ہم اگر عرض کریں گے تو۔۔۔۔
ہماری معصومیت اور بھولا پن بلکہ حماقت ملاحظہ فرمائیے ہم جو جزوقتی صحافت سے اسکول کے زمانے سے وابستہ رہے ہیں
PESHAWAR:
ہماری معصومیت اور بھولا پن بلکہ حماقت ملاحظہ فرمائیے ہم جو جزوقتی صحافت سے اسکول کے زمانے سے وابستہ رہے ہیں، بچوں کے صفحات پر کہانی، لطیفے اہم شخصیات پر اپنے تاثرات اور چھوٹی چھوٹی نظموں کی صورت میں جو ہم خیرپور جیسے چھوٹے شہر سے بذریعہ ڈاک بھیجتے اور بغیر کسی تعارف، سفارش یا رشوت کے شامل اشاعت بھی ہوجاتے۔ مگر عملی صحافت میں بھی آج سے کم ازکم تیس سال قبل قدم رنجہ فرما چکے تھے (درمیان میں ایک طویل وقفے کے بعد) اب بھی تقریباً تین سال سے بطور کالم نگار اپنے جذبہ صحافت کی تسکین کا سامان مہیا کر رہے ہیں۔
اب سے تیس سال قبل صحافت میں منفی انداز فکر نہ ہونے کے برابر تھا، کسی شخصیت سے ملاقات کا احوال ہو (انٹرویو) یا کسی بھی موضوع پر ذاتی اظہار خیال، کوشش یہ ہوتی تھی کہ شخصیت اور موضوع کے مثبت پہلو اجاگر کیے جائیں جب کہ منفی زاویوں کی صرف نشاندہی کردی جائے وہ بھی موضوع کی شخصیت پر اعتراض کرنے یا بلاوجہ کیچڑ اچھالنے کا رویہ بہت ہی کم لوگوں میں پایا جاتا تھا۔
ہماری صحافت یہ ہے کہ ہم آج بھی قدیم تصورکے ساتھ (تیس برس قبل کے) جی رہے ہیں اور اسی خوش فہمی کا شکار ہیں کہ صحافت ایک معزز شعبہ ہے، معاشرے کے ہر شعبے اور ادارے میں بدعنوانی ہوسکتی ہے مگر صحافی کسی غلط بیانی کا مرتکب کبھی نہیں ہوسکتا۔ مولانا ظفر علی خاں، چراغ حسن حسرت اور اسی قبیل کے دیگر صحافیوں کا کردارہمارے لیے مشعل راہ تھا اور ہے جن کا طرہ امتیاز حق گوئی و بے باکی اور جرأت اظہار رہا۔
معاشرے میں آج جس طرح ہر ادارہ ابتری کا شکار ہوکر اپنے بنیادی مقاصد کو پس پشت ڈال چکا ہے بلکہ پورا معاشرہ ہی انحطاط پذیر ہے تو کیا تعجب کہ ہمارے صحافی، اساتذہ اور علما بھی اپنے بنیادی فرض سے منحرف ہوگئے۔
یوں لگتا ہے (قارئین سے بے حد معذرت کے ساتھ) کہ جیسے قوم کا ایک فرد بھی ملک و قوم سے مخلص ہے نہ وفادار۔ باخبر افراد اچھی طرح واقف ہیں کہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ اپنے طلبا کو محب وطن، ذمے دار شہری اور باعمل بنانے کی بجائے ان کا برین واش کرکے منفی رجحانات کی آبیاری کرنے میں مصروف ہیں (اکثریت نہیں) اخبارات میں ایسی کئی خبریں نمایاں طور پر شایع ہوچکی ہیں کہ کچھ اساتذہ کو انتہا پسندی کو فروغ دینے اور دہشت گردوں کی سہولت کاری کے شعبے میں حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ خدا کرے کہ یہ شبہ صرف شبہ ہی رہے ورنہ اس معزز اور اہم پیشے سے نہ صرف لوگوں کا اعتبار اٹھ جائے گا بلکہ وطن عزیز میں تعلیم کا جنازہ بھی نکل جائے گا۔
مذہبی، لسانی اور علاقائی عصبیت کو فروغ دینے میں ہمارے بے حد پڑھے لکھے، تجربہ کار اور معتبر صحافی، مذہبی رہنما اور دانشور بڑی خاموشی سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، ہمارے کئی مذہبی رہنما مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم اور منتشر کرنے میں بڑی چابکدستی سے عمل پیرا ہیں۔
یہاں تک بھی درست ہے کہ سب کو اپنے عقائد اور مسلک کے اظہارکی آزادی حاصل ہے، مگر اپنے عقائد کی تبلیغ سے دوسروں کے عقائد کی مذمت کرنے کی تو کسی کو آزادی نہیں۔ ہمارے یہاں انتہا پسندی اور عدم برداشت کے فروغ کے بعد کسی کی غلطی کی نشاندہی بھی جرم قرار پایا ہے جوکہ فلاحی معاشرے کی تشکیل میں بہت بڑی رکاوٹ بتائی جا رہی ہے اس لیے اشارتاً ہی یہ ذکر کافی ہے۔ لوگ ہم سے زیادہ باخبر اور واقف حالات ہیں۔
اخبارات کا بغور مطالعہ ہمارے نقطہ نظرکی تصدیق کرتا رہے گا۔صحافت معاشرے کو بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے اور کرتی رہی ہے اگر وہاں کسی قسم کے تعصب کا تاثر پیدا ہو تو اس سے بعض اوقات باشعور قارئین و عوام کے ذہن کچھ اور سمجھ لیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک بے حد سینئر صحافی نے انتظار حسین صاحب کی موت کو اردو بولنے والوں کا بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اردو بولنے والے ان کی کمی تادیر محسوس کرتے رہیں گے تو ہم حیران رہ گئے کہ انتظار حسین تو قیام پاکستان کے بعد سے مسلسل پنجاب کے دل لاہور میں مقیم تھے، 68 برس بعد بھی وہ صرف اردو بولنے والوں کا نقصان رہے۔
کیا ان کی رحلت صرف اردو بولنے والوں کا نقصان ہے؟ وہ تو پوری دنیا میں بطور پاکستانی اپنی شناخت اور مقام رکھتے تھے وہ پورے پاکستان کا فخر تھے مگر موصوف نے انتہائی معصومیت سے اتنے عظیم شخص اور ادب کو لسانی تعصب کی نذرکردیا یہ پہلی بار نہیں ہوا، اس سے قبل بھی ایک بے حد تعلیم یافتہ اپنے شعبے کی معتبر شخصیت جوکہ ایک اردو روزنامے میں کالم بھی لکھتے ہیں اور اردو میں لکھنے کے باعث بے شمار افراد ان کے نام اور کام سے واقف ہیں (یعنی اردو کالم نگاری ان کے پیشے سے زیادہ ان کے لیے ذریعہ عزت و شہرت ہے) انھوں نے جامعہ کراچی میں ایک مہمان مقرر کے ایک جملے کا غلط مطلب اخذ کرکے تمام اردو بولنے والوں کو نہ صرف غدار وطن قرار دے دیا بلکہ انھیں واپس ہندوستان جانے کا پرخلوص مشورہ بھی عنایت فرمایا، اسی پر اکتفا نہیں بلکہ انھیں ہندو مذہب اختیار کرنے تک کا فیصلہ صادر کردیا ساتھ ہی شدھی اور سنگھٹن تحریکوں کے حوالے بھی پیش کیے۔
حیرت ہوتی ہے کہ اتنے پڑھے لکھے بزعم خود دانشور بھی اگر ایک شخص کے ایک جملے (جس کا مطلب انھوں نے ازخود اخذ کیا) کی سزا تمام اردو بولنے والوں کو دیں۔ ان کی قربانیوں، وفاداریوں کو نظرانداز کرتے ہوئے فرزند زمیں اور دختر زمیں کی اصلاحات تشکیل دی جائیں۔
آخر یہ شوشہ کس نے چھوڑا؟ آج ہمارے دانشوروں کے ذہن رسا پاکستانی کی بجائے پنجابی، سندھی، بلوچی اور پختون کی تکرارکرکے ملک و قوم کی اور ان قربانیوں، جدوجہد کی جو تشکیل پاکستان کے لیے کی گئی تھی کی کون سی خدمت انجام دے رہے ہیں؟ جب صحافت جیسے معزز اور ذمے دار شعبے میں ایسے لوگ موجود ہوں جو قومی یکجہتی کو پاش پاش کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے ہوں تو پھر بے چارے سیاستدان اورلاعلم عوام یہی کام کریں توکیا غلط ہے؟ سیاستدان اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے بڑے صوبے کا اثر ورسوخ اور چھوٹے صوبوں کی حق تلفی اور مظلومیت کو بطور حربہ استعمال کرتے ہیں۔
افواج پاکستان دہشتگردوں کی بیخ کنی اور ان کے سہولت کاروں تک پہنچنے کے لیے سرگرم ہیں مگر ایسے ایسے مذہبی رہنما اور علما جن کی پوری قوم عزت کرتی ہے، وہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں بین السطور (بعض اوقات واضح طور پر ) طالبان، القاعدہ ہی نہیں بلکہ داعش کے لیے زمین ہموار کرنے اور بھولے بھالے عوام کے ذہن تبدیل کرنے کی مکمل کوشش میں مصروف ہیں، ایک عالم نے تو واضح طور پر داعش کی وحشیانہ سرگرمیوں پر ان کو خارج از اسلام کی بجائے محض گمراہ قرار دے دیا ہے۔
اللہ اللہ اگر وہ محض گمراہ ہیں اور خارج از اسلام نہیں تو دین اسلام پر کاری ضرب لگا کر اس کو ایک شدت پسند دین کے طور پر متعارف کروانے کا فرض تو ادا کر رہے ہیں۔ ایک وحشت ناک بلا کی طرح بلاد اسلامی میں شورش تو برپا کر رہے ہیں۔ تو کیا ہمارے مذہبی رہنماؤں کا فرض نہیں کہ وہ اپنے ہم وطنوں کو ذہنی اور عملی طور پر ان سے دور رہنے کے لیے تیار کریں؟ نہ کہ ان کے لیے زمین ہموار کرنے کا فرض ادا کریں۔ اب بھلا دہشتگردوں کے سہولت کاروں میں ایک عام آدمی دانستہ یا نادانستہ ملوث ہو تو اس پر تو گرفت ہوسکتی ہے مگر اتنے معزز افراد پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے؟ یہی کہہ سکتے ہیں کہ:
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غورکریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی