بنگلہ دیشی عوام دونوں بیگمات سے مایوس ہیں
صرف 30 سال قبل وہاں کے لوگ مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے
KARACHI:
ڈھاکا میں آنے کے بعد آپ کو یہ محسوس کرنے میں کچھ زیادہ وقت نہیں لگتا کہ یہ ملک اپنے دعوؤں اور وعدوں کو فراموش کر چکا ہے۔ اب اس انقلاب کی کو کوئی بات نہیں ہوتی جس نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو دور بیٹھے مغربی پاکستان سے آزاد ہونے کے لیے بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک چلائی تھی۔ اب مقامی استحصالی قوتوں نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ ان سب سے بدتر وزیر اعظم حسینہ واجد کا جابرانہ طرز حکومت ہے۔
ان کی اپوزیشن خالدہ ضیاء عوام کی توقعات سے نیچے چلی گئی ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ حسینہ واجد نے ملٹری کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے جس نے کہ ایک مرتبہ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمن کا تختہ الٹ دیا تھا جو کہ بنگلہ دیش کے بابائے قوم تھے۔ حسینہ واجد نے فوج والوں کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا ہے اور ان کو یقین دلا دیا ہے اگر وہ سیاست سے دور رہیں گے تو ان کی عزت و تکریم میں بہت اضافہ کیا جائے گا۔
صرف 30 سال قبل وہاں کے لوگ مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور انھوں نے اپنی ایک مکتی باہنی یا آزادی کی فوج بنا لی تھی جو اگرچہ مکمل طور پر مسلح نہیں تھی لیکن انھوں نے ثابت کر دیا کہ جو قوم اپنی زنجیریں کاٹنے کا عزم کر لے تو پھر اس کو کوئی نہیں روک سکتا۔ شیخ مجیب مشرقی پاکستان کے نہایت بلند قامت لیڈر تھے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کو وہ اپنا لیڈر مانتے تھے۔ لیکن جب انھوں نے ڈھاکا کے دورے کے دوران اعلان کیا کہ بنگالیوں کو بھی اردو پڑھنا پڑے گی جو قومی زبان ہو گی تو شیخ مجیب نے اس کی مخالفت کر دی۔ بنگالیوں کو محسوس ہوا جیسے ان کی ثقافت ان سے چھینی جا رہی ہے۔
اور جب انھوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا تو انھیں بیدردی سے کچلنے کی کوشش کی گئی۔ اس زمانے میں ہونے والے عام انتخابات میں شیخ مجیب نے قومی اسمبلی میں قطعی اکثریت حاصل کر لی تھی لیکن ذوالفقار علی بھٹو جو سابق وزیر خارجہ تھے مجیب کو بطور وزیراعظم قبول کرنے پر تیار نہ تھے۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ ان کے کامل اقتدار کے لیے اگر مشرقی پاکستان علیحدہ ہوتا ہے تو ہو جائے۔
حسینہ واجد کی حقیقی مخالفت بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی نے کی جو اب بھی مذہبی کارڈ استعمال کر رہی ہے لیکن اسے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو رہی کیونکہ اسے پاکستان کی ہمدرد تصور کیا جاتا ہے۔ اس نے آج تک پاکستان کی طرف سے روا رکھی جانے والی زیادتیوں کی مذمت نہیں کی۔ میرا خیال تھا کہ جماعت اسلامی کے جن عمر رسیدہ لیڈروں کو پھانسی دی گئی ہے اس کا بنگلہ دیش میں بڑا شدید ردعمل ہو گا لیکن مجھے خاصی حیرت ہوئی جب میں نے دیکھا کہ ایسا نہیں ہوا۔
بائیں بازو کی سیاست جو ایک زمانے میں اہم طاقت تھی اب منظر میں ہی نظر نہیں آتی۔ اس کی کشش ختم ہو چکی ہے اور اس کا کوئی نمایاں لیڈر بھی نہیں ہے۔ عام نوجوانوں کا دھیان اپنا کیریئر بنانے کی طرف ہے۔ جب کہ سیاست پر کاروباری لوگوں کا غلبہ ہے کیونکہ وہ قدم قدم پر رشوت دیتے ہیں اور تمام سرکاری ملازمین ان کے زیر بار ہیں۔
اس صورت حال کا روشن پہلو یہ ہے کہ لوگ جمہوری نظام سے محبت کرتے ہیں اور احتجاج اور ہنگاموں کے ذریعے اپنی جمہوریت پسندی کا اظہار کرتے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب لوگوں کی ناراضگی انھیں احتجاجی مظاہروں کی شکل میں سڑکوں پر لے آتی تھی جس سے روز مرہ کا کاروبار رک جاتا تھا۔ لیکن بالآخر ان کو سمجھ آ گئی کہ دکانوں' بازاروں اور فیکٹریوں وغیرہ کا بند ہونا خود ان کے ہی نقصان کا موجب بنتا ہے۔
انھیں یہ بھی احساس ہوا کہ ماحول کو خراب کرنے سے تیار شدہ ملبوسات کی صنعت پر بہت منفی اثر پڑتا ہے جو کہ ملک کے لیے زرمبادلہ کمانے کا فی الحال واحد ذریعہ ہے۔ مزید برآں اس سے ملک کی معیشت بھی تباہ ہوتی ہے۔
سب سے زیادہ خراب بات یہ ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں جمع ہو رہی ہے اور وہ لوگ نہ صرف یہ کہ روز مرہ کے کاروبار پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ سیاست کو بھی اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت سے صنعت کار سیاسی پارٹیوں کو فنڈز مہیا کرتے ہیں تا کہ اسمبلی میں ان کی بات سنی جائے۔ حکومت جو پالیسیاں اور پروگرام بناتی ہے ان پر بھی ان لوگوں کا اثر ہوتا ہے۔
بنگلہ دیش میں میڈیا برائے نام آزاد ہے جیسے کہ بالعموم تیسری دنیا کے دیگر ممالک میں ہوتا ہے۔ ایڈیٹر حضرات صرف اتنی آزادی سے مستفید ہوتے ہیں جو ان کے مالکان انھیں دیتے ہیں۔ مسلح افواج کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے وہ بطور خاص محتاط رہتے ہیں کیونکہ ان کو احساس ہو چکا ہے کہ فوج پر نکتہ چینی ملکی مفادات کے خلاف ہے۔
بھارت کی جمہوریت بھی اس سے چنداں مختلف نہیں لیکن بنگلہ دیش میں فوج حتمی طور پر بالادستی رکھتی ہے۔ میں نے بہت سے لوگوں سے پوچھا کہ نظریاتی' اقتصادی یا سماجی طور پر بنگلہ دیش کس سمت میں جا رہا ہے۔ ایک ماہر تعلیم نے جو بنگلہ دیش کی سیاست کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کی پیشرفت کی سمت کا کسی کو بھی اندازہ نہیں۔ شیخ واجد کی اصل طاقت نئی دہلی حکومت کی طرف سے حمایت ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ اس نے تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈال رکھے ہیں۔
بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کھلے عام کہتی ہے کہ حسینہ واجد اپنی جابرانہ حکمرانی سے بھارت کی ساکھ بھی خراب کر رہی ہیں۔ وہ کسی قسم کی تنقید برداشت نہیں کرتیں۔ ایسا ہر گز نظر نہیں آتا کہ بنگلہ دیش میں کبھی بھی آزادانہ اور شفاف انتخابات منعقد ہو سکیں گے۔ لیکن بالفرض محال اگر وہاں آزادانہ انتخابات بھی ہو جائیں تب بھی بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حسینہ واجد کو شکست نہیں دی جا سکے گی۔
بیگم خالدہ ضیاء نے جماعت اسلامی کے ساتھ الحاق کر کے اپنی مقبولیت کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایک بات البتہ یقینی ہے کہ اگر انتخابات ہوئے تو خالدہ ضیا اس مرتبہ ان انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کریں گی کیونکہ اپوزیشن بی این پی یہ بات جان چکی ہے کہ اگر اس کے تھوڑے سے امید وار بھی اسمبلی میں پہنچ جائیں تو وہ حسینہ واجد کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کو عوام کے سامنے تو لا سکیں گے۔
بنگلہ دیش کے عوام حسینہ واجداور خالدہ ضیاء دونوں سے ہی ناامید ہو چکے ہیں لہٰذا موجودہ حالات میں مفاد پرستوں کی چاندی ہو رہی ہے۔ دونوں بیگمات بنگلہ دیش کی قسمت کے لیے ناگزیر لگتی ہیں خواہ وہ کتنی ہی غیر مقبول کیوں نہ ہو جائیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)