قانون اور انصاف سے انسانوں کی تقسیم تک
ان پہاڑوں کے اوپر گھاس بھی اگتی رہتی ہے، لوگ بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔
لاہور:
جن ملکوں میں قانون اور انصاف کا نظام امتیازی اور جانبدارانہ ہوتا ہے ان ملکوں کے عوام میں بے چینی اضطراب اور مایوسی پرورش پاتے رہتے ہیں، ان ملکوں کی مثال ان آتش فشاں پہاڑوں کی ہوتی ہے جن کے اندر لاوا پکتا رہتا ہے لیکن اوپر سے نظر نہیں آتا، بلکہ اوپر کی زندگی نارمل نظر آتی ہے۔
ان پہاڑوں کے اوپر گھاس بھی اگتی رہتی ہے، لوگ بھی آتے جاتے رہتے ہیں، لیکن ان پہاڑوں سے انسان خوفزدہ بھی رہتے ہیں کہ ان کے اندر لاوا پکنے کا احساس موجود ہوتا ہے۔ جب لاوا باہر آتا ہے تو پھر اسے روکنا ممکن نہیں رہتا، یہ لاوا ہر اس چیز کو تباہ کر دیتا ہے جو اس کے راستے میں آتی ہے۔ اس کی ایک بہتر مثال انقلاب فرانس ہے، جہاں قانون اور انصاف کے عہدے برسرعام بیچے اور خریدے جاتے تھے، جس طرح ہمارے ملک میں تھانے بیچے جاتے ہیں اور انصاف خریدا جاتا ہے۔
جن ملکوں میں قانون اور انصاف کا نظام غیر امتیازی اور غیر جانبدارانہ ہوتا ہے ان ملکوں میں اور خرابیاں تو ہو سکتی ہیں لیکن ان ملکوں میں عوامی بے چینی عوامی اضطراب عوامی اشتعال پرورش نہیں پاتا، ایسے ملک داخلی طور پر مستحکم ہوتے ہیں۔اسرائیل کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں فلسطینی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، لیکن اس ملک میں قانون اور انصاف کا نظام غیر امتیازی اور غیر جانبدارانہ ہے، ادنیٰ اور اعلیٰ کے امتیاز کے بغیر انصاف ہوتا ہی نہیں، بلکہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔
تل ابیب کی ایک عدالت میں اسرائیل کے ایک سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کے خلاف قانون کی راہ میں رکاوٹ بننے کے الزام میں مقدمہ چل رہا تھا، اولمرٹ کے خلاف قانون کی راہ میں رکاوٹ بننے کا جرم ثابت ہو گیا اور عدالت نے انھیں قانون کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے اور گواہوں پر دباؤ ڈالنے کے جرم میں 6 اور 18 ماہ کی سزا سنادی، جس پر اس ماہ کی 15 تاریخ سے عملدرآمد ہو گا۔ تل ابیب کی اس عدالت کے باہر نہ اولمرٹ وکٹری کے نشان بنا کر میڈیا کو دکھاتے رہے نہ بھرتی کے کارکن ان کے حق میں عدالتوں کے باہر مظاہرے کر کے عدالتوں پر دباؤ ڈالتے رہے۔
دنیا کے خطرناک ترین مسائل میں ایک مسئلہ مذہبی اختلافات اور تضادات کا ہے۔ دنیا کے ہر مذہب کے ماننے والے یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کا مذہب امن اور بھائی چارے کی تلقین کرتا ہے لیکن عملاً دنیا مذہبی منافرت، انتہاپسندی، مذہبی دشمنی، مذہبی تعصب کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔
اسرائیل مشرق وسطیٰ میں ایک منی سپرپاور بنا ہوا ہے اور درجنوں عرب ملک اس سے خوفزدہ ہیں۔ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں منی سپر پاور بنانے والوں کا ایک مقصد تو یہ تھا کہ یہودی عرب ملکوں کی اجتماعی طاقت اور مذہبی منافرت سے بچا رہے اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ عرب ملکوں کی بے پناہ تیل کی دولت سے سامراجی ملک بے روک ٹوک فائدہ حاصل کرتے رہیں، مشرق وسطیٰ میں اس حوالے سے اسرائیل سپرمین کا کردار ادا کر رہا ہے۔
یہ مذہبی تضادات ہی ہیں جو 70 سال سے فلسطین میں خون کے دریا بہا رہے ہیں۔ مذہبی نفرتوں کا سلسلہ صلیبی جنگوں سے لے کر فلسطین اور کشمیر تک جاری ہے۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے موقع پر مذہبی جنونیوں نے 22 لاکھ بے گناہ انسانوں کو وحشیانہ انداز میں قتل کر دیا، بوسنیا میں بے شمار اجتماعی قبریں مذہبی جنون کے نشان کے طور پر دیکھی جا سکتی ہیں اور آج بھی ہندوستان میں مذہبی انتہاپسند جماعتوں کے جنون سے بھارتی اقلیتیں خوفزدہ ہیں۔
خدا اور مذہب کے بغیر انسان گزارا نہیں کر سکتا اور مذہب اگر محبت بھائی چارے اور رواداری کا درس دیتا ہے تو بلاشبہ وہ قابل احترام ہے۔ خدا نے اپنے آپ کو ''رب العالمین'' کہا ہے، یعنی خدا بلاتخصیص مذہب و ملت ساری مخلوق کا رب ہے، لیکن انسانوں نے اسے مختلف نام دے کر ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں، یہودیوں کا خدا بنادیا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہزاروں سال سے مختلف مذاہب میں بٹے ہوئے انسانوں کی شناخت کا مذہب ایک حوالہ ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ مذہب کو محبت، بھائی چارے، رواداری اور برداشت کا وسیلہ کس طرح بنایا جائے؟
دنیا کے 7 ارب انسان مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں اور ہر مذہب کے ماننے والوں میں ایسے انسان بھی ہیں جو مذہب کے حوالے سے انسانوں سے نفرت نہیں کرتے لیکن ہر مذہب میں ایک چھوٹی سی اقلیت ایسی ہے جو مذہب کو نفرت، تعصب اور امتیازات کا ذریعہ بنا کر قتل و غارت گری کر رہی ہے۔ آج دہشت گردی کی شکل میں جو بلا دنیا کے سر پر مسلط ہے اسے بھی مذہبی رنگ دے دیا گیا ہے۔ اور خود مسلمان اس مذہبی انتہاپسندی سے خوفزدہ بھی ہیں اور اس کا شکار بھی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مذہب میں انتہاپسندوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت موجود ہوتی ہے لیکن اس اقلیت کو وسیع تر مفادات رکھنے والے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ویسے تو انسانوں کی تقسیم کے کئی وسیلے ہیں مثلاً ملک، ملت و دین دھرم، لیکن اس تقسیم سے فائدہ اٹھانے والا ایک ہی طبقہ ہے وہ ہے سرمایہ داروں کا طبقہ، جہاں تقسیم ہو گی وہاں خوف ہو گا، جہاں خوف ہو گا وہاں تحفظ کی خواہش ہو گی، جہاں تحفظ کی خواہش ہو گی وہاں لازماً ہتھیاروں کی ضرورت ہو گی۔
اور ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے لیے خوف لازمی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں یہودی عربوں کی بھاری اکثریت سے خوفزدہ ہیں جب تک یہ خوف برقرار رہے گا اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم کرتا رہے گا اور عربوں کو خوفزدہ کرتا رہے گا۔ دنیا کے وہ اہل دانش، اہل فکر اور اہل قلم جو دنیا کو پرامن اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں وہ مذہبی اور طبقاتی تضادات کے خلاف مسلسل کوششیں کر رہے ہیں، عربوں ہی میں نہیں بلکہ اسرائیل میں اور ہندوستان میں بھی ایسے دانشور ایسے قلم کار، ایسے مفکر موجود ہیں جو انسانوں کی تقسیم کے ہر حوالے کو محبت بھائی چارے میں بدلنا چاہتے ہیں۔
لیکن ان کی کوششوں میں ربط اور مرکزیت نہیں ہے۔ اسرائیل اور ہندوستان فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے مذہبی انتہاپسندی کے فروغ کا ذریعہ بن گئے ہیں اور اس کی سرپرستی سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست کر رہے ہیں، تا کہ کھربوں ڈالر کمانے والی ہتھیاروں کی صنعت باقی بھی رہے اور فروغ بھی پاتی رہے۔ اہل قلم، اہل دانش کی یہ اجتماعی ذمے داری ہے کہ وہ انسانی تقسیم کے تباہ کن اثرات کے ساتھ ساتھ اس تقسیم سے فائدہ اٹھانے والی مافیا کی بھی نشان دہی کرتے رہیں تا کہ تقسیم سے فائدہ اٹھانے والے بے نقاب ہوں۔
جن ملکوں میں قانون اور انصاف کا نظام امتیازی اور جانبدارانہ ہوتا ہے ان ملکوں کے عوام میں بے چینی اضطراب اور مایوسی پرورش پاتے رہتے ہیں، ان ملکوں کی مثال ان آتش فشاں پہاڑوں کی ہوتی ہے جن کے اندر لاوا پکتا رہتا ہے لیکن اوپر سے نظر نہیں آتا، بلکہ اوپر کی زندگی نارمل نظر آتی ہے۔
ان پہاڑوں کے اوپر گھاس بھی اگتی رہتی ہے، لوگ بھی آتے جاتے رہتے ہیں، لیکن ان پہاڑوں سے انسان خوفزدہ بھی رہتے ہیں کہ ان کے اندر لاوا پکنے کا احساس موجود ہوتا ہے۔ جب لاوا باہر آتا ہے تو پھر اسے روکنا ممکن نہیں رہتا، یہ لاوا ہر اس چیز کو تباہ کر دیتا ہے جو اس کے راستے میں آتی ہے۔ اس کی ایک بہتر مثال انقلاب فرانس ہے، جہاں قانون اور انصاف کے عہدے برسرعام بیچے اور خریدے جاتے تھے، جس طرح ہمارے ملک میں تھانے بیچے جاتے ہیں اور انصاف خریدا جاتا ہے۔
جن ملکوں میں قانون اور انصاف کا نظام غیر امتیازی اور غیر جانبدارانہ ہوتا ہے ان ملکوں میں اور خرابیاں تو ہو سکتی ہیں لیکن ان ملکوں میں عوامی بے چینی عوامی اضطراب عوامی اشتعال پرورش نہیں پاتا، ایسے ملک داخلی طور پر مستحکم ہوتے ہیں۔اسرائیل کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں فلسطینی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، لیکن اس ملک میں قانون اور انصاف کا نظام غیر امتیازی اور غیر جانبدارانہ ہے، ادنیٰ اور اعلیٰ کے امتیاز کے بغیر انصاف ہوتا ہی نہیں، بلکہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔
تل ابیب کی ایک عدالت میں اسرائیل کے ایک سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کے خلاف قانون کی راہ میں رکاوٹ بننے کے الزام میں مقدمہ چل رہا تھا، اولمرٹ کے خلاف قانون کی راہ میں رکاوٹ بننے کا جرم ثابت ہو گیا اور عدالت نے انھیں قانون کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے اور گواہوں پر دباؤ ڈالنے کے جرم میں 6 اور 18 ماہ کی سزا سنادی، جس پر اس ماہ کی 15 تاریخ سے عملدرآمد ہو گا۔ تل ابیب کی اس عدالت کے باہر نہ اولمرٹ وکٹری کے نشان بنا کر میڈیا کو دکھاتے رہے نہ بھرتی کے کارکن ان کے حق میں عدالتوں کے باہر مظاہرے کر کے عدالتوں پر دباؤ ڈالتے رہے۔
دنیا کے خطرناک ترین مسائل میں ایک مسئلہ مذہبی اختلافات اور تضادات کا ہے۔ دنیا کے ہر مذہب کے ماننے والے یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کا مذہب امن اور بھائی چارے کی تلقین کرتا ہے لیکن عملاً دنیا مذہبی منافرت، انتہاپسندی، مذہبی دشمنی، مذہبی تعصب کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔
اسرائیل مشرق وسطیٰ میں ایک منی سپرپاور بنا ہوا ہے اور درجنوں عرب ملک اس سے خوفزدہ ہیں۔ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں منی سپر پاور بنانے والوں کا ایک مقصد تو یہ تھا کہ یہودی عرب ملکوں کی اجتماعی طاقت اور مذہبی منافرت سے بچا رہے اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ عرب ملکوں کی بے پناہ تیل کی دولت سے سامراجی ملک بے روک ٹوک فائدہ حاصل کرتے رہیں، مشرق وسطیٰ میں اس حوالے سے اسرائیل سپرمین کا کردار ادا کر رہا ہے۔
یہ مذہبی تضادات ہی ہیں جو 70 سال سے فلسطین میں خون کے دریا بہا رہے ہیں۔ مذہبی نفرتوں کا سلسلہ صلیبی جنگوں سے لے کر فلسطین اور کشمیر تک جاری ہے۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے موقع پر مذہبی جنونیوں نے 22 لاکھ بے گناہ انسانوں کو وحشیانہ انداز میں قتل کر دیا، بوسنیا میں بے شمار اجتماعی قبریں مذہبی جنون کے نشان کے طور پر دیکھی جا سکتی ہیں اور آج بھی ہندوستان میں مذہبی انتہاپسند جماعتوں کے جنون سے بھارتی اقلیتیں خوفزدہ ہیں۔
خدا اور مذہب کے بغیر انسان گزارا نہیں کر سکتا اور مذہب اگر محبت بھائی چارے اور رواداری کا درس دیتا ہے تو بلاشبہ وہ قابل احترام ہے۔ خدا نے اپنے آپ کو ''رب العالمین'' کہا ہے، یعنی خدا بلاتخصیص مذہب و ملت ساری مخلوق کا رب ہے، لیکن انسانوں نے اسے مختلف نام دے کر ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں، یہودیوں کا خدا بنادیا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہزاروں سال سے مختلف مذاہب میں بٹے ہوئے انسانوں کی شناخت کا مذہب ایک حوالہ ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ مذہب کو محبت، بھائی چارے، رواداری اور برداشت کا وسیلہ کس طرح بنایا جائے؟
دنیا کے 7 ارب انسان مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں اور ہر مذہب کے ماننے والوں میں ایسے انسان بھی ہیں جو مذہب کے حوالے سے انسانوں سے نفرت نہیں کرتے لیکن ہر مذہب میں ایک چھوٹی سی اقلیت ایسی ہے جو مذہب کو نفرت، تعصب اور امتیازات کا ذریعہ بنا کر قتل و غارت گری کر رہی ہے۔ آج دہشت گردی کی شکل میں جو بلا دنیا کے سر پر مسلط ہے اسے بھی مذہبی رنگ دے دیا گیا ہے۔ اور خود مسلمان اس مذہبی انتہاپسندی سے خوفزدہ بھی ہیں اور اس کا شکار بھی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مذہب میں انتہاپسندوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت موجود ہوتی ہے لیکن اس اقلیت کو وسیع تر مفادات رکھنے والے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ویسے تو انسانوں کی تقسیم کے کئی وسیلے ہیں مثلاً ملک، ملت و دین دھرم، لیکن اس تقسیم سے فائدہ اٹھانے والا ایک ہی طبقہ ہے وہ ہے سرمایہ داروں کا طبقہ، جہاں تقسیم ہو گی وہاں خوف ہو گا، جہاں خوف ہو گا وہاں تحفظ کی خواہش ہو گی، جہاں تحفظ کی خواہش ہو گی وہاں لازماً ہتھیاروں کی ضرورت ہو گی۔
اور ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے لیے خوف لازمی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں یہودی عربوں کی بھاری اکثریت سے خوفزدہ ہیں جب تک یہ خوف برقرار رہے گا اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم کرتا رہے گا اور عربوں کو خوفزدہ کرتا رہے گا۔ دنیا کے وہ اہل دانش، اہل فکر اور اہل قلم جو دنیا کو پرامن اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں وہ مذہبی اور طبقاتی تضادات کے خلاف مسلسل کوششیں کر رہے ہیں، عربوں ہی میں نہیں بلکہ اسرائیل میں اور ہندوستان میں بھی ایسے دانشور ایسے قلم کار، ایسے مفکر موجود ہیں جو انسانوں کی تقسیم کے ہر حوالے کو محبت بھائی چارے میں بدلنا چاہتے ہیں۔
لیکن ان کی کوششوں میں ربط اور مرکزیت نہیں ہے۔ اسرائیل اور ہندوستان فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے مذہبی انتہاپسندی کے فروغ کا ذریعہ بن گئے ہیں اور اس کی سرپرستی سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست کر رہے ہیں، تا کہ کھربوں ڈالر کمانے والی ہتھیاروں کی صنعت باقی بھی رہے اور فروغ بھی پاتی رہے۔ اہل قلم، اہل دانش کی یہ اجتماعی ذمے داری ہے کہ وہ انسانی تقسیم کے تباہ کن اثرات کے ساتھ ساتھ اس تقسیم سے فائدہ اٹھانے والی مافیا کی بھی نشان دہی کرتے رہیں تا کہ تقسیم سے فائدہ اٹھانے والے بے نقاب ہوں۔