء میں ایک بڑا حملہ کیا اور وہ کابل پر قابض ہو چکے، انھوں نے ڈاکٹر نجیب اللہ کو اقوام متحدہ کے آفس میں گھس کر قتل کیا اور لاش کی بے حرمتی کی اور ملا عمر بلا شرکت غیرے افغانستان پر قابض ہو گئے۔

اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں ڈاکٹر نجیب 1992ء سے 1996ء تک رہے اور جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو ان کی لاش کو اسلام پسندوں نے کابل کے گلی کوچوں میں گھسیٹا جو کسی طرح سے بھی اسلام کے احکامات کے حوالے سے درست نہ تھا۔ ادھر خود گورباچوف نے جو سوویت یونین کے سربراہ تھے۔ انھوں نے دسمبر 1991ء میں سوویت یونین ختم کر دیا اور وہ رشین فیڈریشن ہو گیا۔

اکثر مسلم ریاستیں آزاد ہوئیں اور اس کا عالمی وقار جاتا رہا۔ صدر نیلسن نے روسی فیڈریشن کی باگ ڈور سنبھالی پھر اندرونی استحکام پر زور دیا یہاں تک کہ 23 برسوں کی خاموشی کے بعد یوکرین میں روس نے اپنے ہمنواؤں کو جگایا اور کریمیا کو آزاد کرا لیا۔ یہ یورپی یونین کے لیے ایک زبردست جھٹکا تھا۔ نومبر 2014ء میں 23 برسوں کی خاموشی کے بعد روس نے اپنے زمینی وسائل اور سیاسی وسائل کو یکجا کیا، جب کہ امریکا کو اس کی خبر تک نہ ہوئی کہ روس دوبارہ سرد جنگ کے دور میں داخل ہو چکا ہے اور اس نے بہت سے ترقی یافتہ جنگی ہتھیار بنائے ہیں۔

جس کا اس نے مظاہرہ کریملن میں کیا۔ کئی منزلہ بلڈنگ جیسا ٹینک جس کی شکل اونٹ جیسی، دفاعی نظام کا حصار، سب میرین سے فضا میں مار کرنے والے راکٹ اور پانی سے زمین میں مار کرنے والے ہتھیار وغیرہ، جس میں سے دفاعی نظام کا مظاہرہ اس نے پہلی مرتبہ چند ماہ قبل کیسپین سی میں کیا۔ آج کل بڑی طاقتیں براہ راست متصادم ہونے سے گریز کرتی ہیں بلکہ اپنے بدلے کسی اتحادی کو تصادم کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ ان دنوں عرب دنیا بشمول ایران دو دھڑوں میں بٹ چکے ہیں۔

جیسا کہ شام میں نظر آ رہا ہے۔ افغانستان کے بعد عراق کی بربادی ہوئی۔ حالانکہ امریکا نے افغان جنگ میں روس کو ٹریپ کر لیا مگر پھر بھی اس کے مقاصد پورے نہیں ہوئے۔ اس کے بعد نیو ورلڈ آرڈر پر عمل کیا گیا۔ صدر بش کے تیار کردہ نقشے پر یکے بعد دیگرے عمل کیا گیا۔ عراق کے بعد لیبیا کو مسخر کیا گیا پھر شام کو تہہ تیغ کیا گیا۔ دنیا بھر کے جنگجو شام کی سرحد پر جولائی 2012ء میں جمع کیے گئے اور حکومت کا تختہ الٹنے کا نیا طریقہ جس کو بش ڈاکٹرائن کہا جاتا ہے یعنی ایک نئی تعلیم و فلسفہ۔ اگر کسی ملک کو پڑوسی یا دور کے کسی ملک کی طرز نگہبانی پسند نہیں تو پھر اس کی حکومت کا نظام بہ زور بازو بدل ڈالا جائے۔

جیسا کہ صدام حسین اور معمر قذافی کے ساتھ ہوا۔ مصر کی وہ حکومت جو منتخب ہوئی گو کہ وہ اسلامی تھی مگر وہ سعودی عرب کو پسند نہ تھی لہٰذا اس کو تبدیل کر دیا گیا۔ اس کو رجیم چینج کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

جیسا کہ شام کے گرد گھیرا ڈالا گیا۔ اغلب امکان یہ تھا بشارالاسد کی حکومت زیادہ عرصے نہیں چلے گی، مگر روس کی عالمی افق پر دوبارہ آمد نے سیاست کا رخ بدل ڈالا ہے۔ ایک طرف شامی فوج اور ان کے حلیف پیپلز فرنٹ، حزب اللہ ایران، جب کہ دوسری جانب ایک فرنٹ پر داعش جب کہ دوسرے فرنٹ پر حزب اسلامی النصرہ۔ سعودی عریبیہ اور ایران ایک اعتبار سے آمنے سامنے ہیں کیونکہ ایران شام کے ساتھ، قطر اور سعودی عرب مخالفین شام کے ساتھ ہیں۔

چند ماہ تک صورت حال ایسی تھی کہ لگتا تھا شام کی حکومت گھٹنے ٹیک دے گی مگر جب سے روس نے کھلم کھلا شام کی حمایت کرنی شروع کی ہے اور حزب اللہ نے اپنی فوج شام کے ساتھ لگا دی ہے جنگ میں خاصی تبدیلی آ گئی ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ شام کا اہم شہر الیپو اگر شام کے پاس واپس چلا گیا تو یہ سعودی عرب کی شکست کے مترادف ہو گا۔ مگر الیپو اتنی جلدی ہاتھ میں نہ آئے گا کیونکہ ایک ایک قصبے کے لیے ایک ایک ہفتے جنگ ہو رہی ہے۔ اس وقت یہ کہنا آسان نہیں کہ حق کس کے ساتھ ہے اور باطل قوت کون ہے، مگر عموماً امریکا جس کے ہمراہ ہوتا ہے دنیا میں اس کا کردار منفی سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک قسم کی سامراج کی علامت بن چکا ہے۔

تمام دنیا میں حکومتوں کی ساخت کی موافقت اور مخالفت کرنا اپنی من پسند حکومتوں کو بنانا اور بگاڑنا۔ ابھی پاکستان میں جو حکومتیں رواں دواں ہیں یہ این آر او کا کارنامہ ہے۔ ابھی چند روز ہوئے کہ سعودی عرب نے الیپو کی نازک سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے مزید نئے تازہ دم دستے بھیجنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس پر شام کے وزیر خارجہ ولید معلم نے کہا کہ ہم تابوتوں میں ان کی واپسی کا انتظام کریں گے، ورنہ چند ماہ قبل وہ ایسا بیان دینے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے۔

لاس اینجلس ٹائمز نے اپنی حالیہ اشاعت میں صورت حال کو نہایت سنگین قرار دیا ہے، بقول اس کے شامی فوجوں اور حزب اللہ نے ترکی سے شام کا راستہ کاٹ دیا ہے اور مستقبل کی فوجی سپلائی مشکل ہو چکی ہے۔

5 فروری کو شامی اور حزب اللہ کی فوجوں نے مل کر الیپو کے ایک بہت اہم قصبے پر قبضہ کر لیا جس کا نام ہارڈ اٹنین (Hardatnin) ایک اور ذریعہ اطلاع 6 فروری کا ہے کہ 35000 جہادی فوجی الیپو میں شامی اور حزب اللہ کے حصار میں آ گئے ہیں، یہ علاقہ شمال میں ترکی کی سرحد کے قریب ہے ۔ (debka military files) ڈیبکا ملٹری فائل سے اقتباس۔

اگر یہ حقائق درست ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ شام کی جنگ اختتام پر ہے اور روس یقینی طور پر افغان جنگ کی رسوائی کے داغ سے باہر نکلنے کے قریب ہے۔ لیکن ان جنگوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ہر طرف مرنے والوں میں مسلمان ہی ہیں جیت کسی کی بھی ہو درحقیقت یہ مسلمانوں کی ہار ہی ہو گی، لہٰذا نئی وسیع النظر فکری ترقی جب تک نہ ہو گی مسلمان بحیثیت قوم کے صلح جو اور امن کے پیامبر نہ کہلائیں گے، درحقیقت جو ان کو جنگ پر آمادہ کرتے ہیں وہ دہشت گرد نہیں بلکہ جو اس کی لپیٹ میں آتے ہیں وہی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ دیکھیے کابل سے الیپو تک کون لہو لہان ہے۔ ہم بھی اس جنگ میں افغانستان کے ساتھی رہے اور آج تک خون کے چھینٹے ہمارے ملک سے جانے کا نام نہیں لیتے مگر اسرائیل کے گرد کوئی گھیرا ڈالنے کو تیار نہیں، یہ آپس میں ہی دست و گریباں ہی رہنے کو تیار ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں